کم از کم تنخواہ کے قانون پرعمل کرایا جائے

ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ پاکستان میں اس طبقے کی حالت بدلے بغیر جس کا ہم نے تذکرہ کیا ہے

وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں سچی بات ہے جب بھی موقع ملتا ہے مزدوروں اور نجی وسرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی کم از کم حد میں اضافہ اور نظرثانی کا اعلان کرتی ہیں مگر اس اضافے پر کہاں تک عمل ہوتا ہے اور اس سلسلے کے قانون کی کہاں تک پاسداری کی جاتی ہے یہ اپنی جگہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

ہم اپنے ارد گرد ڈرائیوروں سے لے کرگھریلو عملے تک جتنے ملازمین دیکھتے ہیں، بدقسمتی سے ان میں سے بیشتر اس سے کہیں کم تنخواہ لے رہے ہیں جو حکومت نے ان کے لیے مقررکر رکھی ہے۔

اب یہ بات سننے میں آئی ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے ایک ایسا ریگولیٹری ادارہ قائم کیا جا رہا ہے، جو نچلے درجے کے ان بدقسمت ملازمین کی تنخواہوں کی مانیٹرنگ کرے گا اور جہاں تک ممکن ہوسکے گا، لوگوں کو اس بات کی ترغیب دے گا کہ وہ اپنے ملازمین کے ساتھ خیرات کا نہیں انصاف کا سلوک کریں۔

کیونکہ ہمیشہ کی طرح اس سال بھی صاحب حیثیت افراد نے ثواب کمانے کی غرض سے رمضان کے اس مقدس مہینے میں اپنے ملازمین کے ساتھ بڑا فراخدلانہ سلوک کیا ہے اور دامے درمے سخنے ہر لحاظ سے اپنے دائرہ اختیار میں آنے والے لوگوں کی مدد کی ہے۔ نقد بھی اور KIND میں بھی۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کے دکھ درد کا خیال رکھنے والے اپنی ان نیکیوں کو محض رمضان تک محدود نہ رکھیں بلکہ دوسرے سال پر محیط کردیں اور محض زکوٰۃ، صدقہ، خیرات سے ہی نہیںبلکہ دوسرے ایسے طریقوں سے بھی اپنے ملازمین کی مدد کریں جن سے ایسے مستحق افراد کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ اس مقصد سے انھیں اپنے اطراف کے لوگوں کی زندگیوں میں جھانکنا ہوگا۔ جس سے انھیں صحیح معنوں میں پتا چل جائے گا کہ ان کی ''رعایا'' کے شب وروز کس طرح بسر ہورہے ہیں اور وہ یہ بھی سمجھ لیں کہ جن لوگوں کا ان سے واسطہ پڑ رہا ہے ان کی مدد کرنے کے لیے ان کا حکمراں ہونا ضروری نہیں ہے۔

پہلا کام وہ یہ کرسکتے ہیں کہ اپنے ملازمین کو جو امداد فراہم کررہے ہیں اسے ریگولرائز کریں اورکچھ ایسا بندوبست کریں کہ ان کے ملازمین کو حکومت کی مقررکردہ کم سے کم تنخواہ ملنے لگے حالانکہ ہمیں یہ بھی احساس ہے کہ بہت سے مالکان اپنے ملازمین کو اس سے کہیں زیادہ تنخواہ دے رہے ہیں، جو حکومت نے دے رکھی ہے۔

لیکن اکثریت کا حال اب بھی برا ہے اور سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ چھوٹے موٹے پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ، خصوصاً لیڈی ٹیچرزکا ہے جن کو بڑی مشکل سے چار پانچ ہزار روپے ماہانہ ملتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے نزدیک ڈاکٹروں کے بعد سب سے زیادہ مقدس پیشہ پڑھانے والوں کا ہے۔ ڈاکٹر جہاں مریضوں کی زندگیاں بچاتے ہیں وہاں ٹیچرز حضرات مستقبل کی نسلوں کی تعمیرکرتے ہیں اور ہمارے خیال میں جیسا کہ ہم نے پہلے بھی لکھا ہے اس بات کی کوشش کی جانی چاہئیں کہ سب سے اچھا STUFF ٹیچنگ کے شعبے میں آئے اور کم ازکم منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے اساتذہ کا انتخاب خالصتاً میرٹ پر کیا جائے۔ انھیں جہاں تک ممکن ہو بہتر سے بہتر تنخواہیں اور مراعات دی جائیں۔ وہ جس محفل میں بھی جائیں ان کا احترام ان کا احترام کیا جائے، ان سے بڑی عزت سے پیش آیا جائے۔ کیونکہ ہمیں احساس ہو یا نہ ہو بہر حال یہی اساتذہ ہمارے مستقبل کے معماروں کے معمار ہیں۔ ہم اپنے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جس معیار کے اساتذہ بھیجیں گے اسی معیارکے طلبا وطالبات ان تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہوکر نکلیں گے۔

پھر ہم اپنے اس خواب کی طرف واپس آتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ملازمین کی اکثریت کو تنخواہوں کا وہ کم از کم گریڈ ملنے لگا ہے جو حکومت نے ان کے لیے مقرر کیا ہے اور اس کے لیے حکومت نے متعلقہ اداروں کے مطابق مالکان کو سیکیورٹی بھی فراہم کرنا شروع کردی ہے۔


یہ کوئی ایسا مشکل خواب نہیں ہے جو حقیقت میں نہ بدل سکے بس ہمارے ارباب حل وعقد نے پورے خلوص، سچائی اور ایمانداری اس سے متعلق قوانین پر عمل در آمد کو یقینی بنانا ہوگا۔ بہت سے لوگ تو محض ترغیبات دینے، ضمیرکو جھنجھوڑ اور تھوڑا سا ڈرانے دھمکانے سے سدھر جائیں گے۔

مثلاً بہت سی سرکاری وزارتیں اور محکمے ایسے ہوں گے جو ایسے نجی اداروں میں جوان کی رسائی میں ہیں مالکان کو اپنے ملازمین کے ساتھ اس حسن سلوک پر مجبورکرسکتے ہیں ۔ مثلاً وزارت تعلیم بہت سے نچلی سطح کے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو اس قانون پر عمل در آمد کرنے پر آمادہ اور اگر گنجائش ہو تو یہ نیک کام کروانے والے کے لیے سبسڈی بھی فراہم کرسکتے ہیں۔

سچی بات ہے ہم ذاتی طور پر یہ بھی سمجھتے ہیں کہ حکومت نے مزدوروں اور ملازمین کے لیے جو کم از کم تنخواہیں مقرر کی ہے وہ ایک ایوریج گھر چلانے کے لیے کافی نہیں ہے اور اس سے ایک چھوٹے سے چھوٹے کچن کے اخرات پورے نہیں ہوسکتے۔

دروغ برگردن راوی جیسا کہ غیر مصدقہ ذرایع سے معلوم ہوا ہے کہ کم از کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے مقرر کرنے سے پہلے حکومت کی طرف سے ایک '' گھر ''صرف اتنی رقم سے چلانے کے تجربے کیے گئے اور اس لیول کے دو تین خاندانوں کو پندرہ ہزار روپے بطور تنخواہ دیے گئے اور مہینے کے آخر میں جب ان کی حالت پتہ کی گئی تو زیادہ تر والدین اسپتال میں داخل ہوچکے تھے۔ ان کے بچوں کے نام اسکول سے کٹ چکے تھے جب کہ کچھ بچوں کو صاحب حیثیت محلے والوں نے ان کی جان بچانے کے لیے گود لے لیا تھا۔

تاہم اس کمیٹی کی تجاویز رد کردی گئیں جس نے ایسے ملازمین کی تنخواہوںکہ حد 25 ہزار روپے ماہانہ کردینے کی سفارش کی تھی۔

بہرحال ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ پاکستان میں اس طبقے کی حالت بدلے بغیر جس کا ہم نے تذکرہ کیا ہے ترقی و وخوشحالی کا خواب کیسے پورا ہوسکتا ہے۔ حالانکہ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اپنے ملک کو خیر سے ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن دیکھ رہے ہیں لیکن ہمارا ملک مستقبل گامزن رہتا ہے نہ کہیں پڑاؤ ڈالتا ہے۔ نہ کسی منزل پہنچتا ہے، بد قسمتی سے ہمارا ملک آبادی کے معاملے میں ہی سب سے زیادہ زرخیز ہے۔ابھی ایک کھیپ ترقی یافتہ اور خوشحالی نہیں ہوتی کہ دوسری کھیپ تیار ہوجاتی ہے۔

پھر ہیر پھیر کر ہمارا دھیانا سمندر پار پاکستانیوں کی طرف جاتا ہے جو قدرتی طور پر اپنے آبائی وطن کا بڑا درد رکھتے ہیں اور اس کی حالت بدلنا چاہتے ہیں، اگر کسی منظم اسکیم کے تحت ایک سمندر پار پاکستانی اپنے ملک کے ایک مستحق خاندان کو گود لے لے اور اپنی وزارت کے ذریعے اس خاندان کی مدد کریں گے تو اس ملک سے کچھ نہ کچھ غربت دور ہوسکتی ہے اور کچھ نہ کچھ خوشحالی آسکتی ہے۔ تجربہ کرنے میں کیا حرج ہے ؟
Load Next Story