امریکن بزنس کونسل نے متعدد بجٹ اقدامات پر اعتراض کر دیا
ٹرن اوورٹیکس گھٹانے کے بجائے اضافہ، بنیادی خام مال کی ڈیوٹی میں کمی نہیں کی گئی
KARACHI:
امریکن بزنس کونسل کے اراکین نے آئی ٹی خدمات کی برآمدات پر سیلز ٹیکس میں جون 2019 تک استثنیٰ دیے جانے سمیت پاکستان میں سگریٹ کی غیر قانونی تجارت روکنے کے اقدامات کا خیر مقدم کیا ہے مگر ساتھ ہی اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے اور ٹیکس ادا کرنے والوں کے لیے ٹیکس ایڈمنسٹریشن کو آسان بنانے کے لیے خاطرخواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔
امریکن بزنس کونسل پاکستان کے صدر سمیع احمد نے کہا کہ سرمایہ کاروں کو راغب کرنے، ملازمت کے مواقع بڑھانے اور معیشت کو ترقی دینے کے لیے ضروری ہے کہ معاشی پالیسیاں شفاف، مستقل اور سرمایہ کاری کے لیے معاون ہوں اور ان پالیسیوں پر عمل درآمد ہو، ٹیکس پالیسی اقدامات میں کاروبار کے پورے ماحول پر اس کے اثرات کا احاطہ کیا جانا چاہیے تاکہ کاروبار میں آنے والی لاگت بہتر ہو اور موجودہ ٹیکس ادا کرنے والوں پر بوجھ نہ پڑے۔
اے بی سی سرمایہ کاروں کے گروپ کا یہ خیال بھی ہے کہ بجٹ کے کچھ اقدامات سرمایہ کاری کے لیے مفید ہیں جیسے کارپوریٹ ٹیکس ریٹ میں کمی تاہم اضافی ٹیکسوں نے اس فائدے کو ختم کردیا ہے، اس کی بہترین مثال 2015-16 بجٹ میں سپر ٹیکس ہے، وفاقی حکومت نے 4فیصد سپر ٹیکس، ایک بار بینکنگ کمپنیز پر نافذ کیا اور 3 فیصد انفرادی طور پر اور ایسے افراد پر جن کی آمدنی 500 ملین روپے ہو، یہ ٹیکس عارضی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کی بحالی کے لیے فنڈ جمع کرنے کے لیے تھا تاہم یہ اب تک جاری ہے، مزید کچھ تجاویز جو مجوزہ مالیاتی بل 2017/18 میں ہیں جیسے ایسی کمپنیوں پر 10 فیصد ٹیکس جو اپنے منافع کا 40 فیصد ڈیویڈنڈ کے ضمن میں تقسیم نہیں کرتی ہیں بھی شامل ہے جو کمپنیوں کی ترقی کو بری طرح متاثر کرے گا کیونکہ ان کمپنیوں کے پاس فنڈز نہیں ہوں گے جو وہ اپنے توسیعی منصوبوں پر خرچ کرسکیں،دستاویزی معیشت کی حوصلہ افزائی کے لیے متعارف کرائے جانے والے ٹیکس کریڈٹ کے خاتمے اور اس چھوٹ کو واپس لینے سے برعکس اثرات مرتب ہوں گے۔
اسی طرح 1 فیصد سے ٹیکس کو بڑھا کر 1.25 فیصد کرنا بھی کمپنیوں کے لیے نامناسب ہے، اس سے موثر ٹیکس کی شرح بڑی مینوفیکچرنگ کمپنیوں کے لیے کارپوریٹ ریٹ 30 فیصد سے بڑھ جائے گی، اس سے پاکستان میں کمپنیوں کا ٹیکس ریٹ 30 فیصد سے زیادہ ہوجائے گا جو دیگر ملکوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے جیسے سری لنکا میں یہ 15 فیصد، بنگلادیش میں 25 فیصد اور ویت نام میں 22 فیصد ہے۔
یاد رہے کہ اے بی سی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والا سب سے بڑے گروپوں میں سے ایک ہے جس کے 67 رکن ہیں اور ان میں سے اکثریت 500 فورچیون کمپنیوں کی ہے۔
امریکن بزنس کونسل کے اراکین نے آئی ٹی خدمات کی برآمدات پر سیلز ٹیکس میں جون 2019 تک استثنیٰ دیے جانے سمیت پاکستان میں سگریٹ کی غیر قانونی تجارت روکنے کے اقدامات کا خیر مقدم کیا ہے مگر ساتھ ہی اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے اور ٹیکس ادا کرنے والوں کے لیے ٹیکس ایڈمنسٹریشن کو آسان بنانے کے لیے خاطرخواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔
امریکن بزنس کونسل پاکستان کے صدر سمیع احمد نے کہا کہ سرمایہ کاروں کو راغب کرنے، ملازمت کے مواقع بڑھانے اور معیشت کو ترقی دینے کے لیے ضروری ہے کہ معاشی پالیسیاں شفاف، مستقل اور سرمایہ کاری کے لیے معاون ہوں اور ان پالیسیوں پر عمل درآمد ہو، ٹیکس پالیسی اقدامات میں کاروبار کے پورے ماحول پر اس کے اثرات کا احاطہ کیا جانا چاہیے تاکہ کاروبار میں آنے والی لاگت بہتر ہو اور موجودہ ٹیکس ادا کرنے والوں پر بوجھ نہ پڑے۔
اے بی سی سرمایہ کاروں کے گروپ کا یہ خیال بھی ہے کہ بجٹ کے کچھ اقدامات سرمایہ کاری کے لیے مفید ہیں جیسے کارپوریٹ ٹیکس ریٹ میں کمی تاہم اضافی ٹیکسوں نے اس فائدے کو ختم کردیا ہے، اس کی بہترین مثال 2015-16 بجٹ میں سپر ٹیکس ہے، وفاقی حکومت نے 4فیصد سپر ٹیکس، ایک بار بینکنگ کمپنیز پر نافذ کیا اور 3 فیصد انفرادی طور پر اور ایسے افراد پر جن کی آمدنی 500 ملین روپے ہو، یہ ٹیکس عارضی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کی بحالی کے لیے فنڈ جمع کرنے کے لیے تھا تاہم یہ اب تک جاری ہے، مزید کچھ تجاویز جو مجوزہ مالیاتی بل 2017/18 میں ہیں جیسے ایسی کمپنیوں پر 10 فیصد ٹیکس جو اپنے منافع کا 40 فیصد ڈیویڈنڈ کے ضمن میں تقسیم نہیں کرتی ہیں بھی شامل ہے جو کمپنیوں کی ترقی کو بری طرح متاثر کرے گا کیونکہ ان کمپنیوں کے پاس فنڈز نہیں ہوں گے جو وہ اپنے توسیعی منصوبوں پر خرچ کرسکیں،دستاویزی معیشت کی حوصلہ افزائی کے لیے متعارف کرائے جانے والے ٹیکس کریڈٹ کے خاتمے اور اس چھوٹ کو واپس لینے سے برعکس اثرات مرتب ہوں گے۔
اسی طرح 1 فیصد سے ٹیکس کو بڑھا کر 1.25 فیصد کرنا بھی کمپنیوں کے لیے نامناسب ہے، اس سے موثر ٹیکس کی شرح بڑی مینوفیکچرنگ کمپنیوں کے لیے کارپوریٹ ریٹ 30 فیصد سے بڑھ جائے گی، اس سے پاکستان میں کمپنیوں کا ٹیکس ریٹ 30 فیصد سے زیادہ ہوجائے گا جو دیگر ملکوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے جیسے سری لنکا میں یہ 15 فیصد، بنگلادیش میں 25 فیصد اور ویت نام میں 22 فیصد ہے۔
یاد رہے کہ اے بی سی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والا سب سے بڑے گروپوں میں سے ایک ہے جس کے 67 رکن ہیں اور ان میں سے اکثریت 500 فورچیون کمپنیوں کی ہے۔