عوام کا احساس کمتری
بجٹ کے علاوہ بھی حکمران طبقات آئے دن مختلف پراجیکٹس پر اربوں روپے خرچ کرنے کے اعلانات کرتے رہتے ہیں
ہمارے جمہوری نظام میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے ایک ایسا ''نظر بندی'' نظام موجود ہے جو عوام کے کریڈٹ کو خواص کے کریڈٹ میں بدل دیتا ہے۔ اس جمہوری نظربندی سے جب تک عوام واقف نہیں ہوں گے اس وقت تک حلوائی کی دکان پر دادا کی فاتحہ کا سلسلہ چلتا رہے گا۔
ابھی پچھلے دنوں 2017-18 کا بجٹ پیش کیا گیا، اس بجٹ میں بھی روایتی طور پر مختلف ترقیاتی کاموں پر اربوں کھربوں روپے خرچ کرنے کے اعلانات کیے گئے اور اس فراخ دلی کا سہرا وزیر خزانہ اور وزیراعظم کے سر باندھنے کی روایتی کوشش کی گئی۔ جب تک اس اسرار سے پردہ نہیں ہٹایا جاتا عوام میں یہ تاثر پھیلایا جاتا رہے گا کہ حکومت ترقیاتی کاموں میں کس فراخ دلی سے اربوں روپے خرچ کر رہی ہے۔
بجٹ کے علاوہ بھی حکمران طبقات آئے دن مختلف پراجیکٹس پر اربوں روپے خرچ کرنے کے اعلانات کرتے رہتے ہیں۔ گرین بس، یلو بس جیسے منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کرنے کے حکمرانی اعلانات سے یہ تاثر پیدا کیا جاتا ہے کہ یہ سب حکمرانوں کی مہربانیاں ہیں کہ وہ عوام کا کس قدر خیال کرتے ہیں۔ تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ یہ اربوں کی بھاری رقمیں سرکاری خزانے سے نہیں بلکہ جیب خاص سے ادا کی جا رہی ہیں، جب کہ منفعت یہ ہوتی ہے کہ بجٹ اور بجٹ سے ماوریٰ جتنے ترقیاتی کام ہوتے ہیں ان پر خرچ کیا جانے والا سرمایہ عوام کا ہوتا ہے۔
عوام کے دیے ہوئے ٹیکس سے جمع ہونے والا اور بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں کا بھیجا ہوا اربوں کا زر مبادلہ ہی وہ سرمایہ ہوتا ہے جو ہر ترقیاتی منصوبے میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن عمومی تاثر یہ ہوتا ہے کہ سرکار یہ سارے کام اپنی جیب خاص کے سرمایے سے کر رہی ہے۔ اس تاثر کو مضبوط کرنے کے لیے ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح کے موقع پر جو سنگ بنیاد رکھا جاتا ہے اس پر منصوبے کے افتتاح کرنے والے کا اسم مبارک کندہ کیا جاتا ہے، تاکہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آئے۔
اس کے علاوہ مختلف پراجیکٹس اور شہروں اور روڈز کے نام بھی انھی سیاسی عمائدین کے نام پر رکھے جاتے ہیں اور اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ان زعما پر اربوں کی کرپشن کے الزامات ہوتے ہیں، بعض اعلیٰ مرتبت حکمران تو ایسے ہیں جن کے دور حکمرانی کو تاریخی کرپشن کے دور حکمرانی سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے عوام میں اپنی فراخ دلی کا تاثر قائم کرنے اور ترقیاتی کاموں پر اپنا نام لگانے کا ایک آسان لیکن مہنگا طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی ترقیاتی پراجیکٹ کے افتتاح کے موقع پر حکمران خاندان اور ان کے حواریوں کی تصاویر میڈیا میں بڑے اہتمام سے لگائی جاتی ہیں جو ہر حکومت کا شعبہ اطلاعات جاری کرتا ہے اور ان تصاویر کے ساتھ زعما کی خدمات کا ذکر خیر بڑی تفصیل کے ساتھ کیا جاتا ہے، اس پبلسٹی مہم پر جو اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں وہ عوام کی محنت کی کمائی ہوتے ہیں جو انتہائی بے دردی سے حکمرانوں اور ان کے خاندانوں کی پبلسٹی پر اڑا دیے جاتے ہیں۔ ہر حکومت کے شعبہ اطلاعات میں ایسے ماہرین کو رکھا جاتا ہے جو حکمرانوں کے خاندانوں کی شخصیات کو بھرپور طریقے سے اجاگر کر سکیں۔
دنیا کی جمہوری حکومتوں میں حکمران عوام کے تنخواہ دار ملازم ہوتے ہیں لیکن اپنے دور اقتدار تک عوام کے یہ ملازمین عوام کے آقا بنے رہتے ہیں۔ اس تاثر کو مضبوط بنانے کے لیے ان عوام کے ملازمین کا پروٹوکول اس قدر قابل تعظیم بنادیا جاتا ہے کہ ماضی کے بادشاہوں اور شہنشاہوں کا کروفر بھی ان جمہوری ملازمین کے کروفر کے سامنے ماند پڑ جاتا ہے۔
ہمارے علما کرام اسلامی ادوار کے حکمرانوں کی سادگی اور حکمرانی کی نیازمندیوں کی جو تصویر کشی کرتے ہیں، اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حکمران اپنے دور حکمرانی کو آقا بن کر نہیں گزارے بلکہ عوام کا خادم بن کر گزارے خود پیغمبر اسلام کی سادگی کا عالم یہ تھا کہ مسجدیں ان کی پارلیمنٹ کا کام انجام دیتی تھیں اور چٹائیاں ان کے ایرانی قالین سے زیادہ پرشکوہ ہوتی تھیں۔
اگر کسی حکمران کا بیٹا بھی کس جرم کا ملزم ہوتا تھا تو اس کے ساتھ ملزموں ہی جیسا برتاؤ کیا جاتا تھا جب کہ آج کے جمہوری آقاؤں کے کروفر کا عالم یہ ہے کہ اربوں کی کرپشن کے ملزمان کے آگے پیچھے میڈیا کے کیمروں کی ایسی چکا چوند ہوتی ہے کہ ماضی کے بادشاہوں کی شان و شوکت ماند پڑ جاتی ہے۔ ایک عام آدمی پر اگر لاکھ دو لاکھ کی کرپشن کا الزام ہو تو اسے فوری گرفتار کرلیا جاتا ہے اور تفتیش کے ان جان لیوا مراحل سے گزارا جاتا ہے کہ ان کے تصور سے روح فنا ہوجاتی ہے، اس حوالے سے پاکستانی پولیس اس قدر نیک نام ہے کہ اس کے ڈنکے ساری دنیا میں بج رہے ہیں۔
اس کے برخلاف ہمارے حکومتی اکابرین اور ان کی اولاد پر اربوں کھربوں کی کرپشن کے الزامات کے باوجود یہ زعما عدالتوں میں اس کروفر کے ساتھ تشریف لاتے ہیں کہ گمان یہ ہوتا ہے کہ ماضی کے شہزادے تشریف لا رہے ہیں اور یہ اربوں کی کرپشن سے اصولاً جھکی گردنیں ایسی اکڑی نظر آتی ہیں جیسے گردنوں میں سریا لگا ہوا ہے۔ یہ سارے ''تماشے'' اس جمہوریت میں ہو رہے ہیں جس میں حکمران عوام کا خادم اور ملازم ہوتا ہے یہ سارا کھیل تماشا صرف اور صرف غریب اور سادہ لوح عوام کو مرعوب، خوفزدہ اور احساس کمتری میں مبتلا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
جس ملک میں جمہوریت ہوتی ہے اس ملک میں عوام کا منتخب نمایندہ عوام کا خادم ہوتا ہے عوام کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے اور عوام کے خادم ہی کی طرح رہتا ہے۔ عوام اس سے اس کی کارکردگی کے حوالے سے باز پرس کرتے ہیں اور وہ ہر وقت عوام کی پہنچ میں ہوتا ہے اس سے ملنے کے لیے پروٹوکول کی سخت چوکیوں سے گزرنا نہیں پڑتا بلکہ وہ خود اپنے علاقے میں موجود ہوتا ہے اور عوام سے اس کا رابطہ ہر وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ ہماری ہونہار جمہوریت میں عوام کا کامیاب نمایندہ صرف ووٹنگ کے دن اپنے علاقے میں نظر آتا ہے اس کے بعد اسے تلاش کرنے کے لیے رخ زیبا کے چراغ لے کر نکلنا پڑتا ہے پھر بھی وہ ہاتھ نہیں آتا کیونکہ وہ لمبے ہاتھوں میں مصروف ہوتا ہے۔
ابھی پچھلے دنوں 2017-18 کا بجٹ پیش کیا گیا، اس بجٹ میں بھی روایتی طور پر مختلف ترقیاتی کاموں پر اربوں کھربوں روپے خرچ کرنے کے اعلانات کیے گئے اور اس فراخ دلی کا سہرا وزیر خزانہ اور وزیراعظم کے سر باندھنے کی روایتی کوشش کی گئی۔ جب تک اس اسرار سے پردہ نہیں ہٹایا جاتا عوام میں یہ تاثر پھیلایا جاتا رہے گا کہ حکومت ترقیاتی کاموں میں کس فراخ دلی سے اربوں روپے خرچ کر رہی ہے۔
بجٹ کے علاوہ بھی حکمران طبقات آئے دن مختلف پراجیکٹس پر اربوں روپے خرچ کرنے کے اعلانات کرتے رہتے ہیں۔ گرین بس، یلو بس جیسے منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کرنے کے حکمرانی اعلانات سے یہ تاثر پیدا کیا جاتا ہے کہ یہ سب حکمرانوں کی مہربانیاں ہیں کہ وہ عوام کا کس قدر خیال کرتے ہیں۔ تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ یہ اربوں کی بھاری رقمیں سرکاری خزانے سے نہیں بلکہ جیب خاص سے ادا کی جا رہی ہیں، جب کہ منفعت یہ ہوتی ہے کہ بجٹ اور بجٹ سے ماوریٰ جتنے ترقیاتی کام ہوتے ہیں ان پر خرچ کیا جانے والا سرمایہ عوام کا ہوتا ہے۔
عوام کے دیے ہوئے ٹیکس سے جمع ہونے والا اور بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں کا بھیجا ہوا اربوں کا زر مبادلہ ہی وہ سرمایہ ہوتا ہے جو ہر ترقیاتی منصوبے میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن عمومی تاثر یہ ہوتا ہے کہ سرکار یہ سارے کام اپنی جیب خاص کے سرمایے سے کر رہی ہے۔ اس تاثر کو مضبوط کرنے کے لیے ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح کے موقع پر جو سنگ بنیاد رکھا جاتا ہے اس پر منصوبے کے افتتاح کرنے والے کا اسم مبارک کندہ کیا جاتا ہے، تاکہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آئے۔
اس کے علاوہ مختلف پراجیکٹس اور شہروں اور روڈز کے نام بھی انھی سیاسی عمائدین کے نام پر رکھے جاتے ہیں اور اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ان زعما پر اربوں کی کرپشن کے الزامات ہوتے ہیں، بعض اعلیٰ مرتبت حکمران تو ایسے ہیں جن کے دور حکمرانی کو تاریخی کرپشن کے دور حکمرانی سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے عوام میں اپنی فراخ دلی کا تاثر قائم کرنے اور ترقیاتی کاموں پر اپنا نام لگانے کا ایک آسان لیکن مہنگا طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی ترقیاتی پراجیکٹ کے افتتاح کے موقع پر حکمران خاندان اور ان کے حواریوں کی تصاویر میڈیا میں بڑے اہتمام سے لگائی جاتی ہیں جو ہر حکومت کا شعبہ اطلاعات جاری کرتا ہے اور ان تصاویر کے ساتھ زعما کی خدمات کا ذکر خیر بڑی تفصیل کے ساتھ کیا جاتا ہے، اس پبلسٹی مہم پر جو اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں وہ عوام کی محنت کی کمائی ہوتے ہیں جو انتہائی بے دردی سے حکمرانوں اور ان کے خاندانوں کی پبلسٹی پر اڑا دیے جاتے ہیں۔ ہر حکومت کے شعبہ اطلاعات میں ایسے ماہرین کو رکھا جاتا ہے جو حکمرانوں کے خاندانوں کی شخصیات کو بھرپور طریقے سے اجاگر کر سکیں۔
دنیا کی جمہوری حکومتوں میں حکمران عوام کے تنخواہ دار ملازم ہوتے ہیں لیکن اپنے دور اقتدار تک عوام کے یہ ملازمین عوام کے آقا بنے رہتے ہیں۔ اس تاثر کو مضبوط بنانے کے لیے ان عوام کے ملازمین کا پروٹوکول اس قدر قابل تعظیم بنادیا جاتا ہے کہ ماضی کے بادشاہوں اور شہنشاہوں کا کروفر بھی ان جمہوری ملازمین کے کروفر کے سامنے ماند پڑ جاتا ہے۔
ہمارے علما کرام اسلامی ادوار کے حکمرانوں کی سادگی اور حکمرانی کی نیازمندیوں کی جو تصویر کشی کرتے ہیں، اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حکمران اپنے دور حکمرانی کو آقا بن کر نہیں گزارے بلکہ عوام کا خادم بن کر گزارے خود پیغمبر اسلام کی سادگی کا عالم یہ تھا کہ مسجدیں ان کی پارلیمنٹ کا کام انجام دیتی تھیں اور چٹائیاں ان کے ایرانی قالین سے زیادہ پرشکوہ ہوتی تھیں۔
اگر کسی حکمران کا بیٹا بھی کس جرم کا ملزم ہوتا تھا تو اس کے ساتھ ملزموں ہی جیسا برتاؤ کیا جاتا تھا جب کہ آج کے جمہوری آقاؤں کے کروفر کا عالم یہ ہے کہ اربوں کی کرپشن کے ملزمان کے آگے پیچھے میڈیا کے کیمروں کی ایسی چکا چوند ہوتی ہے کہ ماضی کے بادشاہوں کی شان و شوکت ماند پڑ جاتی ہے۔ ایک عام آدمی پر اگر لاکھ دو لاکھ کی کرپشن کا الزام ہو تو اسے فوری گرفتار کرلیا جاتا ہے اور تفتیش کے ان جان لیوا مراحل سے گزارا جاتا ہے کہ ان کے تصور سے روح فنا ہوجاتی ہے، اس حوالے سے پاکستانی پولیس اس قدر نیک نام ہے کہ اس کے ڈنکے ساری دنیا میں بج رہے ہیں۔
اس کے برخلاف ہمارے حکومتی اکابرین اور ان کی اولاد پر اربوں کھربوں کی کرپشن کے الزامات کے باوجود یہ زعما عدالتوں میں اس کروفر کے ساتھ تشریف لاتے ہیں کہ گمان یہ ہوتا ہے کہ ماضی کے شہزادے تشریف لا رہے ہیں اور یہ اربوں کی کرپشن سے اصولاً جھکی گردنیں ایسی اکڑی نظر آتی ہیں جیسے گردنوں میں سریا لگا ہوا ہے۔ یہ سارے ''تماشے'' اس جمہوریت میں ہو رہے ہیں جس میں حکمران عوام کا خادم اور ملازم ہوتا ہے یہ سارا کھیل تماشا صرف اور صرف غریب اور سادہ لوح عوام کو مرعوب، خوفزدہ اور احساس کمتری میں مبتلا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
جس ملک میں جمہوریت ہوتی ہے اس ملک میں عوام کا منتخب نمایندہ عوام کا خادم ہوتا ہے عوام کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے اور عوام کے خادم ہی کی طرح رہتا ہے۔ عوام اس سے اس کی کارکردگی کے حوالے سے باز پرس کرتے ہیں اور وہ ہر وقت عوام کی پہنچ میں ہوتا ہے اس سے ملنے کے لیے پروٹوکول کی سخت چوکیوں سے گزرنا نہیں پڑتا بلکہ وہ خود اپنے علاقے میں موجود ہوتا ہے اور عوام سے اس کا رابطہ ہر وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ ہماری ہونہار جمہوریت میں عوام کا کامیاب نمایندہ صرف ووٹنگ کے دن اپنے علاقے میں نظر آتا ہے اس کے بعد اسے تلاش کرنے کے لیے رخ زیبا کے چراغ لے کر نکلنا پڑتا ہے پھر بھی وہ ہاتھ نہیں آتا کیونکہ وہ لمبے ہاتھوں میں مصروف ہوتا ہے۔