لندن کا گرم موسم اور ماحول بھی گرم
یہ بات درست ثابت ہوئی، پلیئرز نے حوصلے جواں رکھتے ہوئے ٹیم کوٹرافی بالکل سامنے پہنچا دیا ہے۔
چند روز قبل کوئی اگر یہ کہتا کہ چیمپئنز ٹرافی کا فائنل پاکستان اور بھارت کے درمیان ہو گا تو سب ہی اس کا مذاق اڑاتے، کسی کو گرین شرٹس کے سیمی فائنل میں بھی پہنچنے کا یقین نہ تھا مگر سرفراز احمد کی اعلیٰ قیادت اور نوجوان کھلاڑیوں کی محنت نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔
میں جب ایونٹ کیلیے انگلینڈ آیا تو پاکستان کے 2 میچز کور کر کے واپس چلا گیا تھا، اس دوران میں نے اوول لندن میں دیگر ٹیموں کے2 میچز بھی کور کیے، تب کالم میں تحریر کیا تھا کہ ''پاکستانی ٹیم اگر فائنل میں پہنچی تب ہی اسے اوول میں کھیلنے کا موقع ملے گا، یہاں آئی سی سی نے شریک ممالک کے سائن بورڈز لگائے ہیں جس میں لاہور، پاکستان کے ساتھ3903 میل درج ہے، اگر ہمت جواں ہو تو فاصلے اہمیت نہیں رکھتے، امید ہے کہ کھلاڑی جوش و جذبے سے پرفارم کرتے ہوئے ملک کا نام روشن کریں گے''۔
یہ بات درست ثابت ہوئی، پلیئرز نے حوصلے جواں رکھتے ہوئے ٹیم کوٹرافی بالکل سامنے پہنچا دیا ہے، بس اب تھوڑی اور ہمت کریں تو فاتح بن سکتے ہیں، صلاحیتوں میں وہ بھارت سے کم نہیں البتہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر پرفارم نہیں کر پاتے ہیں مگر امید ہے کہ حالیہ فتوحات کی وجہ سے اعتماد آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہو گا اور اب ابتدائی شکست کا بھی ازالہ ہو جائے گا،پاکستانی ٹیم کے فائنل میں پہنچنے کی وجہ سے مجھے آج دوبارہ انگلینڈ آنے کا موقع ملا۔
ہمارے ادارے کی خواہش ہے کہ اس اہم موقع پر کوئی نمائندہ موجود ہو اس لیے مجھے بھیجا، پاکستان میں لوگ ٹیم سے بہت توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں، سابق ہاکی کپتان اور کسٹمز آفیسر منصور احمد ایئرپورٹ پر ملے تو یہی کہا کہ '' بس کھلاڑیوں سے کہنا اب ٹرافی لے کر واپس آئیں'' وہیں ایم کیو ایم کے فاروق ستار سے بھی ملاقات ہوئی وہ نجی مصروفیات کے سلسلے میں امریکا جا رہے تھے، انھوں نے بھی گرین شرٹس کیلیے نیک خواہشات کا اظہار کیا، دبئی سے جس فلائٹ سے میں لندن آیا جنوبی افریقہ کی ویمنز ٹیم بھی اسی میں تھی۔
ماضی میں آئی سی سی ویمنز کرکٹرز کو اکانومی کلاس کا ٹکٹ دیتی تھی، مگر ان کے احتجاج پر اب مینز کی طرح ویمنز ٹیمیں بھی بزنس کلاس میں سفر کرتی ہیں جو اچھی روایت ہے، چیمپئنز ٹرافی کے بعد انگلینڈ میں ویمنز ورلڈکپ ہوگا، لندن آمد کے بعد میں نے دیکھا کہ فائنل کے حوالے سے جوش وخروش عروج پر ہے، ہر شائق ٹکٹوں کیلیے مارا مارا پھر رہا ہے اور کوئی بھی قیمت دینے کو تیار ہے، ایسے میں ان لوگوں کی چاندی ہو گئی جنھوں نے پہلے سے ٹکٹ خرید رکھے تھے۔
پاکستانی ٹیم نے ہلکی پھلکی ٹریننگ کی جس کے بعد کپتان سرفراز احمد میڈیا کے سامنے آئے، ان سے عامر سہیل کے بیان پر سوال ہوا جسے انھوں نے ''ذاتی رائے'' قرار دے کرتنازع بڑھانے سے گریز کیا، ویسے یہاں انگلینڈ میں بھی ہر پاکستانی عامر سہیل کے بیان پر ہی بات کرتے ہوئے انھیں تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے،خیر اب تیر کمان سے نکل چکااورکچھ نہیں ہو سکتا،بس سابق کرکٹرز کو بات کرنے سے قبل یہ سوچنا چاہیے کہ ان کے بیانات جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتے ہیں اور منفی بات ہو تو بھارتی میڈیا خوب مرچ مصالحہ لگا کر پیش کرتا ہے، یوں ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔
میری سرفراز سے بات ہوئی تو یہی کہا کہ منفی باتیں بھول کر صرف کھیل پر توجہ دو اور وہ ذہنی طور پر اتنا پختہ پلیئر ہے کہ ایسے بیانات کچھ نہیں بگاڑ سکتے، لندن میں پاکستانی ٹیم سے پہلے بھارت نے اوول میں پریکٹس کی، میڈیا اور شائقین نے جس طرح جنگ جیسا ماحول بنایا ہوا ہے پلیئرز کے ساتھ ایسا نہیں ہے اور انھوں نے تھوڑی بہت بات چیت بھی کی، ہوٹل بھی ایک ہی ہے جہاں کھلاڑیوں کا سامنا ہو جاتا ہے،سرفراز کے بیٹے کو گود میں اٹھائے ہوئے دھونی کی تصویر تو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی، گوکہ کرکٹرز ظاہر نہیں کرتے لیکن دل ہی دل میں گھبرا بھی رہے ہوں گے، انھیں اندازہ ہے کہ اگر اتوار کو پرفارم نہ کیا تو ساری محنت مٹی میں مل جائے گی۔
اب یہی اضافی دباؤ جس نے اچھی طرح جھیل لیا وہ ٹیم جیت جائے گی، بس پی سی بی آفیشلز سے یہی درخواست ہے کہ پہلے میچ کی طرح اب کھلاڑیوں کو اپنے ''قیمتی مشوروں'' سے نہیں نوازیں، سنا ہے کل سفیر کے عشایے میں شہریارخان اور نجم سیٹھی نے پھر ٹیم سے ملاقات کی اور مشورے بھی دیے ، یہ درست نہیں، ٹیم کو مزید دباؤ کا شکار نہ کریں انھیں کرکٹ پر توجہ دینے دیں، آپ یہاں ٹھنڈے موسم سے لطف اندوز ہوں، او سوری ٹھنڈا کہاں آج تو کراچی والی گرمی ہے اور سنا ہے اتوار کو بھی ایسے ہی حالات رہیں گے، البتہ پاک بھارت ٹاکرے کی وجہ سے ماحول گرم ہے، بورڈ کے تمام اعلیٰ آفیشلز لندن میں ہی ہیں۔
اوول میں ''پاکستان ہاؤس'' تو موجود ہے، اسے پی سی بی کا دفتر بھی بنایا جا سکتا ہے،انہی مفت کے ٹورز کی وجہ سے ہر کوئی کرکٹ بورڈ میں ملازمت کرنا چاہتا ہے، حکام کی توجہ ٹیم کی پرفارمنس سے زیادہ اپنے جاننے والی اعلیٰ شخصیات کو مفت ٹکٹ دینے پر مرکوز ہے۔
ڈائریکٹر میڈیا سمیت تین میڈیا کے لوگ، شہریارخان، نجم سیٹھی، عثمان واہلہ پہلے ہی انگلینڈ میں تھے اب سبحان احمد بھی آئی سی سی میٹنگ میں شرکت کیلیے آ گئے ہیں، بھارت سے شکست کے بعد سب غائب تھے اب کریڈٹ لینے کیلیے سامنے آ گئے ہیں، سوشل میڈیا پر گرین کیپس پہن کر تصاویر بھی شیئر کی جا رہی ہیں، لوگ صحیح کہتے ہیں کہ کامیاب افراد کے بہت چاہنے والے ہوتے ہیں اور ناکام کو کوئی نہیں پوچھتا۔
فخر زمان پی ایس ایل سے پہلے ہی پاکستان اے کی نمائندگی کر چکے تھے، ڈومیسٹک کرکٹ کے بھی پرفارمرز میں شامل تھے، 2012میں ان کا لسٹ اے اور 2013 میں فرسٹ کلاس ڈیبیو ہو چکا تھا، مگر اب لاہور قلندر والے انھیں اپنی دریافت بنا کر پیش کر رہے ہیں،فہیم اشرف کی کامیابی کا کریڈٹ لینے بھی کئی لوگ سامنے آ رہے ہیں، مگر تنویر شوکت جیسے کوچز اصل ہیرو ہیں جو ایسے ہیرے تراشتے ہیں۔
ویسے آفرین ہے قومی کرکٹرز پر کہ بورڈ اور اردگرد اتنی سیاست کے باوجود وہ عمدہ پرفارم کر رہے ہیں، بس اب گرین شرٹس اتوار کو بھی کچھ کر دکھائیں تو طویل عرصے بعد کرکٹ میں ملک کو بڑی خوشخبری مل سکے گی، امید ہے کہ ٹیم ہمیں مایوس نہیں کرے گی۔
میں جب ایونٹ کیلیے انگلینڈ آیا تو پاکستان کے 2 میچز کور کر کے واپس چلا گیا تھا، اس دوران میں نے اوول لندن میں دیگر ٹیموں کے2 میچز بھی کور کیے، تب کالم میں تحریر کیا تھا کہ ''پاکستانی ٹیم اگر فائنل میں پہنچی تب ہی اسے اوول میں کھیلنے کا موقع ملے گا، یہاں آئی سی سی نے شریک ممالک کے سائن بورڈز لگائے ہیں جس میں لاہور، پاکستان کے ساتھ3903 میل درج ہے، اگر ہمت جواں ہو تو فاصلے اہمیت نہیں رکھتے، امید ہے کہ کھلاڑی جوش و جذبے سے پرفارم کرتے ہوئے ملک کا نام روشن کریں گے''۔
یہ بات درست ثابت ہوئی، پلیئرز نے حوصلے جواں رکھتے ہوئے ٹیم کوٹرافی بالکل سامنے پہنچا دیا ہے، بس اب تھوڑی اور ہمت کریں تو فاتح بن سکتے ہیں، صلاحیتوں میں وہ بھارت سے کم نہیں البتہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر پرفارم نہیں کر پاتے ہیں مگر امید ہے کہ حالیہ فتوحات کی وجہ سے اعتماد آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہو گا اور اب ابتدائی شکست کا بھی ازالہ ہو جائے گا،پاکستانی ٹیم کے فائنل میں پہنچنے کی وجہ سے مجھے آج دوبارہ انگلینڈ آنے کا موقع ملا۔
ہمارے ادارے کی خواہش ہے کہ اس اہم موقع پر کوئی نمائندہ موجود ہو اس لیے مجھے بھیجا، پاکستان میں لوگ ٹیم سے بہت توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں، سابق ہاکی کپتان اور کسٹمز آفیسر منصور احمد ایئرپورٹ پر ملے تو یہی کہا کہ '' بس کھلاڑیوں سے کہنا اب ٹرافی لے کر واپس آئیں'' وہیں ایم کیو ایم کے فاروق ستار سے بھی ملاقات ہوئی وہ نجی مصروفیات کے سلسلے میں امریکا جا رہے تھے، انھوں نے بھی گرین شرٹس کیلیے نیک خواہشات کا اظہار کیا، دبئی سے جس فلائٹ سے میں لندن آیا جنوبی افریقہ کی ویمنز ٹیم بھی اسی میں تھی۔
ماضی میں آئی سی سی ویمنز کرکٹرز کو اکانومی کلاس کا ٹکٹ دیتی تھی، مگر ان کے احتجاج پر اب مینز کی طرح ویمنز ٹیمیں بھی بزنس کلاس میں سفر کرتی ہیں جو اچھی روایت ہے، چیمپئنز ٹرافی کے بعد انگلینڈ میں ویمنز ورلڈکپ ہوگا، لندن آمد کے بعد میں نے دیکھا کہ فائنل کے حوالے سے جوش وخروش عروج پر ہے، ہر شائق ٹکٹوں کیلیے مارا مارا پھر رہا ہے اور کوئی بھی قیمت دینے کو تیار ہے، ایسے میں ان لوگوں کی چاندی ہو گئی جنھوں نے پہلے سے ٹکٹ خرید رکھے تھے۔
پاکستانی ٹیم نے ہلکی پھلکی ٹریننگ کی جس کے بعد کپتان سرفراز احمد میڈیا کے سامنے آئے، ان سے عامر سہیل کے بیان پر سوال ہوا جسے انھوں نے ''ذاتی رائے'' قرار دے کرتنازع بڑھانے سے گریز کیا، ویسے یہاں انگلینڈ میں بھی ہر پاکستانی عامر سہیل کے بیان پر ہی بات کرتے ہوئے انھیں تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے،خیر اب تیر کمان سے نکل چکااورکچھ نہیں ہو سکتا،بس سابق کرکٹرز کو بات کرنے سے قبل یہ سوچنا چاہیے کہ ان کے بیانات جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتے ہیں اور منفی بات ہو تو بھارتی میڈیا خوب مرچ مصالحہ لگا کر پیش کرتا ہے، یوں ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔
میری سرفراز سے بات ہوئی تو یہی کہا کہ منفی باتیں بھول کر صرف کھیل پر توجہ دو اور وہ ذہنی طور پر اتنا پختہ پلیئر ہے کہ ایسے بیانات کچھ نہیں بگاڑ سکتے، لندن میں پاکستانی ٹیم سے پہلے بھارت نے اوول میں پریکٹس کی، میڈیا اور شائقین نے جس طرح جنگ جیسا ماحول بنایا ہوا ہے پلیئرز کے ساتھ ایسا نہیں ہے اور انھوں نے تھوڑی بہت بات چیت بھی کی، ہوٹل بھی ایک ہی ہے جہاں کھلاڑیوں کا سامنا ہو جاتا ہے،سرفراز کے بیٹے کو گود میں اٹھائے ہوئے دھونی کی تصویر تو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی، گوکہ کرکٹرز ظاہر نہیں کرتے لیکن دل ہی دل میں گھبرا بھی رہے ہوں گے، انھیں اندازہ ہے کہ اگر اتوار کو پرفارم نہ کیا تو ساری محنت مٹی میں مل جائے گی۔
اب یہی اضافی دباؤ جس نے اچھی طرح جھیل لیا وہ ٹیم جیت جائے گی، بس پی سی بی آفیشلز سے یہی درخواست ہے کہ پہلے میچ کی طرح اب کھلاڑیوں کو اپنے ''قیمتی مشوروں'' سے نہیں نوازیں، سنا ہے کل سفیر کے عشایے میں شہریارخان اور نجم سیٹھی نے پھر ٹیم سے ملاقات کی اور مشورے بھی دیے ، یہ درست نہیں، ٹیم کو مزید دباؤ کا شکار نہ کریں انھیں کرکٹ پر توجہ دینے دیں، آپ یہاں ٹھنڈے موسم سے لطف اندوز ہوں، او سوری ٹھنڈا کہاں آج تو کراچی والی گرمی ہے اور سنا ہے اتوار کو بھی ایسے ہی حالات رہیں گے، البتہ پاک بھارت ٹاکرے کی وجہ سے ماحول گرم ہے، بورڈ کے تمام اعلیٰ آفیشلز لندن میں ہی ہیں۔
اوول میں ''پاکستان ہاؤس'' تو موجود ہے، اسے پی سی بی کا دفتر بھی بنایا جا سکتا ہے،انہی مفت کے ٹورز کی وجہ سے ہر کوئی کرکٹ بورڈ میں ملازمت کرنا چاہتا ہے، حکام کی توجہ ٹیم کی پرفارمنس سے زیادہ اپنے جاننے والی اعلیٰ شخصیات کو مفت ٹکٹ دینے پر مرکوز ہے۔
ڈائریکٹر میڈیا سمیت تین میڈیا کے لوگ، شہریارخان، نجم سیٹھی، عثمان واہلہ پہلے ہی انگلینڈ میں تھے اب سبحان احمد بھی آئی سی سی میٹنگ میں شرکت کیلیے آ گئے ہیں، بھارت سے شکست کے بعد سب غائب تھے اب کریڈٹ لینے کیلیے سامنے آ گئے ہیں، سوشل میڈیا پر گرین کیپس پہن کر تصاویر بھی شیئر کی جا رہی ہیں، لوگ صحیح کہتے ہیں کہ کامیاب افراد کے بہت چاہنے والے ہوتے ہیں اور ناکام کو کوئی نہیں پوچھتا۔
فخر زمان پی ایس ایل سے پہلے ہی پاکستان اے کی نمائندگی کر چکے تھے، ڈومیسٹک کرکٹ کے بھی پرفارمرز میں شامل تھے، 2012میں ان کا لسٹ اے اور 2013 میں فرسٹ کلاس ڈیبیو ہو چکا تھا، مگر اب لاہور قلندر والے انھیں اپنی دریافت بنا کر پیش کر رہے ہیں،فہیم اشرف کی کامیابی کا کریڈٹ لینے بھی کئی لوگ سامنے آ رہے ہیں، مگر تنویر شوکت جیسے کوچز اصل ہیرو ہیں جو ایسے ہیرے تراشتے ہیں۔
ویسے آفرین ہے قومی کرکٹرز پر کہ بورڈ اور اردگرد اتنی سیاست کے باوجود وہ عمدہ پرفارم کر رہے ہیں، بس اب گرین شرٹس اتوار کو بھی کچھ کر دکھائیں تو طویل عرصے بعد کرکٹ میں ملک کو بڑی خوشخبری مل سکے گی، امید ہے کہ ٹیم ہمیں مایوس نہیں کرے گی۔