وہ لندن تھا
شکر ہے کہ ہم نے لندن اس زمانے میں دیکھا جب لندن اور ہم سب بدل چکے تھے
موسم کی گرمی کے ساتھ ہی ٹھنڈے ملکوں کی یاد آنا شروع ہو جاتی ہے اور دل سفر کرنے کو بے چین ہو جاتا ہے لیکن اب صحت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ سامان اٹھایا اور عازم لندن ہو گئے ورنہ کہاں وہ دن تھے کہ اِدھر موسم گرما نے پَر پُرزے نکالنے شروع کیے اور ہم نے بھی اپنی مشکیں کسیں اور یہ جا وہ جا اور قافلہ جا کر انگریزوں کے دیس میں رُکتا تھا جہاں پر مہربان بھائی مرحوم رزاق اور مہمان نواز محبوب صاحب کو اﷲ لمبی زندگی عطاء کرے منتظر ہوتے تھے اور لندن کی خنک شاموں میں دوست احباب اکٹھے ہو جاتے اور محفلیں جمنا شروع ہو جاتیں۔ اب لندن کی پُر کیف شاموں کی خوشگوار اور حسین یادیں ہی ساتھ رہ گئی ہیں اور جسمانی صحت کے ساتھ گردو پیش کے حالات بھی سازگار نہ رہے یہاں تک کہ میرے مہربان دوست بھی کچھ تو اپنی دنیا میں مگن اور کچھ اس دنیا میں چلے گئے جہاں سے کوئی پلٹ کر نہیں آتا، بہر کیف ایسے خوش کن سفر کم ہی ملتے ہیں اور اس زمانے میں تو ایسی عیاشی کے سفروں کا صرف خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔
اس سال گرمیوں کے آغاز میں ہی ماہ رمضان کی آمد اپنی برکتوں کے ساتھ ہوئی جو عبادت گزاروں میں ایک نعمت ثابت ہوتا ہے اور جن کو توفیق ہوتی ہے وہ ہر سال اس مقدس ماہ میں حجاز مقدس کے لیے عازم سفر ہوتے ہیں تا کہ براہ راست مکہ مدینہ جا کر اپنی بخشش کا سامان کر سکیں ۔اس طرح کے سفر میں اپنا ہی مزہ ہے اور اپنے اس سفر کے دوران دل کھول کر خرچ کیا جاتا ہے کہ رمضان میں کیے گئے خرچ کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا۔ سخی دل کے ساتھ اخراجات کیے جاتے ہیں اور افطاریاں کرائی جاتی ہیں تا کہ دوسروں کے ثواب میں بھی شامل ہوا جا سکے جب کوئی اور آپ کو اپنی نیک کمائی میں سے کچھ دیتا ہے تو وہ گویا نیکی کرتا ہے اپنے اور اپنے خاندان کے لیے کیونکہ آپ کا جس سر زمین کا سفر ہوتا ہے وہاں جانا ہی ایک نیکی ہے جو قسمت والوں کو ملتی ہے۔ ماہ رمضان میں عید الفطر کے موقع پر آپ اپنے دوستوں کے لیے جو بھی تحائف خرید کر لاتے ہیں وہ گویا نیکی اور سلامتی کا تحفہ ہوتا ہے جو آپ کی نیک کمائی سے ملتا ہے لیکن جب پہلی بار میں نے ایک غیر مسلمان ملک یہ تحفہ خریدا تو مجھے شدید تعجب ہوا اور کیوں نہ ہوتا کہ ایک غیر مسلم ملک میں اِن کے تہواروں کے موقع پر چیزیں سستی کر دی جاتی ہیں اور ہم جیسے بھی ان تہواروں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی خریداری کی تسکین کا سامان کر لیتے ہیں۔
میرے گوروں کے دیس کے سفر میں شہر لندن تھا جو اُن دنوں تحفوں سے بھرا ہوا تھا میں نے اپنے میزبان سے کہا کہ میرے ساتھ چلیں شاپنگ کرتے ہیں۔ وہ میری کمزوری سمجھتے تھے کہ میری طرح ایک تارک وطن پاکستانی تھے، انھوں نے کہا کہ ابھی نہیں کچھ وقت ٹھہر جائیں لیکن میں ان تحفوں کو قابو کرنے میں بے تاب تھا، بہرکیف میزبان کے اصرار پر تحفوں کی شاپنگ ملتوی کر دی اور بعد میں پتہ چلا کہ ہمارے لندنی دوست کا فیصلہ ہی درست تھا، کچھ وقفے کے بعد یہ چیزیں مزید سستی ہو گئیں اور مزید بچت ہونی شروع ہو گئی اور تحفے تحائف زیادہ جمع ہو گئے۔ معلوم ہو ا کہ یہاں کے رواج کے مطابق آپ تہواروں کے موقع پر خریداری کریں تو اس میں کافی منافع اور بچت ہو جاتی ہے جب کہ ہمارے ہاں اس کے اُلٹ ہوتا ہے اور تحفے زیادہ مہنگے ہو جاتے ہیں ۔ جتنے تحفے خریدنے کا ارادہ تھا اس رقم میں اس سے کہیں زیادہ کام بن گیا ۔ عید کی آمد آمد ہے اورتحفوں کا موسم ایک بار پھرسر پر ہے لیکن افسوس کہ یہاں پاکستان میں دکاندار لندن والے دکانداروں کی طرح فراغ دل نہیں ہیں اور اب تحفوں کی خریداری آسان نہیں رہی۔
ہم پاکستانیوں کے لیے لندن ایک عجوبہ شہر ہے جہاں کا موسم بھی ہم پاکستانیوں کے دل لُوٹ لیتا ہے جب کہ لندن کے موسم میں اور پاکستان کے موسم میں بعض سخت مرحلوں کے اور کچھ نہیں ہوتا سبھی موسم برابر ہی رہتے ہیں ۔ گرمی سردی میں فرق ضرور ہوتا ہے لیکن پاکستانی دونوں موسم جھیل جاتے ہیں اور بخیریت دوسرے موسم میں داخل ہو جاتے ہیں ۔ لندن میں موسم جیسا بھی ہو وہ پاکستانیوں کے لیے قابل ِ فخر ہے کہ اس کا تعلق لندن سے ہے وہ لندن جس کا ایک چکر لگانے والے کو بھی لندن پلٹ کہا جاتا اور وہ اپنے نام کے ساتھ لندن کا ذکر کرتا تھا۔ یہ ہماری غلامی کے زمانے کی باتیں ہیں جب لندن شہر کا ایک چکر بھی قابل ِ فخر تھا اور ایک آدمی کی گویا ''ذات'' ہی بدل دیتا تھا۔ ہمارے شاعر نے سچ کہا ہے کہ غلامی میں بدل جاتا ہے غلاموں کا ضمیر اور مزاج۔
شکر ہے کہ ہم نے لندن اس زمانے میں دیکھا جب لندن اور ہم سب بدل چکے تھے اور لندن کا رُعب وہ نہیں رہا تھا جو کئی برس شروع میں رہا ہے بلکہ یہ شہر اب ایک پاکستانی شہر تھا جس میں ایک بڑی آبادی اُردو اور کوئی دوسری پاکستانی زبان بولتی تھی۔ ہم لندن میں رہ کر بھی پاکستانی تھے اور سوائے لباس کے چال ڈھال اور میل جول میں پاکستانی تھے۔
میں نے لندن میں پاکستانی عاشق اور معشوق بھی دیکھے اور معشوقوں کی ایک بڑی تعداد کو اس خواہش میں بے تاب دیکھا ہے کہ کوئی پاکستانی اسے پاکستان لے جائے اور اسے چند دن ہی سہی لندن کی اس مصنوعی فضاء سے نکال لے اور ان لوگوں میں لے جائے جو اوریجنل لوگ ہیں اور جیسے دکھائی دیتے ہیں اندر سے بھی ویسے ہی ہیں لیکن وقت کے ساتھ ماحول اتنا بدل چکا ہے کہ اب آپ تو بدل سکتے ہیں ماحول کو نہیں بدل سکتے اس لیے اب آپ اپنے خوابوں کے ماحول کو رفتہ رفتہ بھولنے کی کوشش کریں اور واپس چلیں اس ماحول میں جہاں سے آئے تھے اور جو آپ کی رگ و روپ میں سرائت کر چکا ہے۔ اب آپ اسے اپنے اندر سے نکال نہیں سکتے اور کوئی نفسیاتی عمل اور طریقہ ایسا ایجاد نہیں ہوا جو اس دنیا کو بدل سکے اور پرانے پاکستانیوں کو نیا رنگ و روغن دے سکے۔ پرانا پُرانا ہی ہے اور اس کی قدامت میں ایک زندہ حُسن ہے جو قدرت نے اسے عطا کیا ہے۔ یہ حُسن آپ اپنی مصنوعی کوششوں سے بدل نہیں سکتے بلکہ عقلمندی اسی میں ہے کہ آپ اس کے ساتھ مصالحت کر لیں اور دونوں ملک جل کر نئی زندگی بسر کریں جس کو کامیاب بنانا ہی آپ کی اصل کامیابی ہے۔ اب یا تو اس نئی زندگی کو خیر باد کہہ دیں یا پھر اسے قبول کر لیں۔
وہ پاکستانی جو لندن یا کسی بیرون ملک میں بس گئے ہیں وہاں محاذ آرائی میں کامیاب نہیں رہ سکتے انھیں نیا ماحول اور کلچر اپنانا ہوتا ہے اور ان کی مستقبل کی زندگی کی کامیابی اسی میں ہے۔ قطع نظر اس کے انھیں اصل میں کیا پسند ہے اور لندن یا پردیس میں بیٹھ کر کیا چاہتے ہیں، انھیں وہیں کچھ کرنا ہو گا جو لندن والے کرتے ہیں کیونکہ انھوں نے خود ہی لندنی زندگی اختیار کی ہے اور اس کو پسند کیا ہے ۔یہ لندن کو تو نہیں بدل سکتے اور نہ ہی انگریزوں کو لیکن ہمارے لوگوں کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ ہم حالات کو ایک نیا رخ دے سکیں اور نئی دنیا دکھا سکیں خواہ وہ ہماری اپنی پرانی زندگی ہی کیوں نہ ہو، اب بھی کروڑوں انسان یہی پرانی زندگی گزار رہے ہیں۔
اس سال گرمیوں کے آغاز میں ہی ماہ رمضان کی آمد اپنی برکتوں کے ساتھ ہوئی جو عبادت گزاروں میں ایک نعمت ثابت ہوتا ہے اور جن کو توفیق ہوتی ہے وہ ہر سال اس مقدس ماہ میں حجاز مقدس کے لیے عازم سفر ہوتے ہیں تا کہ براہ راست مکہ مدینہ جا کر اپنی بخشش کا سامان کر سکیں ۔اس طرح کے سفر میں اپنا ہی مزہ ہے اور اپنے اس سفر کے دوران دل کھول کر خرچ کیا جاتا ہے کہ رمضان میں کیے گئے خرچ کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا۔ سخی دل کے ساتھ اخراجات کیے جاتے ہیں اور افطاریاں کرائی جاتی ہیں تا کہ دوسروں کے ثواب میں بھی شامل ہوا جا سکے جب کوئی اور آپ کو اپنی نیک کمائی میں سے کچھ دیتا ہے تو وہ گویا نیکی کرتا ہے اپنے اور اپنے خاندان کے لیے کیونکہ آپ کا جس سر زمین کا سفر ہوتا ہے وہاں جانا ہی ایک نیکی ہے جو قسمت والوں کو ملتی ہے۔ ماہ رمضان میں عید الفطر کے موقع پر آپ اپنے دوستوں کے لیے جو بھی تحائف خرید کر لاتے ہیں وہ گویا نیکی اور سلامتی کا تحفہ ہوتا ہے جو آپ کی نیک کمائی سے ملتا ہے لیکن جب پہلی بار میں نے ایک غیر مسلمان ملک یہ تحفہ خریدا تو مجھے شدید تعجب ہوا اور کیوں نہ ہوتا کہ ایک غیر مسلم ملک میں اِن کے تہواروں کے موقع پر چیزیں سستی کر دی جاتی ہیں اور ہم جیسے بھی ان تہواروں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی خریداری کی تسکین کا سامان کر لیتے ہیں۔
میرے گوروں کے دیس کے سفر میں شہر لندن تھا جو اُن دنوں تحفوں سے بھرا ہوا تھا میں نے اپنے میزبان سے کہا کہ میرے ساتھ چلیں شاپنگ کرتے ہیں۔ وہ میری کمزوری سمجھتے تھے کہ میری طرح ایک تارک وطن پاکستانی تھے، انھوں نے کہا کہ ابھی نہیں کچھ وقت ٹھہر جائیں لیکن میں ان تحفوں کو قابو کرنے میں بے تاب تھا، بہرکیف میزبان کے اصرار پر تحفوں کی شاپنگ ملتوی کر دی اور بعد میں پتہ چلا کہ ہمارے لندنی دوست کا فیصلہ ہی درست تھا، کچھ وقفے کے بعد یہ چیزیں مزید سستی ہو گئیں اور مزید بچت ہونی شروع ہو گئی اور تحفے تحائف زیادہ جمع ہو گئے۔ معلوم ہو ا کہ یہاں کے رواج کے مطابق آپ تہواروں کے موقع پر خریداری کریں تو اس میں کافی منافع اور بچت ہو جاتی ہے جب کہ ہمارے ہاں اس کے اُلٹ ہوتا ہے اور تحفے زیادہ مہنگے ہو جاتے ہیں ۔ جتنے تحفے خریدنے کا ارادہ تھا اس رقم میں اس سے کہیں زیادہ کام بن گیا ۔ عید کی آمد آمد ہے اورتحفوں کا موسم ایک بار پھرسر پر ہے لیکن افسوس کہ یہاں پاکستان میں دکاندار لندن والے دکانداروں کی طرح فراغ دل نہیں ہیں اور اب تحفوں کی خریداری آسان نہیں رہی۔
ہم پاکستانیوں کے لیے لندن ایک عجوبہ شہر ہے جہاں کا موسم بھی ہم پاکستانیوں کے دل لُوٹ لیتا ہے جب کہ لندن کے موسم میں اور پاکستان کے موسم میں بعض سخت مرحلوں کے اور کچھ نہیں ہوتا سبھی موسم برابر ہی رہتے ہیں ۔ گرمی سردی میں فرق ضرور ہوتا ہے لیکن پاکستانی دونوں موسم جھیل جاتے ہیں اور بخیریت دوسرے موسم میں داخل ہو جاتے ہیں ۔ لندن میں موسم جیسا بھی ہو وہ پاکستانیوں کے لیے قابل ِ فخر ہے کہ اس کا تعلق لندن سے ہے وہ لندن جس کا ایک چکر لگانے والے کو بھی لندن پلٹ کہا جاتا اور وہ اپنے نام کے ساتھ لندن کا ذکر کرتا تھا۔ یہ ہماری غلامی کے زمانے کی باتیں ہیں جب لندن شہر کا ایک چکر بھی قابل ِ فخر تھا اور ایک آدمی کی گویا ''ذات'' ہی بدل دیتا تھا۔ ہمارے شاعر نے سچ کہا ہے کہ غلامی میں بدل جاتا ہے غلاموں کا ضمیر اور مزاج۔
شکر ہے کہ ہم نے لندن اس زمانے میں دیکھا جب لندن اور ہم سب بدل چکے تھے اور لندن کا رُعب وہ نہیں رہا تھا جو کئی برس شروع میں رہا ہے بلکہ یہ شہر اب ایک پاکستانی شہر تھا جس میں ایک بڑی آبادی اُردو اور کوئی دوسری پاکستانی زبان بولتی تھی۔ ہم لندن میں رہ کر بھی پاکستانی تھے اور سوائے لباس کے چال ڈھال اور میل جول میں پاکستانی تھے۔
میں نے لندن میں پاکستانی عاشق اور معشوق بھی دیکھے اور معشوقوں کی ایک بڑی تعداد کو اس خواہش میں بے تاب دیکھا ہے کہ کوئی پاکستانی اسے پاکستان لے جائے اور اسے چند دن ہی سہی لندن کی اس مصنوعی فضاء سے نکال لے اور ان لوگوں میں لے جائے جو اوریجنل لوگ ہیں اور جیسے دکھائی دیتے ہیں اندر سے بھی ویسے ہی ہیں لیکن وقت کے ساتھ ماحول اتنا بدل چکا ہے کہ اب آپ تو بدل سکتے ہیں ماحول کو نہیں بدل سکتے اس لیے اب آپ اپنے خوابوں کے ماحول کو رفتہ رفتہ بھولنے کی کوشش کریں اور واپس چلیں اس ماحول میں جہاں سے آئے تھے اور جو آپ کی رگ و روپ میں سرائت کر چکا ہے۔ اب آپ اسے اپنے اندر سے نکال نہیں سکتے اور کوئی نفسیاتی عمل اور طریقہ ایسا ایجاد نہیں ہوا جو اس دنیا کو بدل سکے اور پرانے پاکستانیوں کو نیا رنگ و روغن دے سکے۔ پرانا پُرانا ہی ہے اور اس کی قدامت میں ایک زندہ حُسن ہے جو قدرت نے اسے عطا کیا ہے۔ یہ حُسن آپ اپنی مصنوعی کوششوں سے بدل نہیں سکتے بلکہ عقلمندی اسی میں ہے کہ آپ اس کے ساتھ مصالحت کر لیں اور دونوں ملک جل کر نئی زندگی بسر کریں جس کو کامیاب بنانا ہی آپ کی اصل کامیابی ہے۔ اب یا تو اس نئی زندگی کو خیر باد کہہ دیں یا پھر اسے قبول کر لیں۔
وہ پاکستانی جو لندن یا کسی بیرون ملک میں بس گئے ہیں وہاں محاذ آرائی میں کامیاب نہیں رہ سکتے انھیں نیا ماحول اور کلچر اپنانا ہوتا ہے اور ان کی مستقبل کی زندگی کی کامیابی اسی میں ہے۔ قطع نظر اس کے انھیں اصل میں کیا پسند ہے اور لندن یا پردیس میں بیٹھ کر کیا چاہتے ہیں، انھیں وہیں کچھ کرنا ہو گا جو لندن والے کرتے ہیں کیونکہ انھوں نے خود ہی لندنی زندگی اختیار کی ہے اور اس کو پسند کیا ہے ۔یہ لندن کو تو نہیں بدل سکتے اور نہ ہی انگریزوں کو لیکن ہمارے لوگوں کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ ہم حالات کو ایک نیا رخ دے سکیں اور نئی دنیا دکھا سکیں خواہ وہ ہماری اپنی پرانی زندگی ہی کیوں نہ ہو، اب بھی کروڑوں انسان یہی پرانی زندگی گزار رہے ہیں۔