پاکستان نے غیر ملکی زرمبادلہ ذخائر 3 ارب ڈالر زائد ظاہر کیے آئی ایم ایف
موجودہ مالی سال کے آخر تک زرمبادلہ ذخائر18.5کے بجائے صرف15.3ارب ڈالر تک پہنچ سکے، آئی ایم ایف
آئی ایم ایف نے کہا ہے موجودہ مالی سال کے دوران پاکستان نے اپنے غیر ملکی زرمبادلہ ذخائر کو 3 ارب ڈالر زیادہ ظاہر کیا ہے جس سے اس کی مالی ساکھ متاثرہوسکتی ہے جو پہلے ہی سرمایہ کاری اور اس کے نتائج کے حوالے سے شدید تنقید کا شکار ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کی بیرونی فنانسنگ کی ضروریات آئندہ مالی سال کے دوران17ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں تاہم عالمی مانیٹری فنڈ نے ان منفی اثرات کا پاکستانی زرمبادلہ ذخائر پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا۔ 16جون کو عالمی ادارے نے آرٹیکل فور کی تفصیلات کے حوالے سے بتایا تھا کہ موجودہ مالی سال کے آخر تک پاکستان کے زر مبادلہ ذخائرممکنہ طور پر18.5ارب ڈالر ہونے چاہئیں تاہم یہ مقررہ ہدف سے بہت دور دکھائی دیتے ہیں۔
9 جون کو اسٹیٹ بینک کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان کے غیر ملکی زر مبادلہ ذخائر15.3ارب ڈالر تھے اور موجودہ صورتحال میں یہ ناممکن دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان آئندہ دو ہفتوں میں غیر ملکی زر مبادلہ ذخائر کو18.5ارب ڈالر تک لے جائیگا بالخصوص ایسے حالات میں کہ جب کنٹرول سے باہر تجارتی خسارہ کے باعث ان ذخائر پر بے پناہ دباؤ ہے۔15.3ارب ڈالر کے غیر ملکی زر مبادلہ ذخائر گزشتہ سال اکتوبر میں جاری ہونے والی آئی ایم ایف کی بارہویں جائزہ رپورٹ سے بھی 5.5 ارب ڈالرکم ہیں۔
ادھر وزارت خزانہ کے ذرائع اور ماہرین کے مطابق ان تمام تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کا بیرونی اکاؤنٹ حکومت پاکستان اور آئی ایم ایف کے جائزوں کے باوجود تیزی سے تباہی کی طرف جا رہا ہے۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت خزانہ زر مبادلہ ذخائر بڑھانے کیلیے مہنگے قرضوں پر انحصار کرتی رہی ہے جس کے نتائج اب سامنے آ رہے ہیں۔
موجودہ مالی سال2016-17کے دوران آئی ایم ایف نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے1.5فیصد یا4.5ارب ڈالر ظاہر کیا تھا تاہم اب عالمی ادارے نے اسے دوبارہ جائزے کے بعد9ارب ڈالر ظاہر کیا ہے جو اصل سے دگنا سے بھی زائد ہے اور ایسی صورتحال میں غیر ملکی زرمبادلہ ذخائر پر اثر پڑے گا۔
موجودہ مالی سال کے آغاز پر آزاد ماہرین معیشت نے کہا تھا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 8 ارب ڈالر کے قریب ہوسکتا ہے جس پر وزیرخزانہ اسحق ڈار نے انہیں جعلی ماہرین قرار دیا تھا۔ جولائی سے شروع ہونے والے نئے مالی سال کے حوالے سے آئی ایم ایف نے تجویز کیا ہے کہ پاکستان کی بیرونی سامیہ کاری ضروریات17ارب ڈالر تک ہو سکتی ہیں جو کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوگی۔
آئی ایم ایف کے16جون کے نوٹ کے مطابق پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کا3.2فیصد ہو سکتا ہے جو10ارب ڈالر کے برابر ہوگا۔ دوسری جانب وفاقی حکومت نے 2017-18کے سالانہ پلان میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ آئی ایم ایف سے2ارب ڈالر اور آزاد ماہرین معیشت سے4.4 ارب ڈالر کم ظاہر کیا۔ نئے مالی سال کے دوران غیر ملکی قرضوں کی ادائیگیاں6ارب ڈالر تک ہو سکتی ہیں جو کل سرمایہ کاری کی ضروریات کو17ارب کر دینگی۔
ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق ملکی سرمایہ کاری ضروریات کا پورا ہونا ناممکن ہے، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اور غیر ملکی قرضوں میں فرق 6 ارب ڈالر تک ہوسکتا ہے جس سے ممکن ہے 2017-18 کے آخر تک غیر ملکی زرمبادلہ ذخائرکم ہو کر9 ارب ڈالر ہو سکتے ہیں۔
آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کی بیرونی فنانسنگ کی ضروریات آئندہ مالی سال کے دوران17ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں تاہم عالمی مانیٹری فنڈ نے ان منفی اثرات کا پاکستانی زرمبادلہ ذخائر پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا۔ 16جون کو عالمی ادارے نے آرٹیکل فور کی تفصیلات کے حوالے سے بتایا تھا کہ موجودہ مالی سال کے آخر تک پاکستان کے زر مبادلہ ذخائرممکنہ طور پر18.5ارب ڈالر ہونے چاہئیں تاہم یہ مقررہ ہدف سے بہت دور دکھائی دیتے ہیں۔
9 جون کو اسٹیٹ بینک کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان کے غیر ملکی زر مبادلہ ذخائر15.3ارب ڈالر تھے اور موجودہ صورتحال میں یہ ناممکن دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان آئندہ دو ہفتوں میں غیر ملکی زر مبادلہ ذخائر کو18.5ارب ڈالر تک لے جائیگا بالخصوص ایسے حالات میں کہ جب کنٹرول سے باہر تجارتی خسارہ کے باعث ان ذخائر پر بے پناہ دباؤ ہے۔15.3ارب ڈالر کے غیر ملکی زر مبادلہ ذخائر گزشتہ سال اکتوبر میں جاری ہونے والی آئی ایم ایف کی بارہویں جائزہ رپورٹ سے بھی 5.5 ارب ڈالرکم ہیں۔
ادھر وزارت خزانہ کے ذرائع اور ماہرین کے مطابق ان تمام تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کا بیرونی اکاؤنٹ حکومت پاکستان اور آئی ایم ایف کے جائزوں کے باوجود تیزی سے تباہی کی طرف جا رہا ہے۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت خزانہ زر مبادلہ ذخائر بڑھانے کیلیے مہنگے قرضوں پر انحصار کرتی رہی ہے جس کے نتائج اب سامنے آ رہے ہیں۔
موجودہ مالی سال2016-17کے دوران آئی ایم ایف نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے1.5فیصد یا4.5ارب ڈالر ظاہر کیا تھا تاہم اب عالمی ادارے نے اسے دوبارہ جائزے کے بعد9ارب ڈالر ظاہر کیا ہے جو اصل سے دگنا سے بھی زائد ہے اور ایسی صورتحال میں غیر ملکی زرمبادلہ ذخائر پر اثر پڑے گا۔
موجودہ مالی سال کے آغاز پر آزاد ماہرین معیشت نے کہا تھا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 8 ارب ڈالر کے قریب ہوسکتا ہے جس پر وزیرخزانہ اسحق ڈار نے انہیں جعلی ماہرین قرار دیا تھا۔ جولائی سے شروع ہونے والے نئے مالی سال کے حوالے سے آئی ایم ایف نے تجویز کیا ہے کہ پاکستان کی بیرونی سامیہ کاری ضروریات17ارب ڈالر تک ہو سکتی ہیں جو کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوگی۔
آئی ایم ایف کے16جون کے نوٹ کے مطابق پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کا3.2فیصد ہو سکتا ہے جو10ارب ڈالر کے برابر ہوگا۔ دوسری جانب وفاقی حکومت نے 2017-18کے سالانہ پلان میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ آئی ایم ایف سے2ارب ڈالر اور آزاد ماہرین معیشت سے4.4 ارب ڈالر کم ظاہر کیا۔ نئے مالی سال کے دوران غیر ملکی قرضوں کی ادائیگیاں6ارب ڈالر تک ہو سکتی ہیں جو کل سرمایہ کاری کی ضروریات کو17ارب کر دینگی۔
ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق ملکی سرمایہ کاری ضروریات کا پورا ہونا ناممکن ہے، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اور غیر ملکی قرضوں میں فرق 6 ارب ڈالر تک ہوسکتا ہے جس سے ممکن ہے 2017-18 کے آخر تک غیر ملکی زرمبادلہ ذخائرکم ہو کر9 ارب ڈالر ہو سکتے ہیں۔