عوام کدھر جائیں
اس ساری الجھی ہوئی سیاست پر نظر ڈالنے سے پہلے ملک کو درپیش اہم ترین مسائل پر نظر ڈالنا ضروری ہے
پاکستان ایک بار پھر انتخابات اور انتخابات کے بعد ''جمہوریت کے نئے کھیل'' کی طرف جارہا ہے، یہ کھیل اگرچہ 35 سال پرانا ہے لیکن اس بار ایک مشکل یہ درپیش ہے کہ منہاج القرآن کے سربراہ طاہر القادری فیکٹر نے روایتی سیاسی اور خاندانی حکمرانوں کے لیے اقتدار کی طرف بڑھنے میں سخت مشکلات پیدا کردی ہیں اور ان مشکلات سے نکلنے کے لیے جوڑ توڑ، اتحادوں، پارٹی تبدیلیوں اور غیر منطقی سیاست کا تیزی سے استعمال ہورہا ہے۔
اس ہڑبونگ میں اس ملک کے اٹھارہ کروڑ غریب اور بے دست و پا عوام حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ کیا کریں؟ جن حکمرانوں کو انھوں نے اپنے مقدر بدلنے کے لیے ووٹ دیے' وہ انھیں کوئی ریلیف دینے کے بجائے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔اس ملک کا سب سے بڑا سیاسی مسئلہ 'اسٹیٹس کو' کو توڑنا ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک پرانا نظام چلا آ رہا ہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی۔ جو سیاسی جماعتیں روایتی چہروں کی تبدیلی کے نظام کو اپنے طبقاتی مفادات، اپنی روایتی خاندانی سیاست اور خاندانی اقتدار کے لیے ضروری سمجھتی ہیں، وہ میڈیائی دانشوروں اور سیاسی شعور اور تاریخی معلومات سے نابلد اینکروں کے ذریعے ''جمہوریت بچاؤ'' کے پروپیگنڈے کا طوفان اٹھا رہی ہیں اور اس حوالے سے تمام اخلاقی حدود کو پھلانگ کر انتخابات ہی کو ملک کے تمام تر سنگین مسائل کا حل قرار دے رہی ہیں اور اس حوالے سے دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مذہبی سیاست کرنے والی تمام جماعتیں جمہوریت بچاؤ مہم میں خاندانی حکمرانوں کی آواز میں آواز ملا رہی ہیں۔
اس ساری الجھی ہوئی سیاست پر نظر ڈالنے سے پہلے ملک کو درپیش اہم ترین مسائل پر نظر ڈالنا ضروری ہے جن میں مہنگائی، بے روزگاری، بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی سرفہرست ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن ان سارے مسائل کی ذمے داری حکومت پر ڈال کر خود کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے حالانکہ ان سارے مسائل کی ذمے داری اس اپوزیشن پر بھی اتنی ہی آتی ہے جو ماضی میں اقتدار کے مزے لوٹتی رہی ہے۔ مثلاً بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ کو لے لیں، یہ دونوں اہم ترین مسئلے اگرچہ آج کے شدید ترین مسئلے بنے ہوئے ہیں لیکن ان مسائل سے نمٹنے کے لیے عشروں پہلے منصوبے بنانے کی ضرورت تھی، لیکن ان سے موجودہ حکومت بھی چشم پوشی کرتی رہی اور موجودہ اپوزیشن بھی، اس قومی جرم میں دونوں برابر کی شریک اس لیے ہیں کہ جب یہ برسر اقتدار تھے تو کسی نے بھی ان مسائل کے لیے کوئی ایڈوانس منصوبہ بندی نہیں کی۔ یوں موجودہ حکومت پر اس حوالے سے ساری ذمے داری ڈالنا سیاسی بددیانتی کے علاوہ کچھ نہیں اور اس جرم کا ارتکاب اس لیے ہوتا رہا کہ دونوں ہی قوتیں لوٹ مار میں مصروف رہیں۔
طاہر القادری جو مطالبات آج پیش کرکے مقبول عوام ہورہے ہیں، ان مسائل کے خلاف ترقی پسند جماعتیں عشروں پہلے سے جدوجہد کر رہی ہیں لیکن ان کی آواز ہماری مروجہ سیاست کے نقار خانے میں طوطی کی آواز اس لیے بنی رہی کہ یہ آوازیں ٹکڑوں میں بٹ کر انتہائی کمزور بن گئی تھیں، عوام کے موڈ اور شدید دباؤ کی وجہ سے سیاست کے پرانے کھلاڑی جو اربوں کی دولت پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں خود انقلاب اور نظام کی تبدیلی کے پرفریب نعرے لگا رہے ہیں، سادہ لوح عوام ان انقلابیوں کی نعرہ بازی کو حیرت سے دیکھ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ 65 سال سے عوام کا خون چوسنے والوں کی زبانوں پر آج انقلاب کے نعرے کیوں آرہے ہیں۔ انقلاب کا حقیقی مطلب ان تمام لٹیروں سے لوٹی ہوئی تمام دولت چھین لینا اور ملک کے اندر اور ملک کے باہر موجود اربوں کھربوں کے اثاثوں کو قومی تحویل میں لینا اور جاگیردارانہ خاندانی حکمرانیوں کے عوام دشمن کلچر کو ختم کرنا ہے، ان بنیادی اقدامات کے بغیر بامعنی تبدیلی یا انقلاب کی بات کرنا عوام کو دھوکا دینے کے علاوہ کچھ نہیں۔
الیکشن میں عوام کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ان سیاستدانوں کے علاوہ کوئی متبادل ان کے سامنے موجود نہیں۔ ہمارے عوام کو حکمرانوں نے ذات، برادری، فرقے، زبان اور قومیت کے حوالوں سے اس طرح بانٹ کر رکھ دیا ہے کہ ان کی حمایت کا محرک یہی تقسیم بن گئی ہے اور سیاستدان عوام کی اسی تقسیم کو اپنے انتخابی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس روایتی تقسیم کے علاوہ اس بار ایک اور تقسیم بھی نئے صوبوں کے حوالے سے ہمارے سامنے ہے، دنیا کے ہر ملک میں انتظامی ضرورتوں کی بنیاد پر صوبے بنائے جاتے ہیں اور اس قسم کے فیصلے احتجاجوں، دھرنوں، ریلیوں کے بغیر پرامن طور پر کر لیے جاتے ہیں جن کا بنیادی مقصد عوام کے مسائل کو حل کرنے میں آسانی ہوتا ہے، اس کا دوسرا فائدہ مضبوط مرکز کے اختیار تقسیم کرکے صوبوں کو دینا ہوتا ہے تاکہ صوبوں کے عوام کے مسائل حل کرنے میں آسانی ہو، لیکن ہمارے ملک میں نئے صوبے بنانے اور اس کی مخالفت کا اصل مقصد نئے صوبوں کے نام پر اپنا ووٹ بینک بڑھانا اور اپنے ووٹ بینک کو ٹوٹنے سے بچانا ہے، اس کا دوسرا مقصد اشرافیہ اور اس کی آل اولاد کے لیے گورنری، وزارت اعلیٰ، وزراء کی آسامیاں نکالنا ہے تاکہ لوٹ مار کے لیے ایک اور وسیلہ اشرافیہ کے ہاتھوں میں آجائے، اس نئے پرفریب منصوبے میں عوام کے مفادات کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا۔ البتہ اشرافیہ کے لیے اعلیٰ عہدے وزارتیں اور لوٹ مار کے نئے مواقع ضرور فراہم ہوجائیں گے۔ آنے والے ممکنہ الیکشن میں ایک آزاد، غیر جانبدار اور بااختیار الیکشن کے قیام کو فخرالدین جی ابراہیم کے نام پر خوب اچھالا جارہا تھا اور اس کمیشن کو منصفانہ انتخابات کی ضمانت کہا جارہا تھا، فخر الدین جی ابراہیم کی ایمانداری مسلمہ ہے لیکن اگر یہ الیکشن کمیشن کسی حد تک آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرا بھی دے تو اصل سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں کون لوگ برسر اقتدار آئیں گے؟ ظاہر ہے اگر مقابلہ صرف روایتی خاندانی اشرافیہ ہی کے درمیان ہوگا تو اسی کلاس ہی کا کوئی حصہ انتخابات جیت کر اگلے پانچ سال کے لیے عوام کے سروں پر مسلط ہوجائے گا۔
الیکشن کمیشن کی ایمانداری اور غیر جانبداری کا ڈھنڈورا پیٹنے والے سیاستدان اب الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کرنے کے لیے دھرنے دے رہے ہیں اور ایک نیا الیکشن کمیشن بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں خاص طور پر سندھ اور کراچی کے حوالے سے الیکشن کمیشن پر سخت عدم اعتماد کا اظہار کیا جارہا ہے۔ سندھ کی سیاست میں اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کے لیے مسلم لیگ (ن) لسانی سیاست کو ہوا دے رہی ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن ایک طرف عوام کو تقسیم کرنے کی سیاست پر لعنت بھیج رہی ہے تو دوسری طرف سندھ میں ان سیاستدانوں کے ساتھ پینگیں بڑھا رہی ہے جن پر عوام کو زبان کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا الزام ہے جب کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں یہی حربہ استعمال کررہی ہے۔ پختونخوا ، بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کا راج ہے۔ بہاولپور صوبے کے مسئلے پر سخت اختلاف رائے ہے۔ ہزارہ صوبے کا مطالبہ کرنے والے بھی دوبارہ احتجاج کی طرف آرہے ہیں اور سارے منظر میں مذہبی انتہاپسند طاقتیں تیزی سے اپنی سرگرمیاں بڑھا رہی ہیں، غرض ملک ایک انارکی کی زد میں ہے، اگر اس مایوس کن منظرنامے میں انتخابات ہوتے ہیں تو عوام کے لیے اپنے نمایندے چننا ایک مشکل کام بن جائے گا۔ ویسے تو یہ صاف نظر آرہا ہے کہ آنے والی حکومت موجودہ مخلوط حکومت سے بھی زیادہ کمزور حکومت ہوگی اور ملک کے سب سے بڑے اور فیصلہ کن طاقت رکھنے والے صوبہ پنجاب میں بھی میاں برادران کی طاقت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی لیکن ایسے منظرنامے میں بھی عوام کے سامنے یہی سوال کھڑا ہوگا کہ وہ کس سیاسی جماعت کو ووٹ دیں؟
اس کا ممکنہ اور مثبت جواب یہ ہے کہ عوام یہ دیکھیں کہ 65 سال سے ملک میں خاندانی سیاست، خاندانی حکمرانی، جاگیردارانہ نظام کے استحکام کے حوالے سے جو اسٹیٹس کو قائم ہے، اس کو توڑنے کا واضح منشور کن جماعتوں کا ہے، کون سی جماعتیں ملک میں زرعی اصلاحات کے ذریعے تبدیلی لانے پر آمادہ ہیں، کون سی جماعتیں دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے ایک واضح موقف رکھتی ہیں اور کون سی جماعتیں دہشت گردی کے لیے سافٹ کارنر رکھتی ہیں، کون سی جماعتیں ملک سے مہنگائی، بے روزگاری، بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا ٹھوس پروگرام رکھتی ہیں، کون سی جماعتیں کرپشن کے خلاف سخت احتساب کی قائل ہیں؟ اگر اپنے ووٹ کے استعمال میں ان مسائل کو اپنا معیار بنائیں تو عوام کو اپنا ووٹ استعمال کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی اور اس کے نتائج مثبت برآمد ہوں گے اگر عوام پرانے انتخابی راستوں پر ہی چلیں گے تو مزید تباہی ہی ان کا مقدر ہوگی۔
اس ہڑبونگ میں اس ملک کے اٹھارہ کروڑ غریب اور بے دست و پا عوام حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ کیا کریں؟ جن حکمرانوں کو انھوں نے اپنے مقدر بدلنے کے لیے ووٹ دیے' وہ انھیں کوئی ریلیف دینے کے بجائے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔اس ملک کا سب سے بڑا سیاسی مسئلہ 'اسٹیٹس کو' کو توڑنا ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک پرانا نظام چلا آ رہا ہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی۔ جو سیاسی جماعتیں روایتی چہروں کی تبدیلی کے نظام کو اپنے طبقاتی مفادات، اپنی روایتی خاندانی سیاست اور خاندانی اقتدار کے لیے ضروری سمجھتی ہیں، وہ میڈیائی دانشوروں اور سیاسی شعور اور تاریخی معلومات سے نابلد اینکروں کے ذریعے ''جمہوریت بچاؤ'' کے پروپیگنڈے کا طوفان اٹھا رہی ہیں اور اس حوالے سے تمام اخلاقی حدود کو پھلانگ کر انتخابات ہی کو ملک کے تمام تر سنگین مسائل کا حل قرار دے رہی ہیں اور اس حوالے سے دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مذہبی سیاست کرنے والی تمام جماعتیں جمہوریت بچاؤ مہم میں خاندانی حکمرانوں کی آواز میں آواز ملا رہی ہیں۔
اس ساری الجھی ہوئی سیاست پر نظر ڈالنے سے پہلے ملک کو درپیش اہم ترین مسائل پر نظر ڈالنا ضروری ہے جن میں مہنگائی، بے روزگاری، بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی سرفہرست ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن ان سارے مسائل کی ذمے داری حکومت پر ڈال کر خود کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے حالانکہ ان سارے مسائل کی ذمے داری اس اپوزیشن پر بھی اتنی ہی آتی ہے جو ماضی میں اقتدار کے مزے لوٹتی رہی ہے۔ مثلاً بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ کو لے لیں، یہ دونوں اہم ترین مسئلے اگرچہ آج کے شدید ترین مسئلے بنے ہوئے ہیں لیکن ان مسائل سے نمٹنے کے لیے عشروں پہلے منصوبے بنانے کی ضرورت تھی، لیکن ان سے موجودہ حکومت بھی چشم پوشی کرتی رہی اور موجودہ اپوزیشن بھی، اس قومی جرم میں دونوں برابر کی شریک اس لیے ہیں کہ جب یہ برسر اقتدار تھے تو کسی نے بھی ان مسائل کے لیے کوئی ایڈوانس منصوبہ بندی نہیں کی۔ یوں موجودہ حکومت پر اس حوالے سے ساری ذمے داری ڈالنا سیاسی بددیانتی کے علاوہ کچھ نہیں اور اس جرم کا ارتکاب اس لیے ہوتا رہا کہ دونوں ہی قوتیں لوٹ مار میں مصروف رہیں۔
طاہر القادری جو مطالبات آج پیش کرکے مقبول عوام ہورہے ہیں، ان مسائل کے خلاف ترقی پسند جماعتیں عشروں پہلے سے جدوجہد کر رہی ہیں لیکن ان کی آواز ہماری مروجہ سیاست کے نقار خانے میں طوطی کی آواز اس لیے بنی رہی کہ یہ آوازیں ٹکڑوں میں بٹ کر انتہائی کمزور بن گئی تھیں، عوام کے موڈ اور شدید دباؤ کی وجہ سے سیاست کے پرانے کھلاڑی جو اربوں کی دولت پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں خود انقلاب اور نظام کی تبدیلی کے پرفریب نعرے لگا رہے ہیں، سادہ لوح عوام ان انقلابیوں کی نعرہ بازی کو حیرت سے دیکھ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ 65 سال سے عوام کا خون چوسنے والوں کی زبانوں پر آج انقلاب کے نعرے کیوں آرہے ہیں۔ انقلاب کا حقیقی مطلب ان تمام لٹیروں سے لوٹی ہوئی تمام دولت چھین لینا اور ملک کے اندر اور ملک کے باہر موجود اربوں کھربوں کے اثاثوں کو قومی تحویل میں لینا اور جاگیردارانہ خاندانی حکمرانیوں کے عوام دشمن کلچر کو ختم کرنا ہے، ان بنیادی اقدامات کے بغیر بامعنی تبدیلی یا انقلاب کی بات کرنا عوام کو دھوکا دینے کے علاوہ کچھ نہیں۔
الیکشن میں عوام کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ان سیاستدانوں کے علاوہ کوئی متبادل ان کے سامنے موجود نہیں۔ ہمارے عوام کو حکمرانوں نے ذات، برادری، فرقے، زبان اور قومیت کے حوالوں سے اس طرح بانٹ کر رکھ دیا ہے کہ ان کی حمایت کا محرک یہی تقسیم بن گئی ہے اور سیاستدان عوام کی اسی تقسیم کو اپنے انتخابی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس روایتی تقسیم کے علاوہ اس بار ایک اور تقسیم بھی نئے صوبوں کے حوالے سے ہمارے سامنے ہے، دنیا کے ہر ملک میں انتظامی ضرورتوں کی بنیاد پر صوبے بنائے جاتے ہیں اور اس قسم کے فیصلے احتجاجوں، دھرنوں، ریلیوں کے بغیر پرامن طور پر کر لیے جاتے ہیں جن کا بنیادی مقصد عوام کے مسائل کو حل کرنے میں آسانی ہوتا ہے، اس کا دوسرا فائدہ مضبوط مرکز کے اختیار تقسیم کرکے صوبوں کو دینا ہوتا ہے تاکہ صوبوں کے عوام کے مسائل حل کرنے میں آسانی ہو، لیکن ہمارے ملک میں نئے صوبے بنانے اور اس کی مخالفت کا اصل مقصد نئے صوبوں کے نام پر اپنا ووٹ بینک بڑھانا اور اپنے ووٹ بینک کو ٹوٹنے سے بچانا ہے، اس کا دوسرا مقصد اشرافیہ اور اس کی آل اولاد کے لیے گورنری، وزارت اعلیٰ، وزراء کی آسامیاں نکالنا ہے تاکہ لوٹ مار کے لیے ایک اور وسیلہ اشرافیہ کے ہاتھوں میں آجائے، اس نئے پرفریب منصوبے میں عوام کے مفادات کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا۔ البتہ اشرافیہ کے لیے اعلیٰ عہدے وزارتیں اور لوٹ مار کے نئے مواقع ضرور فراہم ہوجائیں گے۔ آنے والے ممکنہ الیکشن میں ایک آزاد، غیر جانبدار اور بااختیار الیکشن کے قیام کو فخرالدین جی ابراہیم کے نام پر خوب اچھالا جارہا تھا اور اس کمیشن کو منصفانہ انتخابات کی ضمانت کہا جارہا تھا، فخر الدین جی ابراہیم کی ایمانداری مسلمہ ہے لیکن اگر یہ الیکشن کمیشن کسی حد تک آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرا بھی دے تو اصل سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں کون لوگ برسر اقتدار آئیں گے؟ ظاہر ہے اگر مقابلہ صرف روایتی خاندانی اشرافیہ ہی کے درمیان ہوگا تو اسی کلاس ہی کا کوئی حصہ انتخابات جیت کر اگلے پانچ سال کے لیے عوام کے سروں پر مسلط ہوجائے گا۔
الیکشن کمیشن کی ایمانداری اور غیر جانبداری کا ڈھنڈورا پیٹنے والے سیاستدان اب الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کرنے کے لیے دھرنے دے رہے ہیں اور ایک نیا الیکشن کمیشن بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں خاص طور پر سندھ اور کراچی کے حوالے سے الیکشن کمیشن پر سخت عدم اعتماد کا اظہار کیا جارہا ہے۔ سندھ کی سیاست میں اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کے لیے مسلم لیگ (ن) لسانی سیاست کو ہوا دے رہی ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن ایک طرف عوام کو تقسیم کرنے کی سیاست پر لعنت بھیج رہی ہے تو دوسری طرف سندھ میں ان سیاستدانوں کے ساتھ پینگیں بڑھا رہی ہے جن پر عوام کو زبان کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا الزام ہے جب کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں یہی حربہ استعمال کررہی ہے۔ پختونخوا ، بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کا راج ہے۔ بہاولپور صوبے کے مسئلے پر سخت اختلاف رائے ہے۔ ہزارہ صوبے کا مطالبہ کرنے والے بھی دوبارہ احتجاج کی طرف آرہے ہیں اور سارے منظر میں مذہبی انتہاپسند طاقتیں تیزی سے اپنی سرگرمیاں بڑھا رہی ہیں، غرض ملک ایک انارکی کی زد میں ہے، اگر اس مایوس کن منظرنامے میں انتخابات ہوتے ہیں تو عوام کے لیے اپنے نمایندے چننا ایک مشکل کام بن جائے گا۔ ویسے تو یہ صاف نظر آرہا ہے کہ آنے والی حکومت موجودہ مخلوط حکومت سے بھی زیادہ کمزور حکومت ہوگی اور ملک کے سب سے بڑے اور فیصلہ کن طاقت رکھنے والے صوبہ پنجاب میں بھی میاں برادران کی طاقت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی لیکن ایسے منظرنامے میں بھی عوام کے سامنے یہی سوال کھڑا ہوگا کہ وہ کس سیاسی جماعت کو ووٹ دیں؟
اس کا ممکنہ اور مثبت جواب یہ ہے کہ عوام یہ دیکھیں کہ 65 سال سے ملک میں خاندانی سیاست، خاندانی حکمرانی، جاگیردارانہ نظام کے استحکام کے حوالے سے جو اسٹیٹس کو قائم ہے، اس کو توڑنے کا واضح منشور کن جماعتوں کا ہے، کون سی جماعتیں ملک میں زرعی اصلاحات کے ذریعے تبدیلی لانے پر آمادہ ہیں، کون سی جماعتیں دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے ایک واضح موقف رکھتی ہیں اور کون سی جماعتیں دہشت گردی کے لیے سافٹ کارنر رکھتی ہیں، کون سی جماعتیں ملک سے مہنگائی، بے روزگاری، بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا ٹھوس پروگرام رکھتی ہیں، کون سی جماعتیں کرپشن کے خلاف سخت احتساب کی قائل ہیں؟ اگر اپنے ووٹ کے استعمال میں ان مسائل کو اپنا معیار بنائیں تو عوام کو اپنا ووٹ استعمال کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی اور اس کے نتائج مثبت برآمد ہوں گے اگر عوام پرانے انتخابی راستوں پر ہی چلیں گے تو مزید تباہی ہی ان کا مقدر ہوگی۔