حکایتیں

ڈاکٹر این میری شمل جرمنی سے آکر استنبول میں ایک یونیورسٹی میں پڑھا رہی تھیں

آج کسی کتاب کا ذکر نہیں ہے، کتابوں میں لکھنے والوں نے جو لکھا ہے اس کا ذکر ہے۔ لکھنے والے معروف اور غیر معروف دونوں ہیں۔ انسانی فطرت کے کتنے ہی پہلو ہیں، کچھ ان حکایتوں میں نظر آتے ہیں۔

ایک دفعہ ایک بندر اور ایک کتا ساتھ ساتھ کہیں جا رہے تھے۔ راستے میں ایک ٹیلہ آگیا۔ بندر اس پر چڑھ گیا اور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے لگا۔ کتے نے پوچھا ''یہ کیا کررہے ہو؟'' وہ بولا ''یہ ایک قبرستان ہے جس میں کئی شیر اور چیتے دفن ہیں۔ یہ سب میرے نوکر تھے،کوئی باورچی تھا،کوئی دھوبی،کوئی بیرا،کوئی جھاڑو دینے والا۔ میں ان پر فاتحہ پڑھ رہا ہوں۔'' کتا کہنے لگا ''کاش یہ زندہ ہوتے اور تم ان کے سامنے یہ بات کہتے۔''

مولانا عبدالمجید سالک بتاتے ہیں کہ مولانا ابوالکلام آزاد اپنے بے تکلف دوستوں میں بیٹھتے تو لطیفہ کہنے اور سننے کو ہر وقت تیار رہتے۔ ایک دن نینی جیل، الٰہ آباد میں اپنی اسیری کے حالات سنارہے تھے۔کہنے لگے ''میری کوٹھری کے عین سامنے ایک کوٹھری میں کوئی چینی قیدی رہتا تھا۔ زبان کی بیگانگی کی وجہ سے ہم آپس میں بات چیت نہیں کرسکتے تھے، ایک دوسرے کا منہ دیکھ کر ہی رہ جاتے تھے۔اس چینی کو یہ معلوم نہ تھا کہ میں کس جرم میں قید ہوا ہوں، غالباً سوچتا رہتا ہوگا۔ آخر ایک دن اس سے رہا نہ گیا۔ مجھے مخاطب کرکے میرے سامنے ہاتھ لہرانے لگا یعنی یہاں کس لیے آئے ہو؟ میں کیا جواب دیتا۔ خاموش رہا تو اس نے پوچھا ''اوپیم'' یعنی افیم کے معاملے میں پکڑے گئے ہو؟ میں نے نفی میں سر ہلادیا تو اس نے اپنے ہاتھ کو گلے پر چھری کی طرح پھیرا۔ یعنی کسی کو قتل کیا ہے؟ میں نے پھر سر ہلادیا۔ آخراس نے پوچھا ''گاندھی؟'' میں نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ بالکل مطمئن ہوگیا گویا گاندھی بھی ناجائزافیم اور قتل کی طرح جرائم میں داخل ہے۔

ابو نواس عربی زبان کا مشہور شاعر تھا، اس کا کلام طلبا کے نصاب میں شامل تھا۔ ایک دن وہ اپنے کسی دوست سے ملنے اس کے گھرگیا۔ راستے میں ایک مدرسہ پڑا جہاں کوئی استاد طلبا کو شاعری پڑھا رہا تھا۔ اتفاق سے اس وقت ابو نواس ہی کی ایک غزل پڑھائی جارہی تھی۔ ابو نواس قصداً مدرسے کی دیوار سے لگ کرکھڑا ہوگیا کہ دیکھوں استاد میرے اشعارکا مطلب کیا بتاتا ہے۔ اس وقت ابو نواس کا ایک شعر زیر بحث تھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ شاعرساقی سے کہہ رہا ہے کہ مجھے شراب دے اور یہ کہہ کردے کہ ''لے شراب لے۔'' استاد نے طلبا سے اس شعرکی یہ تشریح کی کہ جب شاعر جام شراب دیکھے گا تو اس کی قوت باصرہ (دیکھنے کی طاقت) کو لطف آئے گا، جب وہ جام ہاتھ میں لے گا تو اس کی قوت لامسہ (چھونے کی طاقت) کو لطف آئے گا، پھر جب جام ناک کے قریب آئے گا تو قوت شامہ (سونگھنے کی طاقت) کو لطف آئے گا اور جب جام منہ سے لگا کر شراب پیے گا تو قوت ذائقہ کو لطف آئے گا لیکن اس کی قوت سامعہ یعنی سننے کی طاقت لطف سے محروم رہے گی، لہٰذا شاعر ساقی سے کہتا ہے تو اپنی زبان سے بھی کہہ کہ ''لے شراب لے'' تاکہ میرے کانوں کو بھی لطف آئے۔

اپنے شعرکی یہ تشریح سنتے ہی ابو نواس بے اختیار مدرسے میں داخل ہوکر استاد سے لپٹ گیا اورکہنے لگا، ''واللہ! یہ پہلو تو میں نے خود بھی نہیں سوچا تھا۔''

عربی کے مشہور ادیب وشاعر حافظ سے کسی نے پوچھا کہ تمہاری جیسی بری شکل وصورت ہے کیا اس پر تمہیں کبھی بہت ملال ہوا ہے؟ اس نے کہا، ہاں۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ میں کہیں جا رہا تھا، ایک گلی میں داخل ہوا تو سامنے سے ایک عورت آتی نظر آئی۔اس کا پورا جسم لباس میں ملبوس تھا صرف آنکھیں نظرآرہی تھیں۔ میں مسحور ہوکر رہ گیا۔ اس نے بھی مجھے بہت غور سے دیکھا اورآگے بڑھ گئی، پھر فوراً پلٹی اور جس طرف سے آئی تھی اس طرف واپس جاتے ہوئے مجھے اشارہ کیا کہ میں اس کے پیچھے پیچھے آؤں۔ میں اس کی آنکھوں کے حسن سے ایسا متاثر تھا کہ فوراً اس کے پیچھے ہولیا۔ وہ کچھ دور چل کر ایک طرف مڑی اور ایک دروازے کے سامنے جاکر رک گئی۔


اس کے دستک دیتے ہی دروازہ کھلا اور ایک شخص سامنے آیا۔ عورت نے میری طرف اشارہ کرکے اس شخص سے کہا ''ھٰذا'' (اس جیسا) اور چل دی۔ اس شخص نے مجھے گھرکے اندرآنے کی دعوت دی۔ میں اندرگیا تو دیکھا کہ وہ ایک مصورکا نگارخانہ ہے۔ میری کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ کہاں تو میں ایک حسین عورت کی توجہ کا مرکز بننے پر اپنے آپ کو مبارکباد دے رہا تھا اور اب حیران کھڑا تھا۔ میں نے اس شخص سے پوچھا ''یہ سب کیا معاملہ ہے؟'' وہ کہنے لگا، ''یہ عورت میرے پاس آئی۔ میں ایک نامور مصور ہوں۔ اس نے مجھ سے کہا کہ مجھے شیطان کی تصویر بنادو۔ میں حیران ہو کر کہا ''میں نے تو شیطان کو کبھی دیکھا نہیں۔ میں اس کی تصویرکیسے بنادوں؟'' وہ مصر ہوئی مگر میں کیا کرتا۔ وہ چلی گئی اور اب تمہیں لے کر میرے پاس آئی ہے اور جوکہہ گئی ہے وہ تم نے سن لیا۔'' حافظ بدصورت تھا مگر اس میں حس مزاح بہت تھی۔

ڈاکٹر این میری شمل جرمنی سے آکر استنبول میں ایک یونیورسٹی میں پڑھا رہی تھیں۔ یہ ان کی نوجوانی کا زمانہ تھا۔ انھوں نے اپنے جرمن دوستوں سے کہا کہ وہ مولانا روم کے مزارکی زیارت کے لیے قونیہ جانا چاہتی ہیں اور وہ ان کے ساتھ چلیں۔ انھوں نے پرجوش طریقے سے حامی بھر لی لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ فی الوقت وہ بعض اہم مصروفیات کی وجہ قونیہ نہیں جاسکتے۔ پھر ڈاکٹر شمل نے اپنے ترکی دوستوں سے ان کے ساتھ قونیہ جانے کوکہا۔ انھوں نے بھی حامی بھرلی لیکن استنبول میں اپنی مصروفیات بیان کرتے ہوئے اس وقت قونیہ جانے سے معذرت کرلی۔ مایوس ہوکر ڈاکٹر شمل نے اپنی ایک ترک خاتون دوست سے شکایتاً ذکرکیا کہ کس طرح ان کے دوستوں نے قونیہ تک ان کے ساتھ جانے سے معذرت کرلی۔ شمل کی ترک دوست نے انھیں تسلی دیتے ہوئے کہا ''مائی ڈیئر! وجہ صاف ظاہر ہے۔ حضرت مولانا ان لوگوں سے ملنا نہیں چاہتے۔ وہ صرف تم سے ملنا چاہتے ہیں۔''

اس کے بعد ڈاکٹر شمل تنہا ہی استنبول سے قونیہ گئیں اور مزار رومی پر حاضری دی۔

محمد عوفی نے اپنی کتاب میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ ایک شخص ابوحنیفہ کے پاس آیا اور شکایت کی کہ اس نے کسی جگہ مال دفن کیا تھا، اب وہ جگہ اسے یاد نہیں آتی۔ حضرت ابو حنیفہ نے فرمایا، یہ کوئی فقہی سوال نہیں ہے جس کا میں حل نکالوں۔ اچھا ایسا کرو کہ جاؤ اور آج تمام رات نفلیں پڑھتے رہو۔ صبح تک انشا اللہ تمہیں یاد آجائے گا کہ تم نے اپنا مال کہاں دفن کیا تھا۔ اس شخص نے ایسا ہی کیا۔ ابھی چوتھائی رات ہی گزری تھی کہ اس کو وہ جگہ یاد آگئی۔ اس نے نوافل پڑھنے ختم کردیے۔ صبح کو وہ ابو حنیفہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور انھیں یہ بتایا۔

ابوحنیفہؒ نے فرمایا ''میں سمجھتا تھا کہ شیطان تجھے نوافل نہیں پڑھنے دے گا اور تجھے وہ جگہ یاد دلادے گا، مگر نیک بخت، تو نے کیوں نہ اللہ عزوجل کا شکر ادا کرنے میں بقیہ رات نوافل پڑھنے میں گزاری''۔

ایک بادشاہ کو ایک سخت مہم درپیش تھی۔ اس نے منت مانی کہ اگر اس میں کامیابی ہوگئی تو میں اس قدر رقم زاہدوں کو نذر کروں گا۔ جب بادشاہ کی مراد پوری ہوگئی تو اس نے اپنے عہد کے مطابق اشرفیوں کی تھیلی غلام کو دی کہ اسے زاہدوں کو دے آئے۔ غلام بہت ہوشیار تھا۔ سارا دن وہ ادھر ادھر پھر کر شام کو تھیلی ہاتھ میں لیے جیسا گیا تھا، ویسا ہی واپس آگیا، اور بادشاہ سے عرض کیا کہ ''حضور! ہر چند ڈھونڈا مگرکوئی زاہد نہیں ملا۔'' بادشاہ نے کہا ''تو کیا بکتا ہے۔ میرے نزدیک اس شہر میں چار سو سے کم زاہد نہ ہوں گے۔'' غلام نے عرض کیا ''حضور! جو زاہد ہیں وہ تو لیتے نہیں اور جو لیتے ہیں وہ زاہد نہیں۔''
Load Next Story