درخت لگاؤ گرمی بھگاؤ
اب ہمارے پاس خود کو روز بروز بڑھتی گرمی اور فضائی آلودگی سے بچانے کا ایک ہی ذریعہ بچتا ہے
گزرے سینتالیس، اڑتالیس بے ثمر بے مہر برسوں میں ہم اپنا بہت کچھ اپنے ہاتھوں گنوا بیٹھے۔ قومی سطح پہ ہم اپنا آدھا ملک، باقی بچے ملک کی صنعتی، تجارتی اور تعلیمی ترقی، معاشرتی وشہری ڈسپلن، ملکی اداروں میں کام کرنے کی عادت، قوموں میں اپنی عزت اور نجانے کیا کیا، ہم تو جیسے سبھی کچھ کھو بیٹھے۔ شخصی سطح پہ ہم حرام حلال، جائزناجائز، اچھے برے، کھرے کھوٹے کی تمیز، راست بازی، ایمانداری، صبروتحمل، تہذیب آداب، انسانیت آدمیت، یہاں تک کہ ہم تو اپنا درختوں سے رشتہ بھی دورکہیں جہالت کے امڈتے دریا میں ڈبو آئے۔
ہم نے اتنا کچھ جوکھو کے پایا تو یہ پایا کہ جرمنی جیسے ملک کو امداد دینے اور ملائیشیا، سنگاپور اور جنوبی کوریا جیسے ملکوں کے لیے ترقی کی مثال بننے والا ہمارا وہ سینہ تانے، سر اٹھائے آگے بڑھتا، جوان رعنا سا ہمارا وہ تاباں و توانا ملک قرضوں کے بوجھ تلے ہانپتا کانپتا، کرپشن کے کینسر کے آخری اسٹیج پہ پہنچتا، اندر سے کھوکھلا، ہمہ وقت کشکول اٹھایا، عمرگزیدہ، کمر خمیدہ ایسا خبط الحواس سا قوموں کے چوپال میں ہر دم تماشا ارزاں سا بن گیا۔ غیروں سے زیادہ اپنوں کے دیے زخموں سے چور اس ملک میں ہم اپنی اپنی شخصی حیثیت میں انسانوں والی صفات سے تہی داماں جو ہوئے تو ہمارا معاشرہ وحشتوں کا وہ جنگل بن گیا جہاں ہر جانور دوسرے جانور کو نوچ کھانے کو پھرے سرکرداں۔ باقی بچا تھا ہمارا قدرتی ماحول تو اسے پودوں، پیڑوں اور درختوں سے ہماری گھٹتی دوستی اور بڑھتی دشمنی نے جلتا، جھلستا جہنم بنانا شروع کردیا ہے کسی اور کے لیے نہیں بلکہ خود ہمارے لیے۔
ہم اس دنیا میں ہی جس دہکتے جہنم کی طرف خود کو سرپٹ دھکیلے جا رہے ہیں اس کا ایک نظارہ ہمیں اس سال 28 مئی کو دیکھنے کو ملا جب ہمارے شہر تربت میں درجہ حرارت 53.5 ڈگری سینٹی گریڈ کو جا پہنچا۔ یہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مئی کے مہینے میں ریکارڈ ہونے والا گرم ترین درجہ حرارت تھا۔ آپ اس ایک مثال سے ہی بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان دنیا میں تیزی سے گرم ہونے والی جگہوں میں شامل ہے۔ ہمارے ہاں نہ صرف موسم گرم ہو رہا ہے بلکہ گرم موسم کی طوالت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے مثلاً آپ اسی سال اپریل میں پڑنے والی گرمی کو ہی لے لیجیے۔ اب یہ سارا مسئلہ ہمارے لیے کچھ اور بھی سنگین اس لیے بھی ہے کہ ہمارا ملک پاکستان جنوبی ایشیا میں واقع ہے جو دنیا میں موسمی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والا حساس ترین خطہ ہے ( ریفرنس 2010ء میپل کرافٹ کلائمٹ چینج ولنرابیلٹی انڈیکس)۔ اس کے سادہ لفظوں میں معنی یہ ہوئے کہ ہمیں سیلابوں، طوفانوں، خشک سالی اور بڑھتی سطح سمندر کے بڑھتے خطروں کا سامنا ہے۔
چنانچہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس ساری صورتحال میں کیا کر رہے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ ہم اس ساری صورتحال کو اپنے لیے خراب سے خراب تر بنا رہے ہیں مثلاً جہاں ساری دنیا کوئلے سے چلنے والے بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹ بند کر رہی ہے جیسے کہ ہمارے دوست ملک چین کا دارالحکومت بیجنگ جہاں اس سال مارچ میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والا آخری پاور پلانٹ Huangneng بیجنگ تھرمل پاور پلانٹ بھی بند کردیا گیا۔ صرف بیجنگ کے ہی چارکوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹ کے بند ہونے سے ہر سال ایک کروڑ ٹن کوئلے کے آلودہ ذرات فضا میں شامل نہیں ہوسکیں گے۔ ہمارے ہاں وہاں حکومت کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹ لگا رہی ہے وہ بھی ہماری زرخیز ترین زمینوں پہ۔
اب ہمارے پاس خود کو روز بروز بڑھتی گرمی اور فضائی آلودگی سے بچانے کا ایک ہی ذریعہ بچتا ہے اور وہ ہے درخت لگانا زیادہ سے زیادہ درخت لگانا۔ خیبرپختونخوا کو چھوڑ کر جہاں صوبائی حکومت نے بڑے پیمانے پہ شجرکاری کی ہے باقی ملک میں حال کچھ اچھا نہیں مثلاً پچھلے نو سالوں میں جہاں لاوارث کراچی کو ہر طرح سے لوٹا اور برباد کیا گیا وہیں اس کے پارکوں اور درختوں کا بھی بڑے پیمانے پر صفایا کردیا گیا حتیٰ کہ صوبائی حکومت کے زیر کنٹرول کراچی کا سب سے بڑا بن قاسم پارک کاغذات میں ہر سال کروڑوں کے فنڈز رکھے جانے کے باوجود اجاڑ بیابان بن گیا۔ اب کراچی کے اختیارات اور فنڈز سے محروم میئر نے کراچی میں بڑے پیمانے پر شجرکاری مہم کا آغاز کیا ہے جس کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ نہ صرف ہزاروں درخت لگائے جائیں گے بلکہ یہ کراچی کے مقامی مثلاً نیم، پیپل، جنگل جلیبی، جامن اور گل مہر جیسے درخت ہوں گے۔
پچھلے سال 25 جولائی سے DHA نے بھی WWF کے اشتراک سے DHA کراچی میں پچیس ہزار درخت لگانے کا اعلان کیا تھا جو نجانے کہاں لگے یا لگے تو شاید 1980ء کی دہائی میں کراچی کے سمندر میں لگائے جانے والے DHA کے ڈی سیلی نیشن پلانٹ کی طرح لگے کہ جس سے آج تک ڈی ایچ اے کے شہریوں کو پانی نہیں فراہم کیا جاسکا اور لوگ مکمل طور پر واٹر ٹینکر مافیا کے محتاج ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ کراچی کے شہریوں پہ سرکاری ملازمتوں اور سرکاری فنڈز کے دروازے سختی سے بند رکھنے والی صوبائی حکومت سے یہ امید رکھنا کہ وہ اپنی دائمی اتحادی جماعت سے تعلق رکھنے والے کراچی کے میئر کو اس شہر میں درخت لگانے میں مالی اور لاجسٹک سپورٹ دے گی اس حکومت سے صریحاً ناانصافی ہوگی۔ میئر کراچی البتہ مقامی کمپنیوں، مقامی این جی اوز، کاروباری اور مخیر شخصیات سے اس سلسلے میں مدد کی اپیل کرسکتے ہیں۔ یہ لازمی ہوگا کہ جناب میئر کے الیکٹرک، پی ٹی سی ایل اور سندھ حکومت کے زیر کنٹرول کرپشن سے تباہ شدہ واٹر بورڈ سے ان کی زمین کے اوپر اور زمین کے نیچے واقع تنصیبات مثلاً تاروں اور پائپ لائنوں کی تفصیلات کی روشنی میں شجرکاری کریں تاکہ یہ ادارے بعد میں اپنی تنصیبات کی نام نہاد حفاظت کے بہانے درخت کاٹ کر نہ پھینک سکیں۔
پاکستان کا میڈیا بھی شجرکاری کا شعور پیدا کرنے کے لیے اپنے خبرناموں کی ہیڈ لائنز میں اگر اس موضوع کو اتنی ہی جگہ دے دے جتنی وہ روز نئی بھارتی فلموں کی مفت تشہیر اور بھارتی فلمی اداکاروں کی مصروفیات کی ''خبروں'' کو دیتا ہے تو یقینا نہ صرف کراچی بلکہ باقی ملک میں بھی لوگ درخت لگانے پہ مائل ہو سکتے ہیں۔ اور یہ لوگ، عام لوگ ہی ہیں جو چاہیں تو ملک کا ہر شہر ہرا بھرا ہوسکتا ہے۔ حکمراں طبقے کا لوٹ کا مال، جائیدادیں، کاروبار، اولادیں، دبئی، لندن، نیویارک وغیرہ میں ہیں، انھیں کیا پرواہ کہ اس ملک کا قدرتی ماحول جہنم بن جائے، یہ ملک ان کے لیے مال بنانے کی جگہ ہے البتہ عام پاکستانی جنھیں اور جن کی اولادوں کو یہاں رہنا ہے انھی کو درخت لگانے ہوں گے۔
عام پاکستانیوں کو خود ہی یہ مہم چلانی ہوگی کہ درخت لگاؤ گرمی بھگاؤ، درخت لگاؤ آلودگی مٹاؤ، درخت لگاؤ بیماریاں گھٹاؤ، درخت لگاؤ ماحول بچاؤ، درخت لگاؤ اپنے گھر محلے خوبصورت بناؤ، درخت لگاؤ ثواب جاریہ کماؤ۔
تو درخت لگائیے اور درخت لگاتے وقت یہ خاص خیال رکھیے کہ یہ مقامی درخت ہوں کیونکہ غیر مقامی درختوں کے فائدے کم نقصان زیادہ ہیں۔ درخت لگائیے، اپنی دنیا اور آخرت دونوں سنواریے۔
ہم نے اتنا کچھ جوکھو کے پایا تو یہ پایا کہ جرمنی جیسے ملک کو امداد دینے اور ملائیشیا، سنگاپور اور جنوبی کوریا جیسے ملکوں کے لیے ترقی کی مثال بننے والا ہمارا وہ سینہ تانے، سر اٹھائے آگے بڑھتا، جوان رعنا سا ہمارا وہ تاباں و توانا ملک قرضوں کے بوجھ تلے ہانپتا کانپتا، کرپشن کے کینسر کے آخری اسٹیج پہ پہنچتا، اندر سے کھوکھلا، ہمہ وقت کشکول اٹھایا، عمرگزیدہ، کمر خمیدہ ایسا خبط الحواس سا قوموں کے چوپال میں ہر دم تماشا ارزاں سا بن گیا۔ غیروں سے زیادہ اپنوں کے دیے زخموں سے چور اس ملک میں ہم اپنی اپنی شخصی حیثیت میں انسانوں والی صفات سے تہی داماں جو ہوئے تو ہمارا معاشرہ وحشتوں کا وہ جنگل بن گیا جہاں ہر جانور دوسرے جانور کو نوچ کھانے کو پھرے سرکرداں۔ باقی بچا تھا ہمارا قدرتی ماحول تو اسے پودوں، پیڑوں اور درختوں سے ہماری گھٹتی دوستی اور بڑھتی دشمنی نے جلتا، جھلستا جہنم بنانا شروع کردیا ہے کسی اور کے لیے نہیں بلکہ خود ہمارے لیے۔
ہم اس دنیا میں ہی جس دہکتے جہنم کی طرف خود کو سرپٹ دھکیلے جا رہے ہیں اس کا ایک نظارہ ہمیں اس سال 28 مئی کو دیکھنے کو ملا جب ہمارے شہر تربت میں درجہ حرارت 53.5 ڈگری سینٹی گریڈ کو جا پہنچا۔ یہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مئی کے مہینے میں ریکارڈ ہونے والا گرم ترین درجہ حرارت تھا۔ آپ اس ایک مثال سے ہی بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان دنیا میں تیزی سے گرم ہونے والی جگہوں میں شامل ہے۔ ہمارے ہاں نہ صرف موسم گرم ہو رہا ہے بلکہ گرم موسم کی طوالت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے مثلاً آپ اسی سال اپریل میں پڑنے والی گرمی کو ہی لے لیجیے۔ اب یہ سارا مسئلہ ہمارے لیے کچھ اور بھی سنگین اس لیے بھی ہے کہ ہمارا ملک پاکستان جنوبی ایشیا میں واقع ہے جو دنیا میں موسمی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والا حساس ترین خطہ ہے ( ریفرنس 2010ء میپل کرافٹ کلائمٹ چینج ولنرابیلٹی انڈیکس)۔ اس کے سادہ لفظوں میں معنی یہ ہوئے کہ ہمیں سیلابوں، طوفانوں، خشک سالی اور بڑھتی سطح سمندر کے بڑھتے خطروں کا سامنا ہے۔
چنانچہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس ساری صورتحال میں کیا کر رہے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ ہم اس ساری صورتحال کو اپنے لیے خراب سے خراب تر بنا رہے ہیں مثلاً جہاں ساری دنیا کوئلے سے چلنے والے بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹ بند کر رہی ہے جیسے کہ ہمارے دوست ملک چین کا دارالحکومت بیجنگ جہاں اس سال مارچ میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والا آخری پاور پلانٹ Huangneng بیجنگ تھرمل پاور پلانٹ بھی بند کردیا گیا۔ صرف بیجنگ کے ہی چارکوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹ کے بند ہونے سے ہر سال ایک کروڑ ٹن کوئلے کے آلودہ ذرات فضا میں شامل نہیں ہوسکیں گے۔ ہمارے ہاں وہاں حکومت کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹ لگا رہی ہے وہ بھی ہماری زرخیز ترین زمینوں پہ۔
اب ہمارے پاس خود کو روز بروز بڑھتی گرمی اور فضائی آلودگی سے بچانے کا ایک ہی ذریعہ بچتا ہے اور وہ ہے درخت لگانا زیادہ سے زیادہ درخت لگانا۔ خیبرپختونخوا کو چھوڑ کر جہاں صوبائی حکومت نے بڑے پیمانے پہ شجرکاری کی ہے باقی ملک میں حال کچھ اچھا نہیں مثلاً پچھلے نو سالوں میں جہاں لاوارث کراچی کو ہر طرح سے لوٹا اور برباد کیا گیا وہیں اس کے پارکوں اور درختوں کا بھی بڑے پیمانے پر صفایا کردیا گیا حتیٰ کہ صوبائی حکومت کے زیر کنٹرول کراچی کا سب سے بڑا بن قاسم پارک کاغذات میں ہر سال کروڑوں کے فنڈز رکھے جانے کے باوجود اجاڑ بیابان بن گیا۔ اب کراچی کے اختیارات اور فنڈز سے محروم میئر نے کراچی میں بڑے پیمانے پر شجرکاری مہم کا آغاز کیا ہے جس کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ نہ صرف ہزاروں درخت لگائے جائیں گے بلکہ یہ کراچی کے مقامی مثلاً نیم، پیپل، جنگل جلیبی، جامن اور گل مہر جیسے درخت ہوں گے۔
پچھلے سال 25 جولائی سے DHA نے بھی WWF کے اشتراک سے DHA کراچی میں پچیس ہزار درخت لگانے کا اعلان کیا تھا جو نجانے کہاں لگے یا لگے تو شاید 1980ء کی دہائی میں کراچی کے سمندر میں لگائے جانے والے DHA کے ڈی سیلی نیشن پلانٹ کی طرح لگے کہ جس سے آج تک ڈی ایچ اے کے شہریوں کو پانی نہیں فراہم کیا جاسکا اور لوگ مکمل طور پر واٹر ٹینکر مافیا کے محتاج ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ کراچی کے شہریوں پہ سرکاری ملازمتوں اور سرکاری فنڈز کے دروازے سختی سے بند رکھنے والی صوبائی حکومت سے یہ امید رکھنا کہ وہ اپنی دائمی اتحادی جماعت سے تعلق رکھنے والے کراچی کے میئر کو اس شہر میں درخت لگانے میں مالی اور لاجسٹک سپورٹ دے گی اس حکومت سے صریحاً ناانصافی ہوگی۔ میئر کراچی البتہ مقامی کمپنیوں، مقامی این جی اوز، کاروباری اور مخیر شخصیات سے اس سلسلے میں مدد کی اپیل کرسکتے ہیں۔ یہ لازمی ہوگا کہ جناب میئر کے الیکٹرک، پی ٹی سی ایل اور سندھ حکومت کے زیر کنٹرول کرپشن سے تباہ شدہ واٹر بورڈ سے ان کی زمین کے اوپر اور زمین کے نیچے واقع تنصیبات مثلاً تاروں اور پائپ لائنوں کی تفصیلات کی روشنی میں شجرکاری کریں تاکہ یہ ادارے بعد میں اپنی تنصیبات کی نام نہاد حفاظت کے بہانے درخت کاٹ کر نہ پھینک سکیں۔
پاکستان کا میڈیا بھی شجرکاری کا شعور پیدا کرنے کے لیے اپنے خبرناموں کی ہیڈ لائنز میں اگر اس موضوع کو اتنی ہی جگہ دے دے جتنی وہ روز نئی بھارتی فلموں کی مفت تشہیر اور بھارتی فلمی اداکاروں کی مصروفیات کی ''خبروں'' کو دیتا ہے تو یقینا نہ صرف کراچی بلکہ باقی ملک میں بھی لوگ درخت لگانے پہ مائل ہو سکتے ہیں۔ اور یہ لوگ، عام لوگ ہی ہیں جو چاہیں تو ملک کا ہر شہر ہرا بھرا ہوسکتا ہے۔ حکمراں طبقے کا لوٹ کا مال، جائیدادیں، کاروبار، اولادیں، دبئی، لندن، نیویارک وغیرہ میں ہیں، انھیں کیا پرواہ کہ اس ملک کا قدرتی ماحول جہنم بن جائے، یہ ملک ان کے لیے مال بنانے کی جگہ ہے البتہ عام پاکستانی جنھیں اور جن کی اولادوں کو یہاں رہنا ہے انھی کو درخت لگانے ہوں گے۔
عام پاکستانیوں کو خود ہی یہ مہم چلانی ہوگی کہ درخت لگاؤ گرمی بھگاؤ، درخت لگاؤ آلودگی مٹاؤ، درخت لگاؤ بیماریاں گھٹاؤ، درخت لگاؤ ماحول بچاؤ، درخت لگاؤ اپنے گھر محلے خوبصورت بناؤ، درخت لگاؤ ثواب جاریہ کماؤ۔
تو درخت لگائیے اور درخت لگاتے وقت یہ خاص خیال رکھیے کہ یہ مقامی درخت ہوں کیونکہ غیر مقامی درختوں کے فائدے کم نقصان زیادہ ہیں۔ درخت لگائیے، اپنی دنیا اور آخرت دونوں سنواریے۔