سب کچھ ہمارا
شاندار الفاظ کا مجموعہ، شاندار شخصیت کی زبان سے جب جاری ہوا تو گویا وہ حرف آخر بن گیا
2018 انتخابات کا سال ہوگا یا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ 2017 کے آخری مہینے بھی الیکشن کا پیغام دے جائیں۔ بہرحال آج کل تو ہر جگہ جے آئی ٹی کے چرچے ہیں، کچھ لوگ اس کو الیکشن کمپین کا نام بھی دے رہے ہیں اور کچھ قلابازیاں بھی کھا رہے ہیں۔ مگر ہمارے حکمران کافی پرسکون نظر آرہے ہیں، کوئی پریشانی کی بات نہیں لگتی بس قوم کو مصروف رکھنے کا عمل جاری ہے۔ یا یوں سمجھ لیجیے کہ پوری قوم ٹرک کی لال بتی کے پیچھے پڑی ہے۔ بھاگے جا رہے ہیں بھاگے جا رہے ہیں۔ ٹاک شوز بھی عروج پر ہیں۔
قوم کی امیدیں لگی ہیں جے آئی ٹی پر۔ دیکھیے اب کیا ہوتا ہے۔ حسب معمول مایوسیاں ملتی ہیں یا تاریخ رقم ہوتی ہے۔ ہاں پی ٹی آئی کے یہ الفاظ بھی قابل غور ہیں کہ بھیا جب ہم نے کہا تھا کہ فیصلے سکون سے پڑھ لو پھر مٹھائیاں بانٹنا مگر ان لوگوں نے ایک نہ سنی اور اب مٹھائیاں بانٹنے کے بعد باری باری سب جے آئی ٹی میں حاضری لگا رہے ہیں۔ فیصلہ کچھ بھی ہو، سیاست کچھ بھی ہو، حاضری تو حاضری ہوتی ہے، سو ہو رہی ہے۔
سوچیے تو سہی ہم سب خالی خالی ہاتھ جائیں گے صرف اعمال نامے ہمارے ساتھ ہوں گے سب جانتے ہیں اور روزانہ ہی پریکٹیکل دیکھتے ہیں۔ مگر اپنی باری پر صدیوں کے فیصلے کر بیٹھتے ہیں۔ نسل در نسل کی سوچتے ہیں، اور آنے والی نسلوں کو بھی متضاد بناجاتے ہیں۔ کسی کے منصوبے، کسی کی پلاننگ اور تکلیف ساری کی ساری قوم کو بھگتنی پڑتی ہے۔ سیاست سیاست کھیلتے کھیلتے برسوں گزر گئے ہیں اور مزید اس کھیل میں شدت پائی جا رہی ہے۔ اب تو دل کرتا ہے کہ کہا جائے بس کردو بس۔ مزے کی بات یہ ہے کہ احسانات اتارنے کے لیے بھی پاکستان کا استعمال ہوتا ہے۔ گویا یہ ملک نہ ہو جاگیر ہو کر رہ گئی ہے۔
عقل و دل دونوں حیران رہ جاتے ہیں کہ ایک آزاد رحمتوں و برکتوں سے بھرا ہوا ملک بے تحاشا نعمتوں سے بھرا بھرا یہ ملک کیوں بہترین لوگوں کی رہنمائی سے محروم رہ گیا ہے کیوں دشمنوں کی چالیں ہر بار کامیاب ہوجاتی ہیں اور کیوں ہمارے اپنے ہی ہم سب سے متنفر ہوجاتے ہیں، ہم کیوں اپنا سبق بھول جاتے ہیں، ہم کیوں اپنا ماضی بھول جاتے ہیں، ہمیں اپنے حال اور مستقبل کو عالی شان بنانا چاہیے، کیا انفرادی زندگی کی اہمیت زیادہ ہے، کیا انفرادی طور پر کبھی کوئی مضبوط ہوا ہے، کبھی نہیں، کبھی نہیں۔ وہم و گمان کا یہ چکر صرف اور صرف تباہی کی طرف جاتا ہے۔
''میں'' کبھی کچھ نہیں ہوتا ، طاقت ہمیشہ ''ہم'' ہی دیتا ہے۔ جب ہم بنے تو پاکستان بنا جب ہم بنے تو محبتوں نے فروغ پایا، جب ہم بنے تو ترقی کی راہ پر گامزن ہوئے، اور جب ''میں'' نے آواز اٹھائی اور ''میں'' نے گردن اکڑائی بس پھر خدا کی لاٹھی بھی بلند ہوئی۔ دیر سویر تو ہوسکتی ہے مگر کبھی اللہ کا انصاف نامکمل نہیں ہوتا، ہم انسان تو بے حد کمزور ہیں، ہمارے فیصلے بھی کمزور ہوتے ہیں، ہم انصاف بھی نہیں کر پاتے، بہت سمجھ بوجھ کے ساتھ بھی، مگر ہمیشہ حکمرانی اللہ ہی کی ہوتی ہے اسی نے سب کچھ بنایا وہی مالک ہے اور وہی بہترین فیصلے کرنے والا ہے، سب کچھ جانتے ہوئے بھی ہم میں اکڑ کیوں نہیں کم ہوتی۔
ہم کیوں اپنی اوقات سے باہر ہوجاتے ہیں، ہم مٹی سے بنے ہوئے لوگ مٹی میں مل جائیں گے۔ اس کے باوجود بھی گویا اپنے آپ کو کیا خوب سمجھتے ہیں اور اپنے حال اور مستقبل کو مکمل عیش و آرام سے آراستہ کرنے میں ساری توانائیاں لگا دیتے ہیں پھر اگر الزامات شروع ہوں تو ان الزامات کو جھٹلانے میں زندگی لگا دیتے ہیں، سوچیے یہی تمام توانائیاں، تمام مثبت انرجی اگر ہم اپنے آپ پر تو خرچ کریں مگر دوسروں کی بہتری کے لیے، اس ملک کے لیے، اپنے شہر کے لیے، اپنی گلیوں کے لیے خرچ کریں، ہم سب کو بہتر سے بہتر بنانے پر خرچ کریں تو رزلٹ کتنا عالی شان ہوگا۔ اور ہم سب کا سر بھی فخر سے بلند ہوگا۔
قائد اعظم ہو، علامہ اقبال، سرسید احمدخان، مولانا جوہر علی، شوکت علی، فاطمہ جناح اور بہت عظیم انسان جو ہم سب میں جذبے جگا گئے جو ہم میں انسانیت جگا گئے جو ہمیں بتا گئے کہ ہماری جگہ اور مرتبہ کیا ہے، ہم کیوں ہیں اور ہمیں کیا کرنا ہے کیسے ہمارے ذہنوں کو جگا گئے کیسے ہمارے خوابوں کو تعبیریں ملیں گی وہ راستے پر چلا گئے، مگر سالہا سال کی جدوجہد کے بعد بھی ہم نے کیا کچھ نہیں سیکھا، آج بھی لگتا ہے خالی ہاتھ اور خالی دامن ہیں ہم۔ اپنے ہی لوگوں سے سیاست، اپنے ہی لوگوں سے چالبازیاں، اپنے ہی لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ، اپنے ہی لوگوں پر جبر اور سختی، کہاں جانا تھا اور کہاں چلے گئے اور پتا نہیں کہاں جا رہے ہیں؟
تعلیم کے روشن باب بھی ہمیں روشنی نہیں دے پا رہے ہیں تعلیم کے کھلے دروازے بھی کیوں ہمیں قبول نہیں کر رہے ہیں کچھ تو کمی رہ گئی ہے کوئی تو غلامی کی زنجیر باقی رہ گئی ہے، کوئی تو دروازہ ابھی تک بند ہے جس کے کھلنے کا انتظار کب تک کرنا ہوگا؟ ''میں'' کا سفر کب تک جاری رہے گا اور اللہ جانے کتنی تباہیوں کے بعد ہم ''ہم'' کے سفر پر گامزن ہوں گے۔
لیکن یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جاسکتی کہ سفر اور کامیابی، منزل ہمیشہ سچے جذبوں کے ساتھ ہی مل پاتی ہے، خلوص دل کے ساتھ جو شخصیتیں رنگ لاتی ہے وہ رنگ بہت گہرے ہوتے ہیں، یہی شاید وہ وقت ہے جب ہم سب کو ''ہم'' بننے کی شدید ضرورت ہے، انفرادی شخصیتیں صرف تنہائی دے کر جاتی ہیں، صرف اپنے خاکے چھوڑ جاتی ہیں جب کہ اجتماعیت میں کمال چھپا ہے، عظمت چھپی ہے، الیکشن 2017 میں ہو یا 2018 میں اب ہم سب وہ قیادت کی دعا کرتے ہیں جو اس ملک کے لیے، یہاں کے لوگوں کے لیے سکھ کامل بن جائے، ایک دوسرے کے احسانات اتارنے کے لیے ملک اور لوگوں کا استعمال نہ ہو، اپنے اپنے ذاتی مفادات صرف اپنی حد تک ہی رکھے جائیں، سوچا اور سمجھا جائے تو صرف اور صرف انسانوں کی بھلائی کے لیے، انسانیت کے لیے، کہ شاید ہم ایک دوسرے کے وسیلے ہی بن جائیں اور ایک دوسرے کے کام آئیں اور سمجھیں اس پیغام کو جو محسن انسانیت نے دیا جو محسن امتی نے دیا کہ اللہ کے رسول نے واضح طور پر اپنے آخری خطبے میں فرمایا کہ عجمی کو عربی پر، عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں فوقیت ہے تو صرف تقویٰ پر۔
شاندار الفاظ کا مجموعہ، شاندار شخصیت کی زبان سے جب جاری ہوا تو گویا وہ حرف آخر بن گیا، یہ وہ خطبہ ہے جو مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اب اگر ہم نہیں سمجھے تو کب سمجھیں گے، اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا اور ان کو ماننا بھی بے حد بہادری کا کام ہے ہر کسی کے بس میں نہیں، مگر جس نے کر لیا گویا اس نے انسانیت پالی۔ ایک نہ ایک دن تو ہم سمجھیں گے، پچھتانے سے پہلے سمجھ لیں تو کیا ہی اچھا ہو، یہ ملک، یہ قوم، یہ موسم، یہ زمین سب کچھ ہمارا ہے، سب کچھ ہماری نسلوں کا ہے۔ اللہ ہم سب پر رحم و کرم فرمائے (آمین)۔
قوم کی امیدیں لگی ہیں جے آئی ٹی پر۔ دیکھیے اب کیا ہوتا ہے۔ حسب معمول مایوسیاں ملتی ہیں یا تاریخ رقم ہوتی ہے۔ ہاں پی ٹی آئی کے یہ الفاظ بھی قابل غور ہیں کہ بھیا جب ہم نے کہا تھا کہ فیصلے سکون سے پڑھ لو پھر مٹھائیاں بانٹنا مگر ان لوگوں نے ایک نہ سنی اور اب مٹھائیاں بانٹنے کے بعد باری باری سب جے آئی ٹی میں حاضری لگا رہے ہیں۔ فیصلہ کچھ بھی ہو، سیاست کچھ بھی ہو، حاضری تو حاضری ہوتی ہے، سو ہو رہی ہے۔
سوچیے تو سہی ہم سب خالی خالی ہاتھ جائیں گے صرف اعمال نامے ہمارے ساتھ ہوں گے سب جانتے ہیں اور روزانہ ہی پریکٹیکل دیکھتے ہیں۔ مگر اپنی باری پر صدیوں کے فیصلے کر بیٹھتے ہیں۔ نسل در نسل کی سوچتے ہیں، اور آنے والی نسلوں کو بھی متضاد بناجاتے ہیں۔ کسی کے منصوبے، کسی کی پلاننگ اور تکلیف ساری کی ساری قوم کو بھگتنی پڑتی ہے۔ سیاست سیاست کھیلتے کھیلتے برسوں گزر گئے ہیں اور مزید اس کھیل میں شدت پائی جا رہی ہے۔ اب تو دل کرتا ہے کہ کہا جائے بس کردو بس۔ مزے کی بات یہ ہے کہ احسانات اتارنے کے لیے بھی پاکستان کا استعمال ہوتا ہے۔ گویا یہ ملک نہ ہو جاگیر ہو کر رہ گئی ہے۔
عقل و دل دونوں حیران رہ جاتے ہیں کہ ایک آزاد رحمتوں و برکتوں سے بھرا ہوا ملک بے تحاشا نعمتوں سے بھرا بھرا یہ ملک کیوں بہترین لوگوں کی رہنمائی سے محروم رہ گیا ہے کیوں دشمنوں کی چالیں ہر بار کامیاب ہوجاتی ہیں اور کیوں ہمارے اپنے ہی ہم سب سے متنفر ہوجاتے ہیں، ہم کیوں اپنا سبق بھول جاتے ہیں، ہم کیوں اپنا ماضی بھول جاتے ہیں، ہمیں اپنے حال اور مستقبل کو عالی شان بنانا چاہیے، کیا انفرادی زندگی کی اہمیت زیادہ ہے، کیا انفرادی طور پر کبھی کوئی مضبوط ہوا ہے، کبھی نہیں، کبھی نہیں۔ وہم و گمان کا یہ چکر صرف اور صرف تباہی کی طرف جاتا ہے۔
''میں'' کبھی کچھ نہیں ہوتا ، طاقت ہمیشہ ''ہم'' ہی دیتا ہے۔ جب ہم بنے تو پاکستان بنا جب ہم بنے تو محبتوں نے فروغ پایا، جب ہم بنے تو ترقی کی راہ پر گامزن ہوئے، اور جب ''میں'' نے آواز اٹھائی اور ''میں'' نے گردن اکڑائی بس پھر خدا کی لاٹھی بھی بلند ہوئی۔ دیر سویر تو ہوسکتی ہے مگر کبھی اللہ کا انصاف نامکمل نہیں ہوتا، ہم انسان تو بے حد کمزور ہیں، ہمارے فیصلے بھی کمزور ہوتے ہیں، ہم انصاف بھی نہیں کر پاتے، بہت سمجھ بوجھ کے ساتھ بھی، مگر ہمیشہ حکمرانی اللہ ہی کی ہوتی ہے اسی نے سب کچھ بنایا وہی مالک ہے اور وہی بہترین فیصلے کرنے والا ہے، سب کچھ جانتے ہوئے بھی ہم میں اکڑ کیوں نہیں کم ہوتی۔
ہم کیوں اپنی اوقات سے باہر ہوجاتے ہیں، ہم مٹی سے بنے ہوئے لوگ مٹی میں مل جائیں گے۔ اس کے باوجود بھی گویا اپنے آپ کو کیا خوب سمجھتے ہیں اور اپنے حال اور مستقبل کو مکمل عیش و آرام سے آراستہ کرنے میں ساری توانائیاں لگا دیتے ہیں پھر اگر الزامات شروع ہوں تو ان الزامات کو جھٹلانے میں زندگی لگا دیتے ہیں، سوچیے یہی تمام توانائیاں، تمام مثبت انرجی اگر ہم اپنے آپ پر تو خرچ کریں مگر دوسروں کی بہتری کے لیے، اس ملک کے لیے، اپنے شہر کے لیے، اپنی گلیوں کے لیے خرچ کریں، ہم سب کو بہتر سے بہتر بنانے پر خرچ کریں تو رزلٹ کتنا عالی شان ہوگا۔ اور ہم سب کا سر بھی فخر سے بلند ہوگا۔
قائد اعظم ہو، علامہ اقبال، سرسید احمدخان، مولانا جوہر علی، شوکت علی، فاطمہ جناح اور بہت عظیم انسان جو ہم سب میں جذبے جگا گئے جو ہم میں انسانیت جگا گئے جو ہمیں بتا گئے کہ ہماری جگہ اور مرتبہ کیا ہے، ہم کیوں ہیں اور ہمیں کیا کرنا ہے کیسے ہمارے ذہنوں کو جگا گئے کیسے ہمارے خوابوں کو تعبیریں ملیں گی وہ راستے پر چلا گئے، مگر سالہا سال کی جدوجہد کے بعد بھی ہم نے کیا کچھ نہیں سیکھا، آج بھی لگتا ہے خالی ہاتھ اور خالی دامن ہیں ہم۔ اپنے ہی لوگوں سے سیاست، اپنے ہی لوگوں سے چالبازیاں، اپنے ہی لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ، اپنے ہی لوگوں پر جبر اور سختی، کہاں جانا تھا اور کہاں چلے گئے اور پتا نہیں کہاں جا رہے ہیں؟
تعلیم کے روشن باب بھی ہمیں روشنی نہیں دے پا رہے ہیں تعلیم کے کھلے دروازے بھی کیوں ہمیں قبول نہیں کر رہے ہیں کچھ تو کمی رہ گئی ہے کوئی تو غلامی کی زنجیر باقی رہ گئی ہے، کوئی تو دروازہ ابھی تک بند ہے جس کے کھلنے کا انتظار کب تک کرنا ہوگا؟ ''میں'' کا سفر کب تک جاری رہے گا اور اللہ جانے کتنی تباہیوں کے بعد ہم ''ہم'' کے سفر پر گامزن ہوں گے۔
لیکن یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جاسکتی کہ سفر اور کامیابی، منزل ہمیشہ سچے جذبوں کے ساتھ ہی مل پاتی ہے، خلوص دل کے ساتھ جو شخصیتیں رنگ لاتی ہے وہ رنگ بہت گہرے ہوتے ہیں، یہی شاید وہ وقت ہے جب ہم سب کو ''ہم'' بننے کی شدید ضرورت ہے، انفرادی شخصیتیں صرف تنہائی دے کر جاتی ہیں، صرف اپنے خاکے چھوڑ جاتی ہیں جب کہ اجتماعیت میں کمال چھپا ہے، عظمت چھپی ہے، الیکشن 2017 میں ہو یا 2018 میں اب ہم سب وہ قیادت کی دعا کرتے ہیں جو اس ملک کے لیے، یہاں کے لوگوں کے لیے سکھ کامل بن جائے، ایک دوسرے کے احسانات اتارنے کے لیے ملک اور لوگوں کا استعمال نہ ہو، اپنے اپنے ذاتی مفادات صرف اپنی حد تک ہی رکھے جائیں، سوچا اور سمجھا جائے تو صرف اور صرف انسانوں کی بھلائی کے لیے، انسانیت کے لیے، کہ شاید ہم ایک دوسرے کے وسیلے ہی بن جائیں اور ایک دوسرے کے کام آئیں اور سمجھیں اس پیغام کو جو محسن انسانیت نے دیا جو محسن امتی نے دیا کہ اللہ کے رسول نے واضح طور پر اپنے آخری خطبے میں فرمایا کہ عجمی کو عربی پر، عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں فوقیت ہے تو صرف تقویٰ پر۔
شاندار الفاظ کا مجموعہ، شاندار شخصیت کی زبان سے جب جاری ہوا تو گویا وہ حرف آخر بن گیا، یہ وہ خطبہ ہے جو مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اب اگر ہم نہیں سمجھے تو کب سمجھیں گے، اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا اور ان کو ماننا بھی بے حد بہادری کا کام ہے ہر کسی کے بس میں نہیں، مگر جس نے کر لیا گویا اس نے انسانیت پالی۔ ایک نہ ایک دن تو ہم سمجھیں گے، پچھتانے سے پہلے سمجھ لیں تو کیا ہی اچھا ہو، یہ ملک، یہ قوم، یہ موسم، یہ زمین سب کچھ ہمارا ہے، سب کچھ ہماری نسلوں کا ہے۔ اللہ ہم سب پر رحم و کرم فرمائے (آمین)۔