غربت جرائم کو جنم دیتی ہے
بہرکیف ہمارا آج کا موضوع گفتگو ہے مہنگائی یہ وہ جن ہے کہ جب سے سرمایہ داری نظام کا آغاز ہوا ہے
قبل اس کے کہ ہم اپنے موضوع پرگفتگو کا آغاز کریں ہم چاہیں گے کہ بھارتی شہرامرتسر کی جیل میں اسیر دو پاکستانی خواتین کا تھوڑا ذکر کریں جوکہ ناکردہ جرم کی سزا پوری ہونے کے باوجود امرتسرکی جیل میں تادم تحریر اسیری کی زندگی گزار رہی ہیں یہ دونوں فاطمہ وممتاز سگی بہنیں ہیں جوکہ 26 جولائی 2006ء سے منشیات کے کیس میں قید ہیں۔ دونوں خواتین اپنی سزا دس دس برس پوری کرچکی ہیں جب کہ دونوں خواتین کو قید کے ساتھ دو دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی تھی۔
چنانچہ اب کیفیت یہ ہے کہ ان دونوں خواتین کی قید کی سزا نومبر 2016ء میں پوری ہوچکی ہے جب کہ ان خواتین کو دو دو لاکھ روپے بھی بھارتی شہری ایک رحم دل خاتون نے ادا کر دیے ہیں مگر مقام افسوس کہ ان دونوں خواتین کی رہائی اب تک عمل میں نہیں آسکی، یہ خواتین اپنی سزائیں پوری کرچکی ہیں ان دونوں خواتین کی رہائی کے سلسلے میں کوئی دو ماہ قبل 8 سے 10 اپریل 2017ء تک الیکٹرانک و پریس میڈیا میں کافی چرچا رہا تھا مگر دو ماہ گزرنے کے بعد بھی ان خواتین کی رہائی کا عمل مکمل نہیں ہوسکا۔ امید ہے حکام بالا بالخصوص وزارت خارجہ خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے ان دونوں خواتین کو امرتسر کی جیل سے رہائی دلانے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ ان دونوں خواتین و ان خواتین کی والدہ جوکہ دوران اسیری وفات پاگئی تھیں کی بابت 19 اپریل 2017ء کو میرا کالم روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہوا تھا۔ تفصیلات کے لیے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
بہرکیف ہمارا آج کا موضوع گفتگو ہے مہنگائی یہ وہ جن ہے کہ جب سے سرمایہ داری نظام کا آغاز ہوا ہے اسی وقت سے یہ مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آچکا ہے اب کیفیت یہ ہے کہ مہنگائی کا یہ جن بوتل میں بند ہونے کو آمادہ ہی نہیں ہو رہا البتہ اس کا خالق جب چاہے گا یہ مہنگائی کا جن واپس بوتل میں بند ہوجائے گا اور مہنگائی کے جن کا خالق ہے سرمایہ دار طبقہ مگر یہ سرمایہ دار طبقہ مہنگائی کا جن یہ کبھی بوتل میں بند نہیں کرے گا کیونکہ یہ سرمایہ دار طبقہ کے مفادات کے خلاف ہے۔
بہرکیف جیسے ہمارا ایمان ہے کہ ماہ رمضان میں شیطان کو پابند سلاسل کردیا جاتا ہے مگر جیسے ہی ماہ رمضان کا آغاز ہوتا ہے تو ایک طبقہ ایسا بھی ہے جوکہ تمام تر حکومتی پابندیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے من مانی قیمتوں پر عام ضرورت کی اشیا فروخت کرتا ہے، اگرچہ ہر برس حکومتی دعویٰ یہی ہوتا ہے کہ ماہ رمضان میں ناجائزمنافع کمانے کی اجازت نہیں دی جائے گی مگر ناجائز منافع خوروں کا انداز یہ ہوتا ہے کہ ناجائزمنافع حاصل کرنے کے لیے اجازت طلب کون کرتا ہے؟ ضروری اشیا کی قیمتوں کا جہاں تک تعلق ہے تو اول ہم ذکرکریں گے پھلوں کا۔ سب کے علم میں ہے ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی پھلوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوجاتا ہے تو کیفیت یہ ہے کہ ماہ رمضان میں آم جس قیمت پر فروخت ہورہا ہے وہ ہے کم سے کم ایک سو روپے کلو زیادہ سے زیادہ ایک سو ستر روپے کلو، سیب دوسو روپے فی کلو سے چار سو روپے فی کلو، کیلا کم سے کم قیمت فی درجن ایک سو بیس روپے زیادہ سے زیادہ ایک سو اسی روپے فی درجن، خربوزہ پچاس روپے فی کلو سے ستر روپے فی کلو تربوز پچاس روپے سے ساٹھ روپے فی کلو میں فروخت ہو رہا ہے۔
چیری ایک سو روپے پاؤ یعنی چار سو روپے فی کلو اب اگر عام محنت کش آدمی کی بات کریں تو پھر اندازہ کرلیں کہ کتنے لوگ اس قدر مہنگا پھل خرید کرکھاسکتے ہیں؟ دوئم ہم ذکر کریں گے اہم ترین غذا سبزیاں تو اس وقت کیفیت یہ ہے کہ لوکی، ٹینڈا، بھنڈی کریلا، گوارکی پھلی لوبیا کی پھلی شملہ مرچ کالی توری وغیرہ تو ان میں کوئی بھی ایسی سبزی نہیں جس کی قیمت 80 روپے فی کلو سے کم ہو، حد تو یہ ہے کہ آلو و پالک بھی 50 روپے تک فی کلو میں فروخت ہو رہے ہیں اب اگر یہ قیمتیں برقرار رہتی ہیں تو پھر عام آدمی یہ سبزیاں کھا سکتا ہے بصورت دیگر اگر سبزیوں کی قیمتوں مزید اضافہ ہوتا ہے تو پھر مہنگائی کے ستائے ہوئے لوگوں کی قوت خرید جواب دے جائے گی۔
غذائی اشیا میں دالوں کی صورت حال یہ ہے کہ دال چنا، سفید چنا، کالا چنا، دال مونگ، دال مسور، ثابت مسور و دیگر تمام دالیں تقریباً ایک سو چالیس روپے فی کلو فروخت ہو رہی ہیں، ماسوائے دال ماش کے یہ ایسی دال ہے جوکہ مرغی کے گوشت سے بھی زیادہ مہنگی ہے۔ اس دال کی قیمت ہے 80 روپے پاؤ یعنی تین سو بیس روپے فی کلو جب کہ اہم غذا چاول جس کی کم سے کم فی کلو قیمت 60 روپے کلو زیادہ سے زیادہ ایک سو پچاس روپے فی کلو خیال رہے کہ 60 روپے فی کلو فروخت ہونے والے چاول کا معیار ایسا ہے کہ مرغیوں کو دانے کے طور پر ہی کھلایا جاسکتا ہے مگر لوگ بحالت مجبوری یہ بھی کھانے پر مجبور ہیں۔ لحمیات کا احوال یہ ہے کہ مچھلی بکرے کا گوشت اور اب گائے کا گوشت بھی مہنگائی کے باعث عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوچکا ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے محلے کے ایک دکاندار سے اشیا خوردنی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی بابت سوال کیا۔
دکاندار جن کا نام عارف صاحب ہے گویا بولنے ہی کے منتظر تھے چنانچہ ہمارے سوال کے جواب میں کہنے لگے محلے کا ہر آدمی اور آپ پرنٹ میڈیا والے بھی چھوٹی چھوٹی چیزخرید آتے ہو اور خوردنی اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا ہم چھوٹے دکانداروں کو ذمے دار قرار دے کر چلے جاتے ہو مگر کبھی بھی کسی نے ہمارے مسائل سننے کی کوشش نہیں کی تو سنو کہ ہم چھوٹے دکانداروں کے یہ مسائل ہیں۔ اول تو ہمارے چھوٹے چھوٹے دکانداروں کا کاروبار ٹھپ کردیا ہے۔ سپر اسٹورز نے اب کیفیت یہ ہے کہ لوگ ایک ہی سپراسٹور پر جاتے ہیں اور مہینے بھرکا راشن ایک ہی جگہ سے خرید کرلے آتے ہیں اس قسم کی خریداری اب گویا فیشن میں شامل ہوچکی ہے یوں بھی ضرورت کی تمام اشیا عام صارف کو ایک ہی جگہ سے مل جاتی ہیں اب اس کیفیت میں ہمارے پاس بمشکل جو صارف آتا ہے وہ کیا خریدتا ہے۔
نمک کی تھیلی ایک پاؤ دال، ایک کلو آٹا، ایک یا دو انڈے بچوں کی چیز گرم مسالہ ایک پیکٹ صرف ایک پیکٹ صرف ایک پیکٹ ایک پاؤ گھی و ایک پاؤ کھانے کا تیل وغیرہ وغیرہ۔ اب آپ بتائیں اس قسم کے پرچون کا سامان فروخت کرکے ہم کس قدر آمدنی حاصل کرسکتے ہیں؟ حالات یہ ہیں کہ چھوٹا دکاندار 12 سے 16 گھنٹے دکان کھلی رکھنے کے بعد بمشکل چار پانچ سو روپے ہی کما پاتا ہے اب ان چار پانچ سو روپے سے ہم گھریلو اخراجات پورے کریں یا دکان کے جوکہ کرائے و بجلی کے بل کی صورت میں ادا کرنے ہوتے ہیں ایک مسئلہ اور ہے آئے روز پولیس والے آجاتے ہیں کہ دکھاؤ ریٹ لسٹ کہاں ہے کس کے پاس ہے تو ٹھیک بصورت دیگر بیٹھوگاڑی میں ریٹ لسٹ نہ ہونے کی صورت میں 20 ہزار روپے جرمانہ کی نوید سنائی جاتی ہے یا پھر مک مکا ہمارے خیال میں عارف صاحب کی گفتگو میں سچائی ہے کیونکہ ہمارے سماج میں پہلے ہی بیروزگاری عام ہے۔
ان حالات میں خود انحصاری کے جذبے کے تحت اگرکچھ یہ باہمت چھوٹے دکاندار اپنا روزگار خود کے پیدا کردہ وسائل سے حاصل کر رہے ہیں تو ان لوگوں کو مراعات دینی چاہئیں جن میں آسان ترین شرائط پر قرضے بجلی کے بلوں میں خصوصی رعایت کے ساتھ ساتھ مزید سپر اسٹور کھولنے کی اجازت نہ دی جائے بصورت دیگر سپر اسٹورز کھولنے کی اجازت دے کر حکومت ان چھوٹے دکانداروں کو گویا بیروزگار کرنے پر عمل پیرا ہے یوں بھی کسی بھی سماج میں بیروزگاری کے کبھی مثبت اثرات مرتب نہیں ہوتے ظاہر ہے بڑھتی ہوئی بیروزگاری غربت ہی میں اضافہ کرتی ہے۔ غربت کے بارے میں ارسطو نے کہا تھا کہ جس سماج میں غربت حد سے بڑھ جائے وہاں جرائم میں اضافہ ہوتا ہے، انقلاب آتا ہے۔
چنانچہ اب کیفیت یہ ہے کہ ان دونوں خواتین کی قید کی سزا نومبر 2016ء میں پوری ہوچکی ہے جب کہ ان خواتین کو دو دو لاکھ روپے بھی بھارتی شہری ایک رحم دل خاتون نے ادا کر دیے ہیں مگر مقام افسوس کہ ان دونوں خواتین کی رہائی اب تک عمل میں نہیں آسکی، یہ خواتین اپنی سزائیں پوری کرچکی ہیں ان دونوں خواتین کی رہائی کے سلسلے میں کوئی دو ماہ قبل 8 سے 10 اپریل 2017ء تک الیکٹرانک و پریس میڈیا میں کافی چرچا رہا تھا مگر دو ماہ گزرنے کے بعد بھی ان خواتین کی رہائی کا عمل مکمل نہیں ہوسکا۔ امید ہے حکام بالا بالخصوص وزارت خارجہ خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے ان دونوں خواتین کو امرتسر کی جیل سے رہائی دلانے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ ان دونوں خواتین و ان خواتین کی والدہ جوکہ دوران اسیری وفات پاگئی تھیں کی بابت 19 اپریل 2017ء کو میرا کالم روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہوا تھا۔ تفصیلات کے لیے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
بہرکیف ہمارا آج کا موضوع گفتگو ہے مہنگائی یہ وہ جن ہے کہ جب سے سرمایہ داری نظام کا آغاز ہوا ہے اسی وقت سے یہ مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آچکا ہے اب کیفیت یہ ہے کہ مہنگائی کا یہ جن بوتل میں بند ہونے کو آمادہ ہی نہیں ہو رہا البتہ اس کا خالق جب چاہے گا یہ مہنگائی کا جن واپس بوتل میں بند ہوجائے گا اور مہنگائی کے جن کا خالق ہے سرمایہ دار طبقہ مگر یہ سرمایہ دار طبقہ مہنگائی کا جن یہ کبھی بوتل میں بند نہیں کرے گا کیونکہ یہ سرمایہ دار طبقہ کے مفادات کے خلاف ہے۔
بہرکیف جیسے ہمارا ایمان ہے کہ ماہ رمضان میں شیطان کو پابند سلاسل کردیا جاتا ہے مگر جیسے ہی ماہ رمضان کا آغاز ہوتا ہے تو ایک طبقہ ایسا بھی ہے جوکہ تمام تر حکومتی پابندیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے من مانی قیمتوں پر عام ضرورت کی اشیا فروخت کرتا ہے، اگرچہ ہر برس حکومتی دعویٰ یہی ہوتا ہے کہ ماہ رمضان میں ناجائزمنافع کمانے کی اجازت نہیں دی جائے گی مگر ناجائز منافع خوروں کا انداز یہ ہوتا ہے کہ ناجائزمنافع حاصل کرنے کے لیے اجازت طلب کون کرتا ہے؟ ضروری اشیا کی قیمتوں کا جہاں تک تعلق ہے تو اول ہم ذکرکریں گے پھلوں کا۔ سب کے علم میں ہے ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی پھلوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوجاتا ہے تو کیفیت یہ ہے کہ ماہ رمضان میں آم جس قیمت پر فروخت ہورہا ہے وہ ہے کم سے کم ایک سو روپے کلو زیادہ سے زیادہ ایک سو ستر روپے کلو، سیب دوسو روپے فی کلو سے چار سو روپے فی کلو، کیلا کم سے کم قیمت فی درجن ایک سو بیس روپے زیادہ سے زیادہ ایک سو اسی روپے فی درجن، خربوزہ پچاس روپے فی کلو سے ستر روپے فی کلو تربوز پچاس روپے سے ساٹھ روپے فی کلو میں فروخت ہو رہا ہے۔
چیری ایک سو روپے پاؤ یعنی چار سو روپے فی کلو اب اگر عام محنت کش آدمی کی بات کریں تو پھر اندازہ کرلیں کہ کتنے لوگ اس قدر مہنگا پھل خرید کرکھاسکتے ہیں؟ دوئم ہم ذکر کریں گے اہم ترین غذا سبزیاں تو اس وقت کیفیت یہ ہے کہ لوکی، ٹینڈا، بھنڈی کریلا، گوارکی پھلی لوبیا کی پھلی شملہ مرچ کالی توری وغیرہ تو ان میں کوئی بھی ایسی سبزی نہیں جس کی قیمت 80 روپے فی کلو سے کم ہو، حد تو یہ ہے کہ آلو و پالک بھی 50 روپے تک فی کلو میں فروخت ہو رہے ہیں اب اگر یہ قیمتیں برقرار رہتی ہیں تو پھر عام آدمی یہ سبزیاں کھا سکتا ہے بصورت دیگر اگر سبزیوں کی قیمتوں مزید اضافہ ہوتا ہے تو پھر مہنگائی کے ستائے ہوئے لوگوں کی قوت خرید جواب دے جائے گی۔
غذائی اشیا میں دالوں کی صورت حال یہ ہے کہ دال چنا، سفید چنا، کالا چنا، دال مونگ، دال مسور، ثابت مسور و دیگر تمام دالیں تقریباً ایک سو چالیس روپے فی کلو فروخت ہو رہی ہیں، ماسوائے دال ماش کے یہ ایسی دال ہے جوکہ مرغی کے گوشت سے بھی زیادہ مہنگی ہے۔ اس دال کی قیمت ہے 80 روپے پاؤ یعنی تین سو بیس روپے فی کلو جب کہ اہم غذا چاول جس کی کم سے کم فی کلو قیمت 60 روپے کلو زیادہ سے زیادہ ایک سو پچاس روپے فی کلو خیال رہے کہ 60 روپے فی کلو فروخت ہونے والے چاول کا معیار ایسا ہے کہ مرغیوں کو دانے کے طور پر ہی کھلایا جاسکتا ہے مگر لوگ بحالت مجبوری یہ بھی کھانے پر مجبور ہیں۔ لحمیات کا احوال یہ ہے کہ مچھلی بکرے کا گوشت اور اب گائے کا گوشت بھی مہنگائی کے باعث عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوچکا ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے محلے کے ایک دکاندار سے اشیا خوردنی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی بابت سوال کیا۔
دکاندار جن کا نام عارف صاحب ہے گویا بولنے ہی کے منتظر تھے چنانچہ ہمارے سوال کے جواب میں کہنے لگے محلے کا ہر آدمی اور آپ پرنٹ میڈیا والے بھی چھوٹی چھوٹی چیزخرید آتے ہو اور خوردنی اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا ہم چھوٹے دکانداروں کو ذمے دار قرار دے کر چلے جاتے ہو مگر کبھی بھی کسی نے ہمارے مسائل سننے کی کوشش نہیں کی تو سنو کہ ہم چھوٹے دکانداروں کے یہ مسائل ہیں۔ اول تو ہمارے چھوٹے چھوٹے دکانداروں کا کاروبار ٹھپ کردیا ہے۔ سپر اسٹورز نے اب کیفیت یہ ہے کہ لوگ ایک ہی سپراسٹور پر جاتے ہیں اور مہینے بھرکا راشن ایک ہی جگہ سے خرید کرلے آتے ہیں اس قسم کی خریداری اب گویا فیشن میں شامل ہوچکی ہے یوں بھی ضرورت کی تمام اشیا عام صارف کو ایک ہی جگہ سے مل جاتی ہیں اب اس کیفیت میں ہمارے پاس بمشکل جو صارف آتا ہے وہ کیا خریدتا ہے۔
نمک کی تھیلی ایک پاؤ دال، ایک کلو آٹا، ایک یا دو انڈے بچوں کی چیز گرم مسالہ ایک پیکٹ صرف ایک پیکٹ صرف ایک پیکٹ ایک پاؤ گھی و ایک پاؤ کھانے کا تیل وغیرہ وغیرہ۔ اب آپ بتائیں اس قسم کے پرچون کا سامان فروخت کرکے ہم کس قدر آمدنی حاصل کرسکتے ہیں؟ حالات یہ ہیں کہ چھوٹا دکاندار 12 سے 16 گھنٹے دکان کھلی رکھنے کے بعد بمشکل چار پانچ سو روپے ہی کما پاتا ہے اب ان چار پانچ سو روپے سے ہم گھریلو اخراجات پورے کریں یا دکان کے جوکہ کرائے و بجلی کے بل کی صورت میں ادا کرنے ہوتے ہیں ایک مسئلہ اور ہے آئے روز پولیس والے آجاتے ہیں کہ دکھاؤ ریٹ لسٹ کہاں ہے کس کے پاس ہے تو ٹھیک بصورت دیگر بیٹھوگاڑی میں ریٹ لسٹ نہ ہونے کی صورت میں 20 ہزار روپے جرمانہ کی نوید سنائی جاتی ہے یا پھر مک مکا ہمارے خیال میں عارف صاحب کی گفتگو میں سچائی ہے کیونکہ ہمارے سماج میں پہلے ہی بیروزگاری عام ہے۔
ان حالات میں خود انحصاری کے جذبے کے تحت اگرکچھ یہ باہمت چھوٹے دکاندار اپنا روزگار خود کے پیدا کردہ وسائل سے حاصل کر رہے ہیں تو ان لوگوں کو مراعات دینی چاہئیں جن میں آسان ترین شرائط پر قرضے بجلی کے بلوں میں خصوصی رعایت کے ساتھ ساتھ مزید سپر اسٹور کھولنے کی اجازت نہ دی جائے بصورت دیگر سپر اسٹورز کھولنے کی اجازت دے کر حکومت ان چھوٹے دکانداروں کو گویا بیروزگار کرنے پر عمل پیرا ہے یوں بھی کسی بھی سماج میں بیروزگاری کے کبھی مثبت اثرات مرتب نہیں ہوتے ظاہر ہے بڑھتی ہوئی بیروزگاری غربت ہی میں اضافہ کرتی ہے۔ غربت کے بارے میں ارسطو نے کہا تھا کہ جس سماج میں غربت حد سے بڑھ جائے وہاں جرائم میں اضافہ ہوتا ہے، انقلاب آتا ہے۔