جے آئی ٹی فیصلہ ثبوتوں پر ہونا ہے
قارئین کرام اس ساری تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ جے آئی ٹی پاناما کیس کی جو تحقیقات کر رہی ہے یہ آسان کام نہیں ہے
جب سے پاناما کیس کی تحقیقات شروع ہوئی ہے' میں اس میں آنے والے اتار چڑھاؤ کو دیکھ رہا ہوں' سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ جب اس کیس کی سماعت کر رہا تھا' اس وقت پی ٹی آئی بہت پراعتماد تھی کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اس کیس میں بچ نہیں سکتے اور نااہل ہوجائیں گے۔ آثار بھی کچھ ایسے ہی نظر آ رہے تھے لیکن جب فیصلہ آیا تو وزیراعظم اکثریتی فیصلے سے نااہلی سے توبچ گئے لیکن پاناما کیس نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کی روح سے وزیراعظم نااہلی سے تو بچ گئے لیکن کیس ختم نہیں ہوا بلکہ مزید پیچیدہ اور مشکل مرحلے میں داخل ہو گیا۔
عدالت عظمیٰ نے پاناما کیس کی مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دیا اور اس کا میکنزم بھی ایسا بنایا کہ حکومت اس معاملے میں بے بس ہو گئی اور اس کے پاس عدالت عظمیٰ کے حکم کی تعمیل کے سوا کوئی آپشن باقی نہیں رہا۔ عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کے مطابق تین رکنی بنچ تشکیل دیا گیا' اس بنچ میں وہ تین جج شامل ہیں جنھوں نے پاناما کیس کے فیصلے میں وزیراعظم کو نااہل قرار نہیں دیا تھا۔ اس تین رکنی بنچ نے آئی ایس آئی' ایم آئی' اسٹیٹ بینک آف پاکستان' ایس ای سی پی اور ایف آئی اے کے تجربہ کار افسروں پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دی جو پاناما کیس کے حوالے سے مزید تحقیقات کر رہی ہے۔
جے آئی ٹی کی تشکیل کے ساتھ ہی اس کے ارکان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم شروع ہوئی اور پھر حکومتی وزراء بھی میدان میں آ گئے' اس حوالے سے وٹس ایپ کال کا ایشو بھی سامنے آیا اور نہال ہاشمی کی تندوتیز تقریر بھی منظرعام پر آئی' وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز نے بھی جے آئی ٹی کے رویے پر سوال اٹھائے اور نیشنل بینک کے سربراہ سعید احمد نے بھی جے آئی ٹی کے ارکان کے توہین آمیز رویے کی شکایت کی' یہ سارے معاملات عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ کے روبرو پیش ہوئے ہیں' پھر جے آئی ٹی کے سربراہ نے بھی حکومتی اداروں کے عدم تعاون اور ریکارڈ میں ردوبدل کی شکایت کی' ان تمام معاملات کے باوجود جے آئی ٹی نے اپنا کام جاری رکھا' اس جے آئی ٹی نے پہلی رپورٹ عدالت عظمیٰ کو مقررہ مدت میں پیش کر دی اور اب دوسری رپورٹ بھی پیش ہو جائے گی۔
قارئین کرام اس ساری تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ جے آئی ٹی پاناما کیس کی جو تحقیقات کر رہی ہے' یہ آسان کام نہیں ہے' سچ پوچھیں تو جے آئی ٹی کے ارکان نے انتہائی مشکل اور غیرمعمولی حالات اور غیرمعمولی دباؤ میں اپنا کام کیا ہے' اس وقت جو شور مچا ہوا ہے اور حکومتی ایوانوں میں جو تھرتھلی' غصہ اور جھنجھلاہٹ نظر آ رہی ہے' اس سے یہی لگتا ہے کہ سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی نے جورپورٹ پیش کی ہے اور جو دوسری پیش ہونے جارہی ہے' وہ شریف خاندان کے حق میں نظر نہیں آتی۔ وزیراعظم جب جے آئی ٹی کے روبرو خود پیش ہوئے تو انھوں نے کہا تھا کہ ان پر سرکاری سطح پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں بلکہ ان کے اور ان کے خاندان کے ذاتی کاروبار کے حوالے سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے' وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بھی اسی طرح کی باتیں کی ہیں' حسین نواز اور مسلم لیگ ن کے دیگر رہنماؤں کے بیانات میں بھی تلخی نمایاں نظر آرہی ہے' اس سے فہمیدہ حلقوں میں یہ تاثر بھی جا رہا ہے کہ وزیراعظم اور ان کے خاندان کے لیے جے آئی ٹی کی تحقیقات مشکلات کا سبب بن سکتی ہیں۔
جے آئی ٹی میں فوج کے نمایندوں کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں' بعض حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس جے آئی ٹی میں آئی بی کو شامل نہیں کیا گیا' اگر آئی بی اس میں شامل ہوتی تو شریف خاندان اور حکومت کو شاید اتنی پریشانی نہ ہوتی' فوج کے نمایندوں پر تحفظات کوئی معنی نہیں رکھتے کیونکہ جے آئی ٹی نے اپنی تحقیقات کو ثبوتوں کی بنیاد پر آگے بڑھانا ہے' کسی تحقیقاتی ٹیم کا کوئی رکن خواہ کتنا بھی جانبدار ہو' وہ ثبوتوں کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے' عدالت نے بھی ثبوتوں پر ہی فیصلہ کرنا ہوتا ہے' پاناما کیس کی تحقیقات میں بار ثبوت شریف فیملی پر ہے' عدالت نے منی ٹریل مانگی ہے' اگر وہ پیش ہو جاتی ہے اور دیگر ثبوت پیش کر دیے جاتے ہیں تو پھر ڈر کس بات کا۔
پاناما کیس کی تحقیقات پاکستان کی تاریخ کا نادر واقعہ ہے اور یہ پاکستان کی تاریخ کا انتہائی اہم موڑ ہے' پاکستان میں یہ کلچر بہت پختہ ہو گیا ہے کہ اگر فیصلہ اپنے حق میں آئے تو عدالت حق سچ کی نمایندہ اور اگر فیصلہ خلاف آئے تو جج پر الزامات عائد کیے جائیں' اسی طرح کوئی تحقیقاتی ادارہ کسی سے درست انداز میں پوچھ گچھ کرے تو وہ ٹھیک نہیں اگر وہ کلین چٹ دے دے تو وہ درست ہے' اب اس رویے اور کلچر کا خاتمہ ہونا چاہیے' جہاں تک فوج کا تعلق ہے تو ہر معاملے میں اس پر انگلی اٹھانا درست نہیں ہے' پاک فوج نے تو نیوز لیکس کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کی رپورٹ پر ردعمل میں جو ٹویٹ کیا تھا' وہ بھی واپس لے لیا تھا' اس سے اس کی عزت میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہی ہوا ہے کیونکہ فوج نے آئین و قانون کی حکمرانی کو تسلیم کیا' ورنہ ماضی میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔
اب ساری قوم کی نظریں جے آئی ٹی کی تحقیقات اور عدالت عظمیٰ پر لگی ہیں' تحریک انصاف والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر اس بار پھر فیصلہ ماضی جیسا ہی آیا تو پھر اس کا مطلب ہو گا کہ اس ملک سے کرپشن اور اقربا پروری ختم نہیں ہوگی۔ بہرحال یہ ایک طرف کا موقف ہے' اصل بات یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ اس ملک کے لیے نئی راہ عمل مرتب کرے گا' فیصلہ ثبوتوں پر ہو گا' خواہشوں' تمناؤں یا کسی منصوبے بندی کے تابع نہیں ہو گا۔
عدالت عظمیٰ نے پاناما کیس کی مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دیا اور اس کا میکنزم بھی ایسا بنایا کہ حکومت اس معاملے میں بے بس ہو گئی اور اس کے پاس عدالت عظمیٰ کے حکم کی تعمیل کے سوا کوئی آپشن باقی نہیں رہا۔ عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کے مطابق تین رکنی بنچ تشکیل دیا گیا' اس بنچ میں وہ تین جج شامل ہیں جنھوں نے پاناما کیس کے فیصلے میں وزیراعظم کو نااہل قرار نہیں دیا تھا۔ اس تین رکنی بنچ نے آئی ایس آئی' ایم آئی' اسٹیٹ بینک آف پاکستان' ایس ای سی پی اور ایف آئی اے کے تجربہ کار افسروں پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دی جو پاناما کیس کے حوالے سے مزید تحقیقات کر رہی ہے۔
جے آئی ٹی کی تشکیل کے ساتھ ہی اس کے ارکان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم شروع ہوئی اور پھر حکومتی وزراء بھی میدان میں آ گئے' اس حوالے سے وٹس ایپ کال کا ایشو بھی سامنے آیا اور نہال ہاشمی کی تندوتیز تقریر بھی منظرعام پر آئی' وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز نے بھی جے آئی ٹی کے رویے پر سوال اٹھائے اور نیشنل بینک کے سربراہ سعید احمد نے بھی جے آئی ٹی کے ارکان کے توہین آمیز رویے کی شکایت کی' یہ سارے معاملات عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ کے روبرو پیش ہوئے ہیں' پھر جے آئی ٹی کے سربراہ نے بھی حکومتی اداروں کے عدم تعاون اور ریکارڈ میں ردوبدل کی شکایت کی' ان تمام معاملات کے باوجود جے آئی ٹی نے اپنا کام جاری رکھا' اس جے آئی ٹی نے پہلی رپورٹ عدالت عظمیٰ کو مقررہ مدت میں پیش کر دی اور اب دوسری رپورٹ بھی پیش ہو جائے گی۔
قارئین کرام اس ساری تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ جے آئی ٹی پاناما کیس کی جو تحقیقات کر رہی ہے' یہ آسان کام نہیں ہے' سچ پوچھیں تو جے آئی ٹی کے ارکان نے انتہائی مشکل اور غیرمعمولی حالات اور غیرمعمولی دباؤ میں اپنا کام کیا ہے' اس وقت جو شور مچا ہوا ہے اور حکومتی ایوانوں میں جو تھرتھلی' غصہ اور جھنجھلاہٹ نظر آ رہی ہے' اس سے یہی لگتا ہے کہ سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی نے جورپورٹ پیش کی ہے اور جو دوسری پیش ہونے جارہی ہے' وہ شریف خاندان کے حق میں نظر نہیں آتی۔ وزیراعظم جب جے آئی ٹی کے روبرو خود پیش ہوئے تو انھوں نے کہا تھا کہ ان پر سرکاری سطح پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں بلکہ ان کے اور ان کے خاندان کے ذاتی کاروبار کے حوالے سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے' وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بھی اسی طرح کی باتیں کی ہیں' حسین نواز اور مسلم لیگ ن کے دیگر رہنماؤں کے بیانات میں بھی تلخی نمایاں نظر آرہی ہے' اس سے فہمیدہ حلقوں میں یہ تاثر بھی جا رہا ہے کہ وزیراعظم اور ان کے خاندان کے لیے جے آئی ٹی کی تحقیقات مشکلات کا سبب بن سکتی ہیں۔
جے آئی ٹی میں فوج کے نمایندوں کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں' بعض حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس جے آئی ٹی میں آئی بی کو شامل نہیں کیا گیا' اگر آئی بی اس میں شامل ہوتی تو شریف خاندان اور حکومت کو شاید اتنی پریشانی نہ ہوتی' فوج کے نمایندوں پر تحفظات کوئی معنی نہیں رکھتے کیونکہ جے آئی ٹی نے اپنی تحقیقات کو ثبوتوں کی بنیاد پر آگے بڑھانا ہے' کسی تحقیقاتی ٹیم کا کوئی رکن خواہ کتنا بھی جانبدار ہو' وہ ثبوتوں کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے' عدالت نے بھی ثبوتوں پر ہی فیصلہ کرنا ہوتا ہے' پاناما کیس کی تحقیقات میں بار ثبوت شریف فیملی پر ہے' عدالت نے منی ٹریل مانگی ہے' اگر وہ پیش ہو جاتی ہے اور دیگر ثبوت پیش کر دیے جاتے ہیں تو پھر ڈر کس بات کا۔
پاناما کیس کی تحقیقات پاکستان کی تاریخ کا نادر واقعہ ہے اور یہ پاکستان کی تاریخ کا انتہائی اہم موڑ ہے' پاکستان میں یہ کلچر بہت پختہ ہو گیا ہے کہ اگر فیصلہ اپنے حق میں آئے تو عدالت حق سچ کی نمایندہ اور اگر فیصلہ خلاف آئے تو جج پر الزامات عائد کیے جائیں' اسی طرح کوئی تحقیقاتی ادارہ کسی سے درست انداز میں پوچھ گچھ کرے تو وہ ٹھیک نہیں اگر وہ کلین چٹ دے دے تو وہ درست ہے' اب اس رویے اور کلچر کا خاتمہ ہونا چاہیے' جہاں تک فوج کا تعلق ہے تو ہر معاملے میں اس پر انگلی اٹھانا درست نہیں ہے' پاک فوج نے تو نیوز لیکس کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کی رپورٹ پر ردعمل میں جو ٹویٹ کیا تھا' وہ بھی واپس لے لیا تھا' اس سے اس کی عزت میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہی ہوا ہے کیونکہ فوج نے آئین و قانون کی حکمرانی کو تسلیم کیا' ورنہ ماضی میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔
اب ساری قوم کی نظریں جے آئی ٹی کی تحقیقات اور عدالت عظمیٰ پر لگی ہیں' تحریک انصاف والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر اس بار پھر فیصلہ ماضی جیسا ہی آیا تو پھر اس کا مطلب ہو گا کہ اس ملک سے کرپشن اور اقربا پروری ختم نہیں ہوگی۔ بہرحال یہ ایک طرف کا موقف ہے' اصل بات یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ اس ملک کے لیے نئی راہ عمل مرتب کرے گا' فیصلہ ثبوتوں پر ہو گا' خواہشوں' تمناؤں یا کسی منصوبے بندی کے تابع نہیں ہو گا۔