عظیم ہاری خاتون مائی بختاور کی یاد میں
ممکن تھا کہ چوہدری سعد اللہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے مائی بختاور کے قتل کا کیس ختم کروا دیتا
''آج تک لکھی گئی انسانی تاریخ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے لیکن یہ لکھی گئی انسانی تاریخ طبقاتی جدوجہد کے ساتھ ساتھ مردانہ حاکمیت کی بھی تاریخ ہے اورتاریخ کے صفحات سے عورت کے نقوش کھرچ دیے گئے ہیں۔'' یہ الفاظ ہیں عظیم فلسفی کارل مارکس و اینگلز کے ہیں کہ طبقاتی جدوجہد میں خواتین نے بھرپور حصہ لیا مگر تاریخ لکھنے والوں نے تاریخ کے صفحات پر مردوں کی جدوجہد کو تو تسلیم کیا ہے البتہ خواتین کی جدوجہد کو تعصب پسندی سے کام لیتے ہوئے عورت کو صنف نازک کا درجہ دے کر اس کی جدوجہد کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہی رہے جب کہ جوزف اسٹالن نے کہا تھا کہ ''تاریخ میں مظلوموں کی کوئی بھی بڑی تحریک ایسی نہیں رہی جس میں محنت کش عورتوں نے حصہ نہ لیا ہو'' محنت کش عورتیں جوکہ تمام مظلوموں میں سب سے زیادہ مظلوم و مجبور ہیں آزادی کے قافلے سے نہ کبھی علیحدہ رہی ہیں نہ ہی علیحدہ رہ سکتی ہیں چنانچہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ وہی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے جس تحریک میں خواتین نے مردوں کے شانہ بہ شانہ حصہ لیا۔
ہمارے اپنے سماج میں ایسی ہی عظیم جدوجہد کرنے والی خواتین میں سے ایک نام بڑا نمایاں ہے اور وہ نام ہے سندھ دھرتی کی عظیم بیٹی مائی بختاور شہید کا یہ 1880ء کا زمانہ تھا جب مائی بختاور نے سندھ کے انتہائی پسماندہ علاقے ٹنڈو باگو ضلع تھرپارکر میں جنم لیا۔مائی بختاور نے جس گھرانے میں جنم لیا بھوک و افلاس کا اس گھرانے پر مکمل راج تھا۔ مائی بختاور نے جب عہد شباب میں قدم رکھا تو ان کی شادی ولی محمد لاشاری نامی ہاری سے انجام پائی مائی بختاورکا تعلق بھی لاشاری قبیلے سے تھا۔
ان کا شوہر ولی محمد لاشاری عمر کوٹ میں احمدی اسٹیٹ میں کام کرتا تھا بہ حیثیت ایک ہاری کے اس احمدی اسٹیٹ یا جاگیر کا مالک چوہدری سعد اللہ تھا جس کے بڑوں کو یہ جاگیر انگریزوں نے ان کی وفاداری کے صلے میں دی تھی مائی بختاور کا شوہر ولی محمد لاشاری ایک باشعور انسان تھا اور اس کا پورا خاندان سندھ ہاری کمیٹی کے نہ صرف کارکن تھے بلکہ یہ خاندان سندھ ہاری کمیٹی کا پروگرام آگے بڑھانے میں بھرپور جدوجہد بھی کر رہا تھا۔ سندھ ہاری کمیٹی کا قیام 1930ء میں عمل میں آیا تھا جمشید نسروانجی، مہتہ جیٹمل پرسرام، جی ایم سید، ایم گوکلے وغیرہ سندھ ہاری کمیٹی کے بانیان میں سے تھے جب کہ 1945ء میں نامور ترین ہاری رہنما کامریڈ حیدر بخش جتوئی بھی ڈپٹی کلکٹر کے اہم عہدے سے دستبردار ہوکر اس سندھ ہاری کمیٹی میں شامل ہوگئے تھے۔ یوں بھی کامریڈ حیدر بخش جتوئی کی شمولیت سے سندھ ہاری کمیٹی کافی فعال ہوگئی تھی جب کہ 1946ء میں کامریڈ حیدر بخش جتوئی ہاری کمیٹی کے صدر منتخب ہوئے تھے۔
اس سندھ ہاری کمیٹی نے یہ تحریک شروع کر رکھی تھی کہ آدھی فصل ہاری کی جو فصل کاشت کرے آدھی فصل زمین کے مالک کی۔ یہ تحریک نواب شاہ سے شروع ہوئی تھی اور بڑی تیزی سے سندھ بھر میں پھیل گئی تھی۔جون 1947ء میں احمدی اسٹیٹ کے جاگیرداروں و ہاریوں کے مابین ادھی بٹائی حصے کے لیے تنازعہ چل رہا تھا احمدی اسٹیٹ کے جاگیردار کسی صورت ہاریوں کا ادھی بٹائی کا مطالبہ تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے فصل تیار تھی اور کھیتوں میں پڑی تھی کہ 22 جون 1947ء کو تمام ہاری مرد ولی محمد لاشاری سمیت اپنے گوٹھ سے جھڈو ضلع میرپورخاص میں سندھ ہاری کمیٹی کی کانفرنس میں شرکت کی غرض سے گئے ہوئے تھے جب کہ تیار فصل کے ڈھیر کے پاس ہاری خواتین کو فصل کی حفاظت کی غرض سے چھوڑ گئے تھے فصل کی حفاظت پر مامور خواتین کی قیادت مائی بختاور کر رہی تھی جاگیردار چوہدری سعداللہ نے موقع غنیمت جانا اور مسلح لوگوں کو لے کر فصل اٹھانے چلا گیا مگر فصل کی حفاظت پر مامور خواتین نے یہ موقف اختیار کیا کہ جب تک ہمارے مرد سندھ ہاری کمیٹی کی کانفرنس سے واپس نہیں آتے ہم کسی کو ایک دانہ بھی اناج نہیں اٹھانے دیں گے۔
البتہ جب چوہدری سعد اللہ کی دھونس و دھمکی بھی کام نہ آئی تو اس نے اپنے مسلح ساتھیوں سے کہا کہ خواتین کو مار بھگاؤ تاکہ ہم تیار فصل اپنے ساتھ لے جائیں۔ اس موقعے پر ہاری خواتین نے بھرپور مزاحمت کی اور چوہدری سعد اللہ کے ساتھیوں سے ہتھیار چھین کر انھی پر حملہ آور ہوگئیں۔ اب کیفیت یہ تھی کہ چوہدری سعد اللہ کے مسلح لوگ جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے اور ہاری خواتین ان لوگوں کی پٹائی کر رہی تھیں چوہدری سعد اللہ کے لیے یہ صورتحال ناقابل برداشت ہوچکی تھی۔ مائی بختاور نے چوہدری سعد اللہ کی بندوق بھی چھین لی قریب تھا کہ وہ چوہدری سعداللہ پر حملہ آور ہوجاتیں کہ چوہدری سعد اللہ کے ایک کارندے نے مائی بختاور پر کلہاڑی کا وار کردیا مگر زخمی مائی بختاور نے مزاحمت جاری رکھی مگر اس کیفیت میں چوہدری سعد اللہ نے فائرنگ کرکے مائی بختاور کو شہید کردیا اس سانحے کی خبر پا کر تمام اہم ہاری رہنما سانحے کے مقام پر پہنچ گئے جسدخاکی کو سامارو شہر کے اسپتال پہنچایا گیا جہاں اس کا پوسٹ مارٹم ہوا اور انھیں سامارو میں ہی دفن کردیا گیا۔
مائی بختاور نے 67 برس عمر پائی ممکن تھا کہ چوہدری سعد اللہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے مائی بختاور کے قتل کا کیس ختم کروا دیتا کیونکہ چوہدری سعد اللہ کا سگا ماموں فقط مائی بختاور کی شہادت کے سات ہفتے بعد قیام پاکستان کے وقت ہی پاکستان کا وزیر خارجہ نامزد ہوا تھا جس کا نام تھا سر ظفر اللہ خان۔ بہرکیف سندھ ہاری کمیٹی کے رہنماؤں نے ایک تحریک شروع کردی تھی کہ جب تک مائی بختاور کے قتل میں انصاف نہیں ہوگا وہ جدوجہد جاری رکھیں گے۔
بالآخر سندھ ہاری کمیٹی کے رہنماؤں جن کی قیادت کامریڈ حیدربخش جتوئی کے ہاتھوں میں تھی اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور چوہدری سعد اللہ کو 25 برس قید کی سزا سنا دی گئی۔ مگر یاد رہے کہ مائی بختاور کی شہادت گندم کے ڈھیر کے لیے نہ تھی بلکہ ان کی جدوجہد اس مقصد کے لیے تھی کہ جب انسان سچائی پر ہے تو پھر وہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے ہر ظالم سے ٹکرا جائے مائی بختاور کی شہادت بھی رائیگاں نہیں گئی۔ چنانچہ بعدازاں حکومت سندھ نے ہاریوں کا یہ مطالبہ تسلیم کرلیا کہ بٹائی کے وقت فصل کی تقسیم ایسے ہوگی کہ آدھی فصل ہاری کی آدھی زمین کے مالک کی ہوگی۔
عصر حاضر میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے نام پر جس طرح سندھ کے ہاریوں کو ان کی آبائی زمینوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے ایسے میں مائی بختاور ہاریوں کو گویا یہ پیغام دے رہی ہیں کہ ہاریو! اپنے زرعی زمینوں کی حفاظت کے لیے جدوجہد کا راستہ اختیار کرو۔ آخر میں ہم مائی بختاور کی سترہویں برسی کے موقعے پر جوکہ 22 جون کو منائی جا رہی ہے مائی بختاور کو دل کی اتھا گہرائیوں سے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اس عزم کے ساتھ کہ جبر و استحصال کے خلاف حقیقی فتح تک جدوجہد جاری رہے گی۔
ہمارے اپنے سماج میں ایسی ہی عظیم جدوجہد کرنے والی خواتین میں سے ایک نام بڑا نمایاں ہے اور وہ نام ہے سندھ دھرتی کی عظیم بیٹی مائی بختاور شہید کا یہ 1880ء کا زمانہ تھا جب مائی بختاور نے سندھ کے انتہائی پسماندہ علاقے ٹنڈو باگو ضلع تھرپارکر میں جنم لیا۔مائی بختاور نے جس گھرانے میں جنم لیا بھوک و افلاس کا اس گھرانے پر مکمل راج تھا۔ مائی بختاور نے جب عہد شباب میں قدم رکھا تو ان کی شادی ولی محمد لاشاری نامی ہاری سے انجام پائی مائی بختاورکا تعلق بھی لاشاری قبیلے سے تھا۔
ان کا شوہر ولی محمد لاشاری عمر کوٹ میں احمدی اسٹیٹ میں کام کرتا تھا بہ حیثیت ایک ہاری کے اس احمدی اسٹیٹ یا جاگیر کا مالک چوہدری سعد اللہ تھا جس کے بڑوں کو یہ جاگیر انگریزوں نے ان کی وفاداری کے صلے میں دی تھی مائی بختاور کا شوہر ولی محمد لاشاری ایک باشعور انسان تھا اور اس کا پورا خاندان سندھ ہاری کمیٹی کے نہ صرف کارکن تھے بلکہ یہ خاندان سندھ ہاری کمیٹی کا پروگرام آگے بڑھانے میں بھرپور جدوجہد بھی کر رہا تھا۔ سندھ ہاری کمیٹی کا قیام 1930ء میں عمل میں آیا تھا جمشید نسروانجی، مہتہ جیٹمل پرسرام، جی ایم سید، ایم گوکلے وغیرہ سندھ ہاری کمیٹی کے بانیان میں سے تھے جب کہ 1945ء میں نامور ترین ہاری رہنما کامریڈ حیدر بخش جتوئی بھی ڈپٹی کلکٹر کے اہم عہدے سے دستبردار ہوکر اس سندھ ہاری کمیٹی میں شامل ہوگئے تھے۔ یوں بھی کامریڈ حیدر بخش جتوئی کی شمولیت سے سندھ ہاری کمیٹی کافی فعال ہوگئی تھی جب کہ 1946ء میں کامریڈ حیدر بخش جتوئی ہاری کمیٹی کے صدر منتخب ہوئے تھے۔
اس سندھ ہاری کمیٹی نے یہ تحریک شروع کر رکھی تھی کہ آدھی فصل ہاری کی جو فصل کاشت کرے آدھی فصل زمین کے مالک کی۔ یہ تحریک نواب شاہ سے شروع ہوئی تھی اور بڑی تیزی سے سندھ بھر میں پھیل گئی تھی۔جون 1947ء میں احمدی اسٹیٹ کے جاگیرداروں و ہاریوں کے مابین ادھی بٹائی حصے کے لیے تنازعہ چل رہا تھا احمدی اسٹیٹ کے جاگیردار کسی صورت ہاریوں کا ادھی بٹائی کا مطالبہ تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے فصل تیار تھی اور کھیتوں میں پڑی تھی کہ 22 جون 1947ء کو تمام ہاری مرد ولی محمد لاشاری سمیت اپنے گوٹھ سے جھڈو ضلع میرپورخاص میں سندھ ہاری کمیٹی کی کانفرنس میں شرکت کی غرض سے گئے ہوئے تھے جب کہ تیار فصل کے ڈھیر کے پاس ہاری خواتین کو فصل کی حفاظت کی غرض سے چھوڑ گئے تھے فصل کی حفاظت پر مامور خواتین کی قیادت مائی بختاور کر رہی تھی جاگیردار چوہدری سعداللہ نے موقع غنیمت جانا اور مسلح لوگوں کو لے کر فصل اٹھانے چلا گیا مگر فصل کی حفاظت پر مامور خواتین نے یہ موقف اختیار کیا کہ جب تک ہمارے مرد سندھ ہاری کمیٹی کی کانفرنس سے واپس نہیں آتے ہم کسی کو ایک دانہ بھی اناج نہیں اٹھانے دیں گے۔
البتہ جب چوہدری سعد اللہ کی دھونس و دھمکی بھی کام نہ آئی تو اس نے اپنے مسلح ساتھیوں سے کہا کہ خواتین کو مار بھگاؤ تاکہ ہم تیار فصل اپنے ساتھ لے جائیں۔ اس موقعے پر ہاری خواتین نے بھرپور مزاحمت کی اور چوہدری سعد اللہ کے ساتھیوں سے ہتھیار چھین کر انھی پر حملہ آور ہوگئیں۔ اب کیفیت یہ تھی کہ چوہدری سعد اللہ کے مسلح لوگ جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے اور ہاری خواتین ان لوگوں کی پٹائی کر رہی تھیں چوہدری سعد اللہ کے لیے یہ صورتحال ناقابل برداشت ہوچکی تھی۔ مائی بختاور نے چوہدری سعد اللہ کی بندوق بھی چھین لی قریب تھا کہ وہ چوہدری سعداللہ پر حملہ آور ہوجاتیں کہ چوہدری سعد اللہ کے ایک کارندے نے مائی بختاور پر کلہاڑی کا وار کردیا مگر زخمی مائی بختاور نے مزاحمت جاری رکھی مگر اس کیفیت میں چوہدری سعد اللہ نے فائرنگ کرکے مائی بختاور کو شہید کردیا اس سانحے کی خبر پا کر تمام اہم ہاری رہنما سانحے کے مقام پر پہنچ گئے جسدخاکی کو سامارو شہر کے اسپتال پہنچایا گیا جہاں اس کا پوسٹ مارٹم ہوا اور انھیں سامارو میں ہی دفن کردیا گیا۔
مائی بختاور نے 67 برس عمر پائی ممکن تھا کہ چوہدری سعد اللہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے مائی بختاور کے قتل کا کیس ختم کروا دیتا کیونکہ چوہدری سعد اللہ کا سگا ماموں فقط مائی بختاور کی شہادت کے سات ہفتے بعد قیام پاکستان کے وقت ہی پاکستان کا وزیر خارجہ نامزد ہوا تھا جس کا نام تھا سر ظفر اللہ خان۔ بہرکیف سندھ ہاری کمیٹی کے رہنماؤں نے ایک تحریک شروع کردی تھی کہ جب تک مائی بختاور کے قتل میں انصاف نہیں ہوگا وہ جدوجہد جاری رکھیں گے۔
بالآخر سندھ ہاری کمیٹی کے رہنماؤں جن کی قیادت کامریڈ حیدربخش جتوئی کے ہاتھوں میں تھی اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور چوہدری سعد اللہ کو 25 برس قید کی سزا سنا دی گئی۔ مگر یاد رہے کہ مائی بختاور کی شہادت گندم کے ڈھیر کے لیے نہ تھی بلکہ ان کی جدوجہد اس مقصد کے لیے تھی کہ جب انسان سچائی پر ہے تو پھر وہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے ہر ظالم سے ٹکرا جائے مائی بختاور کی شہادت بھی رائیگاں نہیں گئی۔ چنانچہ بعدازاں حکومت سندھ نے ہاریوں کا یہ مطالبہ تسلیم کرلیا کہ بٹائی کے وقت فصل کی تقسیم ایسے ہوگی کہ آدھی فصل ہاری کی آدھی زمین کے مالک کی ہوگی۔
عصر حاضر میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے نام پر جس طرح سندھ کے ہاریوں کو ان کی آبائی زمینوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے ایسے میں مائی بختاور ہاریوں کو گویا یہ پیغام دے رہی ہیں کہ ہاریو! اپنے زرعی زمینوں کی حفاظت کے لیے جدوجہد کا راستہ اختیار کرو۔ آخر میں ہم مائی بختاور کی سترہویں برسی کے موقعے پر جوکہ 22 جون کو منائی جا رہی ہے مائی بختاور کو دل کی اتھا گہرائیوں سے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اس عزم کے ساتھ کہ جبر و استحصال کے خلاف حقیقی فتح تک جدوجہد جاری رہے گی۔