کبھی گڈے گڑیا سے نہیں کھیلی
اوائل عمری میں والد نے راہ نمائی کی تو شادی کے بعد سسر نے حوصلہ بڑھایا۔ یوں نعت خوانی کا سفر آگے بڑھتا رہا۔
''نعت خوانی خالصتاً عقیدت اور محبت کا معاملہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم ثنائے رسولﷺ کے قابل نہیں۔ نہ جانے اﷲ کو کون سی نیکی پسند آگئی کہ مجھے نعت خواں بنا دیا۔ اِس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ یہ فن تو میرے رب کا احسان ہے۔''
یہ حنا وقار کے خیالات ہیں، جو گذشتہ بیس برس سے نعت خوانی کے وسیلے رسول کریمﷺ کی ذات اقدس سے اپنی عقیدت کا اظہار کر رہی ہیں۔ زمانۂ طالب علمی میں اُنھوں نے نعت خوانی کے کئی مقابلے جیتے۔ شیلف میں سجی ٹرافیاں آج بھی اُن دنوں کی یاد دلاتی ہیں۔ ریڈیو پاکستان سے وابستگی کے طفیل اُن کے سامعین کا حلقہ وسیع ہوگیا۔ سینئرز نے بھی خاصی حوصلہ افزائی کی۔ پھر ٹی وی کی جانب آگئیں۔ گذشتہ چند برس میں متعدد ٹی وی چینلز سے اُن کی نعتیں نشر ہوچکی ہیں۔ یوں تو اُن کی ہر کاوش کو سراہا گیا، البتہ ایک نعت ''مرحبا، آج چلیں گے شۂ ابرار کے پاس'' بے حد مقبول ہوئی۔
نعت خوانی کے ساتھ ساتھ وہ کہانی کار اور میزبان کی حیثیت سے بھی شناخت رکھتی ہیں۔ اخبارات و رسائل میں کالم بھی لکھتی رہی ہیں۔ کوکنگ کے کئی مقابلے جیت چکی ہیں۔
اُن کا اصل نام حنا تبسم ہے، جو شادی کے بعد حنا وقار ہوگیا۔ کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں اُنھوں نے آنکھ کھولی۔ چار بہنوں، دو بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹی ہیں۔ بچپن میں گھر بھر کی لاڈلی تھیں۔ شمار پُراعتماد بچوں میں ہوتا تھا۔ خاصی باتونی ہوا کرتی تھیں۔ ماحول سے ہم آہنگ ہونے کا ہنر بھی جانتی تھیں۔ اُن کے والد، سید عباس علی کاروباری آدمی تھے۔ والد کی بابت کہتی ہیں،''میں اُن ہی کی وجہ سے آج اِس مقام پر ہوں۔ اُنھوں نے قدم قدم پر میری حوصلہ افزائی کی۔ نعت خوانی اور ملی نغموں کے مقابلوں میں وہ میرے ساتھ جایا کرتے تھے۔ جب میں ریڈیو سے پروگرام کیا کرتی تھی، تو وہ مجھے روز چھوڑنے اور لینے جاتے۔'' اوائل عمری میں دیگر لڑکیوں کی طرح گڈے گڑیا سے کھیلنے کے بجائے اُنھوں نے لڑکوں والے کھیل کھیلے۔ کرکٹ، تھرو بال اور بیڈمنٹن کا تجربہ کیا۔ بہ قول اُن کے، زیادہ وقت بھائیوں کے ساتھ گزرتا تھا، جس کورس میں وہ داخلہ لیتے، حنا بھی اُس میں داخلہ لے لیتیں۔
حنا ایک قابل طالبہ تھیں۔ اُنھوں نے کمپری ھینسو ہائی اسکول، نارتھ ناظم آباد سے میٹرک کیا۔ پھر عبداﷲ کالج کا رخ کیا، جہاں سے اُنھوں نے گریجویشن کی سند حاصل کی۔ اُس عرصے میں ہم نصابی سرگرمیوں میں خاصی متحرک رہیں۔ گریجویشن کے فوراً بعد اُن کی وقار الحق سے شادی ہوگئی، جو ایک فوڈ کمپنی سے بہ طور نیٹ ورک انجینئر منسلک ہیں۔
نعت خوانی کا شوق بچپن میں پروان چڑھا۔ پہلی نعت اسکول کے ایک مقابلے میں پڑھی۔ گھر اور محلے میں ہونے والی محافل میلاد میں بڑی بہنوں کے ساتھ شرکت کرتی رہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اظہار عقیدت کے اِس عمل میں پختگی آتی گئی۔ اسکول میں ہونے والے مقابلوں میں حصہ لیا۔ یہی معاملہ کالج کا رہا، جہاں وہ نعت خوانی کے مقابلوں میں آگے آگے رہتیں۔ کئی مقابلے جیتے۔
نعت خوانی کے ساتھ ساتھ، بہ طور طالب علم، دیگر مقابلوں میں بھی حصہ لیا۔ میزبانی کی۔ ملی نغمے پیش کیے۔ ڈراموں میں بھی حصہ لیا۔ کچھ نیا کرنے کی آرزو نے بانسری میں چُھپے سُروں کی کھوج کے لیے اکسایا۔ اسکول کے زمانے میں اُس ساز سے دوستی ہوئی۔ چار برس تک کالج کے بینڈ میں بانسری بجاتی رہیں۔
91ء میں ریڈیو اسٹیشن آنا جانا شروع ہوا۔ ''اُن کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیے'' ریڈیو سے نشر ہونے والی اُن کی پہلی نعت تھی۔ آنے والے دنوں میں ''بزم طلبا'' میں شرکت کی۔ پروگرام ''جواں فکر'' کا حصہ رہیں۔ مختلف پروگراموں کی میزبانی بھی کی۔ یہ سلسلہ خاصا عرصے جاری رہا۔
ماضی بازیافت کرتے ہوئے حنا بتاتی ہیں کہ اوائل عمری میں والد نے اُن کی راہ نمائی کی، تو شادی کے بعد سسر نے حوصلہ بڑھایا۔ یوں نعت خوانی کا سفر آگے بڑھتا رہا۔ ٹی وی سے نشر ہونے والی اُن کی پہلی نعت پنجابی زبان میں تھی۔ پھر دیگر ٹی وی چینلز سے عقیدت کا اظہار کیا۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
نعت گو شعرا میں اُنھیں مولانا جامیؒ کا کلام اپنے جذبات کے قریب تر معلوم ہوتا ہے۔ موجودہ عہد کے شعرا میں ادیب رائے پوری کا نام لیتی ہیں۔ زیادہ تر اُن ہی کلام پڑھا۔
فن نعت خوانی میں آنے والی تبدیلیاں، بدلتے رجحانات موضوع بحث بنے، تو کہنے لگیں کہ ماضی میں نعت خوانی میں ٹھہرائو ہوتا تھا، اب طرز بدل گئی ہے۔ اِس ضمن میں اویس رضا قادری کا نام لیتی ہیں، جنھوں نے اِس فن میں نئے، اور حنا کے بہ قول، مثبت رجحانات متعارف کروائے۔ ہاں، موسیقی کے استعمال کے وہ خلاف ہیں، اِسے فن نعت خوانی کے تقاضوں کے منافی خیال کرتی ہیں۔ نعت خوانی کو پیشہ بنانے کی بھی قائل نہیں۔ معاوضہ طے کرنے کے خلاف ہیں۔ ''ہدیہ کے طور پر جو کچھ پیش کیا جائے، نعت خواں کو اُسے بہ خوشی قبول کرنا چاہیے۔''
مطالعے کا شوق پرانا ہے۔ اردو ادب، خصوصاً شاعری سے گہرا شغف ہے۔ گریجویشن میں اُن کے پاس ''ایڈوانس اردو'' کا مضمون تھا۔ اُس عرصے میں شعرا کو جم کر پڑھنے کا موقع ملا۔ غالب اور اقبال کی وہ مداح ہیں۔ پروین شاکر کو بھی سراہتی ہیں۔ شعری ذوق نے شعر کہنے پر اُکسایا، تو آزاد نظم کی صنف کا چنائو کیا۔ اُن کی تخلیقات مختلف جراید کی زینت بھی بنیں۔
مطالعے نے لکھنے کی تحریک دی۔ کالج کے مجلے سے یہ سلسلہ شروع ہوا۔ پھر کہانی کاری کے میدان میں قدم رکھا۔ ابتدائی چند کہانیاں ''دوشیزہ'' میں چھپیں۔ بعد میں ''سچی کہانیاں'' میں تواتر سے چھپتی رہیں۔ شادی کے بعد مصروفیات میں ایسی الجھیں کہ یہ سلسلہ معطل ہوگیا۔ اب وہ اپنی کہانیوں کی ڈراموں کے قالب میں ڈھالنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ اِس ضمن میں کام شروع کر دیا ہے۔
فکشن میں وہ منٹو اور ڈپٹی نذیر احمد کی مداح ہیں۔ ''بانگ درا'' پسندیدہ کتاب ہے۔ نعت خوانی کے میدان میں وہ خورشید احمد اور سید فصیح الدین سہروردی کا نام لیتی ہیں۔ وہ فن نعت خوانی کی جانب آنے والے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔
خدا نے حنا کو ایک بیٹی، ایک بیٹے سے نوازا۔ بیٹی میں بھی نعت خوانی کا شوق منتقل ہوا۔ باورچی خانے سے گہرا رشتہ ہے، اِسے عورت کی زندگی کا جزو قرار دیتی ہیں۔ اچھی کُک ہیں۔ گھر والے اُن کے ہاتھ کے کھانوں کی بہت تعریف کرتی ہیں۔ کہتی ہیں، گھر والوں کے تعاون کے طفیل ہی نعت خوانی کا سلسلہ جاری ہے۔ ''اِس ضمن میں میرے شوہر نے بہت ساتھ دیا۔''
یہ حنا وقار کے خیالات ہیں، جو گذشتہ بیس برس سے نعت خوانی کے وسیلے رسول کریمﷺ کی ذات اقدس سے اپنی عقیدت کا اظہار کر رہی ہیں۔ زمانۂ طالب علمی میں اُنھوں نے نعت خوانی کے کئی مقابلے جیتے۔ شیلف میں سجی ٹرافیاں آج بھی اُن دنوں کی یاد دلاتی ہیں۔ ریڈیو پاکستان سے وابستگی کے طفیل اُن کے سامعین کا حلقہ وسیع ہوگیا۔ سینئرز نے بھی خاصی حوصلہ افزائی کی۔ پھر ٹی وی کی جانب آگئیں۔ گذشتہ چند برس میں متعدد ٹی وی چینلز سے اُن کی نعتیں نشر ہوچکی ہیں۔ یوں تو اُن کی ہر کاوش کو سراہا گیا، البتہ ایک نعت ''مرحبا، آج چلیں گے شۂ ابرار کے پاس'' بے حد مقبول ہوئی۔
نعت خوانی کے ساتھ ساتھ وہ کہانی کار اور میزبان کی حیثیت سے بھی شناخت رکھتی ہیں۔ اخبارات و رسائل میں کالم بھی لکھتی رہی ہیں۔ کوکنگ کے کئی مقابلے جیت چکی ہیں۔
اُن کا اصل نام حنا تبسم ہے، جو شادی کے بعد حنا وقار ہوگیا۔ کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں اُنھوں نے آنکھ کھولی۔ چار بہنوں، دو بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹی ہیں۔ بچپن میں گھر بھر کی لاڈلی تھیں۔ شمار پُراعتماد بچوں میں ہوتا تھا۔ خاصی باتونی ہوا کرتی تھیں۔ ماحول سے ہم آہنگ ہونے کا ہنر بھی جانتی تھیں۔ اُن کے والد، سید عباس علی کاروباری آدمی تھے۔ والد کی بابت کہتی ہیں،''میں اُن ہی کی وجہ سے آج اِس مقام پر ہوں۔ اُنھوں نے قدم قدم پر میری حوصلہ افزائی کی۔ نعت خوانی اور ملی نغموں کے مقابلوں میں وہ میرے ساتھ جایا کرتے تھے۔ جب میں ریڈیو سے پروگرام کیا کرتی تھی، تو وہ مجھے روز چھوڑنے اور لینے جاتے۔'' اوائل عمری میں دیگر لڑکیوں کی طرح گڈے گڑیا سے کھیلنے کے بجائے اُنھوں نے لڑکوں والے کھیل کھیلے۔ کرکٹ، تھرو بال اور بیڈمنٹن کا تجربہ کیا۔ بہ قول اُن کے، زیادہ وقت بھائیوں کے ساتھ گزرتا تھا، جس کورس میں وہ داخلہ لیتے، حنا بھی اُس میں داخلہ لے لیتیں۔
حنا ایک قابل طالبہ تھیں۔ اُنھوں نے کمپری ھینسو ہائی اسکول، نارتھ ناظم آباد سے میٹرک کیا۔ پھر عبداﷲ کالج کا رخ کیا، جہاں سے اُنھوں نے گریجویشن کی سند حاصل کی۔ اُس عرصے میں ہم نصابی سرگرمیوں میں خاصی متحرک رہیں۔ گریجویشن کے فوراً بعد اُن کی وقار الحق سے شادی ہوگئی، جو ایک فوڈ کمپنی سے بہ طور نیٹ ورک انجینئر منسلک ہیں۔
نعت خوانی کا شوق بچپن میں پروان چڑھا۔ پہلی نعت اسکول کے ایک مقابلے میں پڑھی۔ گھر اور محلے میں ہونے والی محافل میلاد میں بڑی بہنوں کے ساتھ شرکت کرتی رہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اظہار عقیدت کے اِس عمل میں پختگی آتی گئی۔ اسکول میں ہونے والے مقابلوں میں حصہ لیا۔ یہی معاملہ کالج کا رہا، جہاں وہ نعت خوانی کے مقابلوں میں آگے آگے رہتیں۔ کئی مقابلے جیتے۔
نعت خوانی کے ساتھ ساتھ، بہ طور طالب علم، دیگر مقابلوں میں بھی حصہ لیا۔ میزبانی کی۔ ملی نغمے پیش کیے۔ ڈراموں میں بھی حصہ لیا۔ کچھ نیا کرنے کی آرزو نے بانسری میں چُھپے سُروں کی کھوج کے لیے اکسایا۔ اسکول کے زمانے میں اُس ساز سے دوستی ہوئی۔ چار برس تک کالج کے بینڈ میں بانسری بجاتی رہیں۔
91ء میں ریڈیو اسٹیشن آنا جانا شروع ہوا۔ ''اُن کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیے'' ریڈیو سے نشر ہونے والی اُن کی پہلی نعت تھی۔ آنے والے دنوں میں ''بزم طلبا'' میں شرکت کی۔ پروگرام ''جواں فکر'' کا حصہ رہیں۔ مختلف پروگراموں کی میزبانی بھی کی۔ یہ سلسلہ خاصا عرصے جاری رہا۔
ماضی بازیافت کرتے ہوئے حنا بتاتی ہیں کہ اوائل عمری میں والد نے اُن کی راہ نمائی کی، تو شادی کے بعد سسر نے حوصلہ بڑھایا۔ یوں نعت خوانی کا سفر آگے بڑھتا رہا۔ ٹی وی سے نشر ہونے والی اُن کی پہلی نعت پنجابی زبان میں تھی۔ پھر دیگر ٹی وی چینلز سے عقیدت کا اظہار کیا۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
نعت گو شعرا میں اُنھیں مولانا جامیؒ کا کلام اپنے جذبات کے قریب تر معلوم ہوتا ہے۔ موجودہ عہد کے شعرا میں ادیب رائے پوری کا نام لیتی ہیں۔ زیادہ تر اُن ہی کلام پڑھا۔
فن نعت خوانی میں آنے والی تبدیلیاں، بدلتے رجحانات موضوع بحث بنے، تو کہنے لگیں کہ ماضی میں نعت خوانی میں ٹھہرائو ہوتا تھا، اب طرز بدل گئی ہے۔ اِس ضمن میں اویس رضا قادری کا نام لیتی ہیں، جنھوں نے اِس فن میں نئے، اور حنا کے بہ قول، مثبت رجحانات متعارف کروائے۔ ہاں، موسیقی کے استعمال کے وہ خلاف ہیں، اِسے فن نعت خوانی کے تقاضوں کے منافی خیال کرتی ہیں۔ نعت خوانی کو پیشہ بنانے کی بھی قائل نہیں۔ معاوضہ طے کرنے کے خلاف ہیں۔ ''ہدیہ کے طور پر جو کچھ پیش کیا جائے، نعت خواں کو اُسے بہ خوشی قبول کرنا چاہیے۔''
مطالعے کا شوق پرانا ہے۔ اردو ادب، خصوصاً شاعری سے گہرا شغف ہے۔ گریجویشن میں اُن کے پاس ''ایڈوانس اردو'' کا مضمون تھا۔ اُس عرصے میں شعرا کو جم کر پڑھنے کا موقع ملا۔ غالب اور اقبال کی وہ مداح ہیں۔ پروین شاکر کو بھی سراہتی ہیں۔ شعری ذوق نے شعر کہنے پر اُکسایا، تو آزاد نظم کی صنف کا چنائو کیا۔ اُن کی تخلیقات مختلف جراید کی زینت بھی بنیں۔
مطالعے نے لکھنے کی تحریک دی۔ کالج کے مجلے سے یہ سلسلہ شروع ہوا۔ پھر کہانی کاری کے میدان میں قدم رکھا۔ ابتدائی چند کہانیاں ''دوشیزہ'' میں چھپیں۔ بعد میں ''سچی کہانیاں'' میں تواتر سے چھپتی رہیں۔ شادی کے بعد مصروفیات میں ایسی الجھیں کہ یہ سلسلہ معطل ہوگیا۔ اب وہ اپنی کہانیوں کی ڈراموں کے قالب میں ڈھالنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ اِس ضمن میں کام شروع کر دیا ہے۔
فکشن میں وہ منٹو اور ڈپٹی نذیر احمد کی مداح ہیں۔ ''بانگ درا'' پسندیدہ کتاب ہے۔ نعت خوانی کے میدان میں وہ خورشید احمد اور سید فصیح الدین سہروردی کا نام لیتی ہیں۔ وہ فن نعت خوانی کی جانب آنے والے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔
خدا نے حنا کو ایک بیٹی، ایک بیٹے سے نوازا۔ بیٹی میں بھی نعت خوانی کا شوق منتقل ہوا۔ باورچی خانے سے گہرا رشتہ ہے، اِسے عورت کی زندگی کا جزو قرار دیتی ہیں۔ اچھی کُک ہیں۔ گھر والے اُن کے ہاتھ کے کھانوں کی بہت تعریف کرتی ہیں۔ کہتی ہیں، گھر والوں کے تعاون کے طفیل ہی نعت خوانی کا سلسلہ جاری ہے۔ ''اِس ضمن میں میرے شوہر نے بہت ساتھ دیا۔''