عید الفطر کی خوشیاں سب کیلئے
مالی طور پر آسودہ طبقات کیلئےتو عید خوشی کا موقع ہے لیکن بنیادی ضرورتوں سے محروم لوگوں کیلئے بھی عید آزمائش سے کم نہیں
زندگی خوشی اور غم کا حسین امتزاج ہے۔ کبھی خوشیاں انسان کو جینے کا لطف دیتی ہیں اور کبھی غم انسان کو نڈھال کیے دیتے ہیں۔ بعض لوگوں کی زندگی میں خوشیوں کا تناسب زیادہ ہوتا ہے جبکہ کچھ لوگ اپنی زندگی کا زیادہ حصہ غم ہی اٹھائے پھرتے ہیں یہ قدرت کی بغرض امتحان وہ حکیمانہ تقسیم ہے جسے انسان چیلنج نہیں کرسکتا۔
البتہ بعض مواقع ایسے ہوتے ہیں جب خوشی اجتماعی طور قومی و ملی سطح پر منائی جاتی ہیں جیسے ہندوؤں میں دیوالی، عیسائیوں میں کرسمس، یہودیوں میں عید پوریم و عید فسح اور بدھوں کی عید نروانا وغیرہ۔ ظہور اسلام کے بعد اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو خوشی منانے کیلئے سال میں دو دن عطا فرمائے۔ عید الفطر وعید الاضحیٰ جن میں سے عید الفطر کی خوشیاں آج ہمارے در پر دستک دے رہی ہیں، اور 57 کے قریب اسلامی ممالک پر مشتمل پوری ملت اسلامیہ اور دنیا بھر کے غیر مسلم ممالک میں بسنے والے مسلمان خوشی مناتے ہیں۔
مزے کی بات یہ کہ اِس خوشی کو منانے کا طریقہ بھی وضع کردیا گیا جیسے نہانا دھونا، پاکیزگی اختیار کرنا، حسبِ توفیق نیا لباس اور جوتے پہننا، خوشبو لگانا، نماز عید ادا کرنا، آپس میں تحفے تحائف دینا، ملنا ملانا، فطرانہ ادا کرنا اور دعوت و طعام کرنا وغیرہ۔ اگرچہ آج اِس میں نمود و نمائش، اسراف اور دیگر شیطانی کاموں کا بھی دخل ہوچکا ہے لیکن ہم اِس بحث میں الجھے بغیر آگے بڑھتے ہیں۔
مالی طور پر آسودہ طبقات کے لیے عید واقعی ایک خوشی کا موقع ہوتی ہے لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ غربت کی چکی میں پسے ہوئے اور بنیادی ضرورتوں تک سے محروم مسلمانوں کیلئے عید بھی کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتی کیونکہ انہیں عید کی خوشیاں منانے کیلئے مطلوبہ وسائل میسر نہیں ہوتے جبکہ اُن کے معصوم بچے یہ تلخ حقیقت قبول کرنے کے لائق نہیں ہوتے۔
سوال یہ ہے کہ
وہ کیسے نئے لباس، جوتے، خوشبو، مہندی، چوڑیاں، کھلونے، خرید سکتے ہیں؟
وہ کیسے میل جول، دعوت و طعام، تحفے تحائف کا تکلف کرسکتے ہیں؟
وہ کیسے دل کی گہرائیوں سے خوش ہوسکتے ہیں؟
بھلا کیا محرومیوں کے گھنے سایوں میں بھی خوشیاں روح میں اترا کرتی ہیں؟
کیا ملت اسلامیہ کی یہ آفاقی خوشی بھی اِن لوگوں کے آنگن کا رخ نہیں کرسکتی؟
ہاں ہاں، رمضان المبارک میں اُمت مسلمہ کی طرف سے بے پناہ انفاق، صدقات و خیرات اور ادائیگی فطرانہ و زکوٰۃ کے باوجود ہمارے بے شمار مسلمان گھرانے شدید تنگدستی کے باعث عید کی خوشیوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے۔ آئیے اِس کے اسباب اور حل پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
یہ ایک دردناک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں امراء کی ایک بڑی تعداد زکوٰۃ ادا کرنے سے کتراتی ہے اور صدقات و خیرات کرنے پر اکتفا کرتی ہے جو کہ اُن کے ذمہ زکوٰۃ سے بہت کم ہوتے ہیں۔ یاد رکھیں، زکوٰۃ کی ادائیگی فرض ہے اور اِس فرض سے روگردانی کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ اپنی قریبی مسجد میں موجود علماء دین سے ملاقات کرکے زکوٰۃ کے احکام و مسائل پر معلومات لیں اور اپنے ذمہ واجب الادا زکوٰۃ مستحقین تک اُن کا حق سمجھ کر اور اپنا فرض جان کر پہنچائیں۔
مستحقین کو تلاش کرنا صدقہ و خیرات کرنے کا حصہ ہے۔ لہذا پیشہ ور بھکاریوں کو رقم دینے کے بجائے اپنے متعلقین میں موجود سفید پوش مستحقین کی تلاش کریں اور رازداری کے ساتھ اُن کی عزتِ نفس مجروح کیے بغیر مالی اعانت کریں۔
فطرانہ کی ادائیگی مقررہ وقت سے پہلے پہلے کردیں اور فی کس فطرانہ کی جو رقم مقرر کی گئی ہے (سو روپے) حسبِ توفیق اُس سے زیادہ فطرانہ ادا کریں۔
اپنے بچوں کو سکھائیں کہ جو عیدی اُن کے پاس اکٹھی ہوئی ہے، اُس میں غریب مسلمانوں کا بھی حق ہے۔ لہذا انہیں ترغیب دیں کہ بچے اپنی عیدی میں سے خود کچھ رقم چیریٹی پر لگائیں۔ اِس عمل کے زریعے بچے اوائل عمری سے ہی خوشیاں بانٹنے کے عادی ہوجائیں گے۔
آئیے ہم عہد کریں کہ
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
البتہ بعض مواقع ایسے ہوتے ہیں جب خوشی اجتماعی طور قومی و ملی سطح پر منائی جاتی ہیں جیسے ہندوؤں میں دیوالی، عیسائیوں میں کرسمس، یہودیوں میں عید پوریم و عید فسح اور بدھوں کی عید نروانا وغیرہ۔ ظہور اسلام کے بعد اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو خوشی منانے کیلئے سال میں دو دن عطا فرمائے۔ عید الفطر وعید الاضحیٰ جن میں سے عید الفطر کی خوشیاں آج ہمارے در پر دستک دے رہی ہیں، اور 57 کے قریب اسلامی ممالک پر مشتمل پوری ملت اسلامیہ اور دنیا بھر کے غیر مسلم ممالک میں بسنے والے مسلمان خوشی مناتے ہیں۔
مزے کی بات یہ کہ اِس خوشی کو منانے کا طریقہ بھی وضع کردیا گیا جیسے نہانا دھونا، پاکیزگی اختیار کرنا، حسبِ توفیق نیا لباس اور جوتے پہننا، خوشبو لگانا، نماز عید ادا کرنا، آپس میں تحفے تحائف دینا، ملنا ملانا، فطرانہ ادا کرنا اور دعوت و طعام کرنا وغیرہ۔ اگرچہ آج اِس میں نمود و نمائش، اسراف اور دیگر شیطانی کاموں کا بھی دخل ہوچکا ہے لیکن ہم اِس بحث میں الجھے بغیر آگے بڑھتے ہیں۔
مالی طور پر آسودہ طبقات کے لیے عید واقعی ایک خوشی کا موقع ہوتی ہے لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ غربت کی چکی میں پسے ہوئے اور بنیادی ضرورتوں تک سے محروم مسلمانوں کیلئے عید بھی کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتی کیونکہ انہیں عید کی خوشیاں منانے کیلئے مطلوبہ وسائل میسر نہیں ہوتے جبکہ اُن کے معصوم بچے یہ تلخ حقیقت قبول کرنے کے لائق نہیں ہوتے۔
سوال یہ ہے کہ
- جس گھر میں روزانہ دو وقت کی روٹی پکانے کے لئے رقم دستیاب نہ ہو،
- جہاں بیمار بچہ یا بوڑھا باپ علاج معالجے، میڈیکل ٹیسٹ و ادویات کے ہاتھوں موت آتی دیکھ رہا ہو،
- جو اپنی لاشوں کو کفن دینے کی توفیق نہ رکھتے ہوں،
- جن کا بال بال لوگوں کے بے رحم سودی قرضے میں ڈوبا ہو،
- جو اِس بارے میں پریشان ہوں کہ عید پر دیہاڑی کا نقصان کیسے پورا ہوگا،
- جو اپنے بے گناہ قیدی بیٹے کے لئے وکیل کرنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں،
- جن کی جوان بیٹیاں جہیز کے نہ ہونے کے باعث بوڑھی ہو رہی ہوں
- جن بیواؤں اور اُن کے یتیم بچوں کا اللہ کے سوا کوئی آسرا نہ ہو،
وہ کیسے نئے لباس، جوتے، خوشبو، مہندی، چوڑیاں، کھلونے، خرید سکتے ہیں؟
وہ کیسے میل جول، دعوت و طعام، تحفے تحائف کا تکلف کرسکتے ہیں؟
وہ کیسے دل کی گہرائیوں سے خوش ہوسکتے ہیں؟
بھلا کیا محرومیوں کے گھنے سایوں میں بھی خوشیاں روح میں اترا کرتی ہیں؟
کیا ملت اسلامیہ کی یہ آفاقی خوشی بھی اِن لوگوں کے آنگن کا رخ نہیں کرسکتی؟
ہاں ہاں، رمضان المبارک میں اُمت مسلمہ کی طرف سے بے پناہ انفاق، صدقات و خیرات اور ادائیگی فطرانہ و زکوٰۃ کے باوجود ہمارے بے شمار مسلمان گھرانے شدید تنگدستی کے باعث عید کی خوشیوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے۔ آئیے اِس کے اسباب اور حل پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
- اول: زکوٰۃ کی ادائیگی میں بخل سے کام لینا
یہ ایک دردناک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں امراء کی ایک بڑی تعداد زکوٰۃ ادا کرنے سے کتراتی ہے اور صدقات و خیرات کرنے پر اکتفا کرتی ہے جو کہ اُن کے ذمہ زکوٰۃ سے بہت کم ہوتے ہیں۔ یاد رکھیں، زکوٰۃ کی ادائیگی فرض ہے اور اِس فرض سے روگردانی کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ اپنی قریبی مسجد میں موجود علماء دین سے ملاقات کرکے زکوٰۃ کے احکام و مسائل پر معلومات لیں اور اپنے ذمہ واجب الادا زکوٰۃ مستحقین تک اُن کا حق سمجھ کر اور اپنا فرض جان کر پہنچائیں۔
- دوم: مستحقین کی تلاش
مستحقین کو تلاش کرنا صدقہ و خیرات کرنے کا حصہ ہے۔ لہذا پیشہ ور بھکاریوں کو رقم دینے کے بجائے اپنے متعلقین میں موجود سفید پوش مستحقین کی تلاش کریں اور رازداری کے ساتھ اُن کی عزتِ نفس مجروح کیے بغیر مالی اعانت کریں۔
- سوم: فطرانہ کی ادائیگی
فطرانہ کی ادائیگی مقررہ وقت سے پہلے پہلے کردیں اور فی کس فطرانہ کی جو رقم مقرر کی گئی ہے (سو روپے) حسبِ توفیق اُس سے زیادہ فطرانہ ادا کریں۔
- چہارم: بچوں کی تربیت
اپنے بچوں کو سکھائیں کہ جو عیدی اُن کے پاس اکٹھی ہوئی ہے، اُس میں غریب مسلمانوں کا بھی حق ہے۔ لہذا انہیں ترغیب دیں کہ بچے اپنی عیدی میں سے خود کچھ رقم چیریٹی پر لگائیں۔ اِس عمل کے زریعے بچے اوائل عمری سے ہی خوشیاں بانٹنے کے عادی ہوجائیں گے۔
آئیے ہم عہد کریں کہ
- ہم پوری زکوٰۃ فرض سمجھ کر ادا کریں گے،
- مستحقین کی تلاش میں محنت کریں گے،
- صدقات و خیرات میں مزید اضافہ کریں گے،
- فطرانہ کی ادائیگی بروقت اور احسان کے ساتھ کریں گے
- اور اپنے بچوں کو اپنی عیدی میں سے محروم لوگوں پر خرچ کرنے کی ترغیب دیں گے
- تاکہ اِس عید اور آئندہ آنے والی عیدوں میں کوئی مسلمان ملت اسلامیہ کی اِس عالمگیر خوشی سے محروم نہ رہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔