مصنوعی زندگی ’’چھاپنے‘‘ والی مشین ایجاد کرلی گئی
اس پروٹوٹائپ مشین کو مصنوعی زندگی ’’چھاپنے‘‘ کے احکامات ریڈیائی پیغامات یا انٹرنیٹ سے دیئے جاسکتے ہیں
امریکی ماہرین کی ایک ٹیم نے برسوں کی محنت کے بعد ایسی پروٹوٹائپ مشین تیار کرلی ہے جو ڈی این اے اور آر این اے کے علاوہ پروٹین اور وائرس تک تیار کرسکتی ہے اور اس مقصد کےلیے اسے کسی انسانی مداخلت کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔
یہ کارنامہ ڈاکٹر کریگ وینٹر کی سربراہی میں انجام پایا ہے جو نجی شعبے میں ہیومن جینوم پروجیکٹ کا مدمقابل منصوبہ مکمل کرنے اور انسانی جینوم کی نقشہ کشی انتہائی تیز رفتار بنانے کے حوالے سے خصوصی عالمی شہرت رکھتے ہیں۔
یہ مشین جسے انہوں نے ''ڈیجیٹل ٹو بایولاجیکل کنورٹر'' (ڈی بی سی) کا نام دیا ہے، انٹرنیٹ یا ریڈیو سگنل کے ذریعے کوئی مخصوص پروٹین وغیرہ تیار کرنے کے تفصیلی احکامات وصول کرتی ہے اور ان پر عمل کرتے ہوئے متعلقہ چیز تیار کردیتی ہے۔
انک جیٹ پرنٹر کی طرح اس میں بھی مختلف کارٹریجز لگی ہوتی ہیں لیکن ایسی ہر کارٹریج میں کوئی رنگ نہیں ہوتا بلکہ وہ بنیادی مرکبات ہوتے ہیں جن کے ذریعے ڈی این اے، آر این اے، پروٹین اور خامرے وغیرہ تشکیل پاتے ہیں۔
موصول شدہ احکامات پر عمل کرتے ہوئے یہ 'ڈی بی سی پروٹوٹائپ' مشین اپنی کارٹریجز سے مختلف مرکبات ایک خاص مقام پر ترتیب وار یکجا کرتی ہے اور انہیں آپس میں ملاکر مطلوبہ مصنوعی حیاتیاتی مواد تیار کرلیتی ہے۔
اب تک اس کی مدد سے درجنوں پروٹین کے علاوہ مکمل برڈ فلو وائرس (H1N1) مصنوعی طور پر تیار کیا جاچکا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ مزید بہتر ہونے کے بعد یہ ایک خلیے والے جاندار بھی ''چھاپنے'' کے قابل ہوجائے گی جبکہ کچھ اور ترامیم و اضافہ جات کے بعد اس سے زندگی کی اور زیادہ پیچیدہ صورتیں بھی تیار کی جاسکیں گی۔
اس منصوبے میں ڈاکٹر کریگ جے وینٹر کو ایلون مسک کی جانب سے خصوصی تعاون حاصل رہا ہے۔ یاد رہے کہ ارب پتی امریکی تاجر ایلون مسک بھی عجیب و غریب اور ناقابلِ یقین منصوبوں پر سرمایہ کاری کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور ہیں جبکہ ان کے بنائے ہوئے شہرت یافتہ اداروں میں اسپیس ایکس، ٹیسلا اور ہائپرلوپ شامل ہیں۔
حیاتی مواد تیار کرنے سے متعلق احکامات کی بذریعہ ریڈیائی پیغامات یا انٹرنیٹ منتقلی کو کریگ وینٹر نے ''بایولاجیکل ٹیلی پورٹیشن'' کا نام دیا ہے جسے استعمال کرتے ہوئے مستقبل میں دور دراز سیاروں پر زندگی کی تخلیق ممکن ہوسکے گی۔ وینٹر کہتے ہیں کہ آنے والے عشروں میں ایسی ہی ایک ترقی یافتہ مشین تمام ضروری مواد سے لیس کرکے مریخ پر بھیجی جائے گی جہاں پہنچ کر وہ زمینی مرکز سے آنے والے احکامات وصول کرے گی اور حسبِ ضرورت جاندار چیزیں تیار کرے گی جو ممکنہ طور پر جراثیم یا پودے بھی ہوسکتے ہیں۔
اس پروٹوٹائپ مشین کی تفصیلات ریسرچ جرنل ''نیچر بایوٹیکنالوجی'' میں شائع ہوئی ہیں۔
یہ کارنامہ ڈاکٹر کریگ وینٹر کی سربراہی میں انجام پایا ہے جو نجی شعبے میں ہیومن جینوم پروجیکٹ کا مدمقابل منصوبہ مکمل کرنے اور انسانی جینوم کی نقشہ کشی انتہائی تیز رفتار بنانے کے حوالے سے خصوصی عالمی شہرت رکھتے ہیں۔
یہ مشین جسے انہوں نے ''ڈیجیٹل ٹو بایولاجیکل کنورٹر'' (ڈی بی سی) کا نام دیا ہے، انٹرنیٹ یا ریڈیو سگنل کے ذریعے کوئی مخصوص پروٹین وغیرہ تیار کرنے کے تفصیلی احکامات وصول کرتی ہے اور ان پر عمل کرتے ہوئے متعلقہ چیز تیار کردیتی ہے۔
انک جیٹ پرنٹر کی طرح اس میں بھی مختلف کارٹریجز لگی ہوتی ہیں لیکن ایسی ہر کارٹریج میں کوئی رنگ نہیں ہوتا بلکہ وہ بنیادی مرکبات ہوتے ہیں جن کے ذریعے ڈی این اے، آر این اے، پروٹین اور خامرے وغیرہ تشکیل پاتے ہیں۔
موصول شدہ احکامات پر عمل کرتے ہوئے یہ 'ڈی بی سی پروٹوٹائپ' مشین اپنی کارٹریجز سے مختلف مرکبات ایک خاص مقام پر ترتیب وار یکجا کرتی ہے اور انہیں آپس میں ملاکر مطلوبہ مصنوعی حیاتیاتی مواد تیار کرلیتی ہے۔
اب تک اس کی مدد سے درجنوں پروٹین کے علاوہ مکمل برڈ فلو وائرس (H1N1) مصنوعی طور پر تیار کیا جاچکا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ مزید بہتر ہونے کے بعد یہ ایک خلیے والے جاندار بھی ''چھاپنے'' کے قابل ہوجائے گی جبکہ کچھ اور ترامیم و اضافہ جات کے بعد اس سے زندگی کی اور زیادہ پیچیدہ صورتیں بھی تیار کی جاسکیں گی۔
اس منصوبے میں ڈاکٹر کریگ جے وینٹر کو ایلون مسک کی جانب سے خصوصی تعاون حاصل رہا ہے۔ یاد رہے کہ ارب پتی امریکی تاجر ایلون مسک بھی عجیب و غریب اور ناقابلِ یقین منصوبوں پر سرمایہ کاری کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور ہیں جبکہ ان کے بنائے ہوئے شہرت یافتہ اداروں میں اسپیس ایکس، ٹیسلا اور ہائپرلوپ شامل ہیں۔
حیاتی مواد تیار کرنے سے متعلق احکامات کی بذریعہ ریڈیائی پیغامات یا انٹرنیٹ منتقلی کو کریگ وینٹر نے ''بایولاجیکل ٹیلی پورٹیشن'' کا نام دیا ہے جسے استعمال کرتے ہوئے مستقبل میں دور دراز سیاروں پر زندگی کی تخلیق ممکن ہوسکے گی۔ وینٹر کہتے ہیں کہ آنے والے عشروں میں ایسی ہی ایک ترقی یافتہ مشین تمام ضروری مواد سے لیس کرکے مریخ پر بھیجی جائے گی جہاں پہنچ کر وہ زمینی مرکز سے آنے والے احکامات وصول کرے گی اور حسبِ ضرورت جاندار چیزیں تیار کرے گی جو ممکنہ طور پر جراثیم یا پودے بھی ہوسکتے ہیں۔
اس پروٹوٹائپ مشین کی تفصیلات ریسرچ جرنل ''نیچر بایوٹیکنالوجی'' میں شائع ہوئی ہیں۔