نوجوان نسل کو ماضی سے روشناس کرانے کیلیے مسلم حکمرانوں پر فلمیں بنائی جائیں ارمینا
لاہور فن وثقافت میں واقعی اپنی مثال آپ ہے، غیر ملکی بھی اس کے دیوانے ہیں ،اسے فلموں کا موضوع بنانا چاہیے، اداکارہ
اداکارہ وماڈل ارمینا رانا خان نے کہا ہے کہ لوگوں کو رہن سہن، بول چال اورمہمان نوازی کی جھلک کہیں اوردکھائی نہیں دیتی تاہم اگر ایسے کلچر کوفلموں کا حصہ بنایا جائے تودنیا بھرکواپنی طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے۔
ارمینا رانا خان نے ''ایکسپریس'' سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ دیکھا جائے تودنیا بھرمیں بننے والی فلموں میں اکثراپنی ثقافت کواجاگرکیا جاتا ہے۔ اگرہم بات کریں ہالی وڈ کی تووہاں پربننے والی فلمیں اپنے کلچر کی عکاسی کرتی ہیں۔ وہاں پرپہنے جانے والے ملبوسات، اسلحہ اوراسی طرح کی جو منفی سرگرمیاں دکھائی جاتی ہیں، وہ ان کے ملکوں کی عکاس ہوتی ہیں۔ اسی طرح ہم بھارت کی بات کریں تووہاں پرجدید ٹیکنالوجی کے ساتھ اپنے ملک کے کلچر کوبڑی محنت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
اداکارہ نے کہا کہ جہاں اچھی چیزیں دکھائی جاتی ہیں، وہیں غریب طبقے پرہونے والے مظالم بھی فلموں کا حصہ بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے گیتوں میں مختلف تہواروں کو جس طرح سے زندہ رکھا جاتا ہے، اگریہی سلسلہ پاکستانی فلموں میں بھی شروع ہوجائے تواس سے پاکستان کا سافٹ امیج پوری دنیا تک پہنچ سکتا ہے۔
ارمینا نے کہا کہ پاکستان میں تاریخی عمارتوں کا ایسا خزانہ موجود ہے، جن کو اگرفلموں کا حصہ بنا کر کثیر سرمائے سے مسلم حکمرانوں پرفلمیں بنائی جائیں تو نوجوان نسل کوبرصغیر کے حوالے سے بہترین معلومات بھی فراہم کی جاسکتی ہے۔ مگراس کے لیے بہت محنت سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ٹاسک مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔
ارمینا رانا خان نے ''ایکسپریس'' سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ دیکھا جائے تودنیا بھرمیں بننے والی فلموں میں اکثراپنی ثقافت کواجاگرکیا جاتا ہے۔ اگرہم بات کریں ہالی وڈ کی تووہاں پربننے والی فلمیں اپنے کلچر کی عکاسی کرتی ہیں۔ وہاں پرپہنے جانے والے ملبوسات، اسلحہ اوراسی طرح کی جو منفی سرگرمیاں دکھائی جاتی ہیں، وہ ان کے ملکوں کی عکاس ہوتی ہیں۔ اسی طرح ہم بھارت کی بات کریں تووہاں پرجدید ٹیکنالوجی کے ساتھ اپنے ملک کے کلچر کوبڑی محنت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
اداکارہ نے کہا کہ جہاں اچھی چیزیں دکھائی جاتی ہیں، وہیں غریب طبقے پرہونے والے مظالم بھی فلموں کا حصہ بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے گیتوں میں مختلف تہواروں کو جس طرح سے زندہ رکھا جاتا ہے، اگریہی سلسلہ پاکستانی فلموں میں بھی شروع ہوجائے تواس سے پاکستان کا سافٹ امیج پوری دنیا تک پہنچ سکتا ہے۔
ارمینا نے کہا کہ پاکستان میں تاریخی عمارتوں کا ایسا خزانہ موجود ہے، جن کو اگرفلموں کا حصہ بنا کر کثیر سرمائے سے مسلم حکمرانوں پرفلمیں بنائی جائیں تو نوجوان نسل کوبرصغیر کے حوالے سے بہترین معلومات بھی فراہم کی جاسکتی ہے۔ مگراس کے لیے بہت محنت سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ٹاسک مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔