وزیر اعظم نے اپنا فرض ادا کر دیا
پاکستان کے ایک غیر منتخب صدر نے امریکا کا کُھلا ساتھ دے کر جو پایا تھا، وہ ہمارے سامنے ہے۔
پچھلے کچھ دنوں سے عالمِ عرب اور عالمِ اسلام کے دواہم ممالک،سعودی عرب اور قطر، بوجوہ ''متصادم'' ہیں۔ دونوں کی ناراضیاں اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ سعودی عرب نے تو قطر سے سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کیے ہی ہیں،بحرین،متحدہ عرب امارات اور مصر نے بھی قطر سے اپنے تمام ناتے توڑ ڈالے ہیں۔
سعودیہ،بحرین اور متحدہ عرب امارات تو GCCیعنی Gulf Cooperation Councilکے رکنِ رکین ہیں لیکن مصر پر حیرت ہے کہ وہ جی سی سی کا رکن نہ ہونے کے باوجود قطر سے ناتہ توڑ چکا ہے۔ یہ شائد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (UAE)کا دباؤ اور احسانات ہیں جنہوں نے مصری فوجی آمر جنرل سیسی کو مجبور کیا ہے کہ وہ بھی قطر سے منہ موڑ لیں۔یہ دونوں ممالک مصری ''مردِ آہن'' کو اب تک بارہ ارب ڈالر کی بھاری بھر کم مالی امداد فراہم کر چکے ہیں۔ ممتاز امریکی محقق، وائن برگ، کا کہنا ہے کہ یہ امداد امریکا اور یورپی یونین کی طرف سے مصر کو دی جانی والی مجموعی امداد سے بھی تین گُنا زیادہ ہے۔
ایسے میں چاہیے تو یہ تھا کہ مصری فوجی سربراہ آگے بڑھتے اور دونوں ناراض و ''متحارب''مسلمان ممالک کے درمیان صُلح کروا دیتے لیکن وہ ایسا نہ کر سکے۔ اِس افسوسناک پیش منظر میں پاکستان کے وزیر اعظم جناب محمد نواز شریف کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق اور ہمت عطا فرمائی ہے کہ وہ اپنے گھر سے نکلیں اور دونوں مسلمان ممالک میں صُلح کروانے کی مقدور بھر کوشش کریں۔ صُلح کی خاطر ملک سے روانہ ہونے سے پہلے وزیر اعظم نے جی سی سی میں تعینات تمام پاکستانی سفارتکاروں کو اسلام آباد بلایا، اُن سے تازہ ترین حالات پر بریفنگ بھی لی اور آیندہ کے لائحہ عمل کے لیے اُن سب کو نئی ہدایات بھی دیں۔یہ اقدام نہایت ضروری بھی تھا۔
اِس سے فارغ ہوتے ہی نواز شریف تین دن قبل سپہ سالارِ پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ،وزیر خزانہ اسحاق ڈار،مشیرِ امورِ خارجہ سرتاج عزیز اور دیگر اہم افراد پر مشتمل ایک وفد کے ساتھ سعودی عرب گئے اور سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے تفصیلی ملاقات کی۔ ایک مسلمان ہونے کے ناتے، مسلمان ملک کے منتخب منتظمِ اعلیٰ کی حیثیت میں اور عالمِ اسلام کی اکلوتی ایٹمی قوت کے سربراہ ہونے کے تعلق سے نواز شریف نے اپنا اوّلین فرض ادا کر دیا ہے۔ اُنہیں اِس نازک اور حساس مہم میں کسقدر کامیابی ملی ہے، ابھی اس بارے میں کچھ بھی کہنا ممکن نہیں ہے لیکن دینِ اسلام اور اللہ نے اُن پر دو مسلمانوں میں صُلح کروانے کا جو فرض ادا کر رکھا تھا، اس میدان میں وہ اپنی دینی ڈیوٹی ادا کر چکے ہیں۔
وزیراعظم پاکستان کے تازہ ترین دورۂ سعودی عرب کے دوران مجھے سعودی اور خلیجی میڈیا کا مطالعہ کرنے کا بھی موقع ملا ہے(مثال کے طور پر سعودی عرب کے' اخبارات ''عرب نیوز'' اور ''سعودی گزٹ''، قطر کے معروف ٹی وی ''الجزیرہ'' اور متحدہ عرب امارات کے دونوں بڑے اخبارات''گلف نیوز'' اور ''خلیج ٹائمز'' اور قطر کے مشہور اخبار''گلف ٹائمز'' اور ''قطر ٹربیون'')سبھی نے نواز شریف کے اِس صُلح جُویانہ اقدام کی نہ صرف تعریف و تحسین کی ہے۔ پاکستان کے نواز شریف اور کویت کے حکمران الشیخ الصباح ۔ہم اِسی سے بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ''اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لینے'' کا ہمہ وقت درس لینے دینے والے عملی سطح پر کہاں کھڑے ہیں؟
سعودی عرب اور قطر (خدا نخواستہ) جنگی تصادم کے کنارے کھڑے ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ سارے عالمِ اسلام کے جُملہ علمائے دین خاموش کھڑے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ اِس پس منظر میں تو وزیر اعظم نواز شریف کو خصوصی شاباش دینی چاہیے کہ وہ کسی نتیجے کی پرواہ کیے بغیر صُلح کروانے باہر تو نکلے۔ ابھی چند ہفتے قبل سعودی دارالحکومت،ریاض، میں منعقد ہونے والی اہم ترین''عرب،امریکی و اسلامی'' کانفرنس(جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دُولہا بنایا گیا تھا) میں جناب نواز شریف کو سعودی عرب نے دانستہ یا نادانسہ وہ مقام نہیں دیا تھا جس کے وہ مستحق تھے۔
پاکستانی میڈیا میں اِس سعودی سلوک پر شائستگی سے احتجاج بھی کیا گیا تھا۔ مبینہ طور پر سعودیہ نے بعد ازاں ''وقت کی قلت'' کی بنیاد پر نواز شریف صاحب کے خطاب نہ کروانے پر معذرت بھی کی تھی۔ پاکستان اور وزیر اعظم نواز شریف نے اس سلوک کو دل کا روگ بنانے کے بجائے قطر، سعودیہ بحران کو حل کروانے کے لیے اپنی سی سعی کی ہے،حالانکہ وہ خود ذاتی بحرانوں میں گھرے ہُوئے ہیں۔ جناب نواز شریف کے تازہ ترین دَورۂ سعودی عرب کا ایک فوری اور مثبت نتیجہ تو یہ نکلا ہے کہ اُس منفی پروپیگنڈے کا سر قلم کر دیا گیا ہے کہ پاکستان اپنی فوجیں قطر کے تحفظ کے لیے بھجوا رہا ہے۔
اِس منفی اور فسادی پروپیگنڈے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کا سفارتی راستہ کھوٹا کرنے کے لیے کیسی کیسی قوتیں بروئے کار ہیں!!واقعی معنوں میں میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں پاکستان کوسفارتی لحاظ سے ایک تنے ہُوئے رسّے(Diplomaticaly Tight Rope ) پر چلنا پڑ رہا ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے قطر،سعودیہ کو پھر سے برادرانہ محبت کا اسیر بنانے کے لیے جو کوشش کی ہے، وہ پاکستانیوں سمیت سارے عالمِ اسلام کے جُملہ مسلمانوں کے اس درد کی نمایندگی ہے کہ مذکورہ دونوں مسلمان ممالک میں چند غلط فہمیوں کی بنیاد پر جو تنازع اور شکر رنجیاں پیدا ہو گئی ہیں،جَلد از جَلد اُن کا خاتمہ عمل میں لایا جاسکے۔
سعودی بادشاہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے نواز شریف اور اُن کے ساتھ جانے والے اعلیٰ سطح وفد کا اپنے محل میں بھرپور عزت و احترام اور پورے پروٹوکول کے ساتھ استقبال کیا۔ سوال مگر یہ ہے کہ جس مقصد کے حصول کے لیے وزیر اعظم پاکستان سعودیہ تشریف لے گئے تھے،آیا وہ پورا ہو بھی سکا ہے؟ کہا گیا ہے کہ فوری طور پر کوئی ''بریک تھرو'' نہیں ہو سکا۔ اہم بات مگر یہ ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ پاکستان کے سابقہ تجربات(خصوصاً افغان جہاد میں سوویت روس کی جارحیت کے خلاف امریکا کا ساتھ نبھانا اور نائن الیون کے سانحہ کے بعدمقتدر طالبان کے خلاف افغانستان میں امریکی جارحیت کے ساتھ کھڑا ہونا)اور پاکستان کے معاشی تعلقات کا تقاضا ہے کہ وہ اِس قضیئے میں نہ تو سعودی عرب کا ساتھ دے اور نہ ہی قطر کے کندھے کے ساتھ کندھا ملائے۔ یہی دراصل اُمتِ اسلامیہ کے اتحاد و مفادات کا مطالبہ بھی ہے۔
وزیر اعظم پاکستان نے مبینہ طور پر سعودی فرمانروا سے یہی گزارش کرنے کی کوشش کی ہے۔شنید ہے کہ وہاں سے ہمارے وزیراعظم سے کہا گیا ہے کہ ''آپ ہمارا ساتھ دیں گے یا قطرکا؟۔'' اگر واقعی ایسا ہی کہا گیا ہے کہ تو اِسے مناسب نہیں کہا جاسکتا ۔ایسے الفاظ تو نائن الیون کے بعد، افغانستان پر حملہ کرنے سے قبل، امریکی صدر (جارج ڈبلیو بُش) اور اُن کے ڈپٹی سیکریٹری آف سٹیٹ (رچرڈ آرمٹیج)نے بھی پاکستانی فوجی صدر (جنرل پرویز مشرف) سے کہے تھے۔بُش نے مشرف کو مخاطب کرتے ہُوئے کہا تھا:You are with us or against us?اور آرمٹیج نے ہمارے اُس وقت کے حکمران سے کہا تھا:Pakistan would need to be with us or against us. For Americans this was seen as black and white.
پاکستان کے ایک غیر منتخب صدر نے امریکا کا کُھلا ساتھ دے کر جو پایا تھا، وہ ہمارے سامنے ہے۔ اب پاکستان کے منتخب وزیر اعظم سے نسبتاً بہتر فیصلے کی اُمید ہے۔اُمید ہے نواز شریف اِس امتحان میں پورا اُتریں گے۔گزشتہ روز وزیر اعظم پاکستان جس اسلوب میں جے آئی ٹی کے سامنے خندہ پیشانی کے ساتھ پیش ہُوئے ہیں،لاریب اِس عمل نے پاکستان میں جمہوریت اور اصولوں کی سیاست کو مستحکم بھی کیا ہے اور اِس منظر نے دنیا بھر کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک مستحسن رُخ سے بھی روشناس کروایا ہے۔ اِس کا کریڈٹ بِلا شبہ جناب نواز شریف کو جاتا ہے جنہوں نے عدالتِ عظمیٰ کے حکم کی بجا آوری میں ریاستی فرض بھی ادا کیا ہے۔
سعودیہ،بحرین اور متحدہ عرب امارات تو GCCیعنی Gulf Cooperation Councilکے رکنِ رکین ہیں لیکن مصر پر حیرت ہے کہ وہ جی سی سی کا رکن نہ ہونے کے باوجود قطر سے ناتہ توڑ چکا ہے۔ یہ شائد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (UAE)کا دباؤ اور احسانات ہیں جنہوں نے مصری فوجی آمر جنرل سیسی کو مجبور کیا ہے کہ وہ بھی قطر سے منہ موڑ لیں۔یہ دونوں ممالک مصری ''مردِ آہن'' کو اب تک بارہ ارب ڈالر کی بھاری بھر کم مالی امداد فراہم کر چکے ہیں۔ ممتاز امریکی محقق، وائن برگ، کا کہنا ہے کہ یہ امداد امریکا اور یورپی یونین کی طرف سے مصر کو دی جانی والی مجموعی امداد سے بھی تین گُنا زیادہ ہے۔
ایسے میں چاہیے تو یہ تھا کہ مصری فوجی سربراہ آگے بڑھتے اور دونوں ناراض و ''متحارب''مسلمان ممالک کے درمیان صُلح کروا دیتے لیکن وہ ایسا نہ کر سکے۔ اِس افسوسناک پیش منظر میں پاکستان کے وزیر اعظم جناب محمد نواز شریف کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق اور ہمت عطا فرمائی ہے کہ وہ اپنے گھر سے نکلیں اور دونوں مسلمان ممالک میں صُلح کروانے کی مقدور بھر کوشش کریں۔ صُلح کی خاطر ملک سے روانہ ہونے سے پہلے وزیر اعظم نے جی سی سی میں تعینات تمام پاکستانی سفارتکاروں کو اسلام آباد بلایا، اُن سے تازہ ترین حالات پر بریفنگ بھی لی اور آیندہ کے لائحہ عمل کے لیے اُن سب کو نئی ہدایات بھی دیں۔یہ اقدام نہایت ضروری بھی تھا۔
اِس سے فارغ ہوتے ہی نواز شریف تین دن قبل سپہ سالارِ پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ،وزیر خزانہ اسحاق ڈار،مشیرِ امورِ خارجہ سرتاج عزیز اور دیگر اہم افراد پر مشتمل ایک وفد کے ساتھ سعودی عرب گئے اور سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے تفصیلی ملاقات کی۔ ایک مسلمان ہونے کے ناتے، مسلمان ملک کے منتخب منتظمِ اعلیٰ کی حیثیت میں اور عالمِ اسلام کی اکلوتی ایٹمی قوت کے سربراہ ہونے کے تعلق سے نواز شریف نے اپنا اوّلین فرض ادا کر دیا ہے۔ اُنہیں اِس نازک اور حساس مہم میں کسقدر کامیابی ملی ہے، ابھی اس بارے میں کچھ بھی کہنا ممکن نہیں ہے لیکن دینِ اسلام اور اللہ نے اُن پر دو مسلمانوں میں صُلح کروانے کا جو فرض ادا کر رکھا تھا، اس میدان میں وہ اپنی دینی ڈیوٹی ادا کر چکے ہیں۔
وزیراعظم پاکستان کے تازہ ترین دورۂ سعودی عرب کے دوران مجھے سعودی اور خلیجی میڈیا کا مطالعہ کرنے کا بھی موقع ملا ہے(مثال کے طور پر سعودی عرب کے' اخبارات ''عرب نیوز'' اور ''سعودی گزٹ''، قطر کے معروف ٹی وی ''الجزیرہ'' اور متحدہ عرب امارات کے دونوں بڑے اخبارات''گلف نیوز'' اور ''خلیج ٹائمز'' اور قطر کے مشہور اخبار''گلف ٹائمز'' اور ''قطر ٹربیون'')سبھی نے نواز شریف کے اِس صُلح جُویانہ اقدام کی نہ صرف تعریف و تحسین کی ہے۔ پاکستان کے نواز شریف اور کویت کے حکمران الشیخ الصباح ۔ہم اِسی سے بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ''اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لینے'' کا ہمہ وقت درس لینے دینے والے عملی سطح پر کہاں کھڑے ہیں؟
سعودی عرب اور قطر (خدا نخواستہ) جنگی تصادم کے کنارے کھڑے ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ سارے عالمِ اسلام کے جُملہ علمائے دین خاموش کھڑے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ اِس پس منظر میں تو وزیر اعظم نواز شریف کو خصوصی شاباش دینی چاہیے کہ وہ کسی نتیجے کی پرواہ کیے بغیر صُلح کروانے باہر تو نکلے۔ ابھی چند ہفتے قبل سعودی دارالحکومت،ریاض، میں منعقد ہونے والی اہم ترین''عرب،امریکی و اسلامی'' کانفرنس(جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دُولہا بنایا گیا تھا) میں جناب نواز شریف کو سعودی عرب نے دانستہ یا نادانسہ وہ مقام نہیں دیا تھا جس کے وہ مستحق تھے۔
پاکستانی میڈیا میں اِس سعودی سلوک پر شائستگی سے احتجاج بھی کیا گیا تھا۔ مبینہ طور پر سعودیہ نے بعد ازاں ''وقت کی قلت'' کی بنیاد پر نواز شریف صاحب کے خطاب نہ کروانے پر معذرت بھی کی تھی۔ پاکستان اور وزیر اعظم نواز شریف نے اس سلوک کو دل کا روگ بنانے کے بجائے قطر، سعودیہ بحران کو حل کروانے کے لیے اپنی سی سعی کی ہے،حالانکہ وہ خود ذاتی بحرانوں میں گھرے ہُوئے ہیں۔ جناب نواز شریف کے تازہ ترین دَورۂ سعودی عرب کا ایک فوری اور مثبت نتیجہ تو یہ نکلا ہے کہ اُس منفی پروپیگنڈے کا سر قلم کر دیا گیا ہے کہ پاکستان اپنی فوجیں قطر کے تحفظ کے لیے بھجوا رہا ہے۔
اِس منفی اور فسادی پروپیگنڈے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کا سفارتی راستہ کھوٹا کرنے کے لیے کیسی کیسی قوتیں بروئے کار ہیں!!واقعی معنوں میں میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں پاکستان کوسفارتی لحاظ سے ایک تنے ہُوئے رسّے(Diplomaticaly Tight Rope ) پر چلنا پڑ رہا ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے قطر،سعودیہ کو پھر سے برادرانہ محبت کا اسیر بنانے کے لیے جو کوشش کی ہے، وہ پاکستانیوں سمیت سارے عالمِ اسلام کے جُملہ مسلمانوں کے اس درد کی نمایندگی ہے کہ مذکورہ دونوں مسلمان ممالک میں چند غلط فہمیوں کی بنیاد پر جو تنازع اور شکر رنجیاں پیدا ہو گئی ہیں،جَلد از جَلد اُن کا خاتمہ عمل میں لایا جاسکے۔
سعودی بادشاہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے نواز شریف اور اُن کے ساتھ جانے والے اعلیٰ سطح وفد کا اپنے محل میں بھرپور عزت و احترام اور پورے پروٹوکول کے ساتھ استقبال کیا۔ سوال مگر یہ ہے کہ جس مقصد کے حصول کے لیے وزیر اعظم پاکستان سعودیہ تشریف لے گئے تھے،آیا وہ پورا ہو بھی سکا ہے؟ کہا گیا ہے کہ فوری طور پر کوئی ''بریک تھرو'' نہیں ہو سکا۔ اہم بات مگر یہ ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ پاکستان کے سابقہ تجربات(خصوصاً افغان جہاد میں سوویت روس کی جارحیت کے خلاف امریکا کا ساتھ نبھانا اور نائن الیون کے سانحہ کے بعدمقتدر طالبان کے خلاف افغانستان میں امریکی جارحیت کے ساتھ کھڑا ہونا)اور پاکستان کے معاشی تعلقات کا تقاضا ہے کہ وہ اِس قضیئے میں نہ تو سعودی عرب کا ساتھ دے اور نہ ہی قطر کے کندھے کے ساتھ کندھا ملائے۔ یہی دراصل اُمتِ اسلامیہ کے اتحاد و مفادات کا مطالبہ بھی ہے۔
وزیر اعظم پاکستان نے مبینہ طور پر سعودی فرمانروا سے یہی گزارش کرنے کی کوشش کی ہے۔شنید ہے کہ وہاں سے ہمارے وزیراعظم سے کہا گیا ہے کہ ''آپ ہمارا ساتھ دیں گے یا قطرکا؟۔'' اگر واقعی ایسا ہی کہا گیا ہے کہ تو اِسے مناسب نہیں کہا جاسکتا ۔ایسے الفاظ تو نائن الیون کے بعد، افغانستان پر حملہ کرنے سے قبل، امریکی صدر (جارج ڈبلیو بُش) اور اُن کے ڈپٹی سیکریٹری آف سٹیٹ (رچرڈ آرمٹیج)نے بھی پاکستانی فوجی صدر (جنرل پرویز مشرف) سے کہے تھے۔بُش نے مشرف کو مخاطب کرتے ہُوئے کہا تھا:You are with us or against us?اور آرمٹیج نے ہمارے اُس وقت کے حکمران سے کہا تھا:Pakistan would need to be with us or against us. For Americans this was seen as black and white.
پاکستان کے ایک غیر منتخب صدر نے امریکا کا کُھلا ساتھ دے کر جو پایا تھا، وہ ہمارے سامنے ہے۔ اب پاکستان کے منتخب وزیر اعظم سے نسبتاً بہتر فیصلے کی اُمید ہے۔اُمید ہے نواز شریف اِس امتحان میں پورا اُتریں گے۔گزشتہ روز وزیر اعظم پاکستان جس اسلوب میں جے آئی ٹی کے سامنے خندہ پیشانی کے ساتھ پیش ہُوئے ہیں،لاریب اِس عمل نے پاکستان میں جمہوریت اور اصولوں کی سیاست کو مستحکم بھی کیا ہے اور اِس منظر نے دنیا بھر کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک مستحسن رُخ سے بھی روشناس کروایا ہے۔ اِس کا کریڈٹ بِلا شبہ جناب نواز شریف کو جاتا ہے جنہوں نے عدالتِ عظمیٰ کے حکم کی بجا آوری میں ریاستی فرض بھی ادا کیا ہے۔