صحافی کی عید

’’مانا کہ اِس نوکری کے کئی فائدے ہیں لیکن ایسا بھی کیا کہ عید کے دن بھی کام پر جارہے ہو؟‘‘

آج جب میں ایک بار پھر عید کے دن دفتر آیا تو ایک ہی آواز بار بار کانوں میں گونج رہی ہے،’’جا بھائی جا، ماں کی بددعا ہے تجھے۔ فوٹو: فائل

یہ بات ہے 11 برس قبل کی، جب ہم نے الیکٹرانک میڈیا کی دنیا میں قدم رکھا تو دماغ میں ایک ہی خُمار سوار تھا اور وہ تھا بغیر روک ٹوک موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کا۔ جب گلے میں نیوز چینل کا خاص تعویز ہو، سڑک پر ٹریفک سارجنٹ اور پولیس موبائل میں موجود سپاہی شکرے کی طرح سڑک کنارے کھڑے ہوکر اپنے شکار کو تلاش کرتے ہوئے موٹر سائیکل پر رکنے کا اشارہ کریں، اور وہ صرف ربن دکھانے پر ہی جانے کا اشارہ دے دیں تو یقین جانیے کہ جو تسکین ہمیں اُن وردی والوں کے ارادوں کی ناکامی پر ہوتی تھی اُس سے ہمارا خون بڑھ جاتا تھا۔

پھر وقت گزرا تو ہم پر ''فارمی'' اور ''ٹلوں'' کی حرام خوری کی حقیقت بھی کھلی کہ کس طرح 20،20 روپے لے کر وہ اپنے بڑوں کو ایک بڑی رقم ہفتے کی صورت میں پہنچاتے ہیں تاکہ اُن پر ہلکا ہاتھ رکھا جائے۔

چلیں چھوڑیں اِسے، بات چل رہی تھی الیکٹرانک میڈیا یا عوامی زبان میں میڈیا کی لائن میں آنے کی۔ نیوز چینل کا حصہ بنے تو پتہ چلا کہ یہاں کام کرنے سے ٹریفک سارجنٹ کے سامنے بھرم تو بڑھ جاتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ صحافت کرنا کھیل نہیں بچوں کا۔ اِس فیلڈ میں آنے کے بعد جب پہلی پہلی عید آئی تو ڈائریکٹر نیوز صاحب نے کہا، برخوردار عید پر ایک دن ہی چھٹی ملے گی۔ بتاؤ کب کی چاہیے؟ انہیں گمان تھا کہ ہم کراچی کے روایتی لونڈوں کی طرح ہیں، جن کی عید شروع ہوتی ہے چاند رات کو اور عید کی نماز پڑھنے کے بعد رات ہوجاتی ہے۔ لیکن ہم نے اُن کے خیال کے برخلاف فرماںبرداری کرتے ہوئے فرمایا کہ سر جی جب مرضی دے دیں۔ پھر وہ کہنے لگے کہ ٹھیک ہے پہلے دن آجاؤ گے؟ ہم نے پھر فرمانبرداری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سر جی آپ جب بلائیں گے، ہم آجائیں گے۔

اِس جواب سے خوش ہوکر انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے پہلے دن آجانا صبح 9 بجے کیونکہ ہیڈ لائنز تمہیں بنانی بھی ہے اور پڑھوانی بھی، اگر کوئی مسئلہ ہو تو فون پر پوچھ لینا اور شام 4 بجے فلاں صاحب آجائیں گے تو تمہاری چھٹی۔ دوسرے دن تم مت آنا اور تیسرے دن تو ویسے کوئی چھٹی ہوتی نہیں ہے لیکن چوںکہ اُس دن تمہاری ہفتہ وار چھٹی ہے اِس لیے تمہاری ایک ساتھ 2 چھٹیاں، جاو مزے کرو۔

ویسے وہ بھی کیا اچھے دن تھے، گنتی کے 4 یا 5 نجی نیوز چینل ہوا کرتے تھے۔ کوئی ریٹنگ کی مارا ماری نہیں تھی، سرکاری ٹی وی کے علاوہ ایک ہی چینل تھا جو کسی حد تک زندہ، میرا مطلب ہے لائیو خبریں دیتا تھا۔ باقی آج کل کے نمبر ون بھی اُس وقت زندہ جیسا مطلب ''ایز لائیو'' ہی خبریں پڑھوایا کرتے تھے۔


بس عید کے پہلے دن اماں اور ابا کو نماز کے لیے جانے سے پہلے ہی خدا حافظ کہہ دیا تھا، دوستوں کے ساتھ عید کی نماز پڑھی، جلد بازی میں گلے ملے اور کہا اب ہم چلتے ہیں اپنے روزگار پر۔ دوستوں نے کہا کہ مانا کہ اِس نوکری کے کئی فائدے ہیں لیکن ایسا بھی کیا کہ عید کے دن بھی کام پر جارہے ہو؟ ہم نے بھی بڑے بھرم سے کہا کہ کردی نا چھوٹی بات۔ بھول گئے کیسے سکون سے ڈبل سواری پر گھومتے ہیں؟ چونکہ اُس وقت مزید بحث کا وقت نہیں تھا اِس لیے دوستوں نے کہا کہ چلو ہم ہی چھوڑ دیتے ہیں تمہیں آفس۔

بڑی آن اور شان سے پہلے دن دفتر پہنچے، بھرپور طریقے سے کام کیا۔ دوپہر ہوئی تو اِس بات کر خوش تھا کہ بس چار بجنے والے ہیں اور میری چھٹی ہونے والی ہے، لیکن شام ہوئی تو پتہ چلا جن صاحب کو 4 بجے آنا تھا وہ اب 7 بجے یعنی 3 گھنٹے تاخیر سے آئیں گے، اور اُن کی جگہ ڈیوٹی مجھے ہی دینی ہوگی۔ اب چونکہ یہ سب میرے ساتھ پہلے بار ہورہا تھا اِس لیے پریشانی ہوگئی، کیونکہ اماں کو کہہ کر آئے تھے کہ 5 بجے تک گھر واپسی ہوجائے گی، لیکن گھر پہنچتے پہنچتے رات کے 9 بج گئے۔ پہلی بار محسوس ہوا کہ کچھ ایسا ہوا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ خیر سر جھٹک کر ابا کے ساتھ رات کا کھانا کھایا اور پھر دوستوں کے ساتھ عمر شریف کا اسٹیج ڈرامہ دیکھنے چلے گئے۔

یوں پہلی بار ہماری عید یونہی گزر گئی۔ لیکن جب ایک سال بعد پھر عید آئی تو بدقسمتی کے ساتھ شیڈول میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اِس بار عید کی نماز پڑھ کر بھاگنے لگے تو دوستوں نے پیچھے سے آواز لگائی،
''جا بھائی جا، ماں کی بددعا ہے تجھے''

اِس بات کو آج 11 برس بیت گئے۔ ابا دنیا سے چلے گئے، اماں نے خود پر بڑھاپا طاری کرلیا، بہنیں اپنے گھروں کی ہوئیں اور ہم بھی ڈیڈی بن گئے، لیکن اتنا سب کچھ بدل جانے کے باوجود بھی ہمارا شیڈول نہیں بدلا اور آج بھی عید کے دن ہم دفتر میں ہی موجود ہیں۔ جب باپ کا سایہ سر سے اُٹھا اور خود باپ بنے تو پتہ چلا کہ واقعی زندگی میں کتنا کچھ تبدیل ہوچکا ہے، لیکن چونکہ پیٹ تو پالنا ہے، اِس لیے چاہنے اور ناچاہنے کے باوجود عید کا دن اب بھی دفتر میں گزارنا پڑتا ہے۔ آج جب میں ایک بار پھر عید کے دن دفتر آیا تو ایک ہی آواز بار بار کانوں میں گونج رہی ہے،
''جا بھائی جا، ماں کی بددعا ہے تجھے۔''

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔
Load Next Story