سید غلام مصطفی شاہ کی یاد میں

شاہ صاحب نہ صرف ماہر تعلیم تھے بلکہ وہ اسکالر، رائٹر، دانشور، مدبر، صحافی، بیوروکریٹ اور سیاستدان بھی تھے

ایک دن میں نے یہ سوچا کہ اس وقت ہماری سندھ سرزمین میں ایسے سپوت پیدا ہونے کیوں بند ہوگئے ہیں جو آج سے 40 سے 50 سال پہلے پیدا ہوتے تھے جو بچپن سے بڑھاپے تک صرف یہ جانتے اور کرتے تھے کہ علم حاصل کرنا ہے، اپنی دھرتی اور اس کے لوگوں کی خدمت کرنی ہے جس کے لیے وہ اپنا تن، من، دھن وقف کردیتے تھے۔ان میں ایمانداری، سچائی، حب الوطنی، کلچر، ادب وآداب، علم و فہم، انسانیت، محنت اور اپنے مذہب کے ساتھ لگاؤ رچا بسا نظر آتا تھا۔ پاکستان سے پہلے ضروریات زندگی کی سہولتیں بھی کم تھیں اس کے باوجود ہرگاؤں میں کوئی نہ کوئی اہم شخصیت ابھر کر سامنے آتی تھی۔ جب میں نے پڑھا کہ 217 اوراق پر مشتمل ایک کتاب برطانیہ کی طرف سے چھاپی گئی ہے جس میں دنیا کے ان اشخاص کے نام دیے گئے ہیں جو بالکل منفرد اور قابل ترین تھے۔

سندھ میں سے سیدغلام مصطفی شاہ کا اکلوتا نام اس میں شامل ہے۔ یہ پڑھ کر مجھے سندھ کے کئی ایسے نام ذہن میں ابھرنے لگے جنھوں نے بھی Extraordinary کام کیے ہیں اور ان کا تعلق غریب گھرانوں سے تھا۔ بہرحال شاہ صاحب نہ صرف ماہر تعلیم تھے بلکہ وہ اسکالر، رائٹر، دانشور، مدبر، صحافی، بیوروکریٹ اور سیاستدان بھی تھے جن کے لیے مشہور تھا کہ وہ جب انگریزی بولیں تو انھیں غور سے سنو اور جلد انگریزی سیکھ جاؤگے۔ مجھے افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ ہم لوگ دنیا اور پیسے کے پیچھے ایسا بھاگ رہے ہیں جیسے اس کے علاوہ دنیا میں اورکچھ بھی نہیں جب کہ علم وادب کی دنیا ہی سے سب کچھ ملتا ہے۔

شاہ صاحب کا جنم یکم اپریل 1918ء میں گاؤں قادر ڈنو شاہ ضلع ٹھٹھہ میں ہوا، ان کے والد زمیندار تھے، شاہ نے اپنی ابتدائی تعلیم راہوتھ گاؤں سے حاصل کی، اس کے بعد مڈل اسکول سجاول گئے جسکے بعد میٹرک سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی سے 1937ء میں پاس کیا، انٹرکا امتحان ڈی جے کالج کراچی سے پاس کیا ، بی اے کی ڈگری1911ء میں اور ایم اے (پولیٹیکل سائنس) 1943ء میں اور پھر ایل ایل بی کی ڈگریاں علی گڑھ یونیورسٹی سے حاصل کرنے کے بعد وہ لندن چلے گئے جہاں سے انھوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری آکسفورڈ یونیورسٹی سے حاصل کی۔وہ دنیا کے کئی ممالک دیکھنے کا شرف حاصل کرچکے تھے اور جہاں بھی جاتے وہاں سے اپنے لیے متعدد اقسام کی ٹوپیاں، ہاتھ میں اٹھانے والی چھڑی اور کتابیں خریدتے تھے۔


تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ سندھ مسلم لاء کالج کراچی میں 1943ء میں پروفیسر بن گئے، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن بورڈ کے چیئرمین 1944ء میں بنائے گئے، اس دوران انھیں فارن اسٹڈی کے لیے چنا گیا اور ڈرم یونیورسٹی انگلینڈ بھیجا گیا جہاں سے انھوں نے 1946ء میں ایم ایڈ کیا اور یہ پہلے سندھی تھی جنھیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔ وہاں سے لوٹنے پر انھیں ایک گورنمنٹ کالج میں بطور پروفیسر تعینات کیا گیا۔ وہ بعد میں پروفیسر پولیٹیکل سائنس کے بن گئے اور اپنے فرائض سندھ مسلم لاء کالج کراچی میں پورے کرتے رہے۔ 1965ء میں انھیں ڈائریکٹر ایجوکیشن بنایا گیا۔شاہ صاحب نے تعلیم کے فروغ کے لیے بڑی محنت کی اور بچوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں رہے۔ اس جذبے کے تحت انھیں دو مرتبہ سیکریٹری تعلیم بنایا گیا اور انھوں نے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لیے اپنا کردار بخوبی نبھایا۔ انھیں تین مرتبہ سندھ یونیورسٹی جام شوروکا وائس چانسلر بننے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ وہ 1969ء ، 1972ء اور 1973ء میں اس پوزیشن پر بطور ایڈمنسٹریٹر کام کرکے تعلیمی معیارکو بلند کرنے میں اپنا رول بڑے اچھے اور احسن طریقے سے نبھاتے رہے جسے اب تک یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ چیئرمین شاہ عبداللطیف کلچرل سوسائٹی اور صدر سرونٹس آف سندھ سوسائٹی 1982ء میں بنائے گئے جہاں پر وہ مرنے تک رہے۔

ہر ادارے کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ وہ انھیں اپنے ساتھ رکھیں، اس لیے وہ کئی اداروں کے ساتھ منسلک رہے۔انھوں بطور وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی میں اہل لوگ بھرتی کیے۔ علامہ آئی آئی قاضی کا مقبرہ تعمیرکروایا، سندھی زبان کو وہاں کی سرکاری زبان کا درجہ دلوایا ، سینٹرل لائبریری قائم کروائی، فیکلٹی (Faculty) بلاکس اور رہائشی کالونی، طلبا اور طالبات کے لیے ہاسٹل تعمیرکروائے اور سندھ یونیورسٹی میں تعلیمی ماحول پیدا کرنے کے لیے اقدامات کیے اور ایک نظم و ضبط کا نظام قائم رکھا۔ وہ ایک منجھے ہوئے ادیب بھی تھے، اس لیے سندھ میں اور بین الاقوامی سطح پر ان کی شخصیت منفرد سمجھی جاتی ہے۔کتابوں کے علاوہ کئی مقالے لکھے جو انگریزی، سندھی اور اردو رسالوں میں چھپ چکے ہیں۔ان کی تحریریں بڑی اہمیت رکھتی ہیں، اس لیے آج بھی لوگ ان کی لکھی ہوئی کتابوں کو پڑھنے کے لیے بے چین رہتے ہیں۔انھوں نے ایک میگزین'' سندھ کوارٹرلی'' کے نام سے انگریزی میں نکالا جس میں ان کی تحریروں کو بین الاقوامی سطح پر مقبولیت حاصل ہوئی۔ انھوں نے ہمیشہ کوشش کی کہ سندھ کے ایشوزکو بین الاقوامی سطح پر پیش کیا جائے۔

اس رسالے کو چھاپنے اور تحریروں میں سچائی لانے کے لیے اسے بہادری اور محنت سے کام لینا پڑا۔ خاص طور پراس وقت سے آج تک قومی لیول سے صوبوں کو ملنے والا حصہ، پانی کی تقسیم میں انصاف اور سندھ کے قانونی حقوق پر اپنی تحریر اور سندھ کے عوام کے موقف کو چھاپا۔کئی ممالک دیکھنے کے بعد انھوں نے ٹریولاگ لکھے جو امریکا کے دورے پر مبنی تھا جو 1962ء میں شایع ہوا۔ اس کے علاوہ ان کی چھپی ہوئی کتابوں میں کچھ کتابیں جاگرافی لاڑکانہ، جاگرافی خیرپورمیرس، تعلیم کا سندھ میں مستقبل اور اس کے مسائل، سندھی قائدہ، Rise and fall ، Eglish in to Sindhi، Clouds of hope in Sindhڈکشنری، ٹیچرز سوسائٹی اور تعلیم، الحاج سید عبدالرحیم شاہ کی شخصیت Islamic Values of Shah Abdul Latif، Lessons of History اور دو جلدیں سندھ سروسز رولز پر بھی لکھیں تھیں۔شاہ صاحب کی مقبولیت عوام میں بے انتہا تھی اس لیے پی پی پی نے 1988ء میں ایم این اے کا ٹکٹ ٹھٹھہ سے جاری کیا جس پر وہ کامیاب ہوئے اور ان کی تعلیمی خدمات کے پیش نظر بینظیر بھٹو نے اپنی کابینہ میں وزیرتعلیم بنایا۔ شاہ صاحب ساری عمر تعلیم اور لوگوں کی خدمات سر انجام دیتے رہے اور آخر 8 اکتوبر 1999ء میں اس دار فانی سے کوچ کیا۔
Load Next Story