آنٹی رے …
گھر کے باہر گاڑیوں کی تعداد دیکھ کر ہی اندازہ ہو رہا تھا کہ کافی لوگ مدعو تھے
'' شام کو تیار رہنا ... کہیں باہر جانا ہے!! '' میزبان کی طرف سے حکم صادر ہوا۔
'' کہاں جانا ہے... روزے میں کہیں جانے کا کیا مزہ؟؟'' میں نے بڑبڑا کر سوال کیا، '' اتنا طویل روزہ!!''
'' روزہ ہی افطار کرنے جانا ہے '' مسکرا کرجواب دیا گیا۔...'' مگر کہاں ؟ ''
'' آنٹی رے کی طرف!! '' جیکٹ چڑھا کر باہر نکلتے ہوئے اس نے کہا۔...'' مگر سنو تو... '' میں عقب میں چلائی، '' یہ آنٹی رے کیا مسلمان ہیں؟ '' مگر میری وہاں سن کون رہا تھا، روزے کی افطاری کے لیے کسی انگریز آنٹی کے ہاں؟ بات کچھ ہضم نہ ہوئی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ مسلمان ہو چکی ہوں، میں نے دل ہی دل میں سوچا۔ چلو اب شام تک تو اس سوال کا جواب نہیں ملنے والا، پھر بھی میں نے اپنے تجسس کے غبارے میں سے ہوا نکالنے کو فون پر پیغام بھیجا، '' آنٹی رے کیا مسلمان ہیں؟ ''
'' آنٹی کے ہاں صرف افطاری کھانی ہے، کسی کا نکاح نہیں پڑھوانا، اس لیے ان کے بارے میں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں!! '' پیغام کا جلا ہوا جواب آیا۔شاباشے بھئی... آنٹی کے مذہب کے بارے میں فکر کیسے نہ کروں ، کوئی حرام حلال کی تمیز نہیں رہی تم لوگوں کو!! میں نے جلے ہوئے دل کے ساتھ سوچا۔ اس روز صحیح معنوں میں سمجھ میں آیا کہ '' صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا'' کا کیا مطلب ہے۔ بہر حال اپنے میزبان کے لوٹنے سے پہلے میں نک سک سے تیار تھی۔ بھوک بھی چمک رہی تھی اور سارا راستہ میزبان سے آنٹی رے کے محل وقوع کے بارے میں سوال کر کر کے زچ ہو گئی مگر اس نے کوئی تسلی بخش جواب نہ دیا، یہی کہا کہ جب ملوں تو خود ہی پوچھ لوں۔
گھر کے باہر گاڑیوں کی تعداد دیکھ کر ہی اندازہ ہو رہا تھا کہ کافی لوگ مدعو تھے۔ عورتوں والی حس جاگی اور فوراً اپنی تیاری کے بارے میں تنقیدی انداز سے سوچا۔ گھر میںکافی رش تھا، ہم بھی سلام دعا کے بعد اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرنے لگے۔اسی دوران باورچی خانے سے سفید لباس میں ملبوس سادہ سے حلیے کی خاتون نکلیں، آنٹی رے کے بیٹے کو ہمارے میزبان نے ڈاکٹر فی- ڈے کہہ کر متعارف کروایا تھا، پہلے Aunty Ray اور اب ان کا بیٹا Fee- Day - عجیب سے ناموں کے لوگ تھے، فی-ڈے تو کہیں سے بھی کینیڈین نہیں لگ رہا تھا، لاکھ اس نے اس دیس کا بھیس اپنا لیا تھا اور اس کی بیوی ''زی'' بھی۔ افطاری میں ابھی آدھا گھنٹہ تھا، اسی لیے لوگوں کے پاس باتیں کرنے کے لیے کافی وقت تھا، مگر باتوں میں آدھا گھنٹہ گزرنے کا علم بھی نہ ہوا۔فی -ڈے اور اس کی بیوی زی، دونوں ڈاکٹر تھے اور اس وقت اس مجمعے میں زیادہ تر لوگ ڈاکٹر ہی تھے۔
میں اس وقت تک آنٹی رے کا انتظار کرتی رہی جب تک کہ افطاری ہوتے ہی فی-ڈے اور زی کے ساتھ وہ سادہ سے حلیے والی سفید لباس والی بزرگ خاتون نے پلیٹ میری طرف بڑھائی۔ مجھے ان کا چہرہ شناسا لگا مگر اسے یہی سمجھ کر نظر انداز کیا کہ دنیا میں کئی لوگوں کے چہرے ملتے جلتے ہیں اور یوں بھی ہماری عورتیں عمر کے اس حصے میں پہنچ کر ایک جیسی لگنا شروع ہو جاتی ہیں۔ پھر ہر کوئی آنٹی رے کے ہاتھوں کی بنی ہوئی چیزوں کی تعریف کرنے لگا، وہ مسکرا مسکرا کر داد وصول کرتے ہوئے سب کی پلیٹوں میں اصرار کے ساتھ کھانے پینے کی چیزیں ڈال رہی تھیں۔
فی-ڈے اور زی بھی آنٹی کے ساتھ ساتھ میزبانی کے آداب نبھا رہے تھے مگر تعریف کا سارا سہرا آنٹی رے کے سر جا رہا تھا کیونکہ سارا کھانا ان ہی کے ہاتھ کا بنا ہوا تھا۔ کوئی بھی چیز بازار سے منگوائی ہوئی نہ تھی۔ اتنا ذائقہ تھا آنٹی کے ہاتھ میں، میں دل سے معترف ہوئی اور کھل کر ان کی تعریف کی- ان سے بات کرتے ہوئے میرے ذہن میں ایک دم جھماکا سا ہوا... مجھے سمجھ میں آ گیا تھا کہ مجھے ان کا چہرہ شناسا کیوں لگا تھا، مگر میں نے اپنے جذبات پر قابو پا لیا، جانے مجھے انھیں یوں پہچان لینے کا اظہار کرنا بھی چاہیے تھا کہ نہیں۔کچھ لوگ چلے گئے تھے، وہ جو دور سے آئے تھے اور وہ جو باقاعدگی سے تراویح پڑھتے تھے۔ چند لوگ ان کے فیملی روم میں بیٹھے رہ گئے تھے، جن میں سے ہم بھی تھے، '' یہ آنٹی رے... '' میں نے آہستگی سے اپنے میزبان سے پوچھا۔
'' شکر ہے کہ تمہارے دماغ نے بھی کام کیا!!'' آہستگی سے مگر تند جواب ملا-
'' مگر یہ... عجیب سے نام!!'' میں نے تاویل پیش کی-...'' ناموں سے کیا فرق پڑتا ہے، لوگ اور چہرے تو وہی رہتے ہیں!!'' مجھے آہستہ آواز میں کہہ کر اس نے باقی لوگوں کو اعلان کر کے بتایا کہ میں نے آنٹی کو پہچان لیا تھا، اس پر سب لوگوں نے تالیا ں بجا کر مجھے مزید شرمندہ کیا-'' اگر مجھے ٹھیک نام کا علم ہوتا تو میں پہلی نظر میں آنٹی کو پہچان لیتی!! '' میں نے کھسیا کر کہا-'' ہاں ہوسکتا ہے... مگر تم سے ایسی امید نہیں ہے!! '' فی-ڈے نے یقین سے کہا۔
ظاہر ہے اسے تومیں کیسے پہچانتی، پچیس برس کا عرصہ بہت طویل ہوتا ہے، اس کے بالوں کی چاندی میں سیاہ بال اتنے ہی تھے جتنا سالن میں نمک ہوتا ہے، اس کی بیوی یقینا کینیڈا سے تھی، اس نے اپنی عمر کو بالوں کے مختلف رنگ سے چھپا رکھا تھا۔ ان دونوں کا کوئی بچہ نہ تھا۔ فی-ڈے اپنی ماں کی تنہا اولاد، جسے اس کی ماں نے جوان عمری کی بیوگی کے ساتھ بڑی مشقت سے پالا تھا، اپنا پیٹ کاٹا تھا مگر اسے بھوکا نہ سلایا تھا، اپنے محدود وسائل کے باوصف اپنے سر کی چھت بیچ کر اپنے بیٹے کو پڑھا لکھا کر ڈاکٹر بنایا تھا۔
جس وقت انھوں نے اپنے وہ گھر بیچا جو کہ ہمارے ہمسائے میں تھا تو اس کے بعد سے میری ان سے اس روز ملاقات ہو رہی تھی۔ میں اٹھ کر ایک بار پھر ان سے تپاک سے ملی- ڈاکٹر فی-ڈے نے میرے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور اس کی بیوی زی بھی مجھے اٹھ کر دوبارہ ملی۔ باقی لوگوں نے اجازت چاہی۔'' آپ کو یہاں ، یوں... اس طرح دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے خالہ... '' میں نے انھیں پہچان لیا تھا اور اب مزید تکلفات کی تحمل نہ ہو سکتی تھی- ہمارے علاوہ جو لوگ وہاں پر تھے ان کا تعلق بھی خالہ کے قریبی خاندان سے تھا، '' مگر مجھے تو آپ لوگوں کے ناموں پر حیرت ہو رہی ہے!!'' میں سوال کہے بنا رہ نہ سکی تھی۔
'' بتاتی ہو ں ... ابھی بتاتی ہوں، ذرا چائے بنا کر لے آؤں ! '' وہ اٹھنے لگیں-...'' آپ بیٹھیں اماں ، ہم بنا لیتے ہیں چائے! '' فی-ڈے اور زی دونوں اٹھ گئے۔
'' خالہ آپ تو ان لوگوں سے لڑ پڑتی تھیں جو آپ کے بیٹے کو فیدے کہتے تھے، اب آپ سمیت سب لوگ اسے فیڈے کہتے ہیں تو آپ کو ٹھیک لگ رہا ہے؟ '' مجھے یاد آیاکہ کس طرح وہ اپنے بیٹے کے نام کے بارے میں حساس تھیں، خود اسے ہمیشہ فرید الدین کہہ کر پکارتیں اور جو اسے فیدا کہتا، اس سے الجھ پڑتیں، '' مگر اس سے بھی پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ کے نام کے سفر کی کیا داستان ہے؟ '' اپنا نام بھی ان کا ریشم بی بی تھا، ہمارے ہاں جس طرح ناموں کو بگاڑ کر بلانے کی عادت ہوتی ہے، ان کا نام ' ریشماں' پڑ گیا مگر وہ ہمیشہ اس سے چڑتی تھیں اور لوگوں کو ٹوکتیں کہ انھیں ان کے درست نام سے بلایا جائے، بالخصوص انھیں اس بات سے چڑ تھی کہ وہ نام کسی گانے والی کا تھا۔
'' اصل میں ساری بات لہجوں اور انداز کی ہوتی ہے بیٹا!! '' وہ گویا ہوئیں، '' وہاں لوگ مجھے یا میرے بیٹے کے نام کو جس طرح پکارتے تھے اس سے ہتک کا پہلو نمایاں ہوتا تھا، اب معاملہ مختلف ہے!!''
''اب کیا مختلف ہے خالہ؟ '' میں نے دلچسپی سے سوال کیا-...'' میرے بیٹے نے بہت محنت کی اور آج جس مقام پر وہ ہے وہ سب اللہ کا کرم ہے، اسے اللہ نے بہت بھاگ لگائے ہیں کیونکہ اس نے اپنی ماں کی قربانیوں کی قدر کی ہے۔ اسے اس میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا کہ اس کی ماں ایک چٹی ان پڑھ ہے، وہ مجھے فخر سے اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ گھر پر پارٹیاں کرتا ہے تو میں اپنے دیسی کھانے پکاتی ہوں، لوگ ان کی تعریف کرتے ہیں دونوں میاں بیوی بہت محنت کرتے ہیں اور مصروف رہتے ہیں- میں گھر سنبھالتی ہوں ، لوگ اس گھر کو فی-ڈے کا نہیں بلکہ آنٹی رے کا گھر کہتے ہیں، یہ بھی میرے بیٹے اور بہو کی عظمت ہے!! '' خالہ حسب عادت سادہ سے سوال کا بہت تفصیلی جواب دے رہی تھیں -
'' میں ناموں کے بارے میںپوچھ رہی تھی خالہ!! '' میں نے انھیں ٹریک پر لانے کی کوشش کی-
'' زی... میرے بیٹے کے ساتھ پڑھتی تھی، بن ماں کے پروان چڑھی بچی ہے- اس کا اپنا نام زلیخا ہے، جو کہ اسے پسند نہیں، مگر یہ نام اس کی مرحومہ ماں نے رکھا تھا تو اس نے تبدیل نہیں کیا... شادی ہوئی تو اس نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ فرید الدین کو فی-ڈے کہنا چاہتی ہے... اور پھر مجھے آنٹی ریشم کی بجائے آنٹی رے کہنے لگی- اب تو وہ مجھے اماں کہتی ہے مگر آنٹی رے کچھ اس طرح میرے بچوں کے دوستوں کے منہ پر چڑھا کہ اب یہی میرا نام بن گیا ہے- کوئی اتنا پیار کرے، اتنا خیال کرے، اتنا چاہے تو اس کی اتنی سے خواہش پوری کر لینے میں کیا حرج ہے... اور کہا نا کہ ساری بات تو لہجوں اور انداز کی ہے نا!! '' وہ معصومیت سے مجھے ایسا فلسفہ سمجھا رہی تھیں کہ جو کسی کو سمجھ میں نہیں آنے والا... پردیس میں ناسٹیلجیا کا پہلا حملہ!!
'' کہاں جانا ہے... روزے میں کہیں جانے کا کیا مزہ؟؟'' میں نے بڑبڑا کر سوال کیا، '' اتنا طویل روزہ!!''
'' روزہ ہی افطار کرنے جانا ہے '' مسکرا کرجواب دیا گیا۔...'' مگر کہاں ؟ ''
'' آنٹی رے کی طرف!! '' جیکٹ چڑھا کر باہر نکلتے ہوئے اس نے کہا۔...'' مگر سنو تو... '' میں عقب میں چلائی، '' یہ آنٹی رے کیا مسلمان ہیں؟ '' مگر میری وہاں سن کون رہا تھا، روزے کی افطاری کے لیے کسی انگریز آنٹی کے ہاں؟ بات کچھ ہضم نہ ہوئی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ مسلمان ہو چکی ہوں، میں نے دل ہی دل میں سوچا۔ چلو اب شام تک تو اس سوال کا جواب نہیں ملنے والا، پھر بھی میں نے اپنے تجسس کے غبارے میں سے ہوا نکالنے کو فون پر پیغام بھیجا، '' آنٹی رے کیا مسلمان ہیں؟ ''
'' آنٹی کے ہاں صرف افطاری کھانی ہے، کسی کا نکاح نہیں پڑھوانا، اس لیے ان کے بارے میں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں!! '' پیغام کا جلا ہوا جواب آیا۔شاباشے بھئی... آنٹی کے مذہب کے بارے میں فکر کیسے نہ کروں ، کوئی حرام حلال کی تمیز نہیں رہی تم لوگوں کو!! میں نے جلے ہوئے دل کے ساتھ سوچا۔ اس روز صحیح معنوں میں سمجھ میں آیا کہ '' صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا'' کا کیا مطلب ہے۔ بہر حال اپنے میزبان کے لوٹنے سے پہلے میں نک سک سے تیار تھی۔ بھوک بھی چمک رہی تھی اور سارا راستہ میزبان سے آنٹی رے کے محل وقوع کے بارے میں سوال کر کر کے زچ ہو گئی مگر اس نے کوئی تسلی بخش جواب نہ دیا، یہی کہا کہ جب ملوں تو خود ہی پوچھ لوں۔
گھر کے باہر گاڑیوں کی تعداد دیکھ کر ہی اندازہ ہو رہا تھا کہ کافی لوگ مدعو تھے۔ عورتوں والی حس جاگی اور فوراً اپنی تیاری کے بارے میں تنقیدی انداز سے سوچا۔ گھر میںکافی رش تھا، ہم بھی سلام دعا کے بعد اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرنے لگے۔اسی دوران باورچی خانے سے سفید لباس میں ملبوس سادہ سے حلیے کی خاتون نکلیں، آنٹی رے کے بیٹے کو ہمارے میزبان نے ڈاکٹر فی- ڈے کہہ کر متعارف کروایا تھا، پہلے Aunty Ray اور اب ان کا بیٹا Fee- Day - عجیب سے ناموں کے لوگ تھے، فی-ڈے تو کہیں سے بھی کینیڈین نہیں لگ رہا تھا، لاکھ اس نے اس دیس کا بھیس اپنا لیا تھا اور اس کی بیوی ''زی'' بھی۔ افطاری میں ابھی آدھا گھنٹہ تھا، اسی لیے لوگوں کے پاس باتیں کرنے کے لیے کافی وقت تھا، مگر باتوں میں آدھا گھنٹہ گزرنے کا علم بھی نہ ہوا۔فی -ڈے اور اس کی بیوی زی، دونوں ڈاکٹر تھے اور اس وقت اس مجمعے میں زیادہ تر لوگ ڈاکٹر ہی تھے۔
میں اس وقت تک آنٹی رے کا انتظار کرتی رہی جب تک کہ افطاری ہوتے ہی فی-ڈے اور زی کے ساتھ وہ سادہ سے حلیے والی سفید لباس والی بزرگ خاتون نے پلیٹ میری طرف بڑھائی۔ مجھے ان کا چہرہ شناسا لگا مگر اسے یہی سمجھ کر نظر انداز کیا کہ دنیا میں کئی لوگوں کے چہرے ملتے جلتے ہیں اور یوں بھی ہماری عورتیں عمر کے اس حصے میں پہنچ کر ایک جیسی لگنا شروع ہو جاتی ہیں۔ پھر ہر کوئی آنٹی رے کے ہاتھوں کی بنی ہوئی چیزوں کی تعریف کرنے لگا، وہ مسکرا مسکرا کر داد وصول کرتے ہوئے سب کی پلیٹوں میں اصرار کے ساتھ کھانے پینے کی چیزیں ڈال رہی تھیں۔
فی-ڈے اور زی بھی آنٹی کے ساتھ ساتھ میزبانی کے آداب نبھا رہے تھے مگر تعریف کا سارا سہرا آنٹی رے کے سر جا رہا تھا کیونکہ سارا کھانا ان ہی کے ہاتھ کا بنا ہوا تھا۔ کوئی بھی چیز بازار سے منگوائی ہوئی نہ تھی۔ اتنا ذائقہ تھا آنٹی کے ہاتھ میں، میں دل سے معترف ہوئی اور کھل کر ان کی تعریف کی- ان سے بات کرتے ہوئے میرے ذہن میں ایک دم جھماکا سا ہوا... مجھے سمجھ میں آ گیا تھا کہ مجھے ان کا چہرہ شناسا کیوں لگا تھا، مگر میں نے اپنے جذبات پر قابو پا لیا، جانے مجھے انھیں یوں پہچان لینے کا اظہار کرنا بھی چاہیے تھا کہ نہیں۔کچھ لوگ چلے گئے تھے، وہ جو دور سے آئے تھے اور وہ جو باقاعدگی سے تراویح پڑھتے تھے۔ چند لوگ ان کے فیملی روم میں بیٹھے رہ گئے تھے، جن میں سے ہم بھی تھے، '' یہ آنٹی رے... '' میں نے آہستگی سے اپنے میزبان سے پوچھا۔
'' شکر ہے کہ تمہارے دماغ نے بھی کام کیا!!'' آہستگی سے مگر تند جواب ملا-
'' مگر یہ... عجیب سے نام!!'' میں نے تاویل پیش کی-...'' ناموں سے کیا فرق پڑتا ہے، لوگ اور چہرے تو وہی رہتے ہیں!!'' مجھے آہستہ آواز میں کہہ کر اس نے باقی لوگوں کو اعلان کر کے بتایا کہ میں نے آنٹی کو پہچان لیا تھا، اس پر سب لوگوں نے تالیا ں بجا کر مجھے مزید شرمندہ کیا-'' اگر مجھے ٹھیک نام کا علم ہوتا تو میں پہلی نظر میں آنٹی کو پہچان لیتی!! '' میں نے کھسیا کر کہا-'' ہاں ہوسکتا ہے... مگر تم سے ایسی امید نہیں ہے!! '' فی-ڈے نے یقین سے کہا۔
ظاہر ہے اسے تومیں کیسے پہچانتی، پچیس برس کا عرصہ بہت طویل ہوتا ہے، اس کے بالوں کی چاندی میں سیاہ بال اتنے ہی تھے جتنا سالن میں نمک ہوتا ہے، اس کی بیوی یقینا کینیڈا سے تھی، اس نے اپنی عمر کو بالوں کے مختلف رنگ سے چھپا رکھا تھا۔ ان دونوں کا کوئی بچہ نہ تھا۔ فی-ڈے اپنی ماں کی تنہا اولاد، جسے اس کی ماں نے جوان عمری کی بیوگی کے ساتھ بڑی مشقت سے پالا تھا، اپنا پیٹ کاٹا تھا مگر اسے بھوکا نہ سلایا تھا، اپنے محدود وسائل کے باوصف اپنے سر کی چھت بیچ کر اپنے بیٹے کو پڑھا لکھا کر ڈاکٹر بنایا تھا۔
جس وقت انھوں نے اپنے وہ گھر بیچا جو کہ ہمارے ہمسائے میں تھا تو اس کے بعد سے میری ان سے اس روز ملاقات ہو رہی تھی۔ میں اٹھ کر ایک بار پھر ان سے تپاک سے ملی- ڈاکٹر فی-ڈے نے میرے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور اس کی بیوی زی بھی مجھے اٹھ کر دوبارہ ملی۔ باقی لوگوں نے اجازت چاہی۔'' آپ کو یہاں ، یوں... اس طرح دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے خالہ... '' میں نے انھیں پہچان لیا تھا اور اب مزید تکلفات کی تحمل نہ ہو سکتی تھی- ہمارے علاوہ جو لوگ وہاں پر تھے ان کا تعلق بھی خالہ کے قریبی خاندان سے تھا، '' مگر مجھے تو آپ لوگوں کے ناموں پر حیرت ہو رہی ہے!!'' میں سوال کہے بنا رہ نہ سکی تھی۔
'' بتاتی ہو ں ... ابھی بتاتی ہوں، ذرا چائے بنا کر لے آؤں ! '' وہ اٹھنے لگیں-...'' آپ بیٹھیں اماں ، ہم بنا لیتے ہیں چائے! '' فی-ڈے اور زی دونوں اٹھ گئے۔
'' خالہ آپ تو ان لوگوں سے لڑ پڑتی تھیں جو آپ کے بیٹے کو فیدے کہتے تھے، اب آپ سمیت سب لوگ اسے فیڈے کہتے ہیں تو آپ کو ٹھیک لگ رہا ہے؟ '' مجھے یاد آیاکہ کس طرح وہ اپنے بیٹے کے نام کے بارے میں حساس تھیں، خود اسے ہمیشہ فرید الدین کہہ کر پکارتیں اور جو اسے فیدا کہتا، اس سے الجھ پڑتیں، '' مگر اس سے بھی پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ کے نام کے سفر کی کیا داستان ہے؟ '' اپنا نام بھی ان کا ریشم بی بی تھا، ہمارے ہاں جس طرح ناموں کو بگاڑ کر بلانے کی عادت ہوتی ہے، ان کا نام ' ریشماں' پڑ گیا مگر وہ ہمیشہ اس سے چڑتی تھیں اور لوگوں کو ٹوکتیں کہ انھیں ان کے درست نام سے بلایا جائے، بالخصوص انھیں اس بات سے چڑ تھی کہ وہ نام کسی گانے والی کا تھا۔
'' اصل میں ساری بات لہجوں اور انداز کی ہوتی ہے بیٹا!! '' وہ گویا ہوئیں، '' وہاں لوگ مجھے یا میرے بیٹے کے نام کو جس طرح پکارتے تھے اس سے ہتک کا پہلو نمایاں ہوتا تھا، اب معاملہ مختلف ہے!!''
''اب کیا مختلف ہے خالہ؟ '' میں نے دلچسپی سے سوال کیا-...'' میرے بیٹے نے بہت محنت کی اور آج جس مقام پر وہ ہے وہ سب اللہ کا کرم ہے، اسے اللہ نے بہت بھاگ لگائے ہیں کیونکہ اس نے اپنی ماں کی قربانیوں کی قدر کی ہے۔ اسے اس میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا کہ اس کی ماں ایک چٹی ان پڑھ ہے، وہ مجھے فخر سے اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ گھر پر پارٹیاں کرتا ہے تو میں اپنے دیسی کھانے پکاتی ہوں، لوگ ان کی تعریف کرتے ہیں دونوں میاں بیوی بہت محنت کرتے ہیں اور مصروف رہتے ہیں- میں گھر سنبھالتی ہوں ، لوگ اس گھر کو فی-ڈے کا نہیں بلکہ آنٹی رے کا گھر کہتے ہیں، یہ بھی میرے بیٹے اور بہو کی عظمت ہے!! '' خالہ حسب عادت سادہ سے سوال کا بہت تفصیلی جواب دے رہی تھیں -
'' میں ناموں کے بارے میںپوچھ رہی تھی خالہ!! '' میں نے انھیں ٹریک پر لانے کی کوشش کی-
'' زی... میرے بیٹے کے ساتھ پڑھتی تھی، بن ماں کے پروان چڑھی بچی ہے- اس کا اپنا نام زلیخا ہے، جو کہ اسے پسند نہیں، مگر یہ نام اس کی مرحومہ ماں نے رکھا تھا تو اس نے تبدیل نہیں کیا... شادی ہوئی تو اس نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ فرید الدین کو فی-ڈے کہنا چاہتی ہے... اور پھر مجھے آنٹی ریشم کی بجائے آنٹی رے کہنے لگی- اب تو وہ مجھے اماں کہتی ہے مگر آنٹی رے کچھ اس طرح میرے بچوں کے دوستوں کے منہ پر چڑھا کہ اب یہی میرا نام بن گیا ہے- کوئی اتنا پیار کرے، اتنا خیال کرے، اتنا چاہے تو اس کی اتنی سے خواہش پوری کر لینے میں کیا حرج ہے... اور کہا نا کہ ساری بات تو لہجوں اور انداز کی ہے نا!! '' وہ معصومیت سے مجھے ایسا فلسفہ سمجھا رہی تھیں کہ جو کسی کو سمجھ میں نہیں آنے والا... پردیس میں ناسٹیلجیا کا پہلا حملہ!!