نوادرِ خاص سے نفاذ اردو تک

ہمارے یہاں حکومت تعلیم، صحت اور روزگار کسی بھی ذمے داری کو پورا کرنے پر تیار نہیں۔

najmalam.jafri@gmail.com

ہمارا آج کا اظہاریہ گزشتہ ہفتے لکھے گئے اظہاریے ہی کا حصہ ہے۔گزشتہ ماہ کے آخری عشرے میں ایکسپریس گروپ کی جانب سے 20 اور 21 مئی کو ایک تعلیمی نمائش کا اہتمام کراچی ایکسپوسینٹر میں کیا گیا تھا ۔20 مئی کو مختلف جامعات پر بھرپور معلومات پر مشتمل خصوصی اشاعت کا بھی اہتمام کیا گیا تھا جس میں مختلف جامعات اور تعلیمی اداروں سے متعلق تفصیلی معلومات فراہم کی گئی تھیں۔ ان تمام میں صرف ''سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی'' سے متعلق معلوماتی سارا مواد اردو میں تھا ۔

اس نمائش کا تفصیلی دورہ ہم نے بھی کیا اورہر تعلیمی ادارے کے اسٹال پر عمومی معلومات حاصل کیں۔ تقریباً ہر اہم تعلیمی ادارے کا اسٹال موجود تھا چند اسکولوں کے بھی تھے مگر زیادہ توجہ اعلیٰ تعلیمی اداروں پر رہی۔اسٹال پر موجود افراد بڑی خوش دلی سے مکمل معلومات ازخود بھی فراہم کررہے تھے کتابچہ (بروشر) بھی بڑے سلیقے سے اپنے مخصوص بیگز (تھیلوں) میں دے رہے تھے۔ ابتدا میں ہم نے جس حیرت انگیز صورتحال سے دوچار ہونے کا ذکر کیا وہ دراصل یہ تھی کہ تمام جامعات سائنسی علوم مثلاً طب، انجینئرنگ، مختلف ٹیکنالوجیز،کمپیوٹر سائنس کے علاوہ بطور خاص میڈیا سائنسز کی تعلیم فراہم کر رہی تھیں میڈیا سائنس تو تقریباً ہر ادارے کا اہم شعبہ تھا جب کہ معاشرتی علوم پرکسی کا دھیان نہ تھا سوائے سوشیالوجی کے کیونکہ آج کل سوشل معاشرے میں اس کی کچھ اہمیت ہے۔

ہر جامعہ میں میڈیا سائنسز اورمیڈیا ٹیکنالوجی کا شعبہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہر سال کئی ہزار طلبا اس سے فارغ التحصیل ہوکر مختلف میڈیا چینلزکا رخ کر رہے ہیں اور یقینا ان کو روزگار بھی مل رہا ہوگا، مگرکب تک؟ دوسری جانب جہاں تک میڈیا ٹیکنالوجی کا تعلق ہے تو یہ چینلزکے لیے واقعی مفید ہوں گے مگر جب وہ یہ سمجھ کر کہ ہمارے پاس تو میڈیا سے متعلق ڈگری ہے بطور میزبان، خبر پڑھے یا تجزیہ کرنے کی جانب آتے ہیں تو صورتحال کچھ یوں ہوتی ہے کہ ایک بار بریکنگ نیوز میں ایک نے اطلاع دی کہ گجرانوالہ (یا پنجاب کے کسی اور شہر میں) کے ایک گھر سے آٹھ لاشیں ملی ہیں وجہ موت کا ابھی علم نہیں، پولیس ''تشویش'' کر رہی ہے۔ اب ظاہر ہے جب وہ اپنی پوری تعلیم انگریزی میں حاصل کریں گے اور ان کو اردو میں خبریں پڑھنا یا میزبانی کرنا (اینکر پرسن) پڑے تو قابلیت کے باوجود وہ قومی معیار پر تو پورے نہیں اتر سکتے۔

بے چارے اینکرز کو یہ پتا ہی نہیں کہ ان کا کام کیا ہے اورکیا ہونا چاہیے؟ جب وہ کسی موضوع پرگفتگو کا آغازکرتے ہیں تو پہلے وقفے تک موضوع کو واضح ہی نہیں کرپاتے۔ اپنے مہمانوں سے سوال کرتے ہوئے تقریباً 8 یا 10 منٹ ایک لمبی تقریر کر لینے کے باوجود اس پوری تقریر میں کوئی سوال ہی نہیں ہوتا بے چارا مہمان یا تجزیہ کار حیران کہ آخر کس سوال کا جواب اس کو دینا ہے؟ کوئی ایک صاحب بولنا شروع کریں تو اینکر ان کو موضوع سے ہٹ جانے کے باوجود واپس موضوع پر لانے کے لیے کوئی مناسب طریقہ اختیار کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔

کچھ اینکرز کا انداز یہ ہے کہ سوال توکردیں گے مگر مہمان کو جواب دینے ہی نہیں دیں گے ابھی وہ جواب کی تمہید میں ہی ہوگا تو اینکر فوراً دوسرے مہمان کی جانب اشارہ کرکے ان سے کوئی اگلا سوال یا اسی پہلے سوال پر ان کی رائے لینے لگ جائیں گے اور پھر ناظرین کے سامنے یہ منظر ہوتا ہے کہ دونوں حضرات بلکہ باقی اور بھی جن کو اب تک بولنے کا موقعہ ہی نہیں دیا گیا تھا وہ سب بیک وقت اپنی اپنی رائے پیش کر رہے ہوتے ہیں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ بعض اوقات صورتحال اس قدر بے قابو ہوجاتی ہے کہ مہمان ایک دوسرے سے الجھ پڑتے ہیں اور اینکر صاحب بیٹھے مسکرا رہے ہوتے ہیں۔ بجائے صورتحال کو پرامن رکھنے کے حالات قابو سے باہر ہوجائیں تو وہ بریک پر چلے جاتے ہیں۔ اس سب کا لب لباب یہ ہے کہ ہمارے تقریباً 80 چینلز کے کئی کئی ٹاک شوز میں بمشکل چند کو دراصل اینکر کہا جاسکتا ہے۔


بات جامعات سے چینلز تک پہنچ گئی حالانکہ ہمارا ارادہ یہ تھا کہ واضح کیا جائے کہ تعلیم چاہے کسی بھی سطح کی ہو حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے۔ تمام تعلیمی اداروں میں یکساں نصاب، مختلف شعبوں اور ٹیکنالوجیز میں ملکی ضرورت کے مطابق طلبا کی تعداد ہونا چاہیے اور اس کے لیے یہ منصوبہ بندی ضروری ہے کہ اگلے سال ہمیں کتنے ڈاکٹرز، کتنے انجینئرز، کتنے سائنسدان وغیرہ وغیرہ کی ضرورت ہوگی۔ یہی طریقہ ترقی یافتہ ممالک میں رائج ہے اور پھر ان تمام فارغ التحصیل طلبا کو مختلف اداروں میں کھپانے کے لیے ان اداروں سے کہا جاتا ہے کہ اتنوں کے لیے روزگار کی گنجائش پیدا کریں یا پھر خود ادارے حکومت وقت کو مطلع کرتے ہیں کہ ہمارے پاس اتنے لوگوں کے لیے جگہ ہے۔

ان ہی اعداد و شمار کی روشنی میں جامعات میں داخلوں کی پالیسی مرتب کی جاتی ہے۔ مگر ہمارے یہاں تو یہ ہے کہ جامعات قائم کرلو ایسی ایسی ٹیکنالوجیز کے ساتھ جن کی ملک میں کوئی ضرورت ہو یا نہ ہو بڑے بڑے دعوے ، بھاری فیسیں لے کر کئی سو طلبا کسی بھی شعبے میں داخلہ لے لیں گے اور پھر ڈگری لے کر روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہیں گے۔ جن کی قسمت کچھ ساتھ دے وہ غیرممالک جا کر اس ملک میں اچھی ملازمت بھی حاصل کرتے ہیں اور نام بھی کماتے ہیں اور ساتھ ہی اس ملکی ترقی و خوشحالی میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔

ہمارے یہاں حکومت تعلیم، صحت اور روزگار کسی بھی ذمے داری کو پورا کرنے پر تیار نہیں۔ غیر ملکی جامعات کے کیمپس ملک کے تمام بڑے شہروں میں قائم ہورہے ہیں نجی جامعات کی بھی بھرمار ہے۔ جن کا اپنا نظام تعلیم اپنا اپنا نصاب ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔

اب بات آتی ہے نفاذ اردو کی تو اگر چند سر پھرے اس خوش فہمی میں مبتلا ہوکر اس کے لیے کوشش کررہے ہیں تو اللہ ہی ہے جو وہ اس میں کامیاب ہوجائیں ، ورنہ امید تو ایک صدی تک نفاذ اردو کی بلکہ دور دور تک نظر نہیں آتی۔ انجمن ترقی اردو کے پرخلوص افراد کی انتھک کوشش سے وفاقی جامعہ اردو تشکیل تو پاگئی مگر اس کا حال بھی ہم عرض کرچکے ہیں۔ جب تک ابتدائی درجوں سے اردوکو ذریعہ تعلیم نہیں بنایا جاتا تو جامعات کی سطح پر یہ تجربہ کیسے کامیاب ہوسکتا ہے۔ پودا جڑ پکڑتا ہے تو سرسبز درخت کی شکل اختیارکرتا ہے۔

پچھلے اظہاریے میں ہم نے لکھا تھا کہ قبل از تقسیم برصغیر اردوکی ترقی و نفاذ کے لیے جو کوششیں کی گئیں اگر ان پر کام ہوتا رہتا تو آج ملک میں اردو نافذ ہوچکی ہوتی مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ کام ختم کردیا گیا۔ جو لوگ برملا کہتے ہیں کہ اردو میں اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ ذریعہ تعلیم بن سکے ۔ان کی خدمت میں عرض ہے کہ تقریباً سو سوا سو برس قبل جامعہ عثمانیہ (حیدر آباد دکن) یہ کامیاب تجربہ کرچکی ہے تو پھر یہ امر ناممکن کیسے ہوسکتا ہے اور پھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نیبھی نفاذ اردوکا حکم صادرفرمادیا تھا؟ ایک زبان نہ ہونے سے ہم آج تک ایک قوم ہی نہ بن سکے۔ پھر جب قوم نہیں تو کسی ترد کی ضرورت بھی نہیں۔
Load Next Story