اپنی دنیا
یہ میری پہلی ترجیح ہے کیونکہ میرے پاس کوئی دوسرا ملک نہیں ہے
ایک امریکی تجزیہ نگار راجر کوہن نے پاکستان میں حکومت کرنے کو روئے ارض پر سب سے خطرناک کام قرار دیا ہے۔ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹریبون اور نیویارک ٹائمز میں شایع ہونے والی اپنی ایک تحریر میں امریکی تجزیہ نگار نے لکھا ہے کہ طالبان کے حوالے سے صدر زرداری اپنے لفظ چباتے ہوئے نظر نہیں آتے بلکہ کافی سمجھدار، سیکولر، جمہوریت کے لیے پرعزم اور بہادر ہیں۔ پرویز مشرف سے صدر زرداری کا موازنہ کرتے ہوئے مضمون نگار کا کہنا ہے کہ انھوں نے پرویز مشرف کو اس قدر کھلے انداز سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کا ذکر کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا جیسا کہ صدر زرداری کرتے ہیں۔ امریکی تجزیہ کار کو یقین ہے کہ صدر زرداری بھارت اور افغانستان کے ساتھ حقیقی مصالحت کے خواہاں ہیں۔
اپنے مضمون میں راجر کوہن نے صدر زرداری کے ان جملوں کا بھی تذکرہ کیا جو انھوں نے طالبان کے حوالے سے کہے تھے۔ صدر زرداری نے ایک موقع پر کہا تھا کہ ''یہ میرا فیصلہ ہے کہ ہم ان سے نمٹیں گے، ہم اپنے ملک کو ان سے آزاد کرائیں گے، یہ میری پہلی ترجیح ہے کیونکہ میرے پاس کوئی دوسرا ملک نہیں ہے اگر جنگجوؤں کو ختم نہ کیا جاسکا تو میں کس کا صدر رہوں گا؟'' مذکورہ تجزیے کی روشنی میں یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ حکومت بالخصوص صدر زرداری ارض پاکستان کو دہشت گردی، انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے عفریت سے نجات دلانے کا پختہ عزم و ارادہ رکھتے ہیں۔ 9/11 کے سانحے کے بعد دہشت گرد عناصر افغانستان اور اب پاکستان میں جس طرح جال پھیلا کے اپنی سرگرمیوں کو منظم اور مربوط کرتے جارہے ہیں وہ ملک کے مستقبل اور سلامتی کے لیے یقیناً خطرناک اور نقصان دہ ہے۔
ملک کے مختلف علاقوں بالخصوص بلوچستان، خیبر پختونخوا میں دہشت گرد عناصر نے خود کش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے آگ و خون کا الاؤ روشن کر رکھا ہے۔ ملک کے بڑے شہروں خصوصاً کوئٹہ و کراچی بھی اب دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ حکومت اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود گزشتہ پانچ چھ سال میں دہشت گردی کے عفریت پر کلی طور پر قابو پانے میں تو کامیاب نہ ہوسکی تاہم پاک فوج کی کارروائیوں سے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے بعض علاقوں سے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑ دیا گیا ہے، یہ لوگ ملک کے دیگر علاقوں میں پھیل گئے اور آج پورا ملک ہی دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔
آج وطن عزیز کو دہشت گردی، فرقہ واریت، انتہاپسندی، قتل و غارت اور وحشت و بربریت کے ہولناک ماحول اور مخدوش حالات کا سامنا ہے، اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ ملک کی سیاسی و مذہبی قیادت، سول سوسائٹی اور قومی زندگی کے تمام قابل ذکر حلقے اور سنجیدہ و محب وطن طبقے مل بیٹھ کر دہشت گردی کے عفریت سے نجات کے لیے کوئی متفقہ لائحہ عمل طے کریں۔ کوئی بھی حکومت اور حکمراں تنہا دہشت گردی جیسے بڑے خطرناک اور عالمی سطح کے سنگین چیلنج کا سامنا نہیں کرسکتا۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس ضمن میں پارلیمنٹ سے باہر کی سیاسی و مذہبی جماعتوں سے مشاورت کے بعد کوئی متفقہ لائحہ عمل طے کرے۔ اس حوالے سے اے این پی کی جانب سے بلائی جانے والی قومی کانفرنس اہمیت کی حامل ہے۔ اسفند یارولی کے بقول وہ اس کانفرنس میں ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو مدعو کر رہے ہیں تاکہ ہر جماعت دہشت گردی پر قابو پانے کے حوالے سے اپنا اپنا موقف اور تجاویز پیش کرے۔ بشیر بلور کی شہادت کے بعد اے این پی نے طالبان سے مذاکرات کا عندیہ بھی دیا ہے۔
مقصود صرف یہ ہے کہ کسی صورت صوبے اور پورے ملک میں امن قائم ہوجائے، ہر روز ہونے والے خود کش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ تھم جائے، ہر گلی محلے سے جنازے اٹھنا بند ہوجائیں اور ہر گھر میں برپا شام غریباں کی دل سوز آوازیں آنا بند ہوجائیں۔ سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبہ سندھ بالخصوص کراچی میں گزشتہ 8/6 ماہ کے دوران طالبان کی سرگرمیوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور شہر میں ہونے والی دہشت گردی میں 50 فیصد کارروائیاں طالبان ہی کر رہے ہیں۔ شاہ صاحب کے بقول طالبان اب بم دھماکوں اور خودکش حملوں کے علاوہ بھتہ خوری کی وارداتوں میں بھی ملوث ہیں حکومت نے 100 سے زائد طالبان اور 180 بھتہ خور گرفتار کیے ہیں جن میں سے 80 فیصد کے چالان مکمل ہوچکے ہیں۔ مجرموں کی گرفتاریاں یقیناً قابل تحسین ہیں تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے عدالتی نظام کی کمزوریوں کے باعث اصل مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانا سب سے مشکل کام ہے۔ ناکافی شواہد و گواہان کی عدم موجودگی کے باعث مجرموں کو رہائی کے پروانے مل جاتے ہیں اور وہ پھر سے اپنی مذموم سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں، اس صورت حال کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔
دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بننے کے بعد وطن عزیز کو ناقابل بیان نقصانات اٹھانے پڑے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں جانوں کے ضیاع کے پہلو بہ پہلو معاشی میدان میں بھی اربوں روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑا ہے۔ امریکی ڈرون حملوں کے تسلسل نے بھی ملک میں دہشت گردی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے، پاکستان کے احتجاج کے باوجود ڈرون اٹیک کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ جس کے باعث پاک امریکا تعلقات متاثر ہورہے ہیں لیکن دونوں جانب امید کی کرنیں بھی روشن ہیں۔ امریکا کے نئے وزیر خارجہ سینیٹر جان کیری نے امریکی سینیٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو تعاون کیا اور قربانیاں دیں ان کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان وہ ملک ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں محض ایک سال یعنی 2012 میں 6 ہزار افراد کی جانوں کا نذرانہ دیا اور پچھلے کئی سال کے دوران تقریباً 30 ہزار افراد دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ سینیٹر جان کیری کے بقول پاکستان اور امریکا کو جن چیلنجز کا سامنا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید مستحکم کیا جائے۔ امریکا اور عالمی برادری وقفے وقفے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار اور قربانیوں کا اعتراف تو کرتے رہتے ہیں لیکن اس جنگ میں وطن عزیز نے جو جانی و مالی نقصانات اٹھائے ہیں ان کا حقیقی معنوں میں ازالہ امریکا سمیت کسی ملک نے، دعوؤں وعدوں کے باوجود نہیں کیا، ہمیں دہشت گردی کے خاتمے اور نقصانات کے ازالے کے لیے زندہ قوموں کی طرح اپنا بوجھ خود اٹھانا ہوگا، بقول علامہ اقبال:
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
اپنے مضمون میں راجر کوہن نے صدر زرداری کے ان جملوں کا بھی تذکرہ کیا جو انھوں نے طالبان کے حوالے سے کہے تھے۔ صدر زرداری نے ایک موقع پر کہا تھا کہ ''یہ میرا فیصلہ ہے کہ ہم ان سے نمٹیں گے، ہم اپنے ملک کو ان سے آزاد کرائیں گے، یہ میری پہلی ترجیح ہے کیونکہ میرے پاس کوئی دوسرا ملک نہیں ہے اگر جنگجوؤں کو ختم نہ کیا جاسکا تو میں کس کا صدر رہوں گا؟'' مذکورہ تجزیے کی روشنی میں یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ حکومت بالخصوص صدر زرداری ارض پاکستان کو دہشت گردی، انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے عفریت سے نجات دلانے کا پختہ عزم و ارادہ رکھتے ہیں۔ 9/11 کے سانحے کے بعد دہشت گرد عناصر افغانستان اور اب پاکستان میں جس طرح جال پھیلا کے اپنی سرگرمیوں کو منظم اور مربوط کرتے جارہے ہیں وہ ملک کے مستقبل اور سلامتی کے لیے یقیناً خطرناک اور نقصان دہ ہے۔
ملک کے مختلف علاقوں بالخصوص بلوچستان، خیبر پختونخوا میں دہشت گرد عناصر نے خود کش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے آگ و خون کا الاؤ روشن کر رکھا ہے۔ ملک کے بڑے شہروں خصوصاً کوئٹہ و کراچی بھی اب دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ حکومت اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود گزشتہ پانچ چھ سال میں دہشت گردی کے عفریت پر کلی طور پر قابو پانے میں تو کامیاب نہ ہوسکی تاہم پاک فوج کی کارروائیوں سے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے بعض علاقوں سے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑ دیا گیا ہے، یہ لوگ ملک کے دیگر علاقوں میں پھیل گئے اور آج پورا ملک ہی دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔
آج وطن عزیز کو دہشت گردی، فرقہ واریت، انتہاپسندی، قتل و غارت اور وحشت و بربریت کے ہولناک ماحول اور مخدوش حالات کا سامنا ہے، اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ ملک کی سیاسی و مذہبی قیادت، سول سوسائٹی اور قومی زندگی کے تمام قابل ذکر حلقے اور سنجیدہ و محب وطن طبقے مل بیٹھ کر دہشت گردی کے عفریت سے نجات کے لیے کوئی متفقہ لائحہ عمل طے کریں۔ کوئی بھی حکومت اور حکمراں تنہا دہشت گردی جیسے بڑے خطرناک اور عالمی سطح کے سنگین چیلنج کا سامنا نہیں کرسکتا۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس ضمن میں پارلیمنٹ سے باہر کی سیاسی و مذہبی جماعتوں سے مشاورت کے بعد کوئی متفقہ لائحہ عمل طے کرے۔ اس حوالے سے اے این پی کی جانب سے بلائی جانے والی قومی کانفرنس اہمیت کی حامل ہے۔ اسفند یارولی کے بقول وہ اس کانفرنس میں ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو مدعو کر رہے ہیں تاکہ ہر جماعت دہشت گردی پر قابو پانے کے حوالے سے اپنا اپنا موقف اور تجاویز پیش کرے۔ بشیر بلور کی شہادت کے بعد اے این پی نے طالبان سے مذاکرات کا عندیہ بھی دیا ہے۔
مقصود صرف یہ ہے کہ کسی صورت صوبے اور پورے ملک میں امن قائم ہوجائے، ہر روز ہونے والے خود کش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ تھم جائے، ہر گلی محلے سے جنازے اٹھنا بند ہوجائیں اور ہر گھر میں برپا شام غریباں کی دل سوز آوازیں آنا بند ہوجائیں۔ سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبہ سندھ بالخصوص کراچی میں گزشتہ 8/6 ماہ کے دوران طالبان کی سرگرمیوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور شہر میں ہونے والی دہشت گردی میں 50 فیصد کارروائیاں طالبان ہی کر رہے ہیں۔ شاہ صاحب کے بقول طالبان اب بم دھماکوں اور خودکش حملوں کے علاوہ بھتہ خوری کی وارداتوں میں بھی ملوث ہیں حکومت نے 100 سے زائد طالبان اور 180 بھتہ خور گرفتار کیے ہیں جن میں سے 80 فیصد کے چالان مکمل ہوچکے ہیں۔ مجرموں کی گرفتاریاں یقیناً قابل تحسین ہیں تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے عدالتی نظام کی کمزوریوں کے باعث اصل مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانا سب سے مشکل کام ہے۔ ناکافی شواہد و گواہان کی عدم موجودگی کے باعث مجرموں کو رہائی کے پروانے مل جاتے ہیں اور وہ پھر سے اپنی مذموم سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں، اس صورت حال کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔
دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بننے کے بعد وطن عزیز کو ناقابل بیان نقصانات اٹھانے پڑے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں جانوں کے ضیاع کے پہلو بہ پہلو معاشی میدان میں بھی اربوں روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑا ہے۔ امریکی ڈرون حملوں کے تسلسل نے بھی ملک میں دہشت گردی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے، پاکستان کے احتجاج کے باوجود ڈرون اٹیک کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ جس کے باعث پاک امریکا تعلقات متاثر ہورہے ہیں لیکن دونوں جانب امید کی کرنیں بھی روشن ہیں۔ امریکا کے نئے وزیر خارجہ سینیٹر جان کیری نے امریکی سینیٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو تعاون کیا اور قربانیاں دیں ان کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان وہ ملک ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں محض ایک سال یعنی 2012 میں 6 ہزار افراد کی جانوں کا نذرانہ دیا اور پچھلے کئی سال کے دوران تقریباً 30 ہزار افراد دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ سینیٹر جان کیری کے بقول پاکستان اور امریکا کو جن چیلنجز کا سامنا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید مستحکم کیا جائے۔ امریکا اور عالمی برادری وقفے وقفے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار اور قربانیوں کا اعتراف تو کرتے رہتے ہیں لیکن اس جنگ میں وطن عزیز نے جو جانی و مالی نقصانات اٹھائے ہیں ان کا حقیقی معنوں میں ازالہ امریکا سمیت کسی ملک نے، دعوؤں وعدوں کے باوجود نہیں کیا، ہمیں دہشت گردی کے خاتمے اور نقصانات کے ازالے کے لیے زندہ قوموں کی طرح اپنا بوجھ خود اٹھانا ہوگا، بقول علامہ اقبال:
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے