حکومتی قرضوں میں 16کھرب کا اضافہ اسٹیٹ بینک

بجلی پر بھاری سبسڈی کی وجہ سے خسارہ بڑھ گیا،مختلف سرکاری اداروںکی امداد سے 33.8 ارب روپے کا بوجھ پڑا ، اسٹیٹ بینک

بیرونی شعبے کی کارکردگی مثبت رہی، رواں مالی سال میں مجموعی قومی پیدوار 4.3 اور خسارہ جی ڈی پی کے4.7 فیصد تک محدود رکھنے کے اہداف حاصل نہ ہوسکیں گے، سالانہ رپورٹ۔ فوٹو: فائل

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 30جون 2012کو ختم ہونیو الے مالی سال 2011-12 کی معاشی رپورٹ جاری کردی ہے جس کے مطابق جی ڈی پی کی شرح نمو 4.2 فیصد ہدف کے مقابلے میں 3.7 فیصد رہی۔ بجلی پر بھاری مالیت کی سبسڈی کے سبب مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 4 فیصد کے ہدف کے بجائے جی ڈی پی کے 8.5فیصد تک پہنچ گیا۔

حکومت اس سال بھی تحدید قرضہ ایکٹ 2005پر عمل کرتے ہوئے سرکاری قرضوں کو جی ڈی پی کے 60 فیصد تک محدود رکھنے میں ناکام رہی اور ملکی قرضے 16 کھرب روپے (27فیصد) اضافے سے جی ڈی پی کے 62.6 فیصد تک پہنچ گئے۔ سال 2012کے دوران خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں ریلوے، پاکستان اسٹیل اور پی آئی اے کو امداد سے سرکاری خزانے پر 33.8ارب روپے کا بوجھ پڑا۔ افراط زر 11فیصد کے ہدف کے مقابلے میں 9.5 فیصد رہا۔ رواں مالی سال جی ڈی پی کی شرح نمو 4.3فیصد اور مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 4.7 فیصد تک محدود رکھنے کے اہداف بھی حاصل نہیں ہوسکیں گے۔

حقیقی جی ڈی پی گروتھ 3سے 4فیصد تک رہنے کا امکان ہے، افراط زر 8سے 9 فیصد، ترسیلات 14سے 15ارب ڈالر، تجارتی خسارہ 16سے 16.5ارب ڈالر اور مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 6سے 7فیصد رہنے کی توقع ہے۔ سال 2012کے دوران ہدف سے تین گنا بڑھ کر 500 ارب روپے سے زائد کی رقم سبسڈی پر خرچ کی گئی جس میں 391 ارب روپے کی سبسڈی بجلی کے شعبے کا قرض چکانے پر خرچ کیے گئے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت میں مالی سال 12ء میں معمولی سی بہتری دیکھی گئی۔حقیقی جی ڈی پی دوران سال 3.7 فیصد بڑھا جبکہ مالی سال 11ء میں 3.0 فیصد نمو رہی تھی۔

یہ بات بدھ کو جاری کردہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ ''معیشت کی کیفیت 2011-12ء'' میں کہی گئی۔ رپورٹ کے مطابق مالی سال 11ء کے مقابلے میں یہ نمو وسیع البنیاد تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ مالی سال2012 کے دوران غذائی اشیا کی قیمتیں قدرے مستحکم رہی ہیں۔ اسی کی بنا پر مرکزی بینک کو پالیسی ریٹ میں 200 بی پی ایس کم کرنے کا موقع ملا۔ یہ قدم جزواً اس لیے اٹھایا گیا کہ نجی شعبے کی قرض گیری کو بحال کیا جائے اور بینکوں کو نجی بچت کنندگان اور قرض گیروں کے درمیان وساطت (intermediation) کو بہتر بنانے کی ترغیب دی جائے۔




رپورٹ میں کہا گیا کہ بیرونی شعبے کی کارکردگی مثبت رہی کیونکہ ترسیلات اس سال بھی بھرپور رہیں جن سے نہ صرف جاری حسابات کا خسارہ کم کرنے میں مدد ملی بلکہ معاشی سرگرمیوں میں بھی بہتری آئی۔ بحیثیت مجموعی بیرونی شعبہ سال کے آغاز کی نسبت کم تشویشناک ہے۔ زراعت میں لائیواسٹاک اور خریف کی فصلوں کی بنا پر نمو ہوئی لیکن چھوٹی فصلوں میں سیلاب کی وجہ سے کمی آئی۔ سالانہ رپورٹ میں کہا گیا کہ مالی سال 2012 میں بیرونی شعبے کے اصل اعدادوشمار بہتر رہے۔ جاری حسابات کا خسارہ 4.6 ارب ڈالر اور مجموعی فرق 3.3 ارب ڈالر رہا چنانچہ پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر 4.0 ارب ڈالر کم ہوئے جبکہ پہلے 4.4 ارب ڈالر کی پیش گوئی کی گئی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ پاکستان میں سرمایہ کاری کا ماحول بدستور دشوار رہنے کا امکان ہے تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ نشانیہ شرح سود میں 250 بی پی ایس کی حالیہ کٹوتی سے نجی سرمایہ کاری بحال ہوسکتی ہے اور کاروبار کو کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔ یہ امید بھی ہے کہ نیٹو کے رسدی راستے کھل جانے کے بعد اتحادی سپورٹ فنڈز بروقت مہیا ہوجائیں گے۔ اسٹیٹ بینک کو امید ہے کہ مالی سال 2013 ء میں نجکاری (اتصالات) اور تھری جی لائسنسوں کی رقوم بھی مل جائیں گی۔ رپورٹ کے مطابق شرح سود سے متعلق فیصلے کرتے وقت اسٹیٹ بینک بازار مبادلہ پر ممکنہ اثرات کا بغور جائزہ لیتا ہے۔

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اگست اور اکتوبر 2012ء میں ڈسکاؤنٹ ریٹ میں کمی پر بازار مبادلہ کا ردعمل خاصا دھیما تھا۔ تاہم اواخر نومبر 2012ء میں کچھ دباؤ ظاہر ہوا، گو کہ جاری کھاتے میں م س 13ء کے پہلے چار ماہ میں فاضل رقم ریکارڈ کی گئی۔ ہماری رائے میں اس دباؤ کا سبب بین الاقوامی مالی اداروں کو جانے والی خالص رقوم (جولائی تا نومبر مالی سال 2013ء میں 1.5 ارب ڈالر کے لگ بھگ) ہیں۔ اگرچہ ان ادائیگیوں سے بازار مبادلہ براہ راست متاثر نہیں ہوتا تاہم اسٹیٹ بینک کے زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی سے منڈی کے احساسات پر اثر پڑا ہے۔
Load Next Story