بدلہ چکانے ٹائٹل پر قبضہ جمانے کا موقع

گرین شرٹس نئی تاریخ رقم کرنے کے لیے پرعزم۔

گرین شرٹس نئی تاریخ رقم کرنے کے لیے پرعزم۔ فوٹو: اے ایف پی

MUZAFFARABAD:
آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کو ایک کمزور ٹیم خیال کیا جارہا تھا،جدید کرکٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے کوشاں گرین شرٹس کی قیادت سرفراز احمد کے سپرد تھی، وکٹ کیپر بیٹسمین صرف ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز کا تجربہ لئے میدان میں اتر رہے تھے،کپتان کو کئی نوآموز کرکٹرز کی خدمات میسر تھیں،ان میں سے چند تو ایک بھی انٹرنیشنل میچ نہیں کھیلے تھے،دیگر ٹیموں میں شامل بڑے نام دہشت کی علامت نظر آرہے تھے۔

تجزیہ نگاروں کی اکثریت کے رائے تھی کہ چیمپئنز کی جنگ میں پاکستان کی دال نہیں گلنے والی،گرین شرٹس نے ایونٹ کی تیاری کے لیے 2ہفتے قبل ہی برمنگھم میں ڈیرے ڈالے، بادلوں کی آنکھ مچولی میں بلند عزائم کے ساتھ کبھی انڈور تو کبھی میدان میں بھرپور مشقوں کا سلسلہ جاری رکھا، پہلے ہی میچ میں بھارت کا سامنا کرتے ہوئے سب تیاریاں بیکار نظر آئیں۔

دباؤ سے بھرپور مقابلے میں ویرات کوہلی الیون ابتدا میں تو تھوڑا سنبھل کر کھیلی بعد ازاں بولرز کا خوب امتحان لیتے ہوئے رنز کا پہاڑ کھڑا کیا،بارش کی مداخلت کے سبب پاکستان کے ہدف کے ساتھ اوورز بھی کم ہوئے لیکن بیٹنگ کسی موقع پر بھی فتح کی جانب پیش قدمی کرتی نظر نہیں آئی،ٹیم سے بلند توقعات تو وابستہ نہیں تھیں لیکن یوں بغیر لڑے ہارجانے پر شائقین کو سخت مایوسی ہوئی، خدشہ تھا کہ ناکامیوں کی دلدل سے نکلنا مشکل ہوگا اور گزشتہ چیمپئنز ٹرافی کی طرح اس بار بھی گرین شرٹس تینوں میچز میں شکست کے بعد وطن واپسی کے لیے رخت سفر باندھ لیں گے لیکن پاکستانی سکواڈ نے ٹورنامنٹ میں واپسی کے ارادے باندھنے شروع کردیئے،درست فیصلوں کا آغاز ہوا۔

بیشتر میچز میں دیگر بولرز کی جانب سے پیدا کیا جانے والا دباؤ ختم کرنے میں حریف بیٹسمینوں کی معاونت کرنے کے لیے مشہور وہاب ریاض خوش قسمتی سے زخمی ہوگئے،انگلش کنڈیشنز کے لیے موزوں جنید خان کو جنوبی افریقہ کے خلاف صلاحیتوں کے اظہار کا موقع مل گیا،پیسر نے مایوس نہیں کیا،دیگر بولرز نے بھی عالمی نمبر ون پروٹیز کا خوف سوار کرنے کے بجائے جارحانہ بولنگ کرتے ہوئے فتح کا راستہ بنادیا۔

احمد شہزاد کی جگہ لینے والے احمد شہزاد کی جگہ فخرزمان کو آزمایا گیا تو انہوں نے بھی گہرا تاثر چھوڑا،بیٹنگ ڈگمگانے کا موقع بارش نے نہیں آنے دیا،اوپنر تیزی سے رنز نہ بناتے تو ڈک ورتھ لوئیس میتھڈ پاکستان ٹیم پر ظلم ڈھا دیتا،سری لنکا کے خلاف میچ کوارٹر فائنل بن چکا تھا،بھارت کا دیا پہاڑ جیسا ہدف حاصل کرنے کے بعد آئی لینڈرز بے پناہ اعتماد بھی حاصل کرچکے تھے، بولرز ایک بار پھر سرخرو ہوئے اور حریف کو 250سے کم سکور تک محدود کیا۔

ہدف کم اور آغاز اچھا ہونے کے باوجود بیٹنگ لڑکھڑائی تو سرفراز احمد اور محمد عامر نے حیران کن شراکت سے فتح کا مشن مکمل کردیا،اس کامیابی نے ٹیم میں نئی روح پھونک دی،سیمی فائنل میں فیورٹ انگلینڈ سے مقابلہ تھا،بھارت کو تو سری لنکا نے حیران و پریشان کیا لیکن میزبان کو تو ایونٹ کی واحد ناقابل شکست ٹیم ہونے کا اعزاز حاصل تھا،توقعات کے بوجھ تلے دبے انگلینڈ کو مزید دباؤ میں لانے کے لیے پاکستان نے پہلے بولنگ کا بولڈ فیصلہ کیا، ہدف کے تعاقب میں کمزور خیال کی جانے والے گرین شرٹس کی اس جرائت اور عمدہ بولنگ نے ایون مورگن الیون کی الجھن بڑھادی۔



مضبوط بیٹنگ لائن رنز کوترسنے کے ساتھ وکٹیں بھی تسلسل کے ساتھ گنواتی رہے،شاداب خان نے جوئے روٹ کی وکٹ اڑاکر تباہی بنیاد رکھی تو حسن علی،رومان رئیس اور جنید خان ٹوٹ پڑے، پاکستانی اوپنرز نے سنچری شراکت سے فتح کا سفر مزید آسان کردیا،فخرزمان تو پہلے بھی تسلسل کے ساتھ رنز بنارہے تھے، اظہر علی بھی ثابت قدم رہے،بابر اعظم اور محمد حفیظ نے بھی کسی انہونی کوجنم نہیںلینے دیا اور فتح کا مشن مکمل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔


دوسری جانب بھارتی ٹیم نے پاکستان کے خلاف کامیابی کے بعد اوپنرز شیکھر دھون اور روہت شرما کی عمدہ بیٹنگ کی بدولت بڑا سکور کرنے کے باوجود حیران کن انداز میں سری لنکا سے مات کھائی،جنوبی افریقہ سے میچ کوارٹرفائنل کی صورت اختیار کرگیا تھا،اس میں بھی ویرات کوہلی الیون سرخرو ہوئی،پروٹیز نے اچھے آغاز کے بعد صرف 51رنز کے سفر میں 8وکٹیں گنوائیں اور 200کا سنگ میل بھی عبور نہ کرپائے،اس بار روہت شرما بڑی اننگز نہ کھیل پائے تو شیکھر دھون کا ساتھ دینے کے لیے کوہلی فارم میں آگئے۔

بنگلادیش کے خلاف سیمی فائنل بھی یکطرفہ ثابت ہوا، ایک وقت میں 300رنز کی طرف بڑھتے ٹائیگرز کے 30اوورز بعد قدم لڑکھڑانا شروع ہوئے تو بڑا ہدف دینے کا خواب ٹوٹ گیا،روہت شرما کے بیٹ نے رنز اگلے، دھون کے بعد کوہلی بولرز کی دھلائی کے لیے آگئے،صرف ایک وکٹ گنواکر کامیابی گلے لگانے والی ٹیم کی بیٹنگ نے ایک بار پھر دھاک بٹھائی،سری لنکا کے خلاف شکست میں بھی بیٹسیمنوں کا کوئی قصور نہیں تھا،بعد ازاں بھی انہوں سب ٹیموں سے مستحکم لائن اپ کے طور پر کارکردگی پیش کی ہے۔

فائنل میں مقابل ہونے والے روایتی حریفوں کی قوت کو دیکھا جائے تو اصل مقابلہ پاکستان کی بولنگ اور بھارت کی بیٹنگ لائن میں ہے،اگر گرین شرٹس کو فتح گلے لگانی ہے تو بیٹسمینوں کو رنز سے ترسانا اور وکٹیں اڑانا ہونگی، گروپ میچ میں سرفراز احمد الیون نے کسی حد تک رنز کا حصول مشکل بنارکھا تھا لیکن یوراج سنگھ اور ویرات کوہلی کے کیچ گرادینے سے بولرز کے حوصلے پست ہوئے،دونوں نے مواقع ملنے پر جارحانہ بیٹنگ کرتے ہوئے میچ پاکستان کی پہنچ سے دور کردیا،ہدف اتنا زیادہ تھا کہ بارش کی وجہ سے کم کئے جانے کے باوجود پہاڑ ثابت ہوا،بیٹسمینوں کے تو ہاتھ پاؤں ہی پھول گئے۔



ٹائٹل اپنے نام کرنے کے لیے اس بار کم غلطیاں کرتے ہوئے بلوشرٹس کو دباؤ میں لانا ہوگا، بھارتی بیٹنگ ہو یا بولنگ ایک بار اعصاب پر سوار ہوگئی تو انگلینڈ کے خلاف سیمی فائنل کی کارکردگی دہرانا مشکل ہوتا جائے گا،سری لنکن بیٹنگ نے بڑے ہدف کا کامیاب تعاقب کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ بھارتی بولرز کو تحمل مزاجی سے کھیلتے ہوئے کمزور گیندوں پر سٹروکس کھیلے جائیں تو رنز بن سکتے ہیں،غیر ضروری محتاط انداز یا جوش میں ہوش گنوادینے سے ٹیم کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔

انگلینڈ کی ہوم کنڈیشنز میںمیزبان بولرز کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے بعد پاکستان کی بیٹنگ کا اعتماد بحال ہوا ہے،بھارت سے میچ میں بھی اس مثبت سوچ کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کارکردگی میں تسلسل برقرار رکھنا ہوگا،لیفٹ ہینڈر فخرزمان ابھی تک تسلسل کے ساتھ رنز بنارہے ہیں،ان کو اپ سیٹ کرنے کے لیے ویرات کوہلی رائٹ آرم آف سپنر روی چندرن ایشون کو آغاز میں ہی بولنگ دے سکتے ہیں، اوپنر کو اپنے سٹروکس اور فیلڈرز کی پوزیشن دونوں چیک کرنا ہونگے۔

بھارتی بولنگ خاص طور پر جسپریت بمرا مڈل آرڈر کے لیے پریشانیاں پیدا کرتے ہیں،شعیب ملک کو بابر اعظم کے بعد چوتھے نمبر پر بیٹنگ کے لیے بھیج کر پریشر کم کیا جاسکتا ہے، فہیم اشرف پاور ہٹر کے طور پر اچھا انتخاب ثابت ہوسکتے ہیں، بھارتی بیٹسمین سپنرز کو اچھا کھیلتے ہیں،پاکستان کی ٹیم منیجمنٹ 4پیسرز کے ساتھ میدان میں اترنے کا فیصلہ کرے تو اٹیک مضبوط ہوگا، محمد حفیظ، عماد وسیم اور شعیب ملک کی موجودگی میں شاداب خان کو ڈراپ کیا جاسکتا ہے۔

اچھی بات یہ ہے کہ اس بار بھارت کو رنز بٹورنے کے لیے وہاب ریاض کی سہولت میسر نہیں ہوگی۔عزم جوان اور حوصلے بلند ہوں،دماغ حاضر اور جسم ساتھ دیں،بہترین صلاحیتیں نکھر کر سامنے آئیں تو کسی بھی ٹیم کو زیر کیا جاسکتا ہے،انگلینڈ کے خلاف پاکستان ٹیم کی کارکردگی میں یہی چیزیں نظر آئیں، بھارت کو بھی زیر کرکے تاریخ رقم کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔

 
Load Next Story