لفظ بے معنی زباں گنگ قلم خوف زدہ
اردو ادب میں پہلی بار جاسوسی ادب کو متعارف کرانے کا سہرا ابنِ صفی کے ہی سر بندھتا ہے
BELFAST:
گھر پر کچھ مہمان آئے ہوئے تھے۔ روزہ افطار کرنے کے بعد ہم انھیں ایک قریبی پارک میں لے گئے جہاں کئی ماہ پہلے جانا ہوا تھا اور وہاں کی خوبصورتی و تازگی دیکھ کر بار بار جانے کو جی چاہتا تھا۔
بچّوں کے لیے طرح طرح کے جھولے، کھیل، بہت سارے مصنوعی جانور، رنگارنگ پھول، سبزہ، جاگنگ کے لیے علیحدہ ٹریک، آرام دہ بینچیں، بچوں کا پورشن بالکل الگ تاکہ وہ بڑوں کو ڈسٹرب نہ کر سکیں۔ اکثریت اس پارک میں خواتین اور بچّوں ہی کی ہوتی تھی کیونکہ یہ ایک فیملی پارک تھا اور چھڑوں کو اس میں آنے کی اجازت بالکل نہیں تھی چاہے وہ گروپ کی شکل میں ہوں۔
ہمارے یہ احباب کراچی سے باہر سے تشریف لائے تھے، بچّے بھی ساتھ تھے لیکن ہم ان سب کو لے کر جب اس پارک میں پہنچے تو ہکابکا رہ گئے۔ تمام سبزہ اجڑ چکا تھا، پھولوں کی کیاریوں کا نام و نشان نہ تھا۔ بچّوں کے جھولے ٹوٹ چکے تھے' جانوروں کے خوبصورت ماڈل اپنی اپنی جگہ سے اکھڑے پڑے اپنی قسمت کو رو رہے تھے۔ ایک عجب ویرانی کا منظر تھا۔
جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر، جوس کے خالی ڈبّے، کولڈ ڈرنک کی بوتلیں، چپس کے پیکٹ اور پلاسٹک کی خالی تھیلیاں' ٹوٹی ہوئی بینچیں، صرف دو سلامت رہ گئی تھیں۔ فیملیز کے بجائے چھڑے نوجوان زیادہ نظر آرہے تھے جو بینچوں کے اوپر جوتوں سمیت گروپ کی شکل میں آڑے ترچھے بیٹھے موبائل فون پہ ''لاتعداد ایس ایم ایس'' کرنے میں مصروف تھے۔ ہمارے مہمان حیرت سے کبھی ہمیں اور کبھی پارک کو دیکھ رہے تھے اور ہم دونوں میاں بیوی شرمندگی سے اِدھر ادھر دیکھ رہے تھے کہ یہ چند مہینوں میں ایسی کیا افتاد پڑی کہ ہرا بھرا پارک اجڑ گیا؟
بہرحال دم لینے کے لیے مہمانوں کو خالی بینچ پہ بٹھایا اور انھیں ساری صورتِ حال بتائی تو محترم بزرگ نے انگلی سے اپنی آنکھوں کا پانی صاف کیا اور روہانسے لہجے میں بولے: ''میرے بزرگوں نے بھی پاکستان بڑی محنت سے بنایا تھا۔ محبت کے درخت لگائے تھے، الفت کی نہریں نکالی تھیں، پیار کا سبزہ لگایا تھا لیکن افسوس کہ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے اور خودغرضی کی دیمک نے میرے پیارے وطن کا بھی یہی حال کر دیا ہے جو اس وقت اس پارک کا ہے۔
میرے وطن کو بنانے والے بھی اس کی ابتر صورت حال دیکھ کر اسی طرح دل برداشتہ ہیں جیسا کہ اس وقت اس چھوٹے سے پارک کی تباہی سے تم دونوں میاں بیوی ہو رہے ہو۔''
میں واقعی بہت دل برداشتہ تھی کہ میرے مہمان نے جو کچھ کہا تھا سو فیصد درست تھا۔ یہ سانحہ کسی ایک پارک کا نہ تھا یہ تو پورے ملک پہ آیا ہوا عذاب ہے۔ بدقسمتی سے ہم سب اپنے اپنے ذاتی فائدوں کے حصول میں الجھے ہوئے ہیں۔
حکمرانوں، لیڈروں اور سیاست دانوں نے اس ملک کو محض چراگاہ اور شکارگاہ سمجھا، خواہ عوامی حکومت ہو یا فوجی سب کا ایجنڈا ایک ہی کہ ''کھائو اور کھائو... اور خوب کھائو'' کسی نے وردی اور بوٹ کے ساتھ کھایا اور ساتھ میں نفرتوں کی آبیاری بھی کی اور کسی نے تھری پیس سوٹ اور شلوار قمیص پہن کر کھایا۔ چہروں کی رعونت اور تکبّر نے عام آدمی سے دور کر دیا کہ ویسے بھی اس ملک کی گندی سیاست کے سمندر میں صاف پانی کی مچھلیاں مر جاتی ہیں۔
گندگی، گندگی کو بڑھاوا دیتی ہے اسی لیے بہت جلد پھیلتی ہے۔ جب تک اقتدار سے باہر ہوتے ہیں، عوام کی خدمت کرنے کے لیے پاگل ہو رہے ہوتے ہیں۔ عوام کے ذکر کے بغیر لقمہ نہیں توڑتے، راتوں کو نیند نہیں آتی لیکن جونہی اقتدار ملتا ہے ساری غلاظت، ساری برائیاں پچھلی حکومت کے کھاتے میں ڈال کر خود بھی وہی کرنے لگتے ہیں جو ان کے پیش رو کر رہے تھے۔ بس عوام کا لفظ یا تو ووٹ لینے کے لیے استعمال ہوا یا پھر ''جمہوریت'' کی بقا کے لیے عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح ٹرکوں میں بھر کر لائے اور نعرے لگوا دیے۔
بدلے میں روٹی، پانی، کچھ نقد اور بڑے شہروں کی سیر مفت! لیکن ہزار افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ سیاست دانوں نے تو ہمیشہ اپنے ذاتی اغراض کی خاطر لوگوں کو مذہب، زبان، مسلک، صوبوں اور برادریوں کی بِنا پہ لڑایا ہے اور انھیں حسب ضرورت ٹشو پیپر کی طرح استعمال بھی کیا ہے... لیکن ہم پڑھے لکھے اور قلم کار لوگوں نے تو بھی اپنی ذمے داریاں ایمان داری سے نہیں نبھائیں۔
ہم بھی تو ٹشو پیپر بن گئے۔ بعض خواتین و حضرات کسی ''بڑے'' کے فیض سے اینکر پرسن بن گئے۔ میزبان، مبصر اور تجزیہ کار اور کالم نگار بن گئے۔ ہم میں سے ہی کچھ نے (ن) لیگ کی طرف قبلہ کر لیا۔ کچھ نے پیپلز پارٹی کی تعریف لکھنا مقدر بنا لیا۔ خود لکھنا نہ آیا تو پیسے کے بل بوتے پر دوسروں سے لکھوا کر چھپوا دیا البتہ تصویر اپنی ہی لگوائی لوگوں نے پھر بھی پہچان لیا۔
تو ہم نے جو سارے زمانے کو سدھارنے کا ٹھیکہ لیا ہے تو کبھی اپنے بارے میں بھی سوچا ہے کہ ہم خود اپنے قلم سے کتنے مخلص ہیں؟ قلم کی حرمت ماضی کی بات ہوگئی... جو چند گنے چنے قلم کار بچے ہیں وہ سراسر خسارے میں ہیں، البتہ ایک احساس تفاخر ضرور ہے کہ وہ بک نہیں سکے، انھوں نے قلم کا سودا نہیں کیا۔ بے شک پیسہ بہت کچھ ہوتا ہے لیکن سب کچھ نہیں ہوتا۔ آج بھی ایسے دیوانے ہیں جو نیک نامی کو دولت پر ترجیح دیتے ہیں۔
چلتے چلتے ایک اچھی کتاب کا ذکر کرنا چاہوں گی۔ راشد اشرف نہایت وسیع المطالعہ اور صاحبِ ذوق نوجوان ہیں۔ ان کی کتابوں اور مطالعے سے دلچسپی اور دوستی دیکھ کر ان کی لمبی عمر کی دعا کرنے کو جی چاہتا ہے۔ راشد ویسے تو انجینئر ہیں لیکن ابنِ صفی پر ان کی کتاب ''کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا'' ایک قابلِ قدر تصنیف ہے۔ ابنِ صفی سے میرے والد کا ملنا جلنا الٰہ آباد سے تھا۔ وہ میرے والد کے عقیدت مندوں میں سے تھے۔
اردو ادب میں پہلی بار جاسوسی ادب کو متعارف کرانے کا سہرا ابنِ صفی کے ہی سر بندھتا ہے جب کہ بہت سے صاحبِ مطالعہ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ شرلاک ہومز اور ڈاکٹر واٹسن کے کرداروں کو ابنِ صفی نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔
چلیے یہ بات اگر صحیح بھی ہے، تب بھی جاسوسی ادب میں اوّلیت کا تاج انھی کے سر رہے گا۔ راشد اشرف نے بڑی محنت سے وہ تمام مضامین جمع کیے ہیں جو ہر طرح سے ابنِ صفی کی شخصیت اور فن کا احاطہ کرتے ہیں۔ ابنِ صفی نے الٰہ آباد میں 1952 سے ناول لکھنے کی ابتدا کی تھی۔ اس کے بعد وہ پاکستان چلے آئے۔ یہاں ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ان کی نئی کتاب آنے پر لوگ قطار میں کھڑے ہو کر کتاب خریدا کرتے تھے۔
یہ اس کراچی میں ہوتا تھا جہاں کتاب خرید کر پڑھی جاتی تھی اور پھر ایک کے بعد دوسرے تک پہنچتی رہتی تھی۔ راشد اشرف بلاشبہ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ایک بھلا دی جانے والی شخصیت کو دوبارہ اپنی کتاب کے ذریعے زندہ کر دیا۔ اس کے علاوہ دو اور اعلیٰ پائے کی کتابوں کا بھی ذکر کروں گی۔ یہ دونوں کتابیں معروف ادیب اور محقق عقیل عباس جعفری کی ہیں۔ پہلی کتاب ہے ''جناح، رتّی اور میں'' اس میں قائد اعظم کے ذاتی دوست کانجی دوارکا داس کی یادداشتیں ہیں جو انھوں نے قائد اعظم اور ان کی اہلیہ رتّی جناح کی ذاتی اور نجی زندگی سے متعلق لکھی ہے۔
دوسری کتاب ہے ''شاہد احمد دہلوی، مضامین موسیقی'' جس میں شاہد صاحب کے وہ تمام مضامین شامل ہیں جو انھوں نے فنِ موسیقی پر تحریر کیے۔ یہ مضامین برصغیر کے مختلف جراید میں بکھرے پڑے تھے جنھیں عقیل صاحب نے بڑی جانفشانی سے یکجا کرکے شایع کیا ہے۔ دونوں کتابیں علمی و ادبی نوعیت کی ہیں جنھیں ہر لائبریری اور ہر بڑے تعلیمی ادارے میں ہونا چاہیے۔ عقیل عباس کی ایک اور معرکۃ الآرا تصنیف ''کرانیکل پاکستان'' پہلے ہی زبردست پذیرائی حاصل کر چکی ہے لیکن ''رتی، جناح اور میں'' تحقیق کے کچھ نئے دروازے کھولتی ہے۔
گھر پر کچھ مہمان آئے ہوئے تھے۔ روزہ افطار کرنے کے بعد ہم انھیں ایک قریبی پارک میں لے گئے جہاں کئی ماہ پہلے جانا ہوا تھا اور وہاں کی خوبصورتی و تازگی دیکھ کر بار بار جانے کو جی چاہتا تھا۔
بچّوں کے لیے طرح طرح کے جھولے، کھیل، بہت سارے مصنوعی جانور، رنگارنگ پھول، سبزہ، جاگنگ کے لیے علیحدہ ٹریک، آرام دہ بینچیں، بچوں کا پورشن بالکل الگ تاکہ وہ بڑوں کو ڈسٹرب نہ کر سکیں۔ اکثریت اس پارک میں خواتین اور بچّوں ہی کی ہوتی تھی کیونکہ یہ ایک فیملی پارک تھا اور چھڑوں کو اس میں آنے کی اجازت بالکل نہیں تھی چاہے وہ گروپ کی شکل میں ہوں۔
ہمارے یہ احباب کراچی سے باہر سے تشریف لائے تھے، بچّے بھی ساتھ تھے لیکن ہم ان سب کو لے کر جب اس پارک میں پہنچے تو ہکابکا رہ گئے۔ تمام سبزہ اجڑ چکا تھا، پھولوں کی کیاریوں کا نام و نشان نہ تھا۔ بچّوں کے جھولے ٹوٹ چکے تھے' جانوروں کے خوبصورت ماڈل اپنی اپنی جگہ سے اکھڑے پڑے اپنی قسمت کو رو رہے تھے۔ ایک عجب ویرانی کا منظر تھا۔
جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر، جوس کے خالی ڈبّے، کولڈ ڈرنک کی بوتلیں، چپس کے پیکٹ اور پلاسٹک کی خالی تھیلیاں' ٹوٹی ہوئی بینچیں، صرف دو سلامت رہ گئی تھیں۔ فیملیز کے بجائے چھڑے نوجوان زیادہ نظر آرہے تھے جو بینچوں کے اوپر جوتوں سمیت گروپ کی شکل میں آڑے ترچھے بیٹھے موبائل فون پہ ''لاتعداد ایس ایم ایس'' کرنے میں مصروف تھے۔ ہمارے مہمان حیرت سے کبھی ہمیں اور کبھی پارک کو دیکھ رہے تھے اور ہم دونوں میاں بیوی شرمندگی سے اِدھر ادھر دیکھ رہے تھے کہ یہ چند مہینوں میں ایسی کیا افتاد پڑی کہ ہرا بھرا پارک اجڑ گیا؟
بہرحال دم لینے کے لیے مہمانوں کو خالی بینچ پہ بٹھایا اور انھیں ساری صورتِ حال بتائی تو محترم بزرگ نے انگلی سے اپنی آنکھوں کا پانی صاف کیا اور روہانسے لہجے میں بولے: ''میرے بزرگوں نے بھی پاکستان بڑی محنت سے بنایا تھا۔ محبت کے درخت لگائے تھے، الفت کی نہریں نکالی تھیں، پیار کا سبزہ لگایا تھا لیکن افسوس کہ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے اور خودغرضی کی دیمک نے میرے پیارے وطن کا بھی یہی حال کر دیا ہے جو اس وقت اس پارک کا ہے۔
میرے وطن کو بنانے والے بھی اس کی ابتر صورت حال دیکھ کر اسی طرح دل برداشتہ ہیں جیسا کہ اس وقت اس چھوٹے سے پارک کی تباہی سے تم دونوں میاں بیوی ہو رہے ہو۔''
میں واقعی بہت دل برداشتہ تھی کہ میرے مہمان نے جو کچھ کہا تھا سو فیصد درست تھا۔ یہ سانحہ کسی ایک پارک کا نہ تھا یہ تو پورے ملک پہ آیا ہوا عذاب ہے۔ بدقسمتی سے ہم سب اپنے اپنے ذاتی فائدوں کے حصول میں الجھے ہوئے ہیں۔
حکمرانوں، لیڈروں اور سیاست دانوں نے اس ملک کو محض چراگاہ اور شکارگاہ سمجھا، خواہ عوامی حکومت ہو یا فوجی سب کا ایجنڈا ایک ہی کہ ''کھائو اور کھائو... اور خوب کھائو'' کسی نے وردی اور بوٹ کے ساتھ کھایا اور ساتھ میں نفرتوں کی آبیاری بھی کی اور کسی نے تھری پیس سوٹ اور شلوار قمیص پہن کر کھایا۔ چہروں کی رعونت اور تکبّر نے عام آدمی سے دور کر دیا کہ ویسے بھی اس ملک کی گندی سیاست کے سمندر میں صاف پانی کی مچھلیاں مر جاتی ہیں۔
گندگی، گندگی کو بڑھاوا دیتی ہے اسی لیے بہت جلد پھیلتی ہے۔ جب تک اقتدار سے باہر ہوتے ہیں، عوام کی خدمت کرنے کے لیے پاگل ہو رہے ہوتے ہیں۔ عوام کے ذکر کے بغیر لقمہ نہیں توڑتے، راتوں کو نیند نہیں آتی لیکن جونہی اقتدار ملتا ہے ساری غلاظت، ساری برائیاں پچھلی حکومت کے کھاتے میں ڈال کر خود بھی وہی کرنے لگتے ہیں جو ان کے پیش رو کر رہے تھے۔ بس عوام کا لفظ یا تو ووٹ لینے کے لیے استعمال ہوا یا پھر ''جمہوریت'' کی بقا کے لیے عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح ٹرکوں میں بھر کر لائے اور نعرے لگوا دیے۔
بدلے میں روٹی، پانی، کچھ نقد اور بڑے شہروں کی سیر مفت! لیکن ہزار افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ سیاست دانوں نے تو ہمیشہ اپنے ذاتی اغراض کی خاطر لوگوں کو مذہب، زبان، مسلک، صوبوں اور برادریوں کی بِنا پہ لڑایا ہے اور انھیں حسب ضرورت ٹشو پیپر کی طرح استعمال بھی کیا ہے... لیکن ہم پڑھے لکھے اور قلم کار لوگوں نے تو بھی اپنی ذمے داریاں ایمان داری سے نہیں نبھائیں۔
ہم بھی تو ٹشو پیپر بن گئے۔ بعض خواتین و حضرات کسی ''بڑے'' کے فیض سے اینکر پرسن بن گئے۔ میزبان، مبصر اور تجزیہ کار اور کالم نگار بن گئے۔ ہم میں سے ہی کچھ نے (ن) لیگ کی طرف قبلہ کر لیا۔ کچھ نے پیپلز پارٹی کی تعریف لکھنا مقدر بنا لیا۔ خود لکھنا نہ آیا تو پیسے کے بل بوتے پر دوسروں سے لکھوا کر چھپوا دیا البتہ تصویر اپنی ہی لگوائی لوگوں نے پھر بھی پہچان لیا۔
تو ہم نے جو سارے زمانے کو سدھارنے کا ٹھیکہ لیا ہے تو کبھی اپنے بارے میں بھی سوچا ہے کہ ہم خود اپنے قلم سے کتنے مخلص ہیں؟ قلم کی حرمت ماضی کی بات ہوگئی... جو چند گنے چنے قلم کار بچے ہیں وہ سراسر خسارے میں ہیں، البتہ ایک احساس تفاخر ضرور ہے کہ وہ بک نہیں سکے، انھوں نے قلم کا سودا نہیں کیا۔ بے شک پیسہ بہت کچھ ہوتا ہے لیکن سب کچھ نہیں ہوتا۔ آج بھی ایسے دیوانے ہیں جو نیک نامی کو دولت پر ترجیح دیتے ہیں۔
چلتے چلتے ایک اچھی کتاب کا ذکر کرنا چاہوں گی۔ راشد اشرف نہایت وسیع المطالعہ اور صاحبِ ذوق نوجوان ہیں۔ ان کی کتابوں اور مطالعے سے دلچسپی اور دوستی دیکھ کر ان کی لمبی عمر کی دعا کرنے کو جی چاہتا ہے۔ راشد ویسے تو انجینئر ہیں لیکن ابنِ صفی پر ان کی کتاب ''کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا'' ایک قابلِ قدر تصنیف ہے۔ ابنِ صفی سے میرے والد کا ملنا جلنا الٰہ آباد سے تھا۔ وہ میرے والد کے عقیدت مندوں میں سے تھے۔
اردو ادب میں پہلی بار جاسوسی ادب کو متعارف کرانے کا سہرا ابنِ صفی کے ہی سر بندھتا ہے جب کہ بہت سے صاحبِ مطالعہ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ شرلاک ہومز اور ڈاکٹر واٹسن کے کرداروں کو ابنِ صفی نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔
چلیے یہ بات اگر صحیح بھی ہے، تب بھی جاسوسی ادب میں اوّلیت کا تاج انھی کے سر رہے گا۔ راشد اشرف نے بڑی محنت سے وہ تمام مضامین جمع کیے ہیں جو ہر طرح سے ابنِ صفی کی شخصیت اور فن کا احاطہ کرتے ہیں۔ ابنِ صفی نے الٰہ آباد میں 1952 سے ناول لکھنے کی ابتدا کی تھی۔ اس کے بعد وہ پاکستان چلے آئے۔ یہاں ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ان کی نئی کتاب آنے پر لوگ قطار میں کھڑے ہو کر کتاب خریدا کرتے تھے۔
یہ اس کراچی میں ہوتا تھا جہاں کتاب خرید کر پڑھی جاتی تھی اور پھر ایک کے بعد دوسرے تک پہنچتی رہتی تھی۔ راشد اشرف بلاشبہ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ایک بھلا دی جانے والی شخصیت کو دوبارہ اپنی کتاب کے ذریعے زندہ کر دیا۔ اس کے علاوہ دو اور اعلیٰ پائے کی کتابوں کا بھی ذکر کروں گی۔ یہ دونوں کتابیں معروف ادیب اور محقق عقیل عباس جعفری کی ہیں۔ پہلی کتاب ہے ''جناح، رتّی اور میں'' اس میں قائد اعظم کے ذاتی دوست کانجی دوارکا داس کی یادداشتیں ہیں جو انھوں نے قائد اعظم اور ان کی اہلیہ رتّی جناح کی ذاتی اور نجی زندگی سے متعلق لکھی ہے۔
دوسری کتاب ہے ''شاہد احمد دہلوی، مضامین موسیقی'' جس میں شاہد صاحب کے وہ تمام مضامین شامل ہیں جو انھوں نے فنِ موسیقی پر تحریر کیے۔ یہ مضامین برصغیر کے مختلف جراید میں بکھرے پڑے تھے جنھیں عقیل صاحب نے بڑی جانفشانی سے یکجا کرکے شایع کیا ہے۔ دونوں کتابیں علمی و ادبی نوعیت کی ہیں جنھیں ہر لائبریری اور ہر بڑے تعلیمی ادارے میں ہونا چاہیے۔ عقیل عباس کی ایک اور معرکۃ الآرا تصنیف ''کرانیکل پاکستان'' پہلے ہی زبردست پذیرائی حاصل کر چکی ہے لیکن ''رتی، جناح اور میں'' تحقیق کے کچھ نئے دروازے کھولتی ہے۔