جے آئی ٹی نے تصویر لیک ہونے کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی
کچھ ادارے ریکارڈ تبدیل کررہے ہیں اگر ایسا ہی رہا تو جے آئی ٹی کیلئےکام مکمل کرنا مشکل ہوگا، جسٹس اعجازالااحسن
پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کی تصویر لیک ہونے کے حوالے سے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی۔
حسین نواز کی تصویر لیک ہونے سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔ اس موقع پر پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے جوڈیشل اکیڈمی سے وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کی تصویر لیک ہونے سے متعلق سر بمہر رپورٹ جمع کرائی۔
جے آئی ٹی نے حسین نواز کی تصویر لیک ہونے کے حوالے سے لگائے گئے تمام الزامات مسترد کردیے ہیں جب کہ ٹیم کو درپیش رکاوٹوں کے حوالے سے جے آئی ٹی کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ تفتیش کے حوالے سے ریاستی ادارے رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں اس لئے 60 دن میں تفتیش مکمل نہیں ہوسکتی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں سنگین الزام لگایا ہے کہ حکومتی اداروں کی طرف سے ریکارڈ تبدیل، ٹمپر کیا جارہا ہے اور اس میں جعلسازی بھی کی جارہی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ بعض اداروں پر جے آئی ٹی نے سنگین الزامات عائد کئے ہیں جس کے سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
حسین نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے تسلیم کیا ہے کہ تصویر لیک ہوئی ہے لیکن ذمہ داری قبول نہیں کی، ذمہ داروں کا تعین ہونا چاہیے جس پر جسٹس اعجاز افضل خان نے ان سے کہا کہ رپورٹ میں اس کا ذکر ہے، آپ اس پر اپنا جواب دیں ۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ہمیں جے آئی ٹی پر تحفظات ہیں، ایک مسئلہ جے آئی ٹی میں ویڈیو ریکارڈنگ کا بھی ہے جو بدستور جاری ہے۔ جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ویڈیو ریکارڈنگ کی اجازت نہیں اور نہ ہی رکارڈنگ کو بطور ثبوت استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن ویڈیو رکارڈنگ کا مقصد تفتیش کا ٹرانسکرپٹ تیار کرنا ہوتاہے۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا جے آئی ٹی نے اپنے جواب میں اس کا ذکر کیا ہے کہ کس مقصد کے لئے رکارڈنگ ہورہی ہے۔ انھوں نے خواجہ حارث کو کہا کہ آپ رپورٹ پڑھ لیں اور اس پر اپنا جواب دیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ میں منگل کو دوبارہ پیش ہوجاتا ہوں جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے ان سے کہا کہ ہمیں آپ کی پریشانی کا علم ہے لیکن اتنی بھی کیا جلدی۔ خواجہ حارث نے کہا ہوسکتا ہے کل کوئی اور جے آئی ٹی میں پیش ہو تو ریکارڈنگ کا یہی سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا ؟ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی کو محدود وقت میں کام مکمل کرنے کا کہا گیا جبکہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ جے آئی ٹی کا جواب پڑھے بغیر دلائل دینا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی ہے، آپ جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات بھی جمع کرا سکتے ہیں۔
خصوصی بینچ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ جے آئی ٹی کی درخواست کے معاملے میں اپنا جواب جمع کریں جب کہ تصویر لیک ہونے کے معاملے میں جے آئی ٹی کے جواب کا جائزہ لینے کے بعد اگر وہ سمجھتا ہو تو اسے عام کریں اور نقل مخالف وکیل خواجہ حارث کو فراہم کرے۔ عدالت نے معاملے کی سماعت بدھ 14جون تک ملتوی کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اگر ضرروی ہوا تو حسین نواز کے وکیل کے اٹھائے گئے اعتراضات پر انھیں سنا جائے گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی ڈیڈ لائن میں کام کررہی ہے، اگر کارروائی میں رکاوٹ ڈالی گئی تو جے آئی ٹی کیسے کام کرے گی، جے آئی ٹی نے 60 دن کے اندر گواہوں کے بیانات رکارڈ کرنے اور رپورٹ تیار کرنی ہے، اپنی آسانی کے لئے ویڈیو رکارڈنگ کی جارہی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ جے آئی ٹی میں بیان ریکارڈ کرنے والے سرکاری افسران بعد میں سپریم کورٹ کو خط لکھتے ہیں اوروہ خط میڈیا کو جاری کردیے جاتے ہیں اس معاملہ کے قانونی پہلو کا بھی جائزہ لیا جائے کیا ایسا کیا جاسکتا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب حکومت کو یہ زیب دیتا ہے کہ جے آئی ٹی کے خط کو میڈیا کے حوالے کرے؟ جسٹس اعجاز افضل خان نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو کہا کہ جے آئی ٹی نے جن رکاوٹوں کا ذکر کیا ہے اگر وہ درست ہیں تو کیا مقررہ مقدت کے اندر تفتیش مکمل ہوسکے گی ؟جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ فیڈریشن کی نمائندگی کریں نہ کہ ایک شخص کی۔
کیس کی سماعت کے دوران جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا سمیت تمام ممبران کے علاوہ تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین ، فواد چوہدری ، وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیزب، طلال چوہدری ، دانیال عزیز ، محسن رانجھا سمیت دیگر بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے مطالبہ کیا ہے کہ جے آئی ٹی رکاٹوں کی رپورٹ سامنے نہیں آئی ہے، اسے فورامنظر عام پر لایا جائے جب کہ وزیراعظم تحقیقاتی اداروں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کررہے ہیں وزیراعظم فوری طور پر مستعفی ہوں، سپریم کورٹ کی سماعت میں جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ انتہائی تشویش ناک ہیں ،حکومت میڈیا کے ذریعے جے آئی ٹی کو متنازع بنانے کی کوشش کررہی ہے اس لیے خط عدالت میں آنے سے پہلے میڈیا میں لیک کیا گیا، اب خود پر بات آئی تو مسلم لیگ ن والے ویڈیو ریکارڈنگ پر شور کررہے ہیں۔
ادھر حسین نواز کی پاناما کیس کے لیے بننے والی جے آئی ٹی میں پیشی کے موقع پر لیک ہونے والی تصویر کے معاملے پر سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ سامنے آگئی تاہم رپورٹ میں بتایا گیا کہ حسین نواز کی تصویر 5 جون کو لیک ہوئی لیکن رپورٹ میں کسی شخص یا ادارے کا نام لیے بغیر بتایا گیا کہ 24 گھنٹے میں کارروائی کرکے تصویر لیک کرنے والے شخص کو ڈھونڈ نکالا اور فوری طور پر واپس اس کے محکمے میں بھیج دیا گیا۔ دوسری جانب متعلقہ ادارے نے بھی تصویر لیک کرنے والے کےخلاف کارروائی کی تصدیق کی ہے جب کہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ حسین نواز کی تصویر لیک کرنا ایک شخص کا ذاتی فعل تھا، جے آئی ٹی کے کسی رکن کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔
حسین نواز کی تصویر لیک ہونے سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔ اس موقع پر پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے جوڈیشل اکیڈمی سے وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کی تصویر لیک ہونے سے متعلق سر بمہر رپورٹ جمع کرائی۔
جے آئی ٹی نے حسین نواز کی تصویر لیک ہونے کے حوالے سے لگائے گئے تمام الزامات مسترد کردیے ہیں جب کہ ٹیم کو درپیش رکاوٹوں کے حوالے سے جے آئی ٹی کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ تفتیش کے حوالے سے ریاستی ادارے رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں اس لئے 60 دن میں تفتیش مکمل نہیں ہوسکتی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں سنگین الزام لگایا ہے کہ حکومتی اداروں کی طرف سے ریکارڈ تبدیل، ٹمپر کیا جارہا ہے اور اس میں جعلسازی بھی کی جارہی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ بعض اداروں پر جے آئی ٹی نے سنگین الزامات عائد کئے ہیں جس کے سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
حسین نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے تسلیم کیا ہے کہ تصویر لیک ہوئی ہے لیکن ذمہ داری قبول نہیں کی، ذمہ داروں کا تعین ہونا چاہیے جس پر جسٹس اعجاز افضل خان نے ان سے کہا کہ رپورٹ میں اس کا ذکر ہے، آپ اس پر اپنا جواب دیں ۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ہمیں جے آئی ٹی پر تحفظات ہیں، ایک مسئلہ جے آئی ٹی میں ویڈیو ریکارڈنگ کا بھی ہے جو بدستور جاری ہے۔ جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ویڈیو ریکارڈنگ کی اجازت نہیں اور نہ ہی رکارڈنگ کو بطور ثبوت استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن ویڈیو رکارڈنگ کا مقصد تفتیش کا ٹرانسکرپٹ تیار کرنا ہوتاہے۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا جے آئی ٹی نے اپنے جواب میں اس کا ذکر کیا ہے کہ کس مقصد کے لئے رکارڈنگ ہورہی ہے۔ انھوں نے خواجہ حارث کو کہا کہ آپ رپورٹ پڑھ لیں اور اس پر اپنا جواب دیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ میں منگل کو دوبارہ پیش ہوجاتا ہوں جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے ان سے کہا کہ ہمیں آپ کی پریشانی کا علم ہے لیکن اتنی بھی کیا جلدی۔ خواجہ حارث نے کہا ہوسکتا ہے کل کوئی اور جے آئی ٹی میں پیش ہو تو ریکارڈنگ کا یہی سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا ؟ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی کو محدود وقت میں کام مکمل کرنے کا کہا گیا جبکہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ جے آئی ٹی کا جواب پڑھے بغیر دلائل دینا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی ہے، آپ جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات بھی جمع کرا سکتے ہیں۔
خصوصی بینچ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ جے آئی ٹی کی درخواست کے معاملے میں اپنا جواب جمع کریں جب کہ تصویر لیک ہونے کے معاملے میں جے آئی ٹی کے جواب کا جائزہ لینے کے بعد اگر وہ سمجھتا ہو تو اسے عام کریں اور نقل مخالف وکیل خواجہ حارث کو فراہم کرے۔ عدالت نے معاملے کی سماعت بدھ 14جون تک ملتوی کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اگر ضرروی ہوا تو حسین نواز کے وکیل کے اٹھائے گئے اعتراضات پر انھیں سنا جائے گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی ڈیڈ لائن میں کام کررہی ہے، اگر کارروائی میں رکاوٹ ڈالی گئی تو جے آئی ٹی کیسے کام کرے گی، جے آئی ٹی نے 60 دن کے اندر گواہوں کے بیانات رکارڈ کرنے اور رپورٹ تیار کرنی ہے، اپنی آسانی کے لئے ویڈیو رکارڈنگ کی جارہی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ جے آئی ٹی میں بیان ریکارڈ کرنے والے سرکاری افسران بعد میں سپریم کورٹ کو خط لکھتے ہیں اوروہ خط میڈیا کو جاری کردیے جاتے ہیں اس معاملہ کے قانونی پہلو کا بھی جائزہ لیا جائے کیا ایسا کیا جاسکتا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب حکومت کو یہ زیب دیتا ہے کہ جے آئی ٹی کے خط کو میڈیا کے حوالے کرے؟ جسٹس اعجاز افضل خان نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو کہا کہ جے آئی ٹی نے جن رکاوٹوں کا ذکر کیا ہے اگر وہ درست ہیں تو کیا مقررہ مقدت کے اندر تفتیش مکمل ہوسکے گی ؟جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ فیڈریشن کی نمائندگی کریں نہ کہ ایک شخص کی۔
کیس کی سماعت کے دوران جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا سمیت تمام ممبران کے علاوہ تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین ، فواد چوہدری ، وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیزب، طلال چوہدری ، دانیال عزیز ، محسن رانجھا سمیت دیگر بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے مطالبہ کیا ہے کہ جے آئی ٹی رکاٹوں کی رپورٹ سامنے نہیں آئی ہے، اسے فورامنظر عام پر لایا جائے جب کہ وزیراعظم تحقیقاتی اداروں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کررہے ہیں وزیراعظم فوری طور پر مستعفی ہوں، سپریم کورٹ کی سماعت میں جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ انتہائی تشویش ناک ہیں ،حکومت میڈیا کے ذریعے جے آئی ٹی کو متنازع بنانے کی کوشش کررہی ہے اس لیے خط عدالت میں آنے سے پہلے میڈیا میں لیک کیا گیا، اب خود پر بات آئی تو مسلم لیگ ن والے ویڈیو ریکارڈنگ پر شور کررہے ہیں۔
ادھر حسین نواز کی پاناما کیس کے لیے بننے والی جے آئی ٹی میں پیشی کے موقع پر لیک ہونے والی تصویر کے معاملے پر سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ سامنے آگئی تاہم رپورٹ میں بتایا گیا کہ حسین نواز کی تصویر 5 جون کو لیک ہوئی لیکن رپورٹ میں کسی شخص یا ادارے کا نام لیے بغیر بتایا گیا کہ 24 گھنٹے میں کارروائی کرکے تصویر لیک کرنے والے شخص کو ڈھونڈ نکالا اور فوری طور پر واپس اس کے محکمے میں بھیج دیا گیا۔ دوسری جانب متعلقہ ادارے نے بھی تصویر لیک کرنے والے کےخلاف کارروائی کی تصدیق کی ہے جب کہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ حسین نواز کی تصویر لیک کرنا ایک شخص کا ذاتی فعل تھا، جے آئی ٹی کے کسی رکن کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔