انتخابات کے موسم آخری حصہ

سندھ کا سیاسی جائزہ لیا جائے تو صورتحال تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ یہاں بھی روایتی پارٹیوں کے حق میں نظر آتی ہے۔

لگتا کچھ یوں ہے کہ پوٹھوہار اور وسطی پنجاب کے علاقے سے موجودہ سیاسی اور سماجی پس منظر میں روایتی پارٹیاں اپنی سیاسی جوڑ توڑ اور چالبازیوں کے ذریعے جیتنے میں کامیاب ہوجائیں گی۔ یہ بات درست ہے کہ اس علاقے کے لوگ تبدیلی کے خواہاں ہیں خاص طور پر نوجوان طبقہ اس دوڑ میں سب سے آگے نظر آتا ہے۔تاہم انتخابی سیاست کی ضروریات اور حکمت عملی مختلف ہوتی ہیں۔ جس میں روایتی پارٹیاں اپنے تجربے کے بنیاد پر مکمل مہارت رکھتی ہیں۔ دوسری جانب جنوبی پنجاب کا مجموعی سیاسی نقشہ بھی اسی سوچ اور حکمت عملی کے تابع رہے گا۔

یہ علاقہ سماجی اور معاشی حوالے سے باقی پنجاب سے کم ترقی یافتہ ہے۔اور بری طرح سے پرانے ڈھانچے میں جکڑا ہوا نظر آتا ہے۔ یہاں بھی سیاسی جوڑ توڑ کرنے والی جماعتیں جیتنے میں کامیاب ہوجائینگی۔ )پاکستان کے مخصوص اور ہر وقت بدلتے حالات کے پیش نظر حتمی تجزیہ کرنا تقریبا ناممکن ہے)پیپلز پارٹی جسے سندھ میں دہرے مکانی نظام کے باعث کچھ حد تک خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ وہ سرائیکی بیلٹ کو اپنا متبادل حلقہ بنانا چاہتے ہیں۔ اس وجہ سے انھوں نے بھاولپور صوبے بنانے کاسیاسی نعرہ mature کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتی ہے۔

رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے جناب مخدوم صاحب کی گورنر کے طور پر تقرری اسی سلسلے کی کڑی ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی اسے انتخابی آرگیومنٹ بناکے انتخابی مہم کے دوران استعمال کرنا چاہتی ہے ، جب کہ حقیقت میں وہ اس میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتی۔ تاہم سرائیکی علاقے میں اس پیش رفت کے باعث پیپلز پارٹی کا گراف اوپر جا رہاہے، اور لوگ ن لیگ اور تحریک انصاف کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کی طرف رجحان رکھتے ہیں ۔لیکن اس کے باوجود مجموعی سیاسی صورتحال کے تناظر میں پنجاب میں ن لیگ کی برتری نظر آتی ہے۔ خاص طور پر پوٹھوہار اور وسطی پنجاب میں وہ باقی پارٹیوں سے آگے رہ سکتے ہیں۔ اس سارے سیاسی منظر نامے میںاپنی مثبت سوچ کے باوجود تحریک انصاف زیادہ سیٹیں لیتی ہوئی نظر نہیں آتی۔وہ کچھ پاکیٹس میں سے تو جیت سکتی ہے، مگر ان کے لیے روایتی پارٹیوں کو ہراکر کلین سوئپ کرنا فی الحال اس الیکشن میں ناممکن نظر آتا ہے۔

پنجاب کے بعد اگر سندھ کا سیاسی جائزہ لیا جائے تو صورتحال تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ یہاں بھی روایتی پارٹیوں کے حق میں نظر آتی ہے۔سندھ سیاسی حوالے سے پیپلز پارٹی کا گڑھ رہا ہے۔ گو اس بار دوہرے مکانی نظام کی وجہ سے سندھی ووٹر پیپلزپارٹی سے خائف نظر آتا ہے۔ تاہم اس ناراضگی کو پورے صوبے میں capitalizeکرنے کی صلاحیت کسی سیاسی جماعت میں نہیں۔ اس حوالے سے گزشتہ دنوںفنکشنل لیگ نے کافی طاقت کا مظاہرہ کیا، اور دہرے مکانی نظام کی مخالفت کرتے ہوئے اسے پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی ، جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی نظر آئے،اس کا سب سے بڑا ثبوت حیدرآباد میں ہونے والا شاندار جلسہ تھا، مگر گورنر پنجاب کی تقرری کے بعد اس momentum میں بہت کمی آگئی اور اب غبارے سے ہوا نکلی ہوئی نظر آتی ہے۔

حالانکہ انھیں بہت ہی شاندار سیاسی آرگیومنٹ خودبخود آکر گود میں پڑا ملا۔ جس کی انھیں کبھی توقع بھی نہ تھی۔ وہ اسے پیپلز پارٹی کے خلاف الیکشن میں استعمال کرسکتے تھے۔ (ایک حد تک وہ اب بھی کرینگے مگر اس کی intensity وہ نہیں رہے گی) مگر انھوں نے سلسلے کو توڑ کر فی الحال پیپلز پارٹی کو سندھ میںsafe passage دے دیا ہے۔ پیپلز پارٹی اس حوالے سے اچھی خاصی بوکھلاگئی تھی مگر اب کافی قدر مطمئن نظر آتی ہے۔ سو اس صورتحال کے باعث سندھ میں تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ سیاسی تصویر میں زیادہ تبدیلی کے امکانات نظر نہیں آتے۔ دوسری جانب سندھی قوم پرست جماعتیں بھی اینٹی پیپلز پارٹی ماحول کو قائم رکھنے میں ناکام رہی ہیں۔ ان کے ساتھ تو سب سے بڑا مسئلہ capacity کا ہے، وہ بیک وقت پورے سندھ میں پیلپز پارٹی مخالف ماحول کو مستقل رکھنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔

ویسے بھی سندھ آج بھی مکمل طور پر جاگیرداری سوچ کے تابع نظر آتا ہے۔جہاں بڑے جاگیردار اور وڈیروں کا راج ہے۔ یہ غیرعوامی اور غیر جمہوری عناصر کمال مہارت سے انتخابات کے ذریعے جمہوریت کا نام لے کر اقتدار کے ایوانوں تک باآسانی پہنچ جاتے ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی ان طاقتور لوگوں کا سیاسی کلب اور بہترین پناہ گاہ ہے۔ اس کے علاوہ دوسری سیاسی جماعتیں (سوائے قوم پرست) اس سے مستثنیٰ نہیں۔باہر کی جماعتیں ، جن کا سندھ میں اثر ورسوخ کم ہے، جیسے نواز لیگ وغیرہ، وہ بھی بااثر لوگوں سے سلسلہ جوڑتی ہیں۔ جس کی تازہ مثال ن لیگ کی جانب سے ممتاز بھٹو اور لیاقت جتوئی جیسے با اثر افراد کو اپنا حصہ بناناہے۔ پیپلزپارٹی سندھ میں مختلف جگہوں پر اپنے مخالفین کے سامنے قدرے کمزور نظر آتی ہے۔


جیسے سانگھڑ اور خیرپور میں اس کا مقابلہ فنکشنل لیگ سے ہوگا، جب کہ نوشہرو فیروز میں یہ این پی پی کا سامنا کرے گی۔ اور ان جگہوں سے کانٹے کے مقابلے ہونے متوقع ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ بااثر افراد، جیسے گھوٹکی کے مہر برادران اور ٹھٹھہ کے شیرازی برادران جیتنے والے امیدوار ہیں ، جو فی الحال تو پیپلز پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ تاہم اصل صورتحال انتخابات کے قریب آنے پر ہی پتہ چل سکتی ہے۔ دوسری جانب سندھ کے قوم پرست اس بار نئے جوش اور ولولے اور امید کے ساتھ میدان میں اترنے والے ہیں۔

وہ چھوٹے چھوٹے سیاسی اتحاد کے ذریعے ہوسکتا ہے کہ ایک آدھ سیٹ نکال لیں۔تاھم ابھی بھی بہت چیزیں طے ہونا باقی ہیں۔کراچی کے صورتحال بھی مختلف معلوم نہیں ہوتی۔ اس بار جماعت اسلامی یقینا میدان میں اترے گی اور ان کی انتخابات میں موجودگی جگہ جگہ ضرور فرق ڈالے گی۔ تاھم لگ یہی رہا ہے کہ متحدہ اپنی سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیگی۔(کراچی کی حد تک پیپلزپارٹی اور ان کے اتحادیوں کے درمیان کوئی انتخابی understandingہوسکتی ہے۔جس کے عندیے آنا شروع ہوگئے ہیں۔

اس کے پیچھے غالبا زرداری صاحب ہی ہیں، جنہوں نے شاید اپنے پارٹنرز کو مل کر انتخابات لڑنے کی ترغیب دی ہے، تاکہ وہ حکومت میں آنے کے حوالے سے مطلوبہ ہدف حاصل کرسکیں۔گزشتہ دنوں متحدہ اور اے این پی کے درمیاں دوستی کا ہاتھ اسی سلسلے کی کڑی لگتی ہے گو اس کے عوامل دوسرے بھی ہوسکتے ہیں۔مگر حتمی بات کہنا یہاں بھی قبل از وقت ہوگا۔)دوسری جانب تحریک انصاف کی اگر سندھ میں پوزیشن دیکھی جائے تو نہ ہونے کے برابر ہے،اس کی اصل وجہ تحریک انصاف کی جانب سے سندھ کے ایشوز کو ترجیح نہ دینا ہے شاید فی الحال تحریک انصاف اپنا بیٹل گرائونڈ پنجاب اور خیبر پختون خوا کو سمجھتی ہے۔ بہرحال سندھ کے حوالے سے تحریک انصاف کی سوچ جو بھی ہو۔ یہ بات تو طے ہے کہ سندھ اور سندھی عوام کے مفادات کی بات کیے بغیر ایک ووٹ بھی حاصل کرنا ناممکن ہے۔ اس بات پر تحریک انصاف کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ انھیں سندھ کے سیاسی میدان کو خالی نہیں چھوڑنا چاہیے۔

سندہ کے برعکس تحریک انصاف خیبر پختون خوا میں مقابلہ کرنیوالی پارٹی بن کر ابھر سکتی ہے، جو ایک طرف تو ھزارہ بیلٹ میں ن لیگ کو، جب کہ پختوں علاقے میں اے این پی کو مشکل میں ڈالنے کے صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن خیبر پختون خوا کا انتخابی نتیجہ متفرق رہنے کی توقع ہے۔ تاھم کسی مذہبی اتحاد بننے کی صورت میں منظر نامہ تبدیل ہوسکتا ہے لیکن یہ 2002 والی صورتحال پھر بھی نہ ہوگی۔اے این پی کی گذشتہ پانچ برس کی کارکردگی کافی مایوس کن رہی ہے، جس کے باعث اسے اچھا خاصہ نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

وہ الیکشن مہم کے دوران فرنٹیئر کا نام خیبر پختون خوا رکھوانے والے آرگیومینٹ کو exploitکرنے کی کوشش کرینگے۔ ( ان کے پاس اس کے علاوہ ہاتھ میں ہے بھی کیا)مگر صرف اس کی بنیاد پر الیکشن جیتنا مشکل لگتا ہے۔ دوسری جانب بلوچستان کے مخصوص سیاسی حالات کو دیکھ کر لگتا کچھ یوں ہے کہ یہاں بھی نتائج مکس ٹرینڈ کے تابع رہ سکتے ہیں۔ یہاں پر کسی پارٹی کو واضح اکثریت نہیں ملے گی اور حکومت وہی پارٹی بنائے گی جو وفاق پر اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوگی۔ بلوچستان پر دوسرے صوبوں کے مقابلے میں وفاق کا سب سے زیادہ اثر پڑتا ہے اور یہ سلسلہ اس بار بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔

پاکستان میں انتخابات کی تاریخ بھی مارشلائوں سے کم کڑوی نہیں رہی۔انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی جمہوریتیںکبھی اپنی ہیئت میں جمہوری نہیں رہیں۔ بلکہ ان پر آمرانہ سوچ کا غلبہ رہا ہے۔ 2013کے انتخابات پاکستان کی تاریخ کے اھم موڑ کی مانند ہے۔اگر اب بھی ہم نے عقلیت پسندی کا مظاہرہ نہیں کیا اور پرانے طرز سیاست اپنائے رکھا تو پھر مایوسی قوم کا مقدر ہوگی۔صرف سوچ، رویے اور عمل کی تبدیلی ملک کے اچھے مستقبل کی ضامن ہوسکتی ہے اور اسے اختیار کرنے کا اس سے اچھا وقت کیا ہوسکتا ہے۔
Load Next Story