جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
اس JIT کو عام JIT نہ سمجھا جائے جو شواہدات جمع کرتی ہے
بہت ساری باتیں اور بہت ساری قیاس آرائیاں ہیں۔ JIT کیا کروٹ لے گی، سپریم کورٹ نے کیا فیصلہ دینا ہے؟ وزیراعظم جائیں گے یا نہیں جائیں گے۔ اگر JIT نے تحقیق مکمل کی تو پھر اس کیس کو ٹرائل کورٹ میں جانا ہوگا، شریف خاندان پر Burden of Proofکی ذمے داری نہیں ہے۔ یہ انھوں نے ثابت کرنا ہے جنھوں نے الزام لگایا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کچھ تفصیل کے اس موڑ پر کہا جارہا ہے جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
کیس ختم ہونے جارہا ہے اور یہ کیس کی ابتدا کر رہے ہیں۔ پروپیگنڈا کا بازار گرم ہے، اتنا گرم کہ خود اس کا گرم ہونا بے معنی ہوگیا ہے۔ میڈیا، مخصوص انداز میں کورٹ کو سمجھا رہا ہے کہ آئین کیا ہے اور قانون کیا ہے۔ وکیل کا کیا ہے، جو اسے فیس دے گا وہ اسی کا کیس گائے گا۔
ہم سب مفادات میں بٹے ہوئے ہیں۔ مفادات سے ہماری سوچیں، ہماری سمجھ بوجھ، حتیٰ کہ ہمیں دِکھ بھی وہی رہا ہوتا جو کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں، اور ہم جو دیکھنا نہیں چاہتے ہیں وہ ہمیں دِکھ بھی نہیں رہا ہوتا۔ پہلے آتے ہیں ٹرائل کی بات پر، پٹیشنرز سپریم کورٹ کے مفادعامہ کی جیورسڈکشن میں پہنچے، ورنہ یہ کیس پاناما لیکس کے بعد نیب کا تھا۔
اب اس بات سے اندازہ لگائیے کہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ قاتل مقتول ٹھہرے اور مقتول قاتل۔ پاناما کیس میں سپریم کورٹ نے نیب سے پوچھا کہ آپ اپیل میں کیوں نہیں گئے؟ اس سوال کا خاطر خواہ جواب نہ ملا۔ بالآخر اس تمام پسِ منظر میں جو کام اس کو کرنا تھا، یہ ذمے داری بھی سپریم کورٹ پر آن پڑی۔ سپریم کورٹ کا یہ کام نہیں کہ شواہدات کو دیکھے، ناپے، تولے اور ٹٹولے۔
سپریم کورٹ کو اس حوالے سے مدد اور معاونت کی ضرورت تھی۔ سابق چیف جسٹس ظہیر جمالی جب اس بینچ میں تھے تو ریمارکس میں دو تین مرتبہ یہ کہا کہ شواہدات کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا جائے۔ پھر جب جمالی صاحب ریٹائر ہوئے تو ایک نئی بینچ بنی فیصلہ آنے کے بعد، دو جج صاحبان تو معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے، انھوں نے وزیراعظم کو اس پبلک آفس کے شایانِ شان نہیں سمجھا، تین نے کہا ہم اس جھوٹ اور سچ سے قطع نظر اس حقیقت تک تب پہنچیں گے جب ہمیں تیرہ سوالوں کے جواب ہاں یا ناں میں ملیں گے۔ اور ان تیرہ سوالات کے جوابات کے لے بنے گی JIT۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ JIT کیوں بنی؟ اور کیوں کمیشن نہیں بنایا گیا؟
کمیشن اور JIT ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ ایک دیوانی نوعیت کے شواہدات کی چھان بین کرتا یعنی Evidential process in civil Cases اور دوسرا فوجداری نوعیت کے شواہدات کی چھان بین کرتا یعنی Evidential process in criminal Cases۔
اس JIT کو عام JIT نہ سمجھا جائے جو شواہدات جمع کرتی ہے، کیس بناتی ہے اور ٹرائل کورٹ کو ریفر کرتی ہے۔ یہ JIT کورٹ نے بنائی ہے کہ شواہدات کو ناپو، تولو، پھونکو، ٹٹولو اور بالکل بلیک اینڈ وائٹ انداز میں بتاؤ کہ شواہدات کیا کہتے ہیں اور ان شواہدات کو ان تیرہ سوالوں کے تناظر میں ہاں یا ناں میں بتاؤ۔ اور پھر اس طرح جے آئی ٹی Evidentiary Process of Supreme court بنی۔ کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ناقص کارکردگی اور اداروں کی بربادی نے کورٹ کے لیے کوئی راستہ ہی نہیں چھوڑا سوائے اس کے کہ JIT کو بنایا جائے، یعنی ایسے حالات تھے کہ جو Sui generis تھے یعنی JIT سپریم کورٹ نے اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ بنائی، تب اب خود فیصلہ کیجیے کہ اس میں ٹرائل کورٹ کہاں ہے جو کہ آج کل پروپیگنڈہ کا ہاٹ ایشو ہے۔
JIT کی تفتیش کا ایک فائدہ شریف خاندان کو بھی حاصل ہے، یعنی اگر کمیشن بنتا شواہدات کی تحقیق کے لیے Balance of Probabilityکا اصول اپناتا تو اس اصول کے تحت شریف خاندان کو مزید پکڑ میں لیا جاتا، لیکن JIT کو شواہدات کو Behind Resonable Doubt کے تناظر میں دیکھنا ہوگا، یعنی صرف ثبوت نہیں بلکہ ٹھوس ثبوت دینا ہوں گے۔ ان تیرہ سوالات کے جوابات ہاں یا ناں میں دینے کے لیے۔ اور اگر اب بھی کچھ نہیں ہے میاں صاحب کے پاس اپنے دفاع کے لیے تو کوئی کیا کرے۔ ان تیرہ سوالات میں سے ایک کا جواب بھی اگر اس طرح آتا ہے جس سے شریف خاندان بالخصوص میاں صاحب مجرم قرار پاتے ہیں تو سپریم کورٹ نے ان کو مجرم کی سزا نہیں دینی ہے اور یہ کیس حقیقتاً نیب یا کسی ٹرائل کورٹ میں جائے گا، لیکن وزیراعظم تا حیات Disqualified ہوجائیں گے دوبارہ وزیراعظم یا اسمبلی کا ممبر بننے کے لیے۔ اور اس فیصلے کے بعد وہ لمحہ بھر کے لیے بھی پاکستان کے وزیراعظم نہیں ٹھہر پائیں گے۔ باقی جو کچھ بھی ہے وہ نیب نے کرنا ہے مگرEvidentiary process اس کو سپریم کورٹ کی JIT کا ہی Own کرنا ہوگا۔
یعنی ٹرائل کا وہ حصہ چلے گا جس میں Recovery کی جائے گی اور یہی کام FBR بھی کرے گا اور تمام ادارے بھی۔ رہا سوال Burden of Proof کے پروپیگنڈہ کا، وہ تو حکمران خود ہی قطری شہزادے کا خط دے کر 'آ بیل مجھے مار' کی مثال کی طرح ثابت کرچکے ہیں۔ اپنے بیانات میں انھوں نے اتنے تضادات پیدا کیے ہیں کہ خود اپنا دفاع کرنا مشکل بنادیا ہے۔ اب اس مفاد عامہ کی جیورسڈکشن میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے فیصلہ بھی اب کورٹ کرے گی کہ Burden of Proof کس پر ہونا چاہیے، آیا کہ انویسٹی گیشن سمری ٹرائل جیسی ہونی چاہیے یعنی Rebuttable Presumption کی طرح ہونی چاہیے، یعنی کہ تم چور تو ہو اب یہ تم بتاؤ کہ تم چور کیوں نہیں ہو۔ حالات و سکنات کا ایک مقام یہ بھی آتا ہے جب کورٹ Irrebuttable Presumption پر بھی آجاتی ہے۔ یہ وہ مقام ہوگا جب حسین نواز یہ ثابت کرنے میں ناکام ہوں گے کہ ان کہ پاس اتنی دولت کہاں سے آئی۔ کہیں پھر کورٹ یہ نہ سمجھے کہ یہ دولت ان کو ان کے والد محترم نے عنایت کی۔
کیس ختم ہونے جارہا ہے اور یہ کیس کی ابتدا کر رہے ہیں۔ پروپیگنڈا کا بازار گرم ہے، اتنا گرم کہ خود اس کا گرم ہونا بے معنی ہوگیا ہے۔ میڈیا، مخصوص انداز میں کورٹ کو سمجھا رہا ہے کہ آئین کیا ہے اور قانون کیا ہے۔ وکیل کا کیا ہے، جو اسے فیس دے گا وہ اسی کا کیس گائے گا۔
ہم سب مفادات میں بٹے ہوئے ہیں۔ مفادات سے ہماری سوچیں، ہماری سمجھ بوجھ، حتیٰ کہ ہمیں دِکھ بھی وہی رہا ہوتا جو کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں، اور ہم جو دیکھنا نہیں چاہتے ہیں وہ ہمیں دِکھ بھی نہیں رہا ہوتا۔ پہلے آتے ہیں ٹرائل کی بات پر، پٹیشنرز سپریم کورٹ کے مفادعامہ کی جیورسڈکشن میں پہنچے، ورنہ یہ کیس پاناما لیکس کے بعد نیب کا تھا۔
اب اس بات سے اندازہ لگائیے کہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ قاتل مقتول ٹھہرے اور مقتول قاتل۔ پاناما کیس میں سپریم کورٹ نے نیب سے پوچھا کہ آپ اپیل میں کیوں نہیں گئے؟ اس سوال کا خاطر خواہ جواب نہ ملا۔ بالآخر اس تمام پسِ منظر میں جو کام اس کو کرنا تھا، یہ ذمے داری بھی سپریم کورٹ پر آن پڑی۔ سپریم کورٹ کا یہ کام نہیں کہ شواہدات کو دیکھے، ناپے، تولے اور ٹٹولے۔
سپریم کورٹ کو اس حوالے سے مدد اور معاونت کی ضرورت تھی۔ سابق چیف جسٹس ظہیر جمالی جب اس بینچ میں تھے تو ریمارکس میں دو تین مرتبہ یہ کہا کہ شواہدات کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا جائے۔ پھر جب جمالی صاحب ریٹائر ہوئے تو ایک نئی بینچ بنی فیصلہ آنے کے بعد، دو جج صاحبان تو معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے، انھوں نے وزیراعظم کو اس پبلک آفس کے شایانِ شان نہیں سمجھا، تین نے کہا ہم اس جھوٹ اور سچ سے قطع نظر اس حقیقت تک تب پہنچیں گے جب ہمیں تیرہ سوالوں کے جواب ہاں یا ناں میں ملیں گے۔ اور ان تیرہ سوالات کے جوابات کے لے بنے گی JIT۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ JIT کیوں بنی؟ اور کیوں کمیشن نہیں بنایا گیا؟
کمیشن اور JIT ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ ایک دیوانی نوعیت کے شواہدات کی چھان بین کرتا یعنی Evidential process in civil Cases اور دوسرا فوجداری نوعیت کے شواہدات کی چھان بین کرتا یعنی Evidential process in criminal Cases۔
اس JIT کو عام JIT نہ سمجھا جائے جو شواہدات جمع کرتی ہے، کیس بناتی ہے اور ٹرائل کورٹ کو ریفر کرتی ہے۔ یہ JIT کورٹ نے بنائی ہے کہ شواہدات کو ناپو، تولو، پھونکو، ٹٹولو اور بالکل بلیک اینڈ وائٹ انداز میں بتاؤ کہ شواہدات کیا کہتے ہیں اور ان شواہدات کو ان تیرہ سوالوں کے تناظر میں ہاں یا ناں میں بتاؤ۔ اور پھر اس طرح جے آئی ٹی Evidentiary Process of Supreme court بنی۔ کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ناقص کارکردگی اور اداروں کی بربادی نے کورٹ کے لیے کوئی راستہ ہی نہیں چھوڑا سوائے اس کے کہ JIT کو بنایا جائے، یعنی ایسے حالات تھے کہ جو Sui generis تھے یعنی JIT سپریم کورٹ نے اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ بنائی، تب اب خود فیصلہ کیجیے کہ اس میں ٹرائل کورٹ کہاں ہے جو کہ آج کل پروپیگنڈہ کا ہاٹ ایشو ہے۔
JIT کی تفتیش کا ایک فائدہ شریف خاندان کو بھی حاصل ہے، یعنی اگر کمیشن بنتا شواہدات کی تحقیق کے لیے Balance of Probabilityکا اصول اپناتا تو اس اصول کے تحت شریف خاندان کو مزید پکڑ میں لیا جاتا، لیکن JIT کو شواہدات کو Behind Resonable Doubt کے تناظر میں دیکھنا ہوگا، یعنی صرف ثبوت نہیں بلکہ ٹھوس ثبوت دینا ہوں گے۔ ان تیرہ سوالات کے جوابات ہاں یا ناں میں دینے کے لیے۔ اور اگر اب بھی کچھ نہیں ہے میاں صاحب کے پاس اپنے دفاع کے لیے تو کوئی کیا کرے۔ ان تیرہ سوالات میں سے ایک کا جواب بھی اگر اس طرح آتا ہے جس سے شریف خاندان بالخصوص میاں صاحب مجرم قرار پاتے ہیں تو سپریم کورٹ نے ان کو مجرم کی سزا نہیں دینی ہے اور یہ کیس حقیقتاً نیب یا کسی ٹرائل کورٹ میں جائے گا، لیکن وزیراعظم تا حیات Disqualified ہوجائیں گے دوبارہ وزیراعظم یا اسمبلی کا ممبر بننے کے لیے۔ اور اس فیصلے کے بعد وہ لمحہ بھر کے لیے بھی پاکستان کے وزیراعظم نہیں ٹھہر پائیں گے۔ باقی جو کچھ بھی ہے وہ نیب نے کرنا ہے مگرEvidentiary process اس کو سپریم کورٹ کی JIT کا ہی Own کرنا ہوگا۔
یعنی ٹرائل کا وہ حصہ چلے گا جس میں Recovery کی جائے گی اور یہی کام FBR بھی کرے گا اور تمام ادارے بھی۔ رہا سوال Burden of Proof کے پروپیگنڈہ کا، وہ تو حکمران خود ہی قطری شہزادے کا خط دے کر 'آ بیل مجھے مار' کی مثال کی طرح ثابت کرچکے ہیں۔ اپنے بیانات میں انھوں نے اتنے تضادات پیدا کیے ہیں کہ خود اپنا دفاع کرنا مشکل بنادیا ہے۔ اب اس مفاد عامہ کی جیورسڈکشن میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے فیصلہ بھی اب کورٹ کرے گی کہ Burden of Proof کس پر ہونا چاہیے، آیا کہ انویسٹی گیشن سمری ٹرائل جیسی ہونی چاہیے یعنی Rebuttable Presumption کی طرح ہونی چاہیے، یعنی کہ تم چور تو ہو اب یہ تم بتاؤ کہ تم چور کیوں نہیں ہو۔ حالات و سکنات کا ایک مقام یہ بھی آتا ہے جب کورٹ Irrebuttable Presumption پر بھی آجاتی ہے۔ یہ وہ مقام ہوگا جب حسین نواز یہ ثابت کرنے میں ناکام ہوں گے کہ ان کہ پاس اتنی دولت کہاں سے آئی۔ کہیں پھر کورٹ یہ نہ سمجھے کہ یہ دولت ان کو ان کے والد محترم نے عنایت کی۔