مسلم دنیا میں سرد جنگ کا آغاز
مجموعی طور پر سب امریکا نواز حکومتیں ہیں اس دور میں وہاں غلاموں کی منڈی بھی لگتی ہے
ادھر ٹرمپ کا عرب سرزمین کا چھوڑنا تھا کہ عرب دنیا میں سرد جنگ کا آغاز ہوگیا۔ اس بات کا انکشاف امریکا کے ایوان نمایندگان کے خارجہ امورکے رکن مسٹر ڈوما نے کیا کہ ایران پر داعش کا حملہ ایک قسم کی امریکی شہہ پر ہوا۔ اس کے علاوہ جرمنی کے وزیر خارجہ سگمر جبرائیل نے بھی، اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہارکیا۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ ترکی جو پاکستان کا دوست ہے اس نے بھی سعودی سیاسی افکار سے اتفاق نہ کیا اور قطر سے ناتا توڑنے کو غیر ضروری سمجھا جب کہ خلیجی ممالک ایک دوسرے سے گہرے تعلقات رکھتے ہیں۔
یہ تعلقات معاشی اور دیرینہ تعلقات رہے ہیں۔ مصر کے صدر مرسی کے بعد اسرائیل سے گہرے تعلقات ہوگئے ہیں اور جنرل السیسی کی سعودی عرب سے گہری وابستگی ہوچکی ہے۔ اس بات کا انکشاف مشیر المصری جو حماس کے ترجمان ہیں، نے بھی کیا ہے کہ سعودی عرب قطر سے تعلقات ختم کرکے اسرائیل سے روابط بڑھانے کی طرف گامزن ہے اور السیسی کی حکومت سے کافی گہرے تعلقات قائم کرلیے ہیں۔ان روابط کی بدلتی کڑیاں شرق اوسط کی بگڑتی صورتحال کا پتہ دیتی ہیں اور ان سب کا مرکزی کردار ایران ہے۔ بظاہر تو ایسا لگ رہا تھا کہ ایران تنہا ہو جائے گا مگر چونکہ امریکا نے مصرکی جمہوری منتخب حکومت الٹی اور اسرائیل کی مکمل حمایت جاری رکھی تو دنیا میں اس کی پوزیشن واضح ہے۔ اس لیے قطر پر جارحانہ اقدامات میں ناکہ بندی ہے۔ ملک میں عوامی ردعمل سعودی بادشاہت کے خلاف ہوتا جا رہا ہے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ لیبیا کی سعودی تائید نے پوزیشن اور خراب کر دی کیونکہ لیبیا میں بدترین حکومت ہے۔ چند فرلانگ کے بعد دوسری حکومت اور ملک میں تین حکومتیں ہیں دو مقامی حکومتیں ہیں جو دارالسلطنت تک محدود ہیں اور تیسری مصر کے تحت ہے۔ مگر مجموعی طور پر سب امریکا نواز حکومتیں ہیں اس دور میں وہاں غلاموں کی منڈی بھی لگتی ہے جب کہ معمر قذافی کے دور میں غریبوں کی زندگی آسودہ حال تھی اب وہاں تقریباً ہر ہفتے آپس کی جنگیں ہوتی ہیں اور خود کو یہ اسلامی حکومت کہلاتی ہیں۔ سیکڑوں لوگ ہر جنگ میں مرتے ہیں کیونکہ بھاری اسلحہ استعمال ہوتا ہے، یعنی توپ خانے کا استعمال معمول کی بات ہے اور طرابلس پر قبضے کی مہم جاری رہتی ہے، لیکن امریکا ہی وہاں کا اصل حکمران ہے۔
کیونکہ معمر قذافی سے اس نے نجات پالی اور ملک کئی حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے امریکا نے کوشش کی تھی کہ وہ شام کو تہس نہس کر دے مگر نہیں کر پایا، لہٰذا اب دوبارہ وہ نئی جنگ کی تیاری کر رہا ہے اس کی ابتدا ً کسی بھی وقت ہو سکتی ہے۔ داعش کا خاتمہ کرنے مسٹر ٹرمپ اقتدار میں آئے تھے مگر اب وہ انصار اللہ تنظیم کے پیچھے پڑ چکا ہے جس کو عرف عام میں حوثی کہا جاتا ہے۔ گویا عرب دنیا میں فرقہ وارانہ جنگ کی ایک شکل پیدا ہو رہی ہے اور پاکستان کو ایسی جنگ کا رہنما بنایا جا سکتا ہے، مگر حکمران پاکستان نے نہایت غور و فکر سے اس راہ سے بچنے کی ٹھان لی ہے اور وہ خاصی دور ہوچکی ہے۔ امید ہے کہ پاکستان اس جنگ سے فاصلہ کرے گا کیونکہ پاکستان بھارت اور افغانستان سے خاصے مشکل حالات سے گزر رہا ہے اور اب اپنے تیسرے مضبوط ہمسایہ ملک جو قدیم دوست بھی ہے، اس سے جنگی حالات نہیں پیدا کر سکتا، جب کہ گزشتہ چند ہفتے قبل سرحد پر مخدوش حالات پیدا ہو چکے ہیں اور ایرانی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کیا جاچکا ہے۔
اب پاکستان اور روس سی پیک کے اتحادی ہیں اور چین ان کا بنیادی رکن ہے اور یہ دونوں ملک ایران کے اتحادی ہیں اور چین ایرانی تیل کا دنیا میں سب سے بڑا خریدار ہے اور کئی معاہدوں میں ایران سے جکڑا ہوا ہے اور روس ایران سے فوجی معاہدوں میں جکڑا ہوا ہے۔ خصوصاً شام اور امریکا کے مسئلے پر دونوں ایک پراکسی وار بھی لڑ چکے ہیں لہٰذا پاکستان عرب فوجی معاہدوں کو طول دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ درحقیقت قطر گوکہ ایک نہایت چھوٹا ملک ہے اور عرب ملکوں نے اس کا ایک قسم کا گھیراؤ کر رکھا ہے اور بندش کا سامنا ہے مگر قطر بھی بعض فنی معاملات خصوصاً اپنے پڑوسی ملکوں کو برقی سپلائی کا موجب ہے۔ مگر چھوٹا ملک ہونے کے باعث وہ احتیاط سے کام لے رہا ہے۔
اور ترکی نے کھلم کھلا قطر کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور ایران نے بھی قطر کی حمایت میں اپنی سفارتی کاوشیں شروع کردی ہیں۔ ایک اور واضح عندیہ قطر کے وزیر خارجہ کی طرف سے یہ ملا ہے کہ وہ عنقریب روس کا دورہ کریں گے۔ ظاہر ہے خلیج کے کسی ملک کا روس کا یہ اپنی نوعیت کا انوکھا دورہ ہوگا جب کہ روس سے بھی پاکستان کے تعلقات بتدریج مثبت رخ پر بڑھ رہے ہیں۔ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ روس اور پاکستان میں اولین جنگی مشقیں ہوئی ہیں، اب پاکستان اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ یکطرفہ طور پر امریکی رخ پر اپنی سیاسی سرگرمیوں کو آراستہ کرسکے جیساکہ بھارت، سعودی عرب اور اسرائیل کے روابط نئے انداز اختیار کر رہے ہیں۔
اسی لیے پاکستان اپنی خارجہ حکمت عملی کو بالکل نئے سرے سے ترتیب دے رہا ہے تاکہ اندرونی خلفشار میں پاکستان مبتلا نہ ہو۔ بظاہر سعودی کیمپ میں کوئی انتشار نہیں ہے لیکن اندرونی طور پر بحرین اور بعض عرب ممالک کے باشندوں میں فقہی کھینچا تانی شروع ہے جس کی خبریں پریس ٹی وی سے انٹرنیٹ پر بڑھ چڑھ کر آرہی ہیں اور خود سعودی عرب کے بعض علاقوں سے بھی ایسی خبریں آرہی ہیں۔
یہ بڑی خوش آیند بات ہے کہ پاکستان میں فرقہ واریت کا عفریت کسی شکل میں نہیں نمایاں ہو رہا ہے جیساکہ یمن میں بدترین انسانی المیہ رونما ہو رہا ہے۔ بچوں میں غذائی بحران اور خوراک کی کمی سے کئی لاکھ بچے بحران کا شکار ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ قطرکو دہشتگرد ملک قرار دیا جا رہا ہے اور لیبیا کو پرامن ملک۔ آپ خود خیال کریں کہ کیا وجہ ہے کہ قطرکوکیوں دہشتگرد ملک قرار دیا گیا۔ دراصل جب ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب کے تاریخی دورے پر آئے اور وہاں جو ٹرمپ نے تقریر فرمائی اس پر ایک کنونشن میں قطر کے امیر نے چند دنوں بعد ایک حکومتی ادارے کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں ایک تقریر میں کھلم کھلا ایران کی پذیرائی کی اور فرمایا کہ ایک امن پسند ملک ہے اور ایک ہمارا پڑوسی ملک ہے جس نے اپنے کسی پڑوسی ملک پر جارحانہ عزائم نہیں رکھے۔
یہ تقریر مصر اور سعودی عرب کو بہت بری لگی کیونکہ السیسی اور سعودی عرب میں اچھے تعلقات ہیں۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سعودی عرب کوئی جارحانہ عزائم رکھتا ہے درحقیقت ٹرمپ نے اسلحہ فروخت کرنے کے لیے عرب ممالک کی نہایت سنگین، کمزور اور خطرناک تصویر کشی کی جس نے علاقے کی صورتحال کشیدہ تر کردی کیونکہ تمام تر اختلافات کے باوجود ایران اور سعودی تعلقات ایک حد سے زیادہ خراب نہ ہوئے تھے۔ دونوں ممالک میں زیارات اور حجاج کا سلسلہ جاری تھا۔
ترکی کی حالیہ جنگ میں امریکی اسلحہ کی کافی فروخت ہوئی اور اب عراق میں ایک کرد ملک بنانے میں امریکی حکومت کافی دلچسپی لے رہی ہے۔ اسی لیے ترکی نے امریکا کے اس عمل اور PKK (پی کے کے) کی حمایت سے ترکی کے رویے میں اختلاف پیدا ہوگیا ہے اور کرد علاقے میں بھی امریکی اسلحے کا انبار لگ رہا ہے اس لیے ترکی نیٹو کا اہم رکن ہونے کے باوجود امریکا سے فاصلے پیدا ہو رہے ہیں۔ گندم اور سبزیوں کی تجارت بڑے زور و شور سے ہو رہی ہے جب کہ 4 سال قبل ترک روس تعلقات جنگ کے راستے پر چل پڑے تھے۔
موجودہ شرق اوسط کے تناظر میں معلوم ہوگا کہ کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے اور موصل میں داعش کو مزید اسلحہ کون پہنچا رہا ہے کہ پاپولر موبلائزیشن موومنٹ داعش کو موصل سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ کرد علاقے میں اسلحہ پھیل رہا ہے۔ ایران اور سعودی تعلقات میں کشیدگی بڑھتی ہے اور ہمہ وقت یہ احتمال رہتا ہے کہ سرد جنگ اور الفاظ کی تکرار کسی لمحہ جنگ میں نہ بدل جائے اور امریکا نے مصر کی جیتی جاگتی جمہوری حکومت کو انتخاب کی راہ سے دورکردیا ہے اور دنیا خاموش تماشائی ہے کہ جس طرح اس ملک کی جمہوریت کو قتل کیا گیا اس میں امریکی تائید حاصل ہے۔ دنیا کی اتنی بڑی جمہوریت کی علمبردار حکومت جس طرح انسانیت رواداری، جمہوریت، دہشتگردی کے خلاف دنیا کو دھوکا دے رہی ہے، اس سے پاکستان کے عوام اور لیڈروں کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے، ورنہ کبھی بھی کسی ناگہانی آفت کا امکان ہے۔
یہ تعلقات معاشی اور دیرینہ تعلقات رہے ہیں۔ مصر کے صدر مرسی کے بعد اسرائیل سے گہرے تعلقات ہوگئے ہیں اور جنرل السیسی کی سعودی عرب سے گہری وابستگی ہوچکی ہے۔ اس بات کا انکشاف مشیر المصری جو حماس کے ترجمان ہیں، نے بھی کیا ہے کہ سعودی عرب قطر سے تعلقات ختم کرکے اسرائیل سے روابط بڑھانے کی طرف گامزن ہے اور السیسی کی حکومت سے کافی گہرے تعلقات قائم کرلیے ہیں۔ان روابط کی بدلتی کڑیاں شرق اوسط کی بگڑتی صورتحال کا پتہ دیتی ہیں اور ان سب کا مرکزی کردار ایران ہے۔ بظاہر تو ایسا لگ رہا تھا کہ ایران تنہا ہو جائے گا مگر چونکہ امریکا نے مصرکی جمہوری منتخب حکومت الٹی اور اسرائیل کی مکمل حمایت جاری رکھی تو دنیا میں اس کی پوزیشن واضح ہے۔ اس لیے قطر پر جارحانہ اقدامات میں ناکہ بندی ہے۔ ملک میں عوامی ردعمل سعودی بادشاہت کے خلاف ہوتا جا رہا ہے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ لیبیا کی سعودی تائید نے پوزیشن اور خراب کر دی کیونکہ لیبیا میں بدترین حکومت ہے۔ چند فرلانگ کے بعد دوسری حکومت اور ملک میں تین حکومتیں ہیں دو مقامی حکومتیں ہیں جو دارالسلطنت تک محدود ہیں اور تیسری مصر کے تحت ہے۔ مگر مجموعی طور پر سب امریکا نواز حکومتیں ہیں اس دور میں وہاں غلاموں کی منڈی بھی لگتی ہے جب کہ معمر قذافی کے دور میں غریبوں کی زندگی آسودہ حال تھی اب وہاں تقریباً ہر ہفتے آپس کی جنگیں ہوتی ہیں اور خود کو یہ اسلامی حکومت کہلاتی ہیں۔ سیکڑوں لوگ ہر جنگ میں مرتے ہیں کیونکہ بھاری اسلحہ استعمال ہوتا ہے، یعنی توپ خانے کا استعمال معمول کی بات ہے اور طرابلس پر قبضے کی مہم جاری رہتی ہے، لیکن امریکا ہی وہاں کا اصل حکمران ہے۔
کیونکہ معمر قذافی سے اس نے نجات پالی اور ملک کئی حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے امریکا نے کوشش کی تھی کہ وہ شام کو تہس نہس کر دے مگر نہیں کر پایا، لہٰذا اب دوبارہ وہ نئی جنگ کی تیاری کر رہا ہے اس کی ابتدا ً کسی بھی وقت ہو سکتی ہے۔ داعش کا خاتمہ کرنے مسٹر ٹرمپ اقتدار میں آئے تھے مگر اب وہ انصار اللہ تنظیم کے پیچھے پڑ چکا ہے جس کو عرف عام میں حوثی کہا جاتا ہے۔ گویا عرب دنیا میں فرقہ وارانہ جنگ کی ایک شکل پیدا ہو رہی ہے اور پاکستان کو ایسی جنگ کا رہنما بنایا جا سکتا ہے، مگر حکمران پاکستان نے نہایت غور و فکر سے اس راہ سے بچنے کی ٹھان لی ہے اور وہ خاصی دور ہوچکی ہے۔ امید ہے کہ پاکستان اس جنگ سے فاصلہ کرے گا کیونکہ پاکستان بھارت اور افغانستان سے خاصے مشکل حالات سے گزر رہا ہے اور اب اپنے تیسرے مضبوط ہمسایہ ملک جو قدیم دوست بھی ہے، اس سے جنگی حالات نہیں پیدا کر سکتا، جب کہ گزشتہ چند ہفتے قبل سرحد پر مخدوش حالات پیدا ہو چکے ہیں اور ایرانی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کیا جاچکا ہے۔
اب پاکستان اور روس سی پیک کے اتحادی ہیں اور چین ان کا بنیادی رکن ہے اور یہ دونوں ملک ایران کے اتحادی ہیں اور چین ایرانی تیل کا دنیا میں سب سے بڑا خریدار ہے اور کئی معاہدوں میں ایران سے جکڑا ہوا ہے اور روس ایران سے فوجی معاہدوں میں جکڑا ہوا ہے۔ خصوصاً شام اور امریکا کے مسئلے پر دونوں ایک پراکسی وار بھی لڑ چکے ہیں لہٰذا پاکستان عرب فوجی معاہدوں کو طول دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ درحقیقت قطر گوکہ ایک نہایت چھوٹا ملک ہے اور عرب ملکوں نے اس کا ایک قسم کا گھیراؤ کر رکھا ہے اور بندش کا سامنا ہے مگر قطر بھی بعض فنی معاملات خصوصاً اپنے پڑوسی ملکوں کو برقی سپلائی کا موجب ہے۔ مگر چھوٹا ملک ہونے کے باعث وہ احتیاط سے کام لے رہا ہے۔
اور ترکی نے کھلم کھلا قطر کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور ایران نے بھی قطر کی حمایت میں اپنی سفارتی کاوشیں شروع کردی ہیں۔ ایک اور واضح عندیہ قطر کے وزیر خارجہ کی طرف سے یہ ملا ہے کہ وہ عنقریب روس کا دورہ کریں گے۔ ظاہر ہے خلیج کے کسی ملک کا روس کا یہ اپنی نوعیت کا انوکھا دورہ ہوگا جب کہ روس سے بھی پاکستان کے تعلقات بتدریج مثبت رخ پر بڑھ رہے ہیں۔ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ روس اور پاکستان میں اولین جنگی مشقیں ہوئی ہیں، اب پاکستان اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ یکطرفہ طور پر امریکی رخ پر اپنی سیاسی سرگرمیوں کو آراستہ کرسکے جیساکہ بھارت، سعودی عرب اور اسرائیل کے روابط نئے انداز اختیار کر رہے ہیں۔
اسی لیے پاکستان اپنی خارجہ حکمت عملی کو بالکل نئے سرے سے ترتیب دے رہا ہے تاکہ اندرونی خلفشار میں پاکستان مبتلا نہ ہو۔ بظاہر سعودی کیمپ میں کوئی انتشار نہیں ہے لیکن اندرونی طور پر بحرین اور بعض عرب ممالک کے باشندوں میں فقہی کھینچا تانی شروع ہے جس کی خبریں پریس ٹی وی سے انٹرنیٹ پر بڑھ چڑھ کر آرہی ہیں اور خود سعودی عرب کے بعض علاقوں سے بھی ایسی خبریں آرہی ہیں۔
یہ بڑی خوش آیند بات ہے کہ پاکستان میں فرقہ واریت کا عفریت کسی شکل میں نہیں نمایاں ہو رہا ہے جیساکہ یمن میں بدترین انسانی المیہ رونما ہو رہا ہے۔ بچوں میں غذائی بحران اور خوراک کی کمی سے کئی لاکھ بچے بحران کا شکار ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ قطرکو دہشتگرد ملک قرار دیا جا رہا ہے اور لیبیا کو پرامن ملک۔ آپ خود خیال کریں کہ کیا وجہ ہے کہ قطرکوکیوں دہشتگرد ملک قرار دیا گیا۔ دراصل جب ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب کے تاریخی دورے پر آئے اور وہاں جو ٹرمپ نے تقریر فرمائی اس پر ایک کنونشن میں قطر کے امیر نے چند دنوں بعد ایک حکومتی ادارے کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں ایک تقریر میں کھلم کھلا ایران کی پذیرائی کی اور فرمایا کہ ایک امن پسند ملک ہے اور ایک ہمارا پڑوسی ملک ہے جس نے اپنے کسی پڑوسی ملک پر جارحانہ عزائم نہیں رکھے۔
یہ تقریر مصر اور سعودی عرب کو بہت بری لگی کیونکہ السیسی اور سعودی عرب میں اچھے تعلقات ہیں۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سعودی عرب کوئی جارحانہ عزائم رکھتا ہے درحقیقت ٹرمپ نے اسلحہ فروخت کرنے کے لیے عرب ممالک کی نہایت سنگین، کمزور اور خطرناک تصویر کشی کی جس نے علاقے کی صورتحال کشیدہ تر کردی کیونکہ تمام تر اختلافات کے باوجود ایران اور سعودی تعلقات ایک حد سے زیادہ خراب نہ ہوئے تھے۔ دونوں ممالک میں زیارات اور حجاج کا سلسلہ جاری تھا۔
ترکی کی حالیہ جنگ میں امریکی اسلحہ کی کافی فروخت ہوئی اور اب عراق میں ایک کرد ملک بنانے میں امریکی حکومت کافی دلچسپی لے رہی ہے۔ اسی لیے ترکی نے امریکا کے اس عمل اور PKK (پی کے کے) کی حمایت سے ترکی کے رویے میں اختلاف پیدا ہوگیا ہے اور کرد علاقے میں بھی امریکی اسلحے کا انبار لگ رہا ہے اس لیے ترکی نیٹو کا اہم رکن ہونے کے باوجود امریکا سے فاصلے پیدا ہو رہے ہیں۔ گندم اور سبزیوں کی تجارت بڑے زور و شور سے ہو رہی ہے جب کہ 4 سال قبل ترک روس تعلقات جنگ کے راستے پر چل پڑے تھے۔
موجودہ شرق اوسط کے تناظر میں معلوم ہوگا کہ کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے اور موصل میں داعش کو مزید اسلحہ کون پہنچا رہا ہے کہ پاپولر موبلائزیشن موومنٹ داعش کو موصل سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ کرد علاقے میں اسلحہ پھیل رہا ہے۔ ایران اور سعودی تعلقات میں کشیدگی بڑھتی ہے اور ہمہ وقت یہ احتمال رہتا ہے کہ سرد جنگ اور الفاظ کی تکرار کسی لمحہ جنگ میں نہ بدل جائے اور امریکا نے مصر کی جیتی جاگتی جمہوری حکومت کو انتخاب کی راہ سے دورکردیا ہے اور دنیا خاموش تماشائی ہے کہ جس طرح اس ملک کی جمہوریت کو قتل کیا گیا اس میں امریکی تائید حاصل ہے۔ دنیا کی اتنی بڑی جمہوریت کی علمبردار حکومت جس طرح انسانیت رواداری، جمہوریت، دہشتگردی کے خلاف دنیا کو دھوکا دے رہی ہے، اس سے پاکستان کے عوام اور لیڈروں کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے، ورنہ کبھی بھی کسی ناگہانی آفت کا امکان ہے۔