غیر اعلانیہ جنگ کا الزام
افغانستان ایک ایسا پہاڑی ملک ہے جہاں اغیار کے خلاف چھاپہ مار جنگ کامیابی کے ساتھ لڑی جا سکتی ہے
ISLAMABAD:
پچھلے ہفتے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ''کابل پراسس'' کے نام سے دو روزہ عالمی امن کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ اس کانفرنس میں پاکستان، امریکا، روس، چین، نیٹو اور اقوام متحدہ سمیت 23 ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی۔ پاکستان کی جانب سے تسنیم اسلم اور دفتر خارجہ افغانستان ڈیسک کے منصور احمد خان پر مشتمل دو رکنی وفد نے شرکت کی۔ کانفرنس کے دوران کابل میں انتہائی سخت سیکیورٹی انتظامات کیے گئے تھے۔ کابل کی سڑکوں پر بکتر بند گاڑیاں موجود تھیں اور فضائی نگرانی کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔ اتنے سخت انتظامات کے باوجود کابل کے سخت سیکیورٹی والے گرین زون میں واقع بھارتی سفیر من پریت ووہڑا کی رہائش گاہ پر راکٹ حملہ کیا گیا۔ راکٹ سفارت خانے کے کمپاؤنڈ میں گرا تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ کانفرنس کے آغاز پر افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ افغانستان میں غیر اعلانیہ جنگ مسلط کر رہا ہے۔ اشرف غنی نے کہا کہ پاکستان کو اس بات پر کیسے راضی کیا جا سکتا ہے کہ ایک مستحکم افغانستان ہی پاکستان اور اس خطے کے لیے مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق یہ سخت اعلان افغان صدر نے ایسی کانفرنس کے دوران کیا جس میں امریکا، روس، چین سمیت 23 ملکوں کے نمایندے موجود تھے۔ افغان صدر نے اس موقعے پر گزشتہ دنوں کابل میں ہونے والے ٹرک بم دھماکے میں ہونے والی 150 ہلاکتوں اور 300 سے زیادہ زخمی ہونے والوں کا ذکر بھی کیا۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اشرف غنی نے طالبان کو خبردار کیا کہ ہم انھیں امن کے لیے ایک موقع فراہم کر رہے ہیں، وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے، یہ آخری موقع ہے اس سے فائدہ اٹھائیں، اسے حاصل کر لیں یا پھر سنگین نتائج کے لیے تیار رہیں۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ ''گزشتہ دو برسوں کے دوران 11 ہزار جنگجو داعش میں شرکت کے لیے افغانستان آ چکے ہیں۔''
سب سے پہلے اس حقیقت کی نشان دہی ضروری ہے کہ افغان حکومت کا دائرہ کار کابل تک محدود ہے بلکہ کابل کے اندر بھی طالبان بڑی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ پچھلے دنوں کابل ہی میں ایک ٹرک بم دھماکے میں 150 افراد ہلاک اور 300 سے زیادہ بے گناہ افغانی زخمی ہو چکے ہیں اور عین کانفرنس کے دن کابل کے انتہائی حساس سیکیورٹی زون میں بھارتی سفیر کی رہائش گاہ پر راکٹ حملہ کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اب بھی افغانستان کا تین چوتھائی علاقہ طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر یہ کیسے مانا جا سکتا ہے کہ اگر طالبان اشرف غنی کے الٹی میٹم کو تسلیم نہ کریں تو افغان حکومت ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کرے گی۔
اشرف غنی نے 23 ملکوں کے نمایندوں کی موجودگی میں پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ وہ افغانستان پر غیر اعلانیہ جنگ مسلط کر رہا ہے۔ افغانستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں اصل فریق ہندوستان اور پاکستان مانے جاتے ہیں۔ افغانستان کی یہ منطق سمجھ سے باہر ہے کہ وہ ایک ایسے پڑوسی ملک سے پنگا لے کر جن کی سرحدیں ملی ہوئی ہیں اور پاکستان کو پھلانگ کر بھارت سے نہ صرف پکی دوستی کر رہا ہے بلکہ افغان معیشت میں بھارت کے عمل دخل کو بڑھا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کی یہ سیاست اور خارجہ پالیسی 70 سال پرانی ہے لیکن اس پالیسی سے افغانستان کو سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہ ہو سکا۔ کسی ملک کی خارجہ پالیسی دائمی نہیں ہوتی وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق اس میں تبدیلی لانی پڑتی ہے۔ بعض نادان اور حقائق سے ناواقف حلقے دونوں ملکوں کے درمیان مذہبی رشتوں کی دہائی دے کر دونوں ملکوں کے درمیان برادرانہ تعلقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ انھیں اس حقیقت کا ادراک نہیں رہتا کہ خارجہ پالیسی کی عمارت سیاسی اور اقتصادی مفادات پر کھڑی ہوتی ہے۔
افغانستان ایک ایسا پہاڑی ملک ہے جہاں اغیار کے خلاف چھاپہ مار جنگ کامیابی کے ساتھ لڑی جا سکتی ہے۔ 9/11 کے بعد امریکا نے بڑے زور و شور سے افغانستان پر چڑھائی کی اور تاریخ کی وہ کارپٹ بمباری کی جس سے افغانستان کے پہاڑ جل کر سیاہ ہو گئے۔ نیٹو سمیت اپنے درجنوں اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان کو زیر کرنے کی کوشش کی۔ غالباً امریکا کو یہ بات یاد نہیں رہی کہ روس کو اپنی تمام تر طاقت استعمال کرنے کے باوجود افغانستان سے نکلنا پڑا۔ بش حکومت نے انتقام میں اندھی بن کر افغانستان پر حملہ کرنے کی جو حماقت کی اس کا انجام یہ ہوا کہ افغانستان میں طالبان اور مضبوط ہوئے اور امریکا نیٹو اور اتحادی ملکوں کو افغانستان سے نکلنا پڑا۔ المیہ یہ ہے کہ 9/11 کے انتقام میں بش حکومت نے جس اندھے پن کا مظاہرہ کیا اس کا سب سے سنگین نتیجہ دہشت گردی میں بے پناہ اضافے کی شکل میں نکلا۔ اگر امریکا کے سابق صدر اوباما افغانستان سے امریکی اور اتحادی فوج کو واپس بلانے کا عاقلانہ فیصلہ نہ کرتے تو امریکا اس دلدل میں غرق ہو چکا ہوتا۔
اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان پاکستان پر افغانستان کے خلاف اعلانیہ جنگ مسلط کرنے کا الزام لگا رہا ہے۔ افغانستان اگر اپنے پڑوسی ملک کو پھلانگ کر بھارت کو اپنا پڑوسی بنانے کی کوشش کرے گا تو پھر پاکستان کے ردعمل کو غیر منطقی نہیں کہا جا سکتا۔ اس حوالے سے اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ افغانستان پاکستان اور بھارت تینوں ہی غریب ترین ملک ہیں، جہاں کے عوام کی 50 فیصد سے زیادہ تعداد غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ایسے ملکوں کے حکمرانوں کو قطعی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے قومی وسائل جنگوں اور ہتھیاروں کی خریداری پر ضایع کریں۔ تینوں ملکوں کے عوام کا فرض ہے کہ وہ حکمرانوں کو جنگوں سے روکیں اور امن کی طرف لے آئیں۔
پچھلے ہفتے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ''کابل پراسس'' کے نام سے دو روزہ عالمی امن کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ اس کانفرنس میں پاکستان، امریکا، روس، چین، نیٹو اور اقوام متحدہ سمیت 23 ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی۔ پاکستان کی جانب سے تسنیم اسلم اور دفتر خارجہ افغانستان ڈیسک کے منصور احمد خان پر مشتمل دو رکنی وفد نے شرکت کی۔ کانفرنس کے دوران کابل میں انتہائی سخت سیکیورٹی انتظامات کیے گئے تھے۔ کابل کی سڑکوں پر بکتر بند گاڑیاں موجود تھیں اور فضائی نگرانی کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔ اتنے سخت انتظامات کے باوجود کابل کے سخت سیکیورٹی والے گرین زون میں واقع بھارتی سفیر من پریت ووہڑا کی رہائش گاہ پر راکٹ حملہ کیا گیا۔ راکٹ سفارت خانے کے کمپاؤنڈ میں گرا تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ کانفرنس کے آغاز پر افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ افغانستان میں غیر اعلانیہ جنگ مسلط کر رہا ہے۔ اشرف غنی نے کہا کہ پاکستان کو اس بات پر کیسے راضی کیا جا سکتا ہے کہ ایک مستحکم افغانستان ہی پاکستان اور اس خطے کے لیے مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق یہ سخت اعلان افغان صدر نے ایسی کانفرنس کے دوران کیا جس میں امریکا، روس، چین سمیت 23 ملکوں کے نمایندے موجود تھے۔ افغان صدر نے اس موقعے پر گزشتہ دنوں کابل میں ہونے والے ٹرک بم دھماکے میں ہونے والی 150 ہلاکتوں اور 300 سے زیادہ زخمی ہونے والوں کا ذکر بھی کیا۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اشرف غنی نے طالبان کو خبردار کیا کہ ہم انھیں امن کے لیے ایک موقع فراہم کر رہے ہیں، وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے، یہ آخری موقع ہے اس سے فائدہ اٹھائیں، اسے حاصل کر لیں یا پھر سنگین نتائج کے لیے تیار رہیں۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ ''گزشتہ دو برسوں کے دوران 11 ہزار جنگجو داعش میں شرکت کے لیے افغانستان آ چکے ہیں۔''
سب سے پہلے اس حقیقت کی نشان دہی ضروری ہے کہ افغان حکومت کا دائرہ کار کابل تک محدود ہے بلکہ کابل کے اندر بھی طالبان بڑی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ پچھلے دنوں کابل ہی میں ایک ٹرک بم دھماکے میں 150 افراد ہلاک اور 300 سے زیادہ بے گناہ افغانی زخمی ہو چکے ہیں اور عین کانفرنس کے دن کابل کے انتہائی حساس سیکیورٹی زون میں بھارتی سفیر کی رہائش گاہ پر راکٹ حملہ کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اب بھی افغانستان کا تین چوتھائی علاقہ طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر یہ کیسے مانا جا سکتا ہے کہ اگر طالبان اشرف غنی کے الٹی میٹم کو تسلیم نہ کریں تو افغان حکومت ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کرے گی۔
اشرف غنی نے 23 ملکوں کے نمایندوں کی موجودگی میں پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ وہ افغانستان پر غیر اعلانیہ جنگ مسلط کر رہا ہے۔ افغانستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں اصل فریق ہندوستان اور پاکستان مانے جاتے ہیں۔ افغانستان کی یہ منطق سمجھ سے باہر ہے کہ وہ ایک ایسے پڑوسی ملک سے پنگا لے کر جن کی سرحدیں ملی ہوئی ہیں اور پاکستان کو پھلانگ کر بھارت سے نہ صرف پکی دوستی کر رہا ہے بلکہ افغان معیشت میں بھارت کے عمل دخل کو بڑھا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کی یہ سیاست اور خارجہ پالیسی 70 سال پرانی ہے لیکن اس پالیسی سے افغانستان کو سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہ ہو سکا۔ کسی ملک کی خارجہ پالیسی دائمی نہیں ہوتی وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق اس میں تبدیلی لانی پڑتی ہے۔ بعض نادان اور حقائق سے ناواقف حلقے دونوں ملکوں کے درمیان مذہبی رشتوں کی دہائی دے کر دونوں ملکوں کے درمیان برادرانہ تعلقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ انھیں اس حقیقت کا ادراک نہیں رہتا کہ خارجہ پالیسی کی عمارت سیاسی اور اقتصادی مفادات پر کھڑی ہوتی ہے۔
افغانستان ایک ایسا پہاڑی ملک ہے جہاں اغیار کے خلاف چھاپہ مار جنگ کامیابی کے ساتھ لڑی جا سکتی ہے۔ 9/11 کے بعد امریکا نے بڑے زور و شور سے افغانستان پر چڑھائی کی اور تاریخ کی وہ کارپٹ بمباری کی جس سے افغانستان کے پہاڑ جل کر سیاہ ہو گئے۔ نیٹو سمیت اپنے درجنوں اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان کو زیر کرنے کی کوشش کی۔ غالباً امریکا کو یہ بات یاد نہیں رہی کہ روس کو اپنی تمام تر طاقت استعمال کرنے کے باوجود افغانستان سے نکلنا پڑا۔ بش حکومت نے انتقام میں اندھی بن کر افغانستان پر حملہ کرنے کی جو حماقت کی اس کا انجام یہ ہوا کہ افغانستان میں طالبان اور مضبوط ہوئے اور امریکا نیٹو اور اتحادی ملکوں کو افغانستان سے نکلنا پڑا۔ المیہ یہ ہے کہ 9/11 کے انتقام میں بش حکومت نے جس اندھے پن کا مظاہرہ کیا اس کا سب سے سنگین نتیجہ دہشت گردی میں بے پناہ اضافے کی شکل میں نکلا۔ اگر امریکا کے سابق صدر اوباما افغانستان سے امریکی اور اتحادی فوج کو واپس بلانے کا عاقلانہ فیصلہ نہ کرتے تو امریکا اس دلدل میں غرق ہو چکا ہوتا۔
اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان پاکستان پر افغانستان کے خلاف اعلانیہ جنگ مسلط کرنے کا الزام لگا رہا ہے۔ افغانستان اگر اپنے پڑوسی ملک کو پھلانگ کر بھارت کو اپنا پڑوسی بنانے کی کوشش کرے گا تو پھر پاکستان کے ردعمل کو غیر منطقی نہیں کہا جا سکتا۔ اس حوالے سے اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ افغانستان پاکستان اور بھارت تینوں ہی غریب ترین ملک ہیں، جہاں کے عوام کی 50 فیصد سے زیادہ تعداد غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ایسے ملکوں کے حکمرانوں کو قطعی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے قومی وسائل جنگوں اور ہتھیاروں کی خریداری پر ضایع کریں۔ تینوں ملکوں کے عوام کا فرض ہے کہ وہ حکمرانوں کو جنگوں سے روکیں اور امن کی طرف لے آئیں۔