ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ گرین شرٹس توقعات پر پورا اتر سکیں گے
ساکھ کی بحالی کیلئے غیر معمولی کھیل پیش کرنا ہوگا۔
30 اگست2013 کو پاکستان اور کوریا کی ٹیمیں ایشیا کپ کے سیمی فائنل میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھیں، گرین شرٹس فیصلہ کن مقابلے میں حریف سائیڈ کے ہاتھوں ایک کے مقابلے میں 2گول سے کیا ہارے کہ ملکی ہاکی میں بھونچال آ گیا، پاکستان نہ صرف ایشیائی ٹائٹل گنوا بیٹھا بلکہ تاریخ میں پہلی بار ہالینڈ میں شیڈول ورلڈکپ2014 کی دوڑ سے بھی باہر ہو گیا، بلاشبہ 43سال بعد ورلڈ کپ کی دوڑ سے باہر ہونا بری سے بھی بری خبر تھی۔
میرے کولیگز مجھ سے پوچھتے تھے کہ پاکستانی ٹیم نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، کھیلوں کے عالمی میدانوں میں راج کرنے والے گرین شرٹس میگا ایونٹ کے مقابلے اب گھروں میں بیٹھ کر دیکھیں گے، میرا ان کو ایک ہی جواب تھا کہ ہم قوم ہی نہیں رہے تو قومی کھیل کی شکست پرماتم کیوں اور کس لئے کریں؟ ہم سیاست، معیشت سمیت دوسرے شعبوں میں کون سے کارنامے سر انجام دے رہے ہیں جو پاکستان ہاکی ٹیم نہیں دے پائی۔ ہماری ترجیحات توحب الوطنی کی بجائے ذاتی فائدے بن چکے ہیں۔ لوٹ مار کرپشن، بے روزگاری، مہنگائی، بم دھماکوں، لوڈ شیڈنگ اور سیلابوں نے ہمیں ذہنی طور پر مفلوج کر رکھا ہے۔
ورلڈ کپ کی دوڑ سے بھی باہر ہونے کی ذمہ داری یقینی طور پر کھلاڑیوں کے ساتھ ٹیم مینجمنٹ پر بھی عائد ہوتی تھی جو حقیقی معنوں میںپلیئرز کی نفسیات کو سمجھ کر ورلڈ ہاکی سیریز کے بعد ایشیا کپ کی بھی تیاریاں نہ کر سکیِ۔ اس موقع پر نہ جانے کیوں مجھے پاکستان ہاکی ٹیم کے سابق کپتان اور منیجر بریگیڈیئر عاطف یاد کے وہ تاریخ الفاظ یاد آئے کہ 1960 روم، 1968 میکسیکو اور 1984 کے لاس اینجلس اولمپکس کے فاتح کھلاڑی اور منیجر ہر بڑے ایونٹ میں اہم میچ سے قبل کھلاڑیوں میں جیت کا جذبہ اور کامیابی کی تڑپ پیدا کرنے کے لئے انہیں جذباتی انداز میں خطاب میں کہتے تھے کہ '' میرا یا اپنا نہیں پوری قوم کا خیال رکھنا، ان کروڑوں ہم وطنوں کو مایوس نہ کرنا جو ریڈیو اور ٹی وی کے سامنے ایک آس لے کر بیٹھے ہیں، یاد رکھو میچ کے اختتام کے بعد شائقین کو تمہارے کھیل پر یہی کہنا چاہیے کہ تم نے بہترین کھیل پیش کیا اور یہ کہ ہار جیت اللہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔''
عاطف کی ہاکی کے کھیل سے عقیدت اور اپنی ماں سے محبت کا یہ عالم ہوتا کہ جب وہ میچ کھیل رہا ہوتا تو ہر مشکل وقت میں لاشعوری طور پر اپنی ماں سے باتیں کرنے لگتا۔ ماں میچ پھنسا ہوا ہے، ماں گول نہیں ہو رہا، ماں یہ میچ جیتنا ہے، پھر دیکھتے ہی دیکھتے کھیل کا نقشہ بدلنے لگتا، مشکلات آسانیوں میں تبدیل ہونے لگتیں، گول ہونے لگتے اور ہارا ہوا میچ فتح میں تبدیل ہو جاتا۔
پاکستان ہاکی ٹیم سمیت دوسرے کھیلوں سے وابستہ کتنے کھلاڑی ایسے ہیں جو میچ کے دوران وطن اور اپنی کھیل سے محبت کا جذبہ لے کر میدان میں اترتے ہیں، قومی ٹیم کے موجودہ پلیئرز میں بھی ماضی کے عظیم کھلاڑیوں کا ملک و قوم سے محبت کا یہی جذبہ ایک بار پھر دوبارہ اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
ورلڈ کپ 2014ء سے محروم رہنے والی پاکستان ہاکی ٹیم ایک بار پھر بھارت میں شیڈول عالمی کپ 2018ء میں دوبارہ جگہ بنانے کے لئے کوشاں ہے لیکن ورلڈ کپ میں ایکشن میں دکھائی دینے سے پہلے قومی ٹیم کو انگلینڈ میں ہونے والے ورلڈ کپ لیگ کے سیمی فائنل مقابلوں کے مرحلے سے گزرنا ہو گا، میگا ایونٹ 15 جون سے شروع ہو کر 25 جون تک لندن میں جاری رہے گا، پول بی میں شامل پاکستانی ٹیم افتتاحی میچ 15 جون کو ہالینڈ کے خلاف کھیلے گی، اگلے روز گرین شرٹس کا مقابلہ کینیڈا کے ساتھ شیڈول ہے، 18 جون کوپاکستانی ٹیم روایتی حریف بھارت کے خلاف میدان میں اترے گی جبکہ 19 مئی کو پاکستان کا مقابلہ سکاٹ لینڈ کے ساتھ رکھا گیا ہے۔
ایونٹ کے کوارٹر فائنل مقابلے 22 جون جبکہ سیمی فائنل میچز 24 جون کو ہوں گے، فائنل 25 جون کو شیڈول ہے۔ میگا ایونٹ کے لئے عبدالحسیم خان کی قیادت میں قومی ٹیم کا اعلان بھی کیا جا چکا، پاکستانی ٹیم نیوزی لینڈ، آسٹریلیا کے بعد نیوزی لینڈ کا دورئہ بھی کر چکی، وہاں تربیتی کیمپ میں ٹریننگ بھی کر چکی، اب گرین شرٹس نے لندن میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ کے میچز پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔
قومی ہاکی ٹیم مینجمنٹ کے مطابق ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ میں عمدہ کارکردگی دکھا کر ورلڈکپ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے پر امید ہیں، ہیڈ کوچ خواجہ محمد جنید کے مطابق ٹیم سینئر اور جونیئر کھلاڑیوں پر مشتمل ہے اور اس میں 9 نوجوان کھلاڑی شامل ہیں تاہم مجھے اپنی ٹیم پر پورا اعتماد ہے کہ وہ اگلے سال بھارت میں ہونے والے ورلڈکپ ہاکی ٹورنامنٹ کیلئے کوالیفائی کرلے گی، کچھ لوگ جونیئر کھلاڑیوں کے انٹرنیشنل تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے قومی ٹیم کو کمزور سمجھ رہے ہیں، تاہم نوجوان کھلاڑی جن کی صلاحیتوں میں کافی حد تک نکھار آچکا ہے پر پورا اعتماد ہے کہ وہ ورلڈ ہاکی لیگ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔
چیف کوچ کی رائے میں سکاٹ لینڈ کے سوا تمام ٹیمیں رینکنگ میں پاکستان سے زیادہ بہتر ہیں اورجب لوگ ہماری ٹیم کو کمزور سمجھتے ہیں تو وہ حق پر ہوتے ہیں کیونکہ ہماری ٹیم ورلڈ رینکنگ میں 14ویں نمبر پر ہیں، کمزور ٹیم ہونے کے تاثر کو ختم کرنے اور ورلڈکپ میں کوالیفائی کرنے کیلئے ٹیم کی بہترین پرفارمنس دکھانے کی ضرورت ہے۔ کرنل محسن کی رائے میں ابتدائی اہداف حاصل کرلئے، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف سیریز کے بعد چار میچز اپنی ہوم گراؤنڈ میں پاک وائٹس اور پاک ڈویلپمنٹ اسکواڈ کے ساتھ کھیل چکے۔
آئرلینڈ کی سینئر اور جونیئر ٹیموں کے خلاف بھی سیریز کی وجہ سے بھر پور تیاریوں کا موقع ملا ہے، اب نظریں ورلڈکپ کوالیفائنگ راؤنڈ کے مقابلوں کی طرف ہیں، ورلڈ ہاکی لیگ میں بہترین کارکردگی اور ورلڈ کپ میں کوالیفائی کرنا ہمارا ابتدائی ہدف ہے، دوسرے مرحلے میں ورلڈ کپ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لائیں گے۔
یہ درست ہے کہ ہم اپنی ہی غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے 2014ء کے ورلڈ کپ کے بعد اولمپکس2016 سے بھی باہر ہوئے،یہ بھی تلخ حقیقت اور کڑوا سچ ہے کہ ورلڈ ہاکی لیگ کے سیمی فائنل مقابلوں میں قومی ٹیم سکاٹ لینڈ کے سوا باقی تمام ٹیموں سے بھی پیچھے ہیں، ہم ورلڈ رینکنگ میں بھی تاریخ کی بدترین درجے یعنی 14ویں نمبر پر ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہمیں کیا یہ فرض کر لینا چاہیے کہ سب کچھ ختم ہو گیا۔
تو جواب سیدھا سادھا یوں ہے کہ نہیں ہر گز نہیں، رات جتنی اندھیری، تاریک اور سیاہ ہوتی ہے، اس کی صبح اتنی ہی روشن اور امید افزاء ہوتی ہے اور شائقین کو بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور گرین شرٹس سے ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ میں اچھے نتائج کی توقع رکھنی چاہیے۔
میرے کولیگز مجھ سے پوچھتے تھے کہ پاکستانی ٹیم نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، کھیلوں کے عالمی میدانوں میں راج کرنے والے گرین شرٹس میگا ایونٹ کے مقابلے اب گھروں میں بیٹھ کر دیکھیں گے، میرا ان کو ایک ہی جواب تھا کہ ہم قوم ہی نہیں رہے تو قومی کھیل کی شکست پرماتم کیوں اور کس لئے کریں؟ ہم سیاست، معیشت سمیت دوسرے شعبوں میں کون سے کارنامے سر انجام دے رہے ہیں جو پاکستان ہاکی ٹیم نہیں دے پائی۔ ہماری ترجیحات توحب الوطنی کی بجائے ذاتی فائدے بن چکے ہیں۔ لوٹ مار کرپشن، بے روزگاری، مہنگائی، بم دھماکوں، لوڈ شیڈنگ اور سیلابوں نے ہمیں ذہنی طور پر مفلوج کر رکھا ہے۔
ورلڈ کپ کی دوڑ سے بھی باہر ہونے کی ذمہ داری یقینی طور پر کھلاڑیوں کے ساتھ ٹیم مینجمنٹ پر بھی عائد ہوتی تھی جو حقیقی معنوں میںپلیئرز کی نفسیات کو سمجھ کر ورلڈ ہاکی سیریز کے بعد ایشیا کپ کی بھی تیاریاں نہ کر سکیِ۔ اس موقع پر نہ جانے کیوں مجھے پاکستان ہاکی ٹیم کے سابق کپتان اور منیجر بریگیڈیئر عاطف یاد کے وہ تاریخ الفاظ یاد آئے کہ 1960 روم، 1968 میکسیکو اور 1984 کے لاس اینجلس اولمپکس کے فاتح کھلاڑی اور منیجر ہر بڑے ایونٹ میں اہم میچ سے قبل کھلاڑیوں میں جیت کا جذبہ اور کامیابی کی تڑپ پیدا کرنے کے لئے انہیں جذباتی انداز میں خطاب میں کہتے تھے کہ '' میرا یا اپنا نہیں پوری قوم کا خیال رکھنا، ان کروڑوں ہم وطنوں کو مایوس نہ کرنا جو ریڈیو اور ٹی وی کے سامنے ایک آس لے کر بیٹھے ہیں، یاد رکھو میچ کے اختتام کے بعد شائقین کو تمہارے کھیل پر یہی کہنا چاہیے کہ تم نے بہترین کھیل پیش کیا اور یہ کہ ہار جیت اللہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔''
عاطف کی ہاکی کے کھیل سے عقیدت اور اپنی ماں سے محبت کا یہ عالم ہوتا کہ جب وہ میچ کھیل رہا ہوتا تو ہر مشکل وقت میں لاشعوری طور پر اپنی ماں سے باتیں کرنے لگتا۔ ماں میچ پھنسا ہوا ہے، ماں گول نہیں ہو رہا، ماں یہ میچ جیتنا ہے، پھر دیکھتے ہی دیکھتے کھیل کا نقشہ بدلنے لگتا، مشکلات آسانیوں میں تبدیل ہونے لگتیں، گول ہونے لگتے اور ہارا ہوا میچ فتح میں تبدیل ہو جاتا۔
پاکستان ہاکی ٹیم سمیت دوسرے کھیلوں سے وابستہ کتنے کھلاڑی ایسے ہیں جو میچ کے دوران وطن اور اپنی کھیل سے محبت کا جذبہ لے کر میدان میں اترتے ہیں، قومی ٹیم کے موجودہ پلیئرز میں بھی ماضی کے عظیم کھلاڑیوں کا ملک و قوم سے محبت کا یہی جذبہ ایک بار پھر دوبارہ اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
ورلڈ کپ 2014ء سے محروم رہنے والی پاکستان ہاکی ٹیم ایک بار پھر بھارت میں شیڈول عالمی کپ 2018ء میں دوبارہ جگہ بنانے کے لئے کوشاں ہے لیکن ورلڈ کپ میں ایکشن میں دکھائی دینے سے پہلے قومی ٹیم کو انگلینڈ میں ہونے والے ورلڈ کپ لیگ کے سیمی فائنل مقابلوں کے مرحلے سے گزرنا ہو گا، میگا ایونٹ 15 جون سے شروع ہو کر 25 جون تک لندن میں جاری رہے گا، پول بی میں شامل پاکستانی ٹیم افتتاحی میچ 15 جون کو ہالینڈ کے خلاف کھیلے گی، اگلے روز گرین شرٹس کا مقابلہ کینیڈا کے ساتھ شیڈول ہے، 18 جون کوپاکستانی ٹیم روایتی حریف بھارت کے خلاف میدان میں اترے گی جبکہ 19 مئی کو پاکستان کا مقابلہ سکاٹ لینڈ کے ساتھ رکھا گیا ہے۔
ایونٹ کے کوارٹر فائنل مقابلے 22 جون جبکہ سیمی فائنل میچز 24 جون کو ہوں گے، فائنل 25 جون کو شیڈول ہے۔ میگا ایونٹ کے لئے عبدالحسیم خان کی قیادت میں قومی ٹیم کا اعلان بھی کیا جا چکا، پاکستانی ٹیم نیوزی لینڈ، آسٹریلیا کے بعد نیوزی لینڈ کا دورئہ بھی کر چکی، وہاں تربیتی کیمپ میں ٹریننگ بھی کر چکی، اب گرین شرٹس نے لندن میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ کے میچز پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔
قومی ہاکی ٹیم مینجمنٹ کے مطابق ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ میں عمدہ کارکردگی دکھا کر ورلڈکپ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے پر امید ہیں، ہیڈ کوچ خواجہ محمد جنید کے مطابق ٹیم سینئر اور جونیئر کھلاڑیوں پر مشتمل ہے اور اس میں 9 نوجوان کھلاڑی شامل ہیں تاہم مجھے اپنی ٹیم پر پورا اعتماد ہے کہ وہ اگلے سال بھارت میں ہونے والے ورلڈکپ ہاکی ٹورنامنٹ کیلئے کوالیفائی کرلے گی، کچھ لوگ جونیئر کھلاڑیوں کے انٹرنیشنل تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے قومی ٹیم کو کمزور سمجھ رہے ہیں، تاہم نوجوان کھلاڑی جن کی صلاحیتوں میں کافی حد تک نکھار آچکا ہے پر پورا اعتماد ہے کہ وہ ورلڈ ہاکی لیگ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔
چیف کوچ کی رائے میں سکاٹ لینڈ کے سوا تمام ٹیمیں رینکنگ میں پاکستان سے زیادہ بہتر ہیں اورجب لوگ ہماری ٹیم کو کمزور سمجھتے ہیں تو وہ حق پر ہوتے ہیں کیونکہ ہماری ٹیم ورلڈ رینکنگ میں 14ویں نمبر پر ہیں، کمزور ٹیم ہونے کے تاثر کو ختم کرنے اور ورلڈکپ میں کوالیفائی کرنے کیلئے ٹیم کی بہترین پرفارمنس دکھانے کی ضرورت ہے۔ کرنل محسن کی رائے میں ابتدائی اہداف حاصل کرلئے، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف سیریز کے بعد چار میچز اپنی ہوم گراؤنڈ میں پاک وائٹس اور پاک ڈویلپمنٹ اسکواڈ کے ساتھ کھیل چکے۔
آئرلینڈ کی سینئر اور جونیئر ٹیموں کے خلاف بھی سیریز کی وجہ سے بھر پور تیاریوں کا موقع ملا ہے، اب نظریں ورلڈکپ کوالیفائنگ راؤنڈ کے مقابلوں کی طرف ہیں، ورلڈ ہاکی لیگ میں بہترین کارکردگی اور ورلڈ کپ میں کوالیفائی کرنا ہمارا ابتدائی ہدف ہے، دوسرے مرحلے میں ورلڈ کپ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لائیں گے۔
یہ درست ہے کہ ہم اپنی ہی غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے 2014ء کے ورلڈ کپ کے بعد اولمپکس2016 سے بھی باہر ہوئے،یہ بھی تلخ حقیقت اور کڑوا سچ ہے کہ ورلڈ ہاکی لیگ کے سیمی فائنل مقابلوں میں قومی ٹیم سکاٹ لینڈ کے سوا باقی تمام ٹیموں سے بھی پیچھے ہیں، ہم ورلڈ رینکنگ میں بھی تاریخ کی بدترین درجے یعنی 14ویں نمبر پر ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہمیں کیا یہ فرض کر لینا چاہیے کہ سب کچھ ختم ہو گیا۔
تو جواب سیدھا سادھا یوں ہے کہ نہیں ہر گز نہیں، رات جتنی اندھیری، تاریک اور سیاہ ہوتی ہے، اس کی صبح اتنی ہی روشن اور امید افزاء ہوتی ہے اور شائقین کو بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور گرین شرٹس سے ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ میں اچھے نتائج کی توقع رکھنی چاہیے۔