امپائرکی انگلی

بیرسٹر اعتزاز احسن وہ منجھے ہوئے سیاست داں ہیں جن کی صلاحیتوں کا شاید ہی کوئی انکاری ہو

mnoorani08@gmail.com

امپائرکی انگلی کی اصطلاح ویسے توکرکٹ کے کھیل سے لی گئی ہے لیکن کرکٹ کے علاوہ پاکستانی سیاست میں اِس کا بھر پور استعمال2014ء کے عمرانی دھرنوں سے ہوا۔ ہمارے یہاں سیاست میں اس اصطلاح کو متعارف کروانے والے عمران خان نے جب اپنے دھرنوں میں اس کااستعمال کیا تو اُن کا واضح طور پر اشارہ ہماری اُن مقتدر قوتوںکی طرف تھا جنھیں ہماری ملکی سیاست میں ابھی تک ایک فیصلہ کن حیثیت کا درجہ حاصل ہے۔ ایسالگتا ہے کہ تحریک انصاف کے 2014ء کے دھرنے بعد سے اِس امپائر کا تذکرہ ہماری قومی سیاست کالازمی جز بن چکا ہے۔جب بھی کبھی بے یقینی کی فضا قائم ہونے لگتی ہے اِس امپائرکی اُنگلی کے امکانات کاذکر ہونے لگتا ہے۔ ابھی حال ہی میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر اعتزاز احسن نے لامحدود طاقت کی حامل اِس انگلی کا ایک بار پھر تذکرہ کیا ہے۔ اُن کے خیال میں آج کل پاکستان میں سیاسی حالات اس قدر دگر گوں ہوچکے ہیں کہ بس صرف امپائرکی انگلی کااٹھنا ہی باقی رہ گیا ہے۔

بیرسٹر اعتزاز احسن وہ منجھے ہوئے سیاست داں ہیں جن کی صلاحیتوں کا شاید ہی کوئی انکاری ہو۔ مضبوط سیاسی حریف ہونے کے ناتے اُن کی مسلم لیگ (ن) سے دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور مسلم لیگ میں بھی خاص کر وہ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار کے تو بہت بڑے مخالف ہیں۔ حالانکہ چوہدری نثار پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وہ واحد سیاستداں ہیں جنھیں اُن کی اپنی پارٹی کے علاوہ دیگر مخالف سیاسی جماعتوں کے لوگ بھی اچھی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔شائستگی، بردباری اور اخلاقی قدروں کے حامل چوہدری نثار کو پاکستان تحریک انصاف کے بہت سے لوگ بھی پسند فرماتے ہیں۔ان لوگوں کی اِن نگاہ التفات کا سبب چوہدری نثار کی وہ دانشمندانہ اور مدبرانہ شخصیت ہے جس نے اِس ملک کی سیاست میں اخلاقی قدروں کو ابھی تک قائم رکھا ہوا ہے۔

اُن کی زبان سے کبھی کسی نے ناشائستہ اور غیر اخلاقی فقرے بازی نہیں سنی ۔وہ انتہائی ذمے دارانہ سیاست کے امین ہیں، لیکن نجانے اعتزاز احسن کو وہ کیوں اتنے برے اور ناگوار گزرتے ہیں۔اُس کی بظاہر ہمیں صرف ایک ہی وجہ دکھائی دیتی ہے کہ چوہدری نثار پیپلز پارٹی کی مالی بدعنوانی اور کرپشن کے سب سے بڑے مخالف ہیںاوروہ پیپلز پارٹی سے اِس معاملے پرکبھی کوئی سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔خود اُن کی اپنی پارٹی میںوہ اِس معاملے پر ڈٹ جاتے ہیں۔ میاں صاحب اگر سیاسی مجبوریوں اورمصلحتوں کے سبب کبھی کسی معاملے پر اگرکوئی مک مکا یا سمجھوتہ کرنا بھی چاہیں تو چوہدری نثار کسی طور یہ قبول کرنے پرتیار نہیں ہوتے۔ اُن کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ وہ اپنی وزارت کے ٹھکرادینے کو ایک بار ترجیح دے دیں گے لیکن پیپلز پارٹی کو کرپشن پر کوئی رعایت دینے پر رضامند نہیں ہو سکتے۔

اعتزاز احسن کی سیاسی بصیرت،ذہانت اورقابلیت کی ویسے تو ہم سب معترف ہیں لیکن اُن کی شخصیت کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ وہ پارٹی سے دلی محبت اوردیرینہ وابستگی کی وجہ سے کبھی کبھاراُصولوں پر سمجھوتہ کرلینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ چیف جسٹس افتخار حسین چوہدری کوجب جنرل پرویز مشرف نے معزول کرکے نظر بند کردیا تھا تو یہی اعتزاز احسن عدلیہ بحالی تحریک کے روحِ رواں بن کر افتخار چوہدری کے ایک مخلص اور مضبوط جانثارساتھی کے طور پر ابھر کر سامنے آئے تھے۔لیکن 2008ء کے انتخابا ت کے بعد منتخب ہونے والی خود اُن کی اپنی پارٹی نے جب اُن سے عہدوفا نبھانے میں ہچکچاہٹ اورپس وپیش سے کام لیناشروع کیا تووہ بھی سابق چیف جسٹس سے کچھ دوردور رہنے لگے۔رفتہ رفتہ یہ دوری اُس وقت سیاسی مخالفت میں بدل گئی جب افتخار چوہدری نے پیپلز پارٹی کے کرپشن سے بھر پوراور لبریزمقدمات کی سماعت شروع کی۔ وہ دن ہے اور آج کا دن وہ پھرکبھی سابق چیف جسٹس کے حمایت میں ایک لفظ بھی نہیں بولے۔


پاناما کیس میںاپنی پارٹی کے اُصولی فیصلوں کی وجہ سے وہ ذاتی طور پر گرچہ عدالتوں میں کسی مقدمے کی پیروی نہ کرسکے لیکن شاید ہی ایسا کوئی دن گزرتا ہو جب نواز شریف مخالفت اُن کاکوئی بیان سامنے نہ آتا ہو۔ اپنی اِس خصوصی خصلت کی وجہ سے وہ آج کل تحریکِ انصاف کے بھی بہت قریب اور ہم خیال تصورکیے جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی میں اگر کوئی عمران خان سے سیاسی اتحاد اور مک مکا کا زبردست حامی اورطرفدار ہے تو وہ یہی موقعہ شناس صاحب دانش اور صاحبِ فہم وفراست ہیں۔خود عمران خان کے چاہنے والے بھی اُنہیں اِسی وجہ سے محبت اور قدر کے نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی پیپلز پارٹی میںصرف اُن ہی کی شخصیت پر غیر متزلزل اعتماد کرتے ہیں۔وہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے مابین ممکنہ دوستی اور اتحاد کے لیے بھی ایک پل کی علامت کے طور پر تصورکیے جاتے ہیں۔

ایک اخباری خبر کے مطابق پاناما کیس اعتزاز احسن کو اب صرف دوچار دنوں کامعاملہ دکھائی دیتا ہے۔اُنہیںسپریم کورٹ اور جے آئی ٹی پر بظاہر مکمل اعتماد ہے۔اُن کی نظر میں میاں صاحب کو اب نااہلی سے کوئی بھی نہیں بچا سکتا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ کہنے میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھتے کہ امپائرکی انگلی اب اٹھنے ہی والی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب اعتزاز احسن کوہماری عدلیہ اورجے آئی ٹی پر مکمل اعتماد اور بھروسہ ہے تو پھر اِس معاملے میں بلاوجہ عسکری اداروں کو گھسیٹ کر اُنہیں پراگندہ اور بدنام کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

اعتزاز احسن کو شاید یہ معلوم نہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے بعد سے ہمارے اداروں نے نیوٹرل اور غیر جانبدار رہنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔وہ سیاسی معاملات میں کسی ایک فریق کی طرفداری کرنے پر کسی طور تیار نہیں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جنرل اشفاق پرویزکیانی، جنرل راحیل شریف اور اب جنرل جاوید قمر باجوہ نے بھی سیاست کی اِ س گند ے تالاب میں غوطے لگانے کی بجائے اُس سے دور ہی رہنے کا عزم کیا ہوا ہے۔ اُن کی اِسی کردار کی وجہ سے ہمارے یہاں گزشتہ نو سال سے جمہوریت بلا کسی مداخلت اور تعطل کے پھل پھول رہی ہے۔ملک ترقی و خوشحالی کی سمت بڑھنے لگا ہے اور شایداِسی وجہ سے دنیا کی نظروں میں ملکی وقومی وقار میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔سول اور ملٹری اداروں کے مابین پہلی بار اتفاق اور افہام و تفہیم پیدا ہوا ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ میموگیٹ اور نیوز لیکس کا معاملہ بھی خوش اسلوبی سے طے ہوپایا ہے۔

گرچہ بدخواہوں کو ہمارے اداروں کی یہ ادابھی ناگوار گزری ہے اور وہ اُنہیں برا بھلا کہتے دکھائی دیے، مگر افسوس کہ وہ اب بھی اپنی اِن خصلتوں سے باز نہیں آتے اور پس چلمن بیٹھے کسی نادیدہ امپائرکی انگلی کی ہروقت توقع او ر آس لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔اپنے دل کے نہا خانوں میں چھپی اِن شوریدہ صفت حسرتوں کی تکمیل کے لیے وہ اکثر اوقات ایسے بیانات داغ دیتے ہیں کہ جیسے ملک میںایک بار پھر جمہوریت کا بستر گول ہونے والا ہے، لیکن اُنہیں یہ نہیں معلوم کہ عالمی سیاست میں فوجی حکومتوں کی اب کوئی ملک حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔دنیا ایسی قوموں کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتی جہاں لوگ جمہوریت کی بجائے بادشاہت اور آمریت کی خواہش رکھتے ہوں۔اور ویسے بھی میاں نواز شریف نے اپنے اِس دور کے چار سال تو گزار ہی لیے ہیں۔ اُنہیں اپنے اِس آخری سال میں معزول کرکے اُنہیں اور مقبول اور شہیدہونے کا موقعہ کیوں فراہم کیا جائے۔اگلے عام انتخابات 2018ء میں ہونے والے ہیں عوام خود ہی فیصلہ کرلیں گے کون کتنا کرپٹ اور بد عنوان ہے اور کون کتنا نیک اور پارسا ہے اور کون اگلے پانچ برسوں کے لیے اُن پر حکمرانی کا حقدار اور اہل ہے۔
Load Next Story