انقلاب انقلاب انقلاب
میں تسلیم کرتا ہوں کہ ان کے اقدامات کے نتیجے میں ملک اور جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا
آرمی ہاؤس کے لان میں چہل قدمی کرتے ہوئے، پاک فوج کے سربراہ، جنرل قمر باجوہ نے پہلا سوال یہ کیا کہ مجھے صحافت کرتے ہوئے کتنا عرصہ گزرا ہے؟ میں نے عرض کیا چھ عشرے ہونے کو ہیں۔ آپ کے خیال میں ہمارے مسائل کا حل کیا ہے؟ یہ ان کا اگلا سوال تھا۔ میں نے جواب دیا: انقلاب۔ جنرل چلتے چلتے رک گئے اور میری طرف یوں دیکھا جیسے میں نے کوئی انہونی بات کردی ہو۔ ان کی حیرت کو بھانپتے ہوئے میں نے اپنے جواب کی وضاحت کرنا ضروری سمجھا اور عرض کیا کہ آپ براہ کرم میری بات کا کوئی غلط مطلب نہ لیں، انقلاب سے میری مراد یہ ہرگز نہیں ہے کہ آپ منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیں، یہ انقلاب نہیں بغاوت ہوگی۔ انھوں نے پاس ہی رکھی ہوئی کرسیوں کی طرف اشارہ کرکے مجھے بیٹھنے کو کہا اور اپنی کرسی گھسیٹ کر میرے بالکل قریب بیٹھ گئے، اب ہم یوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے تھے کہ سرگوشیوں میں بھی ایک دوسرے کی بات سن اور سمجھ سکتے تھے۔
جنرل نے پھر میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: آپ اپنے انقلاب کی کچھ مزید وضاحت کرنا پسند کریں گے؟ میں نے عرض کیا: جنرل صاحب! میں ہر اس عمل کو انقلاب سمجھتا ہوں جو اب تک ہونے والی تمام غلط کاریوں کا ازالہ اور تلافی کرے اور ان کے ذمے داروں، سہولت کاروں اور مددگاروں کو، خواہ وہ زندہ ہوں یا مردہ، نشان عبرت بنا کر آیندہ ان کا اعادہ نہ ہونا یقینی بنا دے۔ مثلاً کون سی غلط کاریاں؟ ، انھوں نے دریافت کیا۔ اس سے بڑی غلط کاری اور کیا ہوگی کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کو جڑ نہیں پکڑنے دیا گیا، ایسا کرنے والوں نے اپنے حلف کے برعکس اقدام کرکے اپنے فرائض منصبی سے بھی انحراف کیا، کیا آپ کے خیال میں ان کے یہ جرائم قابل معافی ہیں؟ اس سے بڑا جرم بھی کوئی ہوسکتا ہے کہ انھوں نے ملک ہی کو دو لخت کردیا؟، میں نے جواب دیا۔
میں تسلیم کرتا ہوں کہ ان کے اقدامات کے نتیجے میں ملک اور جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، لیکن اب کیا ہوسکتا ہے، جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا، جنرل صاحب نے جواب دیا۔ لیکن میں اس سے اتفاق نہیں کرتا، میں نے عرض کیا، اور اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ انھیں نشان عبرت بنانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ آیندہ کوئی اس قسم کی مہم جوئی کرنے کا سوچے گا بھی نہیں۔ دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچتی ہوگی کہ ہم کس قسم کے لوگ ہیں جن پر زبردستی مسلط کردہ ایک غیر منتخب حکمراں سقوط ڈھاکہ سے بہت پہلے (جیسا کہ سابق امریکی وزیر خارجہ ہینری کسنجر نے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں انکشاف کیا ہے) صدر نکسن کو یقین دہانی کرائی تھی کہ مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) کو بہت جلد آزادی دے دی جائے گی۔ گویا اس حوالے سے پھیلائی گئی دوسری تمام باتیں محض قصے کہانیاں تھیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ جنرل صاحب گویا ہوئے: فرض کریں آپ کا تجزیہ درست ہے، توکیا ساری خرابی اور ملکی مسائل کا ذمے دار یہی ایک ادارہ ہے؟ موصوف کے لہجے کی تلخی محسوس کرتے ہوئے میںنے عرض کیا:ہرگزنہیں،دوسرے ادارے بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں اور ان کے ساتھ بھی سنگین غداری کے مرتکب مجرموں جیساسلوک ہونا چاہیے۔
ان میں سنگین غداری کے جرم کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دینے اور دلوانے والے ہی نہیں، اس کا اعتراف کرنے والے بھی شامل ہیں۔ ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں جب ملک کے عدالتی نظام کے متعلق بالعموم اور اعلیٰ عدلیہ کے بارے میں بالخصوص انتہائی نامناسب اور نازیبا باتیں سننے کو ملتی ہیں،ان میں سے کئی افسوسناک باتیں تو اب ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس خرابی کا آغاز ایک بیوروکریٹ سے گورنر جنرل بننے والے غلام محمد کے ہاتھوں اسمبلی کی تحلیل اور وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کی معزولی سے ہوا، جسے اسپیکر مولوی تمیزالدین نے سندھ چیف کورٹ میں چیلنج کیا، عدالت عالیہ نے گورنر جنرل کے اقدام کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیکر مسترد کردیا، لیکن عین اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس منیر، گورنر جنرل کی مدد کے لیے آگے بڑھے اور سندھ چیف کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیکر انصاف کے منہ پر کالک مل دی اور بعد میں خود ہی اعتراف بھی کیا کہ ان کا فیصلہ غلط تھا۔
یہ قیام پاکستان کے ابتدائی دورکی بات ہے، اس وقت لگایا ہوا خرابی کا یہ پودا تناور درخت بن گیا جس سے طالع آزماؤں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اس وقت تو حد ہی ہو گئی جب ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم کو کسی پیشہ ور قاتل کی طرح پھانسی دے دی گئی اور سزا سنانے والے سپریم کورٹ کے اکثریتی ججوں میں سے ایک نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ ان سے یہ فیصلہ دباؤ کے تحت لیا گیا تھا۔ اعلیٰ عدلیہ کے ایسے ججوں کی بدولت ہی ہمیں اس کے بارے میں کبھی چمک توکبھی کینگروکورٹس جیسے ریمارکس سننے کو ملے۔
جنرل صاحب پورے انہماک اور دلچسپی سے میری باتیں سن رہے تھے۔ لیکن پھر اچانک انھوں نے گفتگو کا موضوع ہی بدل دیا، فرمایا: معاشی صورتحال کی بہتری کے لیے بھی آپ کے پاس یقیناً قابل عمل تجاویز ہوں گی، اس حوالے سے کچھ کہنا پسند کریں گے؟ میں نے عرض کیا ویسے تو یہ صنعتی ترقی کا دور ہے اور کوئی بھی ملک دوسرے صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک کی برابری کرنے کے لیے نہ سہی، اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی اسے نظرانداز نہیں کر سکتا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ حقیقت بھی ذھن میں رکھنی چاہیے کہ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ قدرت نے ہمیں زرخیز زرعی زمینوں، آبپاشی کے بہترین نظام اور زراعت سے وابستہ اتنی زیادہ محنتی اور جفاکش افرادی قوت سے نوازا ہے کہ اگر انھیں مفاد پرستی اور کرپشن میں جکڑی ہوئی بد انتظامی سے چھٹکارا دلایا جائے تو یقین کیجیے ہم اتنی زرعی ترقی کرسکتے ہیں کہ بہت سے صنعتی طور پر ترقی یافتہ ملکوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیں۔
کیسے؟ جنرل نے بیتابی سے دریافت کیا۔ انقلاب سے، میرا جواب تھا۔ زرعی زمینوں کی ملکیت کے موجودہ نظام کے نتیجے میں ہمارے کسانوں کی جو حالت ہے وہ آپ دیکھ رہے ہیں، دن رات کام کرنے کے بعد بھی انھیں پیٹ بھر کر کھانا اور تن ڈھانپنے کو کپڑا میسر نہیں ہوتا۔ اسی ظالمانہ جاگیردارانہ، زمیندارانہ اور وڈیرہ شاھی نظام کے خلاف اقبالؔؔ نے علم بغاوت بلند کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی، اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلادو۔'' میں نے جنرل صاحب کو سندھی کی وہ کہاوت بھی سنائی جو زراعت کے شعبے میں انقلاب برپا کرنے کے لیے رہنمائی کرتی ہے۔
وہ کہاوت ہے ''جیکو کھیڑے سوکھائے'' یعنی زمین کی آمدنی وہ کھائے گا جو اسے آباد کرے گا۔ آپ اس فارمولے پر عمل کر کے تو دیکھیے، انشاء اللہ پہلے ہی سال آپ کا ملک خوراک کے معاملے میں نہ صرف خود کفیل ہوجائے گا اور کروڑوں من فاضل اناج پیدا کرے گا جس کی صحیح منصوبہ بندی سے آپ آج بھی اناج کی قیمتیں اس سطح پر لا سکتے ہیں جو کبھی پرانے وقتوں کے لوگ بتایا کرتے تھے، تو دوسری طرف اشیائے خورونوش کی درآمدات پر مکمل پابندی عائد کرکے اربوں کھربوں کا زر مبادلہ بچاکر ملک کو خوشحال بنا سکتے ہیں۔
لیکن یہ انقلاب آئے گا کیسے؟، انھوں نے پوچھا۔ میں نے عرض کیا یہ انقلاب وہی تین ادارے باہم ملکر لا سکتے ہیں جو اس خرابے کے اصل ذمے دار ہیں۔ اگر پارلیمان، فوج اور عدلیہ اپنی ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کا فیصلہ کریں تو یہ انقلاب آج اور ابھی برپا ہو سکتا ہے جس کے نتائج دیکھ کر تاریخ روس، چین اور فرانس کے انقلابات کے ذکر پر شرمائے گی۔ میری بات جاری تھی کہ موبائل فون کا صبح تین بجے پر لگا ہوا الارم بج اٹھا جو میرے اٹھنے کا وقت ہے۔ کاش یہ خواب نہ ہوتا اور میں جنرل صاحب کا جواب جان سکتا جو ایک کھلا ڈلا آدمی ہونے اور دل کی بات لگی لپٹی رکھے بغیر زبان پر لانے کی شہرت رکھتے ہیں۔
جنرل نے پھر میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: آپ اپنے انقلاب کی کچھ مزید وضاحت کرنا پسند کریں گے؟ میں نے عرض کیا: جنرل صاحب! میں ہر اس عمل کو انقلاب سمجھتا ہوں جو اب تک ہونے والی تمام غلط کاریوں کا ازالہ اور تلافی کرے اور ان کے ذمے داروں، سہولت کاروں اور مددگاروں کو، خواہ وہ زندہ ہوں یا مردہ، نشان عبرت بنا کر آیندہ ان کا اعادہ نہ ہونا یقینی بنا دے۔ مثلاً کون سی غلط کاریاں؟ ، انھوں نے دریافت کیا۔ اس سے بڑی غلط کاری اور کیا ہوگی کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کو جڑ نہیں پکڑنے دیا گیا، ایسا کرنے والوں نے اپنے حلف کے برعکس اقدام کرکے اپنے فرائض منصبی سے بھی انحراف کیا، کیا آپ کے خیال میں ان کے یہ جرائم قابل معافی ہیں؟ اس سے بڑا جرم بھی کوئی ہوسکتا ہے کہ انھوں نے ملک ہی کو دو لخت کردیا؟، میں نے جواب دیا۔
میں تسلیم کرتا ہوں کہ ان کے اقدامات کے نتیجے میں ملک اور جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، لیکن اب کیا ہوسکتا ہے، جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا، جنرل صاحب نے جواب دیا۔ لیکن میں اس سے اتفاق نہیں کرتا، میں نے عرض کیا، اور اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ انھیں نشان عبرت بنانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ آیندہ کوئی اس قسم کی مہم جوئی کرنے کا سوچے گا بھی نہیں۔ دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچتی ہوگی کہ ہم کس قسم کے لوگ ہیں جن پر زبردستی مسلط کردہ ایک غیر منتخب حکمراں سقوط ڈھاکہ سے بہت پہلے (جیسا کہ سابق امریکی وزیر خارجہ ہینری کسنجر نے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں انکشاف کیا ہے) صدر نکسن کو یقین دہانی کرائی تھی کہ مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) کو بہت جلد آزادی دے دی جائے گی۔ گویا اس حوالے سے پھیلائی گئی دوسری تمام باتیں محض قصے کہانیاں تھیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ جنرل صاحب گویا ہوئے: فرض کریں آپ کا تجزیہ درست ہے، توکیا ساری خرابی اور ملکی مسائل کا ذمے دار یہی ایک ادارہ ہے؟ موصوف کے لہجے کی تلخی محسوس کرتے ہوئے میںنے عرض کیا:ہرگزنہیں،دوسرے ادارے بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں اور ان کے ساتھ بھی سنگین غداری کے مرتکب مجرموں جیساسلوک ہونا چاہیے۔
ان میں سنگین غداری کے جرم کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دینے اور دلوانے والے ہی نہیں، اس کا اعتراف کرنے والے بھی شامل ہیں۔ ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں جب ملک کے عدالتی نظام کے متعلق بالعموم اور اعلیٰ عدلیہ کے بارے میں بالخصوص انتہائی نامناسب اور نازیبا باتیں سننے کو ملتی ہیں،ان میں سے کئی افسوسناک باتیں تو اب ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس خرابی کا آغاز ایک بیوروکریٹ سے گورنر جنرل بننے والے غلام محمد کے ہاتھوں اسمبلی کی تحلیل اور وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کی معزولی سے ہوا، جسے اسپیکر مولوی تمیزالدین نے سندھ چیف کورٹ میں چیلنج کیا، عدالت عالیہ نے گورنر جنرل کے اقدام کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیکر مسترد کردیا، لیکن عین اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس منیر، گورنر جنرل کی مدد کے لیے آگے بڑھے اور سندھ چیف کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیکر انصاف کے منہ پر کالک مل دی اور بعد میں خود ہی اعتراف بھی کیا کہ ان کا فیصلہ غلط تھا۔
یہ قیام پاکستان کے ابتدائی دورکی بات ہے، اس وقت لگایا ہوا خرابی کا یہ پودا تناور درخت بن گیا جس سے طالع آزماؤں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اس وقت تو حد ہی ہو گئی جب ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم کو کسی پیشہ ور قاتل کی طرح پھانسی دے دی گئی اور سزا سنانے والے سپریم کورٹ کے اکثریتی ججوں میں سے ایک نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ ان سے یہ فیصلہ دباؤ کے تحت لیا گیا تھا۔ اعلیٰ عدلیہ کے ایسے ججوں کی بدولت ہی ہمیں اس کے بارے میں کبھی چمک توکبھی کینگروکورٹس جیسے ریمارکس سننے کو ملے۔
جنرل صاحب پورے انہماک اور دلچسپی سے میری باتیں سن رہے تھے۔ لیکن پھر اچانک انھوں نے گفتگو کا موضوع ہی بدل دیا، فرمایا: معاشی صورتحال کی بہتری کے لیے بھی آپ کے پاس یقیناً قابل عمل تجاویز ہوں گی، اس حوالے سے کچھ کہنا پسند کریں گے؟ میں نے عرض کیا ویسے تو یہ صنعتی ترقی کا دور ہے اور کوئی بھی ملک دوسرے صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک کی برابری کرنے کے لیے نہ سہی، اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی اسے نظرانداز نہیں کر سکتا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ حقیقت بھی ذھن میں رکھنی چاہیے کہ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ قدرت نے ہمیں زرخیز زرعی زمینوں، آبپاشی کے بہترین نظام اور زراعت سے وابستہ اتنی زیادہ محنتی اور جفاکش افرادی قوت سے نوازا ہے کہ اگر انھیں مفاد پرستی اور کرپشن میں جکڑی ہوئی بد انتظامی سے چھٹکارا دلایا جائے تو یقین کیجیے ہم اتنی زرعی ترقی کرسکتے ہیں کہ بہت سے صنعتی طور پر ترقی یافتہ ملکوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیں۔
کیسے؟ جنرل نے بیتابی سے دریافت کیا۔ انقلاب سے، میرا جواب تھا۔ زرعی زمینوں کی ملکیت کے موجودہ نظام کے نتیجے میں ہمارے کسانوں کی جو حالت ہے وہ آپ دیکھ رہے ہیں، دن رات کام کرنے کے بعد بھی انھیں پیٹ بھر کر کھانا اور تن ڈھانپنے کو کپڑا میسر نہیں ہوتا۔ اسی ظالمانہ جاگیردارانہ، زمیندارانہ اور وڈیرہ شاھی نظام کے خلاف اقبالؔؔ نے علم بغاوت بلند کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی، اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلادو۔'' میں نے جنرل صاحب کو سندھی کی وہ کہاوت بھی سنائی جو زراعت کے شعبے میں انقلاب برپا کرنے کے لیے رہنمائی کرتی ہے۔
وہ کہاوت ہے ''جیکو کھیڑے سوکھائے'' یعنی زمین کی آمدنی وہ کھائے گا جو اسے آباد کرے گا۔ آپ اس فارمولے پر عمل کر کے تو دیکھیے، انشاء اللہ پہلے ہی سال آپ کا ملک خوراک کے معاملے میں نہ صرف خود کفیل ہوجائے گا اور کروڑوں من فاضل اناج پیدا کرے گا جس کی صحیح منصوبہ بندی سے آپ آج بھی اناج کی قیمتیں اس سطح پر لا سکتے ہیں جو کبھی پرانے وقتوں کے لوگ بتایا کرتے تھے، تو دوسری طرف اشیائے خورونوش کی درآمدات پر مکمل پابندی عائد کرکے اربوں کھربوں کا زر مبادلہ بچاکر ملک کو خوشحال بنا سکتے ہیں۔
لیکن یہ انقلاب آئے گا کیسے؟، انھوں نے پوچھا۔ میں نے عرض کیا یہ انقلاب وہی تین ادارے باہم ملکر لا سکتے ہیں جو اس خرابے کے اصل ذمے دار ہیں۔ اگر پارلیمان، فوج اور عدلیہ اپنی ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کا فیصلہ کریں تو یہ انقلاب آج اور ابھی برپا ہو سکتا ہے جس کے نتائج دیکھ کر تاریخ روس، چین اور فرانس کے انقلابات کے ذکر پر شرمائے گی۔ میری بات جاری تھی کہ موبائل فون کا صبح تین بجے پر لگا ہوا الارم بج اٹھا جو میرے اٹھنے کا وقت ہے۔ کاش یہ خواب نہ ہوتا اور میں جنرل صاحب کا جواب جان سکتا جو ایک کھلا ڈلا آدمی ہونے اور دل کی بات لگی لپٹی رکھے بغیر زبان پر لانے کی شہرت رکھتے ہیں۔