لندن میں گاڑی سوار حملہ آوروں نے مسجد سے نکلتے نمازیوں کو کچل ڈالا
لوگ نماز تراویح پڑھ کر باہر نکل رہے تھے کہ شدت پسندوں نے گاڑی ان پر چڑھا دی، اسلامی کونسل برطانیہ
شمالی لندن میں تین شدت پسند جنونیوں نے نماز کی ادائیگی کے بعد مسجد سے باہر نکلنے والے افراد پر گاڑی چڑھا دی جس کے نتیجے میں ایک شخص جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق شمالی لندن مین سیون سسٹرز روڈ پر واقع مسجد سے لوگ نماز تراویح پڑھ کر باہر نکل رہے تھے کہ گاڑی میں سوار تین جنونیوں نے ان پر گاڑی چڑھا دی، جس کے نتیجے میں اب تک ایک شخص کے جاں بحق اور متعدد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
لندن میٹروپولیٹن پولیس کے مطابق انسدادِ دہشت گردی کے اہلکاروں جائے وقوعہ سے ایک 48 سالہ شخص کو حراست میں لے لیا ہے۔ دوسری جانب مسلم کونسل برطانیہ نے اسے اسلام دشمنی کا شدت پسندانہ مظہر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وین ڈرائیور نے جان بوجھ کر گاڑی نمازیوں پر چڑھائی، مساجد کے گرد سیکیورٹی مزید سخت کی گئی۔
دوسری جانب حملے کے بعد طلب کئے گئے ہنگامی اجلاس کی صدارت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کا کہنا تھا کہ نماز کی ادائیگی کے بعد باہر نکلنے والوں پر حملہ کرنے والا ایک ہی شخص تھا جب کہ پولیس نے حملے کے 8 منٹ کے اندر ہی اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دے دیا تھا۔
برطانوی وزیر اعظم نے کہا کہ برطانیہ میں گزشتہ چند برسوں سے شدت پسندی کو ہوا دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور یہ حملہ بھی اسی نفرت انگیزی کی یاد دہانی ہے لیکن اس قسم کی شدت پسندی سے نمٹنے کے لئے ہمیں بھرپور عزم کے ساتھ کام کرنا ہوگا چاہے اس کے ذمہ داروں کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔
تھریسا مے نے کہا کہ یہ حملہ بھی اتنا ہی تکلیف دہ ہے جتنا کہ ماضی میں ہونے والے حملے تھے، حملے میں بے گناہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا جو مسجد سے باہر نکل رہے تھے، ضرورت پڑی تو برطانوی پولیس مساجد کو اضافی سیکیورٹی فراہم کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسحملےمیں مسلمانوں کو ان کی عبادت گاہ کے قریب نشانہ بنایا گیا اور دہشت گردی کے ہر واقعے کی طرح اس حملے کا مقصد بھی ہمیں تقسیم کرنا تھا۔
برطانوی وزیراعظم نے اس موقع پر نئے کمیشن کے قیام کا بھی اعلان کیا جو شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے کام کرے گا۔ برطانیہ میں نسل پرستی سے نمٹنےکےلیے بھی اس طرح کا ایک کمیشن قائم ہے۔
واضح رہے کچھ روز قبل لندن میں 24 منزلہ عمارت میں آتشزدگی سے 30 افراد جھلس کر ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق شمالی لندن مین سیون سسٹرز روڈ پر واقع مسجد سے لوگ نماز تراویح پڑھ کر باہر نکل رہے تھے کہ گاڑی میں سوار تین جنونیوں نے ان پر گاڑی چڑھا دی، جس کے نتیجے میں اب تک ایک شخص کے جاں بحق اور متعدد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
لندن میٹروپولیٹن پولیس کے مطابق انسدادِ دہشت گردی کے اہلکاروں جائے وقوعہ سے ایک 48 سالہ شخص کو حراست میں لے لیا ہے۔ دوسری جانب مسلم کونسل برطانیہ نے اسے اسلام دشمنی کا شدت پسندانہ مظہر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وین ڈرائیور نے جان بوجھ کر گاڑی نمازیوں پر چڑھائی، مساجد کے گرد سیکیورٹی مزید سخت کی گئی۔
دوسری جانب حملے کے بعد طلب کئے گئے ہنگامی اجلاس کی صدارت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کا کہنا تھا کہ نماز کی ادائیگی کے بعد باہر نکلنے والوں پر حملہ کرنے والا ایک ہی شخص تھا جب کہ پولیس نے حملے کے 8 منٹ کے اندر ہی اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دے دیا تھا۔
برطانوی وزیر اعظم نے کہا کہ برطانیہ میں گزشتہ چند برسوں سے شدت پسندی کو ہوا دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور یہ حملہ بھی اسی نفرت انگیزی کی یاد دہانی ہے لیکن اس قسم کی شدت پسندی سے نمٹنے کے لئے ہمیں بھرپور عزم کے ساتھ کام کرنا ہوگا چاہے اس کے ذمہ داروں کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔
تھریسا مے نے کہا کہ یہ حملہ بھی اتنا ہی تکلیف دہ ہے جتنا کہ ماضی میں ہونے والے حملے تھے، حملے میں بے گناہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا جو مسجد سے باہر نکل رہے تھے، ضرورت پڑی تو برطانوی پولیس مساجد کو اضافی سیکیورٹی فراہم کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسحملےمیں مسلمانوں کو ان کی عبادت گاہ کے قریب نشانہ بنایا گیا اور دہشت گردی کے ہر واقعے کی طرح اس حملے کا مقصد بھی ہمیں تقسیم کرنا تھا۔
برطانوی وزیراعظم نے اس موقع پر نئے کمیشن کے قیام کا بھی اعلان کیا جو شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے کام کرے گا۔ برطانیہ میں نسل پرستی سے نمٹنےکےلیے بھی اس طرح کا ایک کمیشن قائم ہے۔
واضح رہے کچھ روز قبل لندن میں 24 منزلہ عمارت میں آتشزدگی سے 30 افراد جھلس کر ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔