جابر سلطان کے جانے کے بعد سچ بولنے والا ’’ہیرو‘‘
ریٹائرڈ جرنیل شاہد عزیز کارگل پر ایک کتاب کے ذریعے ’’پورا سچ‘‘ لکھ کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
کارگل کی چوٹیوں پر چپکے سے قبضہ کرنے کے ذریعے جنرل مشرف اور ان کے چند رفیقوں نے کشمیر آزاد کرانے کا جو ڈھونگ رچایا تھا، اسے ختم ہوئے ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا ہے۔ میرے جیسے ''بلڈی سویلین'' کو بھی اب یہ بات اچھی طرح سمجھ آ چکی ہے کہ کارگل پر اچانک پہنچ کر جنرل مشرف اور ان کے رفقاء نے ایک سفاکانہ حماقت کی تھی جس نے ہمارے سیکڑوں جوانوں کو ضایع کر دیا۔ اس حماقت کا حساب مگر نواز شریف صاحب ہی چکا سکتے تھے۔ ان کے پاس دو تہائی اکثریت تھی جس کے بل بوتے پر وہ اپنے لیے ''امیر المومنین'' والے اختیارات حاصل کرنا چاہ رہے تھے۔ جب کارگل پر کی گئی حماقت سے پاکستان کو مزید بچانے کا موقعہ آیا تو انھیں 4 جولائی 1999ء کے روز جب پورا امریکا اپنا جشنِ آزادی منا رہا ہوتا ہے صدر کلنٹن کی منت سماجت کرنا پڑی۔
اس وقت کے امریکی صدر کو نواز شریف سے ملاقات پر تیار کرنے میں سعودی عرب کے اس وقت واشنگٹن میں متعین سفیر جناب بندر بن سلطان نے بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔ نواز شریف کو اپنے ملک کی عزت بچانے کے لیے جو کچھ کرنے کو کہا جا رہا تھا، وہ اسے پورا کرنے کا وعدہ کرنے سے ہچکچاتے رہے۔ انھیں یہ خوف لاحق تھا کہ وہ اگر کوئی ''شرمناک معاہدہ'' کر کے پاکستان واپس لوٹے تو جنرل مشرف ان کا تختہ الٹ دیں گے۔کلنٹن اور سعودیوں نے انھیں تحفظ فراہم کرنے کا وعدہ کرنے کے ذریعے حوصلہ دیا۔ نواز شریف کے لیے بہتر ہوتا کہ وہ امریکا روانہ ہونے سے پہلے کور کمانڈرز کا ایک اجلاس بلا کر سارے حقائق ان کے سامنے رکھ کر مشرف کو برطرف کر دیتے۔ واشنگٹن سے واپسی کے بعد وہ پارلیمان کی ایک کمیٹی بنا کر کارگل کے بارے میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کا بندوبست کرتے۔
انھوں نے یہ سب کچھ نہ کیا بلکہ واشنگٹن سے لوٹنے کے چند ماہ بعد چوہدری نثار علی خان اور شہباز شریف کو مشرف کے ''اباجی'' کی عیادت کے لیے اسپتال بھیج دیا۔ اس خبر کے ساتھ کہ بجائے طے کردہ قاعدے کے مطابق اس وقت کے نیول چیف فصیح بخاری کی جگہ بری فوج کے سربراہ ہی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے سربراہ بھی ہوں گے۔ مشرف کی پھر بھی تسلی نہ ہوئی۔ وہ اپنے کھیل میں مصروف رہے اور جب 12 اکتوبر 1999ء کو انھیں نواز شریف نے ''برطرف'' کیا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ مشرف نے انھیں برطرف کر دیا اور اپنا کنٹرول قائم کرنے کے بعد پہلا فون Centcom کے جنرل زینی کو کیا۔ واشنگٹن نے جمہوریت سے اپنی تمام تر ''محبت'' کے باوجود پاکستان پر فوجی قبضے کو تسلیم کر لیا اور بڑی خوشی سے اس بات کی منظوری بھی دے دی کہ نئی فوجی حکومت کی واشنگٹن میں سفیر ایک روشن خیال اور جمہوریت پسند سمجھی جانے والی خاتون ہوں گی۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ ہاں وائٹ ہائوس چھوڑنے سے پہلے صدر کلنٹن نے اس بات کا ضرور اہتمام کیا کہ نواز شریف اور ان کے خاندان کو پورے عزت و احترام کے ساتھ سعودی عرب رہنے کے لیے بھیج دیا جائے۔
''کارگل کے ہیرو''سے سب سے زیادہ تکلیف بھارت کو ہونا چاہیے تھی۔ مگر جنرل مشرف کو بھارتی وزیراعظم واجپائی نے باقاعدہ چٹھی لکھ کر آگرہ مذاکرات کے لیے بلایا۔ وہ مذاکرات ناکام رہے مگر فروری2004ء میں اسلام آباد میں منعقدہ سارک کانفرنس میں شرکت کے لیے بھارت نے جنرل مشرف سے ایک ایسے معاہدے پر دستخط کرا لیے جو صرف اس کے اپنے مفاد میں تھا۔ اس کے بعد مشرف کے طارق عزیز اور واجپائی کے برجیش مشرا خاموش سفارت کاری کے ذریعے کشمیر کا دیرینہ مسئلہ حل کرنے میں مصروف ہو گئے۔ واجپائی رخصت ہوئے تو منموہن سنگھ نے بھی دلی کی نہر والی حویلی کے سپوت سے تعلقات جاری رکھے مگر بالآخر مشرف ہی نہ رہے۔ اس کے بعد بمبئی ہو گیا اور پاکستان اور بھارت ان دنوں پنجابی کے ''آنے والی تھاں'' پر آ چکے ہیں۔
ان حالات میں ہرگز میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ پاک فوج ہی کے ایک اور ریٹائرڈ جرنیل شاہد عزیز کارگل پر ایک کتاب کے ذریعے ''پورا سچ'' لکھ کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یقیناً ان کی کتاب کا پاکستان کے میڈیا میں بہت تذکرہ ہو گا۔ بھارت کے صحافی اسی کتاب کے مندرجات کے حوالے دے دے کر میرے ملک کی بھد اُڑاتے رہیں گے۔ شاہد عزیز کی کتاب تو بک جائے گی لیکن میرے ملک اور اس کے عام اور بے اختیار لوگوں کے ہاتھ کیا آئے گا۔ کاش ان دنوں ''پورا سچ'' بولنے کے جنون میں مبتلا شاہد عزیز نے اس سوال پر بھی ذرا غور کر لیا ہوتا۔ مگر اپنے تئیں پارسا بن جانے والے جب ''پورا سچ'' بولنے کے فیصلے کر لیتے ہیں تو سفاکی کی حد تک خود غرض ہو جاتے ہیں۔ شاہد عزیز ایک سیدھے سادے ''خود غرض'' انسان ہیں۔
سچ سے انھیں واقعی تھوڑا بہت پیار ہوتا اور وہ اپنی سوچ میں مخلص اور دیانتدار ہوتے تو کارگل پر سارے حقائق جاننے کے بعد فوج سے استعفیٰ دے کر اپنی قوم کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرتے۔ مشرف کا پورا دور تو انھوں نے فوج کا چیف بننے کی کوششوں میں صرف کر دیا۔ اس میں ناکام رہے تو چیئرمین NAB بن بیٹھے۔ اس عہدے کے ساتھ کافی عرصے تک چپکے رہے۔ آج کل ایک بہت بڑے گھر میں رہتے ہیں۔ میں نے وہ مکان بنتا دیکھا ہے۔ اکثر اس علاقے میں جاتا تو یہ محسوس ہوتا کہ کوئی محل بن رہا ہے۔ بہرحال وہ جانیں اور ان کا کام۔ اللہ ان کو خوش رکھے۔
مگر جابر سلطان کے جانے کے بعد سچ بول کر ہیرو بننے کی کوشش نہ کریں۔ پاکستان کے عام اور بے اختیار انسانوں کے بارے میں اگر ان کے دل میں رحم کا کوئی خانہ نہیں تو کم از کم اس ادارے یعنی پاکستانی فوج کا ہی کچھ سوچ لیں جس نے انھیں بڑا مقام اور مرتبہ دیا۔ چیف نہ بن پائے تو کوئی بات نہیں۔ معاف کر دیں۔ کم از کم اتنا حوصلہ ہی دکھا دیں جو میرے جیسے ''بلڈی سویلین'' جنرل ایوب، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور جنرل مشرف کی تمام تر کارستانیوں کے باوجود ابھی تک دکھاتے چلے آ رہے ہیں۔
اس وقت کے امریکی صدر کو نواز شریف سے ملاقات پر تیار کرنے میں سعودی عرب کے اس وقت واشنگٹن میں متعین سفیر جناب بندر بن سلطان نے بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔ نواز شریف کو اپنے ملک کی عزت بچانے کے لیے جو کچھ کرنے کو کہا جا رہا تھا، وہ اسے پورا کرنے کا وعدہ کرنے سے ہچکچاتے رہے۔ انھیں یہ خوف لاحق تھا کہ وہ اگر کوئی ''شرمناک معاہدہ'' کر کے پاکستان واپس لوٹے تو جنرل مشرف ان کا تختہ الٹ دیں گے۔کلنٹن اور سعودیوں نے انھیں تحفظ فراہم کرنے کا وعدہ کرنے کے ذریعے حوصلہ دیا۔ نواز شریف کے لیے بہتر ہوتا کہ وہ امریکا روانہ ہونے سے پہلے کور کمانڈرز کا ایک اجلاس بلا کر سارے حقائق ان کے سامنے رکھ کر مشرف کو برطرف کر دیتے۔ واشنگٹن سے واپسی کے بعد وہ پارلیمان کی ایک کمیٹی بنا کر کارگل کے بارے میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کا بندوبست کرتے۔
انھوں نے یہ سب کچھ نہ کیا بلکہ واشنگٹن سے لوٹنے کے چند ماہ بعد چوہدری نثار علی خان اور شہباز شریف کو مشرف کے ''اباجی'' کی عیادت کے لیے اسپتال بھیج دیا۔ اس خبر کے ساتھ کہ بجائے طے کردہ قاعدے کے مطابق اس وقت کے نیول چیف فصیح بخاری کی جگہ بری فوج کے سربراہ ہی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے سربراہ بھی ہوں گے۔ مشرف کی پھر بھی تسلی نہ ہوئی۔ وہ اپنے کھیل میں مصروف رہے اور جب 12 اکتوبر 1999ء کو انھیں نواز شریف نے ''برطرف'' کیا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ مشرف نے انھیں برطرف کر دیا اور اپنا کنٹرول قائم کرنے کے بعد پہلا فون Centcom کے جنرل زینی کو کیا۔ واشنگٹن نے جمہوریت سے اپنی تمام تر ''محبت'' کے باوجود پاکستان پر فوجی قبضے کو تسلیم کر لیا اور بڑی خوشی سے اس بات کی منظوری بھی دے دی کہ نئی فوجی حکومت کی واشنگٹن میں سفیر ایک روشن خیال اور جمہوریت پسند سمجھی جانے والی خاتون ہوں گی۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ ہاں وائٹ ہائوس چھوڑنے سے پہلے صدر کلنٹن نے اس بات کا ضرور اہتمام کیا کہ نواز شریف اور ان کے خاندان کو پورے عزت و احترام کے ساتھ سعودی عرب رہنے کے لیے بھیج دیا جائے۔
''کارگل کے ہیرو''سے سب سے زیادہ تکلیف بھارت کو ہونا چاہیے تھی۔ مگر جنرل مشرف کو بھارتی وزیراعظم واجپائی نے باقاعدہ چٹھی لکھ کر آگرہ مذاکرات کے لیے بلایا۔ وہ مذاکرات ناکام رہے مگر فروری2004ء میں اسلام آباد میں منعقدہ سارک کانفرنس میں شرکت کے لیے بھارت نے جنرل مشرف سے ایک ایسے معاہدے پر دستخط کرا لیے جو صرف اس کے اپنے مفاد میں تھا۔ اس کے بعد مشرف کے طارق عزیز اور واجپائی کے برجیش مشرا خاموش سفارت کاری کے ذریعے کشمیر کا دیرینہ مسئلہ حل کرنے میں مصروف ہو گئے۔ واجپائی رخصت ہوئے تو منموہن سنگھ نے بھی دلی کی نہر والی حویلی کے سپوت سے تعلقات جاری رکھے مگر بالآخر مشرف ہی نہ رہے۔ اس کے بعد بمبئی ہو گیا اور پاکستان اور بھارت ان دنوں پنجابی کے ''آنے والی تھاں'' پر آ چکے ہیں۔
ان حالات میں ہرگز میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ پاک فوج ہی کے ایک اور ریٹائرڈ جرنیل شاہد عزیز کارگل پر ایک کتاب کے ذریعے ''پورا سچ'' لکھ کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یقیناً ان کی کتاب کا پاکستان کے میڈیا میں بہت تذکرہ ہو گا۔ بھارت کے صحافی اسی کتاب کے مندرجات کے حوالے دے دے کر میرے ملک کی بھد اُڑاتے رہیں گے۔ شاہد عزیز کی کتاب تو بک جائے گی لیکن میرے ملک اور اس کے عام اور بے اختیار لوگوں کے ہاتھ کیا آئے گا۔ کاش ان دنوں ''پورا سچ'' بولنے کے جنون میں مبتلا شاہد عزیز نے اس سوال پر بھی ذرا غور کر لیا ہوتا۔ مگر اپنے تئیں پارسا بن جانے والے جب ''پورا سچ'' بولنے کے فیصلے کر لیتے ہیں تو سفاکی کی حد تک خود غرض ہو جاتے ہیں۔ شاہد عزیز ایک سیدھے سادے ''خود غرض'' انسان ہیں۔
سچ سے انھیں واقعی تھوڑا بہت پیار ہوتا اور وہ اپنی سوچ میں مخلص اور دیانتدار ہوتے تو کارگل پر سارے حقائق جاننے کے بعد فوج سے استعفیٰ دے کر اپنی قوم کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرتے۔ مشرف کا پورا دور تو انھوں نے فوج کا چیف بننے کی کوششوں میں صرف کر دیا۔ اس میں ناکام رہے تو چیئرمین NAB بن بیٹھے۔ اس عہدے کے ساتھ کافی عرصے تک چپکے رہے۔ آج کل ایک بہت بڑے گھر میں رہتے ہیں۔ میں نے وہ مکان بنتا دیکھا ہے۔ اکثر اس علاقے میں جاتا تو یہ محسوس ہوتا کہ کوئی محل بن رہا ہے۔ بہرحال وہ جانیں اور ان کا کام۔ اللہ ان کو خوش رکھے۔
مگر جابر سلطان کے جانے کے بعد سچ بول کر ہیرو بننے کی کوشش نہ کریں۔ پاکستان کے عام اور بے اختیار انسانوں کے بارے میں اگر ان کے دل میں رحم کا کوئی خانہ نہیں تو کم از کم اس ادارے یعنی پاکستانی فوج کا ہی کچھ سوچ لیں جس نے انھیں بڑا مقام اور مرتبہ دیا۔ چیف نہ بن پائے تو کوئی بات نہیں۔ معاف کر دیں۔ کم از کم اتنا حوصلہ ہی دکھا دیں جو میرے جیسے ''بلڈی سویلین'' جنرل ایوب، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور جنرل مشرف کی تمام تر کارستانیوں کے باوجود ابھی تک دکھاتے چلے آ رہے ہیں۔