بلند عمارتیں اور عدالت کا درست فیصلہ
ان عمارتوں کی تعمیرات سے شہر کے گنجان و مصروف علاقوں میں آبادی کا دباؤ مزید بڑھتا جا رہا ہے
ایک خبر کے مطابق کراچی شہر میں بلندو بالا عمارتوں کی تعمیرات پر پابندی عائد ہونے کے باعث بلڈرز اینڈ ڈیولپرز کے ایک سو پچاس ہائی رائز بلڈنگ پروجیکٹس کی سرگرمیاں معطل ہوگئی ہیں۔ خبر کے مطابق بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر پر عدالت کی قائم کردہ واٹر کمیشن کی سفارشات پر عدالت عظمیٰ نے پابندی عائد کی ہوئی ہے جس کے بعد سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے مئی 2017 کو ملٹی اسٹوری اور ہائی رائز بلڈنگ کی کنسٹرکشن پر باقاعدہ پابندی کا حکم نامہ جاری کیا۔
ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) کے ایک ذمے دار نے اس فیصلے کی مخالف کرتے ہو ئے موقف اختیار کیا ہے کہ عدالت عظمیٰ کو زمینی حقائق سے آگا ہ کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ کراچی میں مجموعی طور پر سپلائی کا صرف 17 فیصد پانی عوام استعمال کرتے ہیں، باقی ماندہ 83 فیصد پانی کا استعمال کہاں کہاں ہو رہا ہے، اس بارے میں متعلقہ اداروں کو حقائق تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ 'آباد' کے ایک عہدیدار کا یہ بھی کہنا ہے کہ پانی انسان پیتا ہے نہ کہ ہائی رائز عمارتیں پیتی ہیں، انسان جہاں بھی ہوگا پانی کی فراہمی حکومت کی ذمے داری ہے۔
مندرجہ بالا خبرسے اندازہ ہوتا ہے کہ پانی کی فراہمی ایک اہم مسئلہ ہے، تاہم راقم کا خیال ہے کہ بلندوبالا عمارتوں کا قیام ایک دو نہیں بلکہ لاتعداد مسائل کو جنم دیتا ہے اور راقم نے ان مسائل پر کئی مرتبہ کالم بھی تحریر کیے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ انفرادی اور کاروباری مفادات سے ہٹ کر ان مسائل کا جائزہ لیا جائے کیونکہ ان مسائل سے پوری آبادی متاثر ہوتی ہے۔ تعمیراتی سرگرمیاں بلندو بالا عمارتوں کی تعمیرات سے ہٹ کر بھی ہوسکتی ہیں۔
پابندی کے احکامات جاری ہونے تک اس شہر میں بے شمار جگہوں پر شہر کے گنجان اور مصروف علاقوں میں بلند و بالا عمارتیں کھڑی ہوچکی ہیں اور ان کے آباد ہونے کے بعد مسائل بھی سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں۔ مثلاً شہر کا ایک بڑا مسئلہ ٹریفک جام کا تھا، جس کے حل کے لیے اربوں روپے کے منصوبے پرویز مشرف کے دور میں بنائے گئے اور سٹی ناظم مصطفیٰ کمال نے رات دن ان منصوبوں پر ہنگامی انداز میں کام کروا کے عوام کے لیے انڈر پاس، کشادہ سڑکیں، بالائی گزر گاہیں اور سگنل فری کوریڈور پیش کردیے۔ یوں ٹریفک کی روانی میں بہت حد تک بہتری آئی۔
تاہم اب بلندو بالا عمارتوں کی تعمیر کے بعد پھرٹریفک جام رہنے لگا ہے، مثلاً نیپا سے اگر سہراب گوٹھ کی جانب سفر کریں تو آپ کو گلشن چورنگی سے لے کر گلشن چورنگی کے پل کے درمیان تک شدید ٹریفک جام ملے گا، کیونکہ اس مرکزی شاہرہ کے کنارے کئی بلند عمارتیں چھوٹے پلاٹوں پر تعمیر کردی گئی ہیں جن میں موبائل مارکیٹیں اور ایک بڑا ڈپارٹمنٹل اسٹور بھی شامل ہے، جہاں بیشتر وقت خصوصاً شام اور رات کو مکمل طور پر ٹریفک جام ہوتا ہے کیونکہ ان تمام مارکیٹوں میں آنے والے افراد کے لیے پارکنگ کی کوئی جگہ نہیں دی گئی ہے، یوں آنے والے افراد اپنی گاڑیوں کی پارکنگ سڑک پر ہی کرتے ہیں۔ اس رش میں شہریوں کو روز ہی اذیت کا سامنا کرنا تو پڑتا ہی ہے مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایمبولینس بھی یہاں پھنسی نظر آتیں ہیں، مگر کوئی پر سان حال نہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔
ٹریفک پولیس والے یہاں کھڑے نظر آتے ہیں مگر وہ بھی ان گاڑیوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتے جو یہاں خریداری کرنے کے لیے سڑک کے کنارروں پر ہی بڑی بڑی گاڑیاں کھڑی کردیتے ہیں، بلکہ یہ ٹریفک کے سپاہی کسی رکشہ والے پر ہی سارا زور نکال تے نظر آتے ہیں۔ یوں کراچی شہر میں اربوں روپے کے کو سگنل فری کوریڈور اور کشادہ سڑکوں اور پل کی تعمیر کے منصوبے مکمل ہونے کے باوجود ٹریفک جام کا مسئلہ پھر سے وہی ہوگیا ہے اور دن بہ دن اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ان عمارتوں کی تعمیرات سے شہر کے گنجان و مصروف علاقوں میں آبادی کا دباؤ مزید بڑھتا جا رہا ہے، جس کے باعث ان علاقوں میں پانی، بجلی اور سیوریج کی لائنوں پر بھی گنجائش سے زیادہ دباؤ بڑھ رہا ہے جب کہ دوسری طرف بلدیاتی اداروں کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے، چنانچہ اب کراچی شہر کے اچھے اور پوش علاقوں میں جہاں پانچ سو اور ہزار گز کے بنگلے ہیں وہاں صبح و شام گڑ ابلتے اور سیوریج کا پانی سڑکوں پر نظر آنا معمول کی بات بن چکا ہے۔
ایک اور اہم بات ان بلند و بالا عمارتوں میں رہنے کا طرز زندگی ہے یعنی فلیٹ نما ان گھروں میں رہنے والے روشنی اور ہوا کے لیے بلب، پنکھے او ر اے سی وغیرہ استعمال کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ جس قسم کی یہاں مکانیت ہوتی ہے اس میں قدرتی ہوا اور روشنی کا گزر ممکن ہی نہیں، یوں ایک جانب تو اس قسم کی تعمیرات میں دوکان ، ڈپارٹمنٹل اسٹور ہو یا گھر برقی آلات خاص کر اے سی کے بغیر گزارا ممکن نہیں ہے، دوسرے بجلی کے بغیر دو منٹ بھی رہا نہیں جا سکتا، چنانچہ برقی آلات استعمال کرنے کے باعث ماحولیاتی اعتبار سے مسلسل آلودگی کا عمل یہاں جاری رہتا ہے۔
(واضح رہے کہ سائنسدان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ فریج ، اے سی اور انڈسٹریز کے چلنے سے گرین گیسز خارج ہوتی ہیں جو اوزون کی سطح کو خراب کر رہی ہیں اور اس عمل کے نتیجے میں زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے جس سے ہیٹ اسٹروک اور سمندری طوفان وغیرہ بھی آرہے ہیں، لہٰذا ایسے آلات و مشینریز کو کم سے کم استعمال کرنا چاہیے)، دوسری طرف ہم ہیں کہ ایسی عمارتیں تعمیر کر رہے ہیں کہ جن میں ایک دو نہیں پورے چوبیس گھنٹے بجلی یا توانائی کے استعمال کی ضرورت ہوتی ہے اور درجہ حرارت سمیت ہر قسم کی آلودگی بڑھتی ہے۔
ہم اپنے ملک اور شہر کے اداروں کی صورتحال دیکھیں تو بھی ایسی عمارتیں ہمارے لیے مناسبت نہیں رکھتیں، خدانخواستہ زلزلہ کا جھٹکا یا کوئی حادثہ وغیرہ ہوگیا تو کیا حال ہوگا؟ لوگ ان بلند و بالا عمارتوں سے ایمرجنسی میں کیسے نیچے اتریں گے؟ ہمارے اداروں کا حال بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، شہر کی ضرورت کے مطابق فائر بریگیڈز نہیں، جو ہیں تو ان میں سے کچھ خراب ہی رہتے ہیں، کھبی ان میں پانی دستیاب نہیں ہوتا، اخلاقی صورتحال ہم سب کی کیا ہے اس کا اندازہ گزشتہ ماہ کے اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب پاکستان کے ایک بڑے بلڈر نے اپنے منصوبے کی پبلسٹی کے لیے ایک ٹی وی چینل کی میوزیکل پروگرام کے لیے خدمات لیں اور دوران پروگرام بڑا اسٹیج گر گیا تو انتطامیہ بجائے لوگوں کی مدد کرنے کے الٹا لائٹ بند کرکے فرار ہوگئی جب کہ لوگ وہاں اندھیرے میں مدد کے لیے چیخ و پکار کرتے رہے۔ بعد میں ان متاثرین کو ایف آئی آر درج کرانے کے لیے بھی احتجاج کرنا پڑا۔
اسی شہر میں چند برس قبل ایک بلند بلڈنگ میں آگ لگنے پر ایک شخص جان بچانے کے لیے عمارت کی کئی منزلہ بالکونی پر لٹکا رہا، یہ منظر لائیو ٹی وی چینلز تک تو پہنچ گیا مگر کوئی اس کی جان بچانے کو نہ پہنچ سکا اور وہ بالآخر تھک ہار کر نیچے گر کر مرگیا۔ یہ ہے ہمارے اداروں کی اعلیٰ کار کردگیاں۔ پھر بھی نہ جانے کیوں ہم بلند و بالا عمارتوں کے کلچر کو فروغ دینے پر تلے ہوئے ہیں، اس عمل میں سرمایہ دار کا تو خوب فائدہ ہے مگر عوام کا سراسر نقصان ہے اور شہر کے لیے مسائل ہی مسائل۔
راقم کے خیال میں عدالت عظمیٰ کا مذکورہ فیصلہ قطعی درست اور بروقت ہے، ہمارے منتخب نمایندو ں کو بھی چاہیے کہ وہ اس اہم مسئلے پر توجہ دیں اور شہر کو مزید مسائل میں ڈالنے کے عمل کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) کے ایک ذمے دار نے اس فیصلے کی مخالف کرتے ہو ئے موقف اختیار کیا ہے کہ عدالت عظمیٰ کو زمینی حقائق سے آگا ہ کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ کراچی میں مجموعی طور پر سپلائی کا صرف 17 فیصد پانی عوام استعمال کرتے ہیں، باقی ماندہ 83 فیصد پانی کا استعمال کہاں کہاں ہو رہا ہے، اس بارے میں متعلقہ اداروں کو حقائق تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ 'آباد' کے ایک عہدیدار کا یہ بھی کہنا ہے کہ پانی انسان پیتا ہے نہ کہ ہائی رائز عمارتیں پیتی ہیں، انسان جہاں بھی ہوگا پانی کی فراہمی حکومت کی ذمے داری ہے۔
مندرجہ بالا خبرسے اندازہ ہوتا ہے کہ پانی کی فراہمی ایک اہم مسئلہ ہے، تاہم راقم کا خیال ہے کہ بلندوبالا عمارتوں کا قیام ایک دو نہیں بلکہ لاتعداد مسائل کو جنم دیتا ہے اور راقم نے ان مسائل پر کئی مرتبہ کالم بھی تحریر کیے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ انفرادی اور کاروباری مفادات سے ہٹ کر ان مسائل کا جائزہ لیا جائے کیونکہ ان مسائل سے پوری آبادی متاثر ہوتی ہے۔ تعمیراتی سرگرمیاں بلندو بالا عمارتوں کی تعمیرات سے ہٹ کر بھی ہوسکتی ہیں۔
پابندی کے احکامات جاری ہونے تک اس شہر میں بے شمار جگہوں پر شہر کے گنجان اور مصروف علاقوں میں بلند و بالا عمارتیں کھڑی ہوچکی ہیں اور ان کے آباد ہونے کے بعد مسائل بھی سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں۔ مثلاً شہر کا ایک بڑا مسئلہ ٹریفک جام کا تھا، جس کے حل کے لیے اربوں روپے کے منصوبے پرویز مشرف کے دور میں بنائے گئے اور سٹی ناظم مصطفیٰ کمال نے رات دن ان منصوبوں پر ہنگامی انداز میں کام کروا کے عوام کے لیے انڈر پاس، کشادہ سڑکیں، بالائی گزر گاہیں اور سگنل فری کوریڈور پیش کردیے۔ یوں ٹریفک کی روانی میں بہت حد تک بہتری آئی۔
تاہم اب بلندو بالا عمارتوں کی تعمیر کے بعد پھرٹریفک جام رہنے لگا ہے، مثلاً نیپا سے اگر سہراب گوٹھ کی جانب سفر کریں تو آپ کو گلشن چورنگی سے لے کر گلشن چورنگی کے پل کے درمیان تک شدید ٹریفک جام ملے گا، کیونکہ اس مرکزی شاہرہ کے کنارے کئی بلند عمارتیں چھوٹے پلاٹوں پر تعمیر کردی گئی ہیں جن میں موبائل مارکیٹیں اور ایک بڑا ڈپارٹمنٹل اسٹور بھی شامل ہے، جہاں بیشتر وقت خصوصاً شام اور رات کو مکمل طور پر ٹریفک جام ہوتا ہے کیونکہ ان تمام مارکیٹوں میں آنے والے افراد کے لیے پارکنگ کی کوئی جگہ نہیں دی گئی ہے، یوں آنے والے افراد اپنی گاڑیوں کی پارکنگ سڑک پر ہی کرتے ہیں۔ اس رش میں شہریوں کو روز ہی اذیت کا سامنا کرنا تو پڑتا ہی ہے مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایمبولینس بھی یہاں پھنسی نظر آتیں ہیں، مگر کوئی پر سان حال نہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔
ٹریفک پولیس والے یہاں کھڑے نظر آتے ہیں مگر وہ بھی ان گاڑیوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتے جو یہاں خریداری کرنے کے لیے سڑک کے کنارروں پر ہی بڑی بڑی گاڑیاں کھڑی کردیتے ہیں، بلکہ یہ ٹریفک کے سپاہی کسی رکشہ والے پر ہی سارا زور نکال تے نظر آتے ہیں۔ یوں کراچی شہر میں اربوں روپے کے کو سگنل فری کوریڈور اور کشادہ سڑکوں اور پل کی تعمیر کے منصوبے مکمل ہونے کے باوجود ٹریفک جام کا مسئلہ پھر سے وہی ہوگیا ہے اور دن بہ دن اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ان عمارتوں کی تعمیرات سے شہر کے گنجان و مصروف علاقوں میں آبادی کا دباؤ مزید بڑھتا جا رہا ہے، جس کے باعث ان علاقوں میں پانی، بجلی اور سیوریج کی لائنوں پر بھی گنجائش سے زیادہ دباؤ بڑھ رہا ہے جب کہ دوسری طرف بلدیاتی اداروں کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے، چنانچہ اب کراچی شہر کے اچھے اور پوش علاقوں میں جہاں پانچ سو اور ہزار گز کے بنگلے ہیں وہاں صبح و شام گڑ ابلتے اور سیوریج کا پانی سڑکوں پر نظر آنا معمول کی بات بن چکا ہے۔
ایک اور اہم بات ان بلند و بالا عمارتوں میں رہنے کا طرز زندگی ہے یعنی فلیٹ نما ان گھروں میں رہنے والے روشنی اور ہوا کے لیے بلب، پنکھے او ر اے سی وغیرہ استعمال کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ جس قسم کی یہاں مکانیت ہوتی ہے اس میں قدرتی ہوا اور روشنی کا گزر ممکن ہی نہیں، یوں ایک جانب تو اس قسم کی تعمیرات میں دوکان ، ڈپارٹمنٹل اسٹور ہو یا گھر برقی آلات خاص کر اے سی کے بغیر گزارا ممکن نہیں ہے، دوسرے بجلی کے بغیر دو منٹ بھی رہا نہیں جا سکتا، چنانچہ برقی آلات استعمال کرنے کے باعث ماحولیاتی اعتبار سے مسلسل آلودگی کا عمل یہاں جاری رہتا ہے۔
(واضح رہے کہ سائنسدان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ فریج ، اے سی اور انڈسٹریز کے چلنے سے گرین گیسز خارج ہوتی ہیں جو اوزون کی سطح کو خراب کر رہی ہیں اور اس عمل کے نتیجے میں زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے جس سے ہیٹ اسٹروک اور سمندری طوفان وغیرہ بھی آرہے ہیں، لہٰذا ایسے آلات و مشینریز کو کم سے کم استعمال کرنا چاہیے)، دوسری طرف ہم ہیں کہ ایسی عمارتیں تعمیر کر رہے ہیں کہ جن میں ایک دو نہیں پورے چوبیس گھنٹے بجلی یا توانائی کے استعمال کی ضرورت ہوتی ہے اور درجہ حرارت سمیت ہر قسم کی آلودگی بڑھتی ہے۔
ہم اپنے ملک اور شہر کے اداروں کی صورتحال دیکھیں تو بھی ایسی عمارتیں ہمارے لیے مناسبت نہیں رکھتیں، خدانخواستہ زلزلہ کا جھٹکا یا کوئی حادثہ وغیرہ ہوگیا تو کیا حال ہوگا؟ لوگ ان بلند و بالا عمارتوں سے ایمرجنسی میں کیسے نیچے اتریں گے؟ ہمارے اداروں کا حال بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، شہر کی ضرورت کے مطابق فائر بریگیڈز نہیں، جو ہیں تو ان میں سے کچھ خراب ہی رہتے ہیں، کھبی ان میں پانی دستیاب نہیں ہوتا، اخلاقی صورتحال ہم سب کی کیا ہے اس کا اندازہ گزشتہ ماہ کے اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب پاکستان کے ایک بڑے بلڈر نے اپنے منصوبے کی پبلسٹی کے لیے ایک ٹی وی چینل کی میوزیکل پروگرام کے لیے خدمات لیں اور دوران پروگرام بڑا اسٹیج گر گیا تو انتطامیہ بجائے لوگوں کی مدد کرنے کے الٹا لائٹ بند کرکے فرار ہوگئی جب کہ لوگ وہاں اندھیرے میں مدد کے لیے چیخ و پکار کرتے رہے۔ بعد میں ان متاثرین کو ایف آئی آر درج کرانے کے لیے بھی احتجاج کرنا پڑا۔
اسی شہر میں چند برس قبل ایک بلند بلڈنگ میں آگ لگنے پر ایک شخص جان بچانے کے لیے عمارت کی کئی منزلہ بالکونی پر لٹکا رہا، یہ منظر لائیو ٹی وی چینلز تک تو پہنچ گیا مگر کوئی اس کی جان بچانے کو نہ پہنچ سکا اور وہ بالآخر تھک ہار کر نیچے گر کر مرگیا۔ یہ ہے ہمارے اداروں کی اعلیٰ کار کردگیاں۔ پھر بھی نہ جانے کیوں ہم بلند و بالا عمارتوں کے کلچر کو فروغ دینے پر تلے ہوئے ہیں، اس عمل میں سرمایہ دار کا تو خوب فائدہ ہے مگر عوام کا سراسر نقصان ہے اور شہر کے لیے مسائل ہی مسائل۔
راقم کے خیال میں عدالت عظمیٰ کا مذکورہ فیصلہ قطعی درست اور بروقت ہے، ہمارے منتخب نمایندو ں کو بھی چاہیے کہ وہ اس اہم مسئلے پر توجہ دیں اور شہر کو مزید مسائل میں ڈالنے کے عمل کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔