امریکا کا پاکستان کی امداد روکنے اور ڈرون حملے تیز کرنے پر غور
ڈونلڈ ٹرمپ حکومت پاکستان سے متعلق اپنی پالیسی سخت کرنے پر سوچ بچار کررہی ہے
امریکی حکومت افغانستان میں حملے کرنے والے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کے لیے پاکستان میں ڈرون حملے تیز کرنے اور امداد روکنے پر غور کررہی ہے۔
بین الاقوامی خبر ایجنسی رائٹرز نے اپنی رپورٹ میں امریکی حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستان میں طالبان اپنی محفوظ پناہ گاہوں سے افغانستان پر حملے کرتے ہیں اور دوبارہ منظم ہوتے ہیں۔ اس لیے ٹرمپ حکومت پاکستان سے متعلق اپنی پالیسی سخت کرنے کا جائزہ لے رہی ہے تاکہ پاکستان میں موجود مبینہ عسکریت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جاسکے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ٹرمپ حکومت پاکستان میں ڈرون حملوں میں اضافہ کرسکتی ہے، پاکستان کی امداد کو روک سکتی ہے یا پھر اہم غیر نیٹو اتحادی ملک کے طور پر حاصل پاکستان کے مرتبے کو بھی کم کرسکتی ہے۔
بعض امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات لاحاصل ہیں اور اس سے پہلے بھی پاکستان کو عسکریت پسند تنظیموں کی حمایت سے باز رکھنے کی امریکی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں جب کہ بڑھتے ہوئے امریکا بھارت تعلقات کی وجہ سے بھی پاکستان کے ساتھ کسی پیشرفت کے امکانات کو نقصان پہنچا۔
وائٹ ہاؤس اور امریکی محکمہ دفاع نے اس رپورٹ پر موقف دینے سے انکار کردیا ہے کہ کیا حکومت کوئی پالیسی جائزہ لے رہی ہے یا نہیں۔ امریکی وزارت دفاع پنٹاگون کے ترجمان ایڈم اسٹمپ نے بس اتنا کہنے پر ہی اکتفا کیا کہ امریکا اور پاکستان قومی سلامتی کے مختلف امور میں شراکت دار ہیں۔ دوسری جانب واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے نے بھی اس خبر سے متعلق موقف نہیں دیا۔
امریکی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ٹرمپ حکومت علاقائی حکمت عملی تشکیل دے رہی ہے جسے جولائی کے وسط میں پیش کیا جائے گا۔ ہم نے پاکستان سے متعلق جامع پالیسی کبھی تشکیل دی ہی نہیں۔ اب جو پالیسی بنائی جائے گی اس میں واضح ہوگا کہ ہم پاکستان سے چاہتے کیا ہیں۔
امریکا میں افغانستان کے سفیر حمداللہ محب نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ماضی کے مقابلے میں اس بار امریکا کی پاکستان سے متعلق پالیسی کافی سخت ہوگی۔
پاکستانی حکومت کے اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان پہلے ہی اپنی استطاعت سے بڑھ کر کام کر رہا ہے اور ہم اس سے زیادہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔
بین الاقوامی خبر ایجنسی رائٹرز نے اپنی رپورٹ میں امریکی حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستان میں طالبان اپنی محفوظ پناہ گاہوں سے افغانستان پر حملے کرتے ہیں اور دوبارہ منظم ہوتے ہیں۔ اس لیے ٹرمپ حکومت پاکستان سے متعلق اپنی پالیسی سخت کرنے کا جائزہ لے رہی ہے تاکہ پاکستان میں موجود مبینہ عسکریت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جاسکے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ٹرمپ حکومت پاکستان میں ڈرون حملوں میں اضافہ کرسکتی ہے، پاکستان کی امداد کو روک سکتی ہے یا پھر اہم غیر نیٹو اتحادی ملک کے طور پر حاصل پاکستان کے مرتبے کو بھی کم کرسکتی ہے۔
بعض امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات لاحاصل ہیں اور اس سے پہلے بھی پاکستان کو عسکریت پسند تنظیموں کی حمایت سے باز رکھنے کی امریکی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں جب کہ بڑھتے ہوئے امریکا بھارت تعلقات کی وجہ سے بھی پاکستان کے ساتھ کسی پیشرفت کے امکانات کو نقصان پہنچا۔
وائٹ ہاؤس اور امریکی محکمہ دفاع نے اس رپورٹ پر موقف دینے سے انکار کردیا ہے کہ کیا حکومت کوئی پالیسی جائزہ لے رہی ہے یا نہیں۔ امریکی وزارت دفاع پنٹاگون کے ترجمان ایڈم اسٹمپ نے بس اتنا کہنے پر ہی اکتفا کیا کہ امریکا اور پاکستان قومی سلامتی کے مختلف امور میں شراکت دار ہیں۔ دوسری جانب واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے نے بھی اس خبر سے متعلق موقف نہیں دیا۔
امریکی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ٹرمپ حکومت علاقائی حکمت عملی تشکیل دے رہی ہے جسے جولائی کے وسط میں پیش کیا جائے گا۔ ہم نے پاکستان سے متعلق جامع پالیسی کبھی تشکیل دی ہی نہیں۔ اب جو پالیسی بنائی جائے گی اس میں واضح ہوگا کہ ہم پاکستان سے چاہتے کیا ہیں۔
امریکا میں افغانستان کے سفیر حمداللہ محب نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ماضی کے مقابلے میں اس بار امریکا کی پاکستان سے متعلق پالیسی کافی سخت ہوگی۔
پاکستانی حکومت کے اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان پہلے ہی اپنی استطاعت سے بڑھ کر کام کر رہا ہے اور ہم اس سے زیادہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔