بی بی کی یادگار سالگرہ
بی بی نے دو دن بعد وافی شاپنگ مال میں اپنے پسندیدہ ریسٹورنٹ میں سالگرہ لنچ دیا
ROME:
محترمہ بینظیر بھٹو عوام کی آواز تھیں۔ ان کا رشتہ عوام سے تھا۔ وہ انسانی حقوق کی علمبردار تھیں۔ ملکی استحکام، سا لمیت اور قومی مفادات کی امین۔انھوں نے آمریت کے خلاف طویل اور تاریخ ساز جدوجہد کی بدولت عالمی سطح پر پاکستان اور قومی تشخص کو اجاگر کیا۔ دنیا کے اخبارات میں انھیں آہنی خاتون کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ بلاشبہ ان کی جمہوری جدوجہد اور قربانی پاکستان کی تاریخ کا سنہری باب ہے اور بین الاقوامی سطح پر ان کی جرأت وحوصلہ مندی کو شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ ان کی ہر دلعزیزی ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اسلامی ممالک میں وہ دختر ِ اسلام کے نام سے سرفراز ہوئیں۔
محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان کا تابناک چہرہ تھیں۔ وہ انسانی اقدار اور شخصی وقار کا حسن تھیں اور یہی وہ خوبصورتی ہے کہ ہر سال 21جون کو ان کی سالگرہ منائی جاتی ہے، خوشی و مسرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اندرونِ و بیرونِ ملک یکساں طور پر بی بی کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ یہ جون 2003ء کا ذکر ہے۔ بی بی مختصر قیام کے لیے لندن آئیں، انھوں نے مجھے اپنی پچاسویں سالگرہ میں شرکت کے لیے دبئی آنے کی دعوت دی۔ میں نے بی بی کو یاد دلایا کہ آپ نے میری گلزار ہاؤس میں پچاسویں سالگرہ کا کیک کاٹا تھا اور میں یقیناً دبئی آکر آپ کی خوشی میں شریک ہوں گا اور میرے لیے یہ اعزاز اور خوشی کی بات ہے۔
کچھ دن بعد لندن برٹش ایئرویز کی پرواز سے دبئی پہنچا تو ایئرپورٹ پر بی بی کا ڈرائیور مجھے لینے کے لیے موجود تھا۔ میں ان کی رہائش گاہ پہنچا۔ بی بی میری آمد سے بہت خوش تھیں۔ میرا قیام ان کے مہمان خانے میں تھا اور ہاؤس گیسٹ کے طور پر میری پذیرائی ہوئی۔
21جون 2003ء کی شام ایک یادگار شام تھی۔ پچاسویں سالگرہ کی مناسبت سے پچاس مہمان مدعو تھے۔ ان میں ملکی و غیرملکی مہمان تھے، جن میں مقامی عرب بھی شامل تھے۔ یہ شام بڑی پُر رونق اور ماحول بڑا خوبصورت تھا۔ کھانا بڑا پُر لطف تھا۔ کیک پچاسویں سالگرہ کی مناسبت سے تیار کیا گیا تھا۔ مہمانوں کے ہجوم میں بی بی نے سالگرہ کا کیک کاٹا اور ہیپی برتھ ڈے کی مسحور کن آواز سے ڈرائنگ روم گونج اٹھا۔ اس سالگرہ کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ محترمہ نے انگریزی میں اپنی طویل نظم ''بینظیر کی کہانی'' سنائی، جسے سب حیرانی اور استعجاب سے سن رہے تھے۔ نظم بے حد پسند کی گئی۔ بی بی نے اپنی زندگی اور جدوجہد کو بڑے دلنشیں اور مؤثر انداز میں رقم کیا ہے۔ بی بی کی شاعرانہ صلاحیت پچاسویں سالگرہ پر منکشف ہوئی۔
اس دن کی اہم ترین بات یہ تھی کہ محترم آصف علی زرداری نے حسب معمول 50درجن گلاب کے پھولوں کا گلدستہ علی الصبح بھجوادیا تھا اور بی بی نے اسے اپنے استقبالیہ میں سجایا تھا۔ بی بی نے گلدستہ کے نیچے اپنے تینوں بچوں بلاول، بختاور، آصفہ کو ساتھ بٹھا کر تصویر بنائی اور مجھے بھی ساتھ بٹھا کر ذاتی خوشی میں شریک کیا۔ یہ خوبصورت ترین تصویر میری کتاب ''رفاقت کا سفر'' اور بھٹو لیگیسی فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔
بی بی اس شام بے حد خوش تھیں اور ان کے قریبی مہمانوں کی اس یادگار تقریب میں شرکت سے ان کی خوشی دوچند تھی۔ خود میرے لیے اس میں شرکت بڑی پُرمسرت اور خوشگوار تھی اور اپنی یادوں کو لے کر میں واپس لندن لوٹ آیا۔
جون 2007ء کے ہنگامہ خیز دنوں میں محترمہ بینظیر بھٹو نے مجھے جون کے پہلے ہفتہ میں دبئی آنے کے لیے کہا۔ ان دنوں وہ بے حد مصروف تھیں اور پاکستان واپسی کے سلسلے میں اہم ملاقاتیں کررہی تھیں۔ دبئی میں بہت گہما گہمی تھی اور پارٹی ٹکٹ کے امیدواروں کا میلہ لگا ہوا تھا۔ اس دوران پاکستان پیپلز پارٹی کی دبئی شاخ نے بی بی کی سالگرہ کی وسط جون میں تقریب کا اہتمام کیا۔ یہ تقریب ان کی سالگرہ کی اصل تاریخ سے ایک ہفتہ قبل ہوئی۔ ایک شاندار اجتماع تھا جس میں پاکستان سے آئے ہوئے رہنماؤں اور مقامی کارکنوں نے شرکت کی اور محترمہ کی شخصیت اور اُن کی خدمات کو بھرپور انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔
بی بی نے دو دن بعد وافی شاپنگ مال میں اپنے پسندیدہ ریسٹورنٹ میں سالگرہ لنچ دیا۔ اس میں ان کی قریبی سہیلی سمیعہ وحید اور ان کی ہمشیرہ عظمیٰ وحیدبھی شریک تھیں۔بی بی نے اس موقع پر ہمیں بتایا کہ وہ 21جون کو سالگرہ نہیں منارہی ہیں۔ آیندہ دنوں میں بہت مصروف ہیں، اس لیے اس فراغت سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں۔ 19جون کو بی بی فاروق نائیک کے ہمراہ سعودی عرب چلی گئیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ بی بی نے 21جون کے دن اپنی سالگرہ نہیں منائی۔ شاید یہ اُن کا وجدان تھا اور 2007ء ان کی خوبصورت زندگی سے واپسی کا سال ثابت ہوا۔
آج 21جون 2017ء ہے اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی 64ویں سالگرہ ہے۔ وہ ہم میں موجود نہیں ہیں مگر ہم میں موجود بھی ہیں۔ ہمارے قلب وروح ان کی یاد سے معمور ہیں۔ ہمارے دل و دماغ میں وہ زندہ ہیں اور ان کی یاد تازہ ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو پارٹی کارکنوں کے لیے امید کی روشنی تھیں جو ان کے خوبصورت خوابوں کی تعبیر تھی جو انھوں نے اپنے حقوق اور انسانی وقار کے لیے آنکھوں میں سجا رکھے تھے۔ محترمہ بینظیر بھٹو بیشمار خوبیوں کا مرقع تھیں۔ وہ ایک ہمدرد اور شفیق شخصیت کی مالک تھیں۔ ان کا دل غریبوں اور کارکنوں کی ہمدردی سے لبریز تھا۔ انھیں پارٹی کارکن بے حد عزیز تھے۔ وہ ان کی غمگسار اور دم ساز تھیں۔ یہ ایک بے مثال حقیقت ہے کہ پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں ان کی سالگرہ منائی جاتی ہے، کیک کاٹے جاتے ہیں اور ان کو عقیدت و احترام سے یاد کرکے خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، بختاور اور آصفہ بی بی کی وارثت کے امین ہیں۔ ان کی بہترین پرورش ہوئی ہے، تینوں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور اپنے اپنے شعبوں میں گراں قدر کام کررہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی عظیم والدہ کے اوصافِ حمیدہ اپنا کر اور ان کے نقشِ قدم پر چل کر اسی وراثت کو فروغ دیں گے۔ اور عوامی خدمت کے مشن کو اسی تن دہی سے جاری رکھیں گے جس کی مثال محترمہ بینظیر بھٹو نے قائم کی ہے۔ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے پرچم کو سربلند رکھیں گے۔
(مضمون نگار محترمہ بے نظیر بھٹو کے سابقہ ترجمان ہیں)
محترمہ بینظیر بھٹو عوام کی آواز تھیں۔ ان کا رشتہ عوام سے تھا۔ وہ انسانی حقوق کی علمبردار تھیں۔ ملکی استحکام، سا لمیت اور قومی مفادات کی امین۔انھوں نے آمریت کے خلاف طویل اور تاریخ ساز جدوجہد کی بدولت عالمی سطح پر پاکستان اور قومی تشخص کو اجاگر کیا۔ دنیا کے اخبارات میں انھیں آہنی خاتون کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ بلاشبہ ان کی جمہوری جدوجہد اور قربانی پاکستان کی تاریخ کا سنہری باب ہے اور بین الاقوامی سطح پر ان کی جرأت وحوصلہ مندی کو شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ ان کی ہر دلعزیزی ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اسلامی ممالک میں وہ دختر ِ اسلام کے نام سے سرفراز ہوئیں۔
محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان کا تابناک چہرہ تھیں۔ وہ انسانی اقدار اور شخصی وقار کا حسن تھیں اور یہی وہ خوبصورتی ہے کہ ہر سال 21جون کو ان کی سالگرہ منائی جاتی ہے، خوشی و مسرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اندرونِ و بیرونِ ملک یکساں طور پر بی بی کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ یہ جون 2003ء کا ذکر ہے۔ بی بی مختصر قیام کے لیے لندن آئیں، انھوں نے مجھے اپنی پچاسویں سالگرہ میں شرکت کے لیے دبئی آنے کی دعوت دی۔ میں نے بی بی کو یاد دلایا کہ آپ نے میری گلزار ہاؤس میں پچاسویں سالگرہ کا کیک کاٹا تھا اور میں یقیناً دبئی آکر آپ کی خوشی میں شریک ہوں گا اور میرے لیے یہ اعزاز اور خوشی کی بات ہے۔
کچھ دن بعد لندن برٹش ایئرویز کی پرواز سے دبئی پہنچا تو ایئرپورٹ پر بی بی کا ڈرائیور مجھے لینے کے لیے موجود تھا۔ میں ان کی رہائش گاہ پہنچا۔ بی بی میری آمد سے بہت خوش تھیں۔ میرا قیام ان کے مہمان خانے میں تھا اور ہاؤس گیسٹ کے طور پر میری پذیرائی ہوئی۔
21جون 2003ء کی شام ایک یادگار شام تھی۔ پچاسویں سالگرہ کی مناسبت سے پچاس مہمان مدعو تھے۔ ان میں ملکی و غیرملکی مہمان تھے، جن میں مقامی عرب بھی شامل تھے۔ یہ شام بڑی پُر رونق اور ماحول بڑا خوبصورت تھا۔ کھانا بڑا پُر لطف تھا۔ کیک پچاسویں سالگرہ کی مناسبت سے تیار کیا گیا تھا۔ مہمانوں کے ہجوم میں بی بی نے سالگرہ کا کیک کاٹا اور ہیپی برتھ ڈے کی مسحور کن آواز سے ڈرائنگ روم گونج اٹھا۔ اس سالگرہ کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ محترمہ نے انگریزی میں اپنی طویل نظم ''بینظیر کی کہانی'' سنائی، جسے سب حیرانی اور استعجاب سے سن رہے تھے۔ نظم بے حد پسند کی گئی۔ بی بی نے اپنی زندگی اور جدوجہد کو بڑے دلنشیں اور مؤثر انداز میں رقم کیا ہے۔ بی بی کی شاعرانہ صلاحیت پچاسویں سالگرہ پر منکشف ہوئی۔
اس دن کی اہم ترین بات یہ تھی کہ محترم آصف علی زرداری نے حسب معمول 50درجن گلاب کے پھولوں کا گلدستہ علی الصبح بھجوادیا تھا اور بی بی نے اسے اپنے استقبالیہ میں سجایا تھا۔ بی بی نے گلدستہ کے نیچے اپنے تینوں بچوں بلاول، بختاور، آصفہ کو ساتھ بٹھا کر تصویر بنائی اور مجھے بھی ساتھ بٹھا کر ذاتی خوشی میں شریک کیا۔ یہ خوبصورت ترین تصویر میری کتاب ''رفاقت کا سفر'' اور بھٹو لیگیسی فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔
بی بی اس شام بے حد خوش تھیں اور ان کے قریبی مہمانوں کی اس یادگار تقریب میں شرکت سے ان کی خوشی دوچند تھی۔ خود میرے لیے اس میں شرکت بڑی پُرمسرت اور خوشگوار تھی اور اپنی یادوں کو لے کر میں واپس لندن لوٹ آیا۔
جون 2007ء کے ہنگامہ خیز دنوں میں محترمہ بینظیر بھٹو نے مجھے جون کے پہلے ہفتہ میں دبئی آنے کے لیے کہا۔ ان دنوں وہ بے حد مصروف تھیں اور پاکستان واپسی کے سلسلے میں اہم ملاقاتیں کررہی تھیں۔ دبئی میں بہت گہما گہمی تھی اور پارٹی ٹکٹ کے امیدواروں کا میلہ لگا ہوا تھا۔ اس دوران پاکستان پیپلز پارٹی کی دبئی شاخ نے بی بی کی سالگرہ کی وسط جون میں تقریب کا اہتمام کیا۔ یہ تقریب ان کی سالگرہ کی اصل تاریخ سے ایک ہفتہ قبل ہوئی۔ ایک شاندار اجتماع تھا جس میں پاکستان سے آئے ہوئے رہنماؤں اور مقامی کارکنوں نے شرکت کی اور محترمہ کی شخصیت اور اُن کی خدمات کو بھرپور انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔
بی بی نے دو دن بعد وافی شاپنگ مال میں اپنے پسندیدہ ریسٹورنٹ میں سالگرہ لنچ دیا۔ اس میں ان کی قریبی سہیلی سمیعہ وحید اور ان کی ہمشیرہ عظمیٰ وحیدبھی شریک تھیں۔بی بی نے اس موقع پر ہمیں بتایا کہ وہ 21جون کو سالگرہ نہیں منارہی ہیں۔ آیندہ دنوں میں بہت مصروف ہیں، اس لیے اس فراغت سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں۔ 19جون کو بی بی فاروق نائیک کے ہمراہ سعودی عرب چلی گئیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ بی بی نے 21جون کے دن اپنی سالگرہ نہیں منائی۔ شاید یہ اُن کا وجدان تھا اور 2007ء ان کی خوبصورت زندگی سے واپسی کا سال ثابت ہوا۔
آج 21جون 2017ء ہے اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی 64ویں سالگرہ ہے۔ وہ ہم میں موجود نہیں ہیں مگر ہم میں موجود بھی ہیں۔ ہمارے قلب وروح ان کی یاد سے معمور ہیں۔ ہمارے دل و دماغ میں وہ زندہ ہیں اور ان کی یاد تازہ ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو پارٹی کارکنوں کے لیے امید کی روشنی تھیں جو ان کے خوبصورت خوابوں کی تعبیر تھی جو انھوں نے اپنے حقوق اور انسانی وقار کے لیے آنکھوں میں سجا رکھے تھے۔ محترمہ بینظیر بھٹو بیشمار خوبیوں کا مرقع تھیں۔ وہ ایک ہمدرد اور شفیق شخصیت کی مالک تھیں۔ ان کا دل غریبوں اور کارکنوں کی ہمدردی سے لبریز تھا۔ انھیں پارٹی کارکن بے حد عزیز تھے۔ وہ ان کی غمگسار اور دم ساز تھیں۔ یہ ایک بے مثال حقیقت ہے کہ پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں ان کی سالگرہ منائی جاتی ہے، کیک کاٹے جاتے ہیں اور ان کو عقیدت و احترام سے یاد کرکے خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، بختاور اور آصفہ بی بی کی وارثت کے امین ہیں۔ ان کی بہترین پرورش ہوئی ہے، تینوں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور اپنے اپنے شعبوں میں گراں قدر کام کررہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی عظیم والدہ کے اوصافِ حمیدہ اپنا کر اور ان کے نقشِ قدم پر چل کر اسی وراثت کو فروغ دیں گے۔ اور عوامی خدمت کے مشن کو اسی تن دہی سے جاری رکھیں گے جس کی مثال محترمہ بینظیر بھٹو نے قائم کی ہے۔ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے پرچم کو سربلند رکھیں گے۔
(مضمون نگار محترمہ بے نظیر بھٹو کے سابقہ ترجمان ہیں)