لال بیگوں کی ’’دہشت گردی‘‘ ویمنز ہوٹل چھوڑ بھاگیں
منتظمین کو آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقی ٹیموں کی رہائش تبدیل کرنا پڑی۔
ورلڈ کپ میں شریک آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کی خواتین کرکٹرز ''لال بیگوں'' سے دہشت زدہ ہوگئیں۔
غیرمعیاری ہوٹل کو چھوڑ کر ٹیموں نے منتظمین کے چہرے شرم سے سرخ کر دیے،90 کھلاڑیوں اور آفیشلز کو نئے ہوٹل میں منتقل کرنا پڑا، اس سے ایونٹ کے میزبان ملک بھارت میں ناقص انتظامات کی مزید قلعی کھل گئی۔ تفصیلات کے مطابق بھارت نے ویمنز ورلڈکپ میں شریک پاکستانی ٹیم کو سیکیورٹی مسائل کے سبب اسٹیڈیم میں ہی رہائش فراہم کی ہے۔
اس کے باوجود گرین شرٹس نے زبان سے شکایت کا ایک لفظ ادا نہیں کیا اور ہمیشہ انتظامات کو سراہا۔ مگر یورپیئن اور افریقی کرکٹرز لگی لپٹی کی قائل نہیں،وہ اپنے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر فوراً ردعمل ظاہر کر بیٹھیں اور بھوبنیسورکا ہوٹل ہی چھوڑ دیا،اس سے اڑیسہ کرکٹ ایسوسی ایشن کو بڑی سبکی اٹھانا پڑی،آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کی ٹیموں نے کمتر بجٹ والے ہوٹل میں ناکافی سہولتوں پر شدید احتجاج کیا جس کی وجہ سے منتظمین 90 کھلاڑیوں اور آفیشلزکو دوسرے ہوٹل میں منتقل کرنے پر مجبور ہو گئے۔
گوکہ آفیشلز کچھ بتانے کو آمادہ نہیں مگر ذرائع کا کہنا ہے کہ اپنے کمروں میں لال بیگوں کو دیکھ کر ویمن کرکٹرز خوفزدہ ہو گئی تھیں، ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے پر میڈیا کو بتایا کہ اڑیسہ ایسوسی ایشن سے ہمیں معلومات حاصل ہوئیں کہ ''ہوٹل میں چند غیر ملکی کرکٹرز نے ناکافی سہولتوں کی شکایت کی ہے، ایک کھلاڑی نے تو اپنے کمرے میں لال بیگ بھی دیکھا، وہ فوری طور پر ہوٹل چھوڑنا چاہتی ہیں''۔ اس معاملے پر اظہار خیال کرتے ہوئے بھوبنیسور کے ڈپٹی کمشنر پولیس نتنجیت سنگھ نے کہا کہ سخت سیکیورٹی میں تمام پلیئرز کو دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا۔
نئے ہوٹل میں بھی کڑے حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔ دوسری جانب ہوٹل انتظامیہ نے خراب سروس کے الزام کو مسترد کر دیا، جنرل منیجر جی بی داس نے کہا کہ ہم نے کھلاڑیوں کو معیاری سہولتیں فراہم کیں، روم سروس اور کھانا بہترین تھا، ابتدا میں ٹیموں کیلیے 45 کمرے بک کیے گئے، دو روز قبل منتظمین نے مزید20 کمرے مانگے، چونکہ ہمارے ہوٹل میں صرف58 ہی رومز ہیں لہذا ہم نے انکار کر دیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ہر کمرے میں2 پلیئرز قیام پذیر تھیں،5 ہزار یومیہ پر 30 جنوری سے7 فروری تک کیلیے رومز بک کرائے گئے تھے۔
غیرمعیاری ہوٹل کو چھوڑ کر ٹیموں نے منتظمین کے چہرے شرم سے سرخ کر دیے،90 کھلاڑیوں اور آفیشلز کو نئے ہوٹل میں منتقل کرنا پڑا، اس سے ایونٹ کے میزبان ملک بھارت میں ناقص انتظامات کی مزید قلعی کھل گئی۔ تفصیلات کے مطابق بھارت نے ویمنز ورلڈکپ میں شریک پاکستانی ٹیم کو سیکیورٹی مسائل کے سبب اسٹیڈیم میں ہی رہائش فراہم کی ہے۔
اس کے باوجود گرین شرٹس نے زبان سے شکایت کا ایک لفظ ادا نہیں کیا اور ہمیشہ انتظامات کو سراہا۔ مگر یورپیئن اور افریقی کرکٹرز لگی لپٹی کی قائل نہیں،وہ اپنے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر فوراً ردعمل ظاہر کر بیٹھیں اور بھوبنیسورکا ہوٹل ہی چھوڑ دیا،اس سے اڑیسہ کرکٹ ایسوسی ایشن کو بڑی سبکی اٹھانا پڑی،آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کی ٹیموں نے کمتر بجٹ والے ہوٹل میں ناکافی سہولتوں پر شدید احتجاج کیا جس کی وجہ سے منتظمین 90 کھلاڑیوں اور آفیشلزکو دوسرے ہوٹل میں منتقل کرنے پر مجبور ہو گئے۔
گوکہ آفیشلز کچھ بتانے کو آمادہ نہیں مگر ذرائع کا کہنا ہے کہ اپنے کمروں میں لال بیگوں کو دیکھ کر ویمن کرکٹرز خوفزدہ ہو گئی تھیں، ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے پر میڈیا کو بتایا کہ اڑیسہ ایسوسی ایشن سے ہمیں معلومات حاصل ہوئیں کہ ''ہوٹل میں چند غیر ملکی کرکٹرز نے ناکافی سہولتوں کی شکایت کی ہے، ایک کھلاڑی نے تو اپنے کمرے میں لال بیگ بھی دیکھا، وہ فوری طور پر ہوٹل چھوڑنا چاہتی ہیں''۔ اس معاملے پر اظہار خیال کرتے ہوئے بھوبنیسور کے ڈپٹی کمشنر پولیس نتنجیت سنگھ نے کہا کہ سخت سیکیورٹی میں تمام پلیئرز کو دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا۔
نئے ہوٹل میں بھی کڑے حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔ دوسری جانب ہوٹل انتظامیہ نے خراب سروس کے الزام کو مسترد کر دیا، جنرل منیجر جی بی داس نے کہا کہ ہم نے کھلاڑیوں کو معیاری سہولتیں فراہم کیں، روم سروس اور کھانا بہترین تھا، ابتدا میں ٹیموں کیلیے 45 کمرے بک کیے گئے، دو روز قبل منتظمین نے مزید20 کمرے مانگے، چونکہ ہمارے ہوٹل میں صرف58 ہی رومز ہیں لہذا ہم نے انکار کر دیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ہر کمرے میں2 پلیئرز قیام پذیر تھیں،5 ہزار یومیہ پر 30 جنوری سے7 فروری تک کیلیے رومز بک کرائے گئے تھے۔