ہماری جامعات یا انتہاپسندوں کی پناہ گاہیں

الیکشن کے رزلٹ سے پہلے دونوں امیدواروں کے ہمدرد صرف نعرے بازی کرتے تھے

fatimaqazi7@gmail.com

ایک وقت تھا جب یونیورسٹی کے طلبا وطالبات کو اگر کوئی استاد ڈانٹ دیتا تھا، تو طالب علم سر جھکا کر زمین میں نگاہیں گاڑ لیتا تھا۔ شکر ہے کہ ہم نے نہ صرف وہ زمانہ دیکھا بلکہ اس مہذب ماحول کا حصہ بھی رہے۔ ہمارے بیچ میں وہ تمام معروف طلبا و طالبات جامعہ کراچی میں تھے جو اپنے اپنے کالجوں میں اپنی الگ شناخت رکھتے تھے۔

کالم نگار، ادیب، شاعر، اپنی اپنی اسٹوڈنٹ یونین کے عہدیدار سبھی تھے۔ اساتذہ عزت بھی کرتے تھے اور ہم پر فخر بھی۔ لیکن استاد کے ادب کا یہ عالم تھا کہ کلاس میں کسی کی مجال نہیں تھی کہ لیکچر کے دوران کوئی بات کر لے۔ سوال و جواب بھی ہوتے تھے، الیکشن بھی ہوتے تھے، مختلف طلبا تنظیمیں الیکشن لڑتی تھیں لیکن ہاتھا پائی کی نوبت کبھی نہیں آئی، الیکشن کی مہم کے دوران نمایندے ہر ڈیپارٹمنٹ میں جاکر تعارف کراتے تھے۔ وہ وہاں بھی جاتے تھے جہاں سے انھیں ووٹ ملنے کی امید نہیں تھی، لیکن اخلاقی طور پر وہ بانجھ نہیں تھے۔ نہ ہی مخالف امیدوارکے ہمدرد انھیں کچھ برا بھلا کہتے تھے۔ کتاب سے دوستی کا زمانہ تھا، لائبریری ہمیشہ طلبا و طالبات سے بھری رہتی تھی۔

الیکشن کے رزلٹ سے پہلے دونوں امیدواروں کے ہمدرد صرف نعرے بازی کرتے تھے وہ بھی شائستہ انداز میں۔ طلبا یونین کی حلف برداری کی تقریب بھی ہوتی تھی۔ کالجوں میں بھی الیکشن کی بہار اپنے پورے جوبن پر رہتی تھی امتحانات سے قبل تمام کالجوں اور یونیورسٹی میں مختلف پروگرام ہوتے تھے۔ مباحثے، مذاکرے، تقریری مقابلے، نعت خوانی اور غزل گوئی کے مقابلوں سے لے کر بزم ادب کے ادبی پروگراموں تک بڑے سلیقے سے سب کچھ ہوتا تھا۔ یونیورسٹی کے طلبا وطالبات میں اگر کوئی اختلافی مسئلہ پر جھگڑے کا امکان ہوتا تو اسٹوڈنٹ یونین کے نگراں اساتذہ معاملہ رفع دفع کروا کے دونوں گروپوں کوگلے ملوا دیتے تھے۔

پھر یوں ہوا کہ ضیا الحق نے طلبا تنظیموں پر پابندی لگوا دی اور پھر اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ جن ہاتھوں میں کتابیں ہوتی تھیں، جن نظروں میں استاد کا احترام ہوتا تھا، وہ سیاستدانوں کے آلۂ کار بن گئے۔ ہر سیاسی پارٹی کی طلبا تنظیمیں سیاسی و مذہبی جماعتوں کے لیے کام کرنے لگیں، سیاستدانوں نے طلبا کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرنا شروع کردیا، نہ جانے کتنے طلبا کا مستقبل داؤ پر لگ گیا، جو موقع پرست تھے انھوں نے خوب خوب فائدے اٹھائے جو طلبا نڈر اور حوصلہ مند تھے انھیں لیڈروں نے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا، یہ نڈر اور ذہین طلبا اس خوش فہمی کا شکار ہوگئے کہ پارٹی کا لیڈر ان سے مخلص ہے۔ لیکن وہ یہ بھول گئے کہ سیاسی پارٹیوں کے لیڈر انھیں صرف ایک ایسا پرزہ سمجھتے ہیں جس کے لگانے سے ناکارہ گاڑی دوڑنے لگے۔ لہٰذا ایسے نڈر اور بے باک طلبا کو اسٹوڈنٹ یونین کا صدر منتخب کروایا جاتا تھا۔

مذہبی جماعتیں بڑی ہوشیاری سے الیکشن میں کامیاب کروانے کے کچھ عرصے بعد انھیں امریکا روانہ کردیتی تھیں۔ پیچھے مڑ کر دیکھیے تو آپ کو ایسے بے شمار نام نظر آئیں گے جنھوں نے پہلے یونیورسٹی کا الیکشن لڑا اور بعد میں امریکا سدھار گئے۔ لیکن یونینوں پہ پابندی کے بعد یہ کھیل مزید ہوشیاری سے کھیلا جانے لگا۔ نجیب جیسے نڈر اور ذہین اسٹوڈنٹ لیڈر کس کا کارندہ تھا، اس کی اتنی ہمت کیسے ہوگئی تھی کہ پارٹی لیڈر سے ہاٹ لائن پر ڈائریکٹ بات کرتا تھا، پولیس کے اعلیٰ افسران کو خاطر میں نہ لاتا تھا، جس کو جی چاہا تھپڑ مار دیا، لیکن جب وہ آپے سے باہر ہونے لگا اور اسے یہ احساس ہوا کہ وہ تو صرف استعمال ہو رہا ہے، تو وہ بپھر گیا، لیڈر کی اصلیت ظاہر ہوگئی۔۔۔۔اور پھر اسے گولیوں سے بھون دیا گیا۔

آج کا منظر نامہ جامعات کے حوالے سے بہت تباہ کن ہے۔ جو کچھ گزشتہ دنوں مشال نامی طالب علم کے ساتھ ہوا وہ اتنا ہولناک تھا کہ کوئی بھی صاحب دل انسان ٹی وی اسکرین پہ پورا منظر نہ دیکھ سکا۔ پشاور ہو، لاہور ہو یا کراچی، جامعات اور کالجوں میں اب دہشتگردی، لسانی و صوبائی تعصب مسلسل پھیل رہا ہے۔ قتل و غارت گری تعلیمی اداروں کا حصہ بن گئی ہے۔

پہلے طالب علم جس طرح مباحثے، مشاعرے اور مذاکروں میں حصہ لیتے تھے آج کے طلبا ڈنڈوں، پستولوں اور خطرناک پتھاروں کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ برسر پیکار ہیں۔ والدین کن ارمانوں اور امیدوں سے انھیں تعلیم حاصل کرنے بھیجتے ہیں، لیکن یہ قاتل بن جاتے ہیں اور کسی کی جان لینے میں عار نہیں سمجھتے کیونکہ انھیں ان کے خودساختہ لیڈر یہی تعلیم دے رہے ہیں۔ اساتذہ کا رویہ بھی تبدیل ہوگیا ہے۔ آج کے اساتذہ خود سیاسی پارٹیوں کا حصہ ہیں۔ انھی کی مدد سے طالب علم دہشتگردی کی مشین کا چارہ بن گیا ہے۔


تعلیمی گراف تو پہلے ہی زوال پذیر تھا، سردار، جاگیردار، چوہدری اور وڈیرہ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ ان کے صوبوں اور گاؤں گوٹھوں میں بچے تعلیم حاصل کریں، کیونکہ تعلیم شعور اجاگر کرتی ہے۔ اسی شعور کی بیداری سے یہ ٹھیکیدار ڈرتے تھے۔ انھوں نے اپنی اپنی بندوقوں اور رائفلوں میں سونے کے بٹ لگوائے عربوں کو تلورکے شکار کھلوائے، فخریہ اعلان کیے کہ پہلا قتل بچپن میں کیا تھا۔ اب تک 100 سے زائد قتل کرچکے ہیں۔ یہی قتل ان کے ماتھے کا جھومر ہیں، تمغۂ شجاعت ہیں۔ لہٰذا انھوں نے تعلیمی اداروں کی عمارتوں کو اصطبل میں تبدیل کردیا، کہیں گائے بھینسیں بندھنے لگیں، ذہین لوگوں کو کتوں کی طرح ہڈی ڈال کر وفاداری پہ مجبور کیا گیا۔ اپنی بادشاہت اور اقتدار قائم رکھنے کے لیے جو ظلم کیے گئے وہ ایک الگ داستان ہے۔

لیکن موجودہ دور میں جس طرح مذہب کے نام پر قتل و غارت گری ہو رہی ہے اسے دیکھ کر خوف آتا ہے۔ جب جی چاہا کسی کو بھی کافر قرار دے دیا، جس سے دشمنی یا عداوت محسوس ہوئی اس کے خلاف فتویٰ صادر کروادیا، ہر طرح کا فتویٰ نہایت آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ کسی کو مسلک کے نام پر، کسی کو مذہب کے نام پر اور کسی کو توہین رسالت کا الزام لگا کر قتل کرنا اب بہت آسان ہوگیا ہے۔ ماضی میں ایسے واقعات سامنے آتے رہے ہیں کہ توہین کا جھوٹا الزام لگانے والوں کے کچھ اپنے مقاصد تھے۔ نیز یہ بھی کہ بغیر کسی تحقیق کے کسی کو قتل کردینا کیا اسلام دشمنی نہیں۔ ایسے موقعوں پر مجھے ہمیشہ مرزا یاس یگانہ چنگیزی کا یہ شعر نہ صرف یاد آتا ہے بلکہ یہ پوری شدت کے ساتھ آج کے ماحول کی عکاسی بھی کرتا ہے:

سب ترے سوا کافر' آخر اس کا مطلب کیا؟

سر پھرا دے انساں کا' ایسا خبطِ مذہب کیا؟

جب جب میں نے یہ شعر اپنے کالم میں استعمال کیا، سر پھرے مذہبی جنونیوں نے ایسے ایسے SMS بھیجے بلکہ کال کرکے بھی گالیاں دیں۔ تب میں نے کہا کہ دراصل پوری دنیا میں اسلام کو بدنام کرنے والے یہی لوگ ہیں۔ پوری دنیا میں اسلام کو دہشتگردی سے جوڑا جا رہا ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے۔

پہلے ہماری جامعات ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر اور دیگر شعبوں کے لیے ماہرین پیدا کرتی تھیں، لیکن اب صرف اور صرف دہشتگرد اور قاتل۔ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کی مثال اس وقت پاکستان پہ صادق آتی ہے۔ کبھی امریکا کے آلہ کار بنے، کبھی افغان جہاد کے نام پر ڈالر کمائے۔ کبھی ایران اور سعودی عرب کے تصفیے میں پڑ کر خوار ہوئے۔

کشمیر کا قضیہ الگ۔ مسئلہ کشمیر کیوں حل نہیں ہوتا؟ اس لیے کہ کچھ طاقتور قوتیں ایسا نہیں چاہتیں، ان کی اپنی بقا کا مسئلہ ہے۔ اور اگر کسی جی دار نے خود اپنے طور پر یا اپنے آقاؤں کے کہنے پر مقدس گائے کی ذرا سی دم ہلادی تو گویا قیامت آگئی۔ ہوں۔۔۔۔تمہاری یہ مجال؟ ہماری دموں سے اٹھکھیلیاں کرو؟ جانتے نہیں ہو؟ ہماری طاقت کو؟ دو سینگ ماریں گے اور سب کچھ ختم ہوجائے گا۔ ہمارے پاس نئی کٹھ پتلی سمیت رات کی رانی اور دن کا راجہ۔ سب موجود ہیں۔ ایک ٹھوکر سے تمہاری سلطنت الٹ دیں گے۔

اور ایک ذرا سا سچ کہنے پر جو میڈیا نے جو شور مچایا ہے وہ الگ۔ ہر چینل اپنے نمبر بڑھانے میں مصروف۔ لیکن کسی چینل میں، کسی مذہبی رہنما میں، کسی لیڈر میں یہ ہمت نہیں کہ بڑھتی ہوئی دہشتگردی میں ملوث جماعتوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرے۔ ضرب عضب کا اثر ہمیں تو نظر نہیں آتا۔ اور جب جامعات میں دن دہاڑے طالب علموں کا قتل ہونے لگے تو ہے کوئی جو ان دہشتگردوں کو پھانسی پر لٹکانے کی بات کرے جنھوں نے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں ہنگامہ کیا، جنھوں نے مردان یونیورسٹی میں دہشتگردی کی، جنھوں نے طالب علم مشال کو زد و کوب کیا اور جانوروں کی طرح مارا۔ یہ انسان کے روپ میں بھیڑیے ہیں۔
Load Next Story