خسرہ کیساتھ دیگر وبائی امراض پھیلنے کا خطرہ ہےحلیم عادل
خیرپور کے اسپتال میں دوائیں نہیں ہے ،ٹھل میں 100 بچے جاں بحق ہوئے،پریس کانفرنس.
وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر برائے ریلیف حلیم عادل شیخ نے کہا ہے کہ خسرہ کی وبا پھیلنے کی بڑی وجہ خوراک کی کمی اور ویکسی نیشن کا باقاعدہ نہ کیا جانا ہے۔
اگر عالمی برادری، سول سوسائٹی اور حکومت نے فوری توجہ نہ دی تو خسرہ کے ساتھ دیگر وبائی امراض بھی پھیلنے کا خطرہ ہے،ان خیالات کا اظہار انھوں نے پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب میں کیا،انھوں نے کہا کہ میں نے بذات خود خسرہ سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا ہے اور رپورٹ صدر مملکت، وزیراعلیٰ سندھ و دیگر حکام کو ارسال کی ہیں لیکن ان پر توجہ نہیں دی گئی،خسرہ کی وبا ان ہی علاقوں میں پھیلی ہے جہاں بارش کا پانی جمع ہے اور زیادہ متاثرہ تحصیل صالح پٹ ہے۔
میں نے ذاتی وسائل سے ان علاقوں کا دورہ کیا اور متاثرہ افراد کو ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کی،پریس کانفرنس میں انھوں نے بتایا کہ خسرہ کی وبا پھیلنے کی بڑی وجہ اسپتالوں میں متاثرہ بچوں کا باقاعدہ علاج نہیں کیا گیا، محض بخار و دیگر دوائیں دے کر بچوں کو گھر بھیج دیا گیا، دورے کے دوران پتہ چلا کہ سرکاری اسپتالوں میں تعینات ڈاکٹرز ڈیوٹی کے دوران نجی کلینکس میں پائے گئے۔
خیرپور کے بڑے اسپتال میں خسرہ میں مبتلا بچوں کو دوا فراہم کی گئی، وہاں دوا کے بجائے پرچی دی جاتی رہی کہ دوا باہر سے خریدی جائے، بعض اسپتالوں کے خسرہ وارڈ میں دیگر بیماریوں میں مبتلا بچے بھی داخل تھے، صرف ٹھل میں 100 بچے خسرہ کے باعث جاں بحق ہوئے،دادو کی انتظامیہ سب سے نا اہل پائی گئی،حکومت سے سفارش کروں گا کہ خسرہ سے متاثرہ ہر خاندان کو 50 ہزار روپے کی امداد دی جائے۔
اگر عالمی برادری، سول سوسائٹی اور حکومت نے فوری توجہ نہ دی تو خسرہ کے ساتھ دیگر وبائی امراض بھی پھیلنے کا خطرہ ہے،ان خیالات کا اظہار انھوں نے پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب میں کیا،انھوں نے کہا کہ میں نے بذات خود خسرہ سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا ہے اور رپورٹ صدر مملکت، وزیراعلیٰ سندھ و دیگر حکام کو ارسال کی ہیں لیکن ان پر توجہ نہیں دی گئی،خسرہ کی وبا ان ہی علاقوں میں پھیلی ہے جہاں بارش کا پانی جمع ہے اور زیادہ متاثرہ تحصیل صالح پٹ ہے۔
میں نے ذاتی وسائل سے ان علاقوں کا دورہ کیا اور متاثرہ افراد کو ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کی،پریس کانفرنس میں انھوں نے بتایا کہ خسرہ کی وبا پھیلنے کی بڑی وجہ اسپتالوں میں متاثرہ بچوں کا باقاعدہ علاج نہیں کیا گیا، محض بخار و دیگر دوائیں دے کر بچوں کو گھر بھیج دیا گیا، دورے کے دوران پتہ چلا کہ سرکاری اسپتالوں میں تعینات ڈاکٹرز ڈیوٹی کے دوران نجی کلینکس میں پائے گئے۔
خیرپور کے بڑے اسپتال میں خسرہ میں مبتلا بچوں کو دوا فراہم کی گئی، وہاں دوا کے بجائے پرچی دی جاتی رہی کہ دوا باہر سے خریدی جائے، بعض اسپتالوں کے خسرہ وارڈ میں دیگر بیماریوں میں مبتلا بچے بھی داخل تھے، صرف ٹھل میں 100 بچے خسرہ کے باعث جاں بحق ہوئے،دادو کی انتظامیہ سب سے نا اہل پائی گئی،حکومت سے سفارش کروں گا کہ خسرہ سے متاثرہ ہر خاندان کو 50 ہزار روپے کی امداد دی جائے۔