چاہے 100 ملزم بری ہوں یا پھانسی چڑھ جائیں ہر فیصلہ میرٹ پر ہوگا سپریم کورٹ

قتل کے دوملزم شک کا فائدہ دیکربری، ایک کی عمرقید برقرار، ملزمان کی ضمانت منسوخی کی 4 درخواستیں واپس لینے پرخارج

الزام ثابت ہونے سے قبل گرفتاری قانونی بدنیتی نہیں؟ملزم جیل رہے،ٹرائل مکمل ہونے پررہاہوتوحساب کون دے گا؟جسٹس کھوسہ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے آبزرویشن دی ہے کہ ملک میں ضمانت قبل از گرفتاری کے حوالے سے قانونی عمل کا غلط استعمال کیا جاتاہے، جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا یہ قانونی بدنیتی نہیں کہ الزام ثابت ہونے سے قبل ہی ملزم کو گرفتار کر لیا جاتا ہے؟ قانون میں موجود خامیوں کو ٹھیک کرنے کے لیے جوئے شیر لانا پڑے گا۔


جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں فل بینچ نے یہ آبزرویشن 4 ملزمان کی ضمانت منسوخی کے لیے دائر مختلف درخواستوں کی سماعت کے دوران دی ،جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا ماضی میں ضمانت قبل ازگرفتاری بہت کم دی جاتی تھی اب تو روزانہ سیکڑوں ضمانتیں منظور ہوتی ہیں،عبوری ضمانت کراکر ایف آئی آرکے اخراج کا مقدمہ دائرکردیا جاتاہے تاکہ عبوری ضمانت کو توسیع ملتی رہے،فاضل جج نے کہا اگرکسی کی ضمانت غلط طور پر ہو بھی جائے تو اس بناپرخارج نہیںکی جا سکتی کیونکہ ملزم پر جرم ثابت نہیں ہوا ہوتا، اگر ٹرائل کے دوران کوئی ملزم جیل میں رہے اور ٹرائل مکمل ہونے پر رہا ہوجائے تو اسکے جیل میںکاٹے گئے وقت کا حساب کون دے گا ،جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا یہ طے شدہ قانون ہے کہ اگرکوئی ملزم ضمانت کا غلط استعمال کرتا ہے تو ضمانت منسوخی کے لیے اسی فورم سے رجوع کیا جا سکتا،جس نے ضمانت دی ہوتی ہے ۔

عدالت نے چاروں درخواست گزاروں کے وکلا کوہدایت کی کہ متعلقہ عدالتوں سے رجوع کریں ۔عدالت نے ضمانت منسوخی کی چاروں درخواستیں واپس لینے کی بنیاد پرخارج کردیں،جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے قتل کے 3مقدمات نمٹاتے ہوئے کہاکہ ہرکیس کافیصلہ میرٹ پر ہوگا،چاہے سو ملزم بری ہو جائیں یا سو ملزم پھانسی لگ جائیں،عدالت نے دو ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا جبکہ تیسرے ملزم کی بریت کی درخواست مستردکرتے ہوئے عمر قیدکی سزا برقرار رکھی، پہلے مقدمے میں عدالت نے ملزم علی عمران کو ماتحت عدالتوں سے سنائی گئی سزائیںکالعدم قرار دیتے ہوئے رہاکرنیکا حکم دیدیا۔
Load Next Story