عید گاہ مسجد ملتان میں مسلم حکمرانی کی تاریخی یادگار

1735ء میں مغل بادشاہ محمد شاہ کے دور میں تعمیر ہونے والی عید گاہ ملتانی فن تعمیر کا شاہکار ہے

1735ء میں مغل بادشاہ محمد شاہ کے دور میں تعمیر ہونے والی عید گاہ ملتانی فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
ملتان کی قدامت کے حوالے میں دیگر تاریخی عمارات کے ساتھ ساتھ چند قدیم مساجد بھی آتی ہیں، شہر کی یہ مساجد جو اپنے تاریخی شکوہ اور منفرد طرز تعمیر کے حوالے سے معروف ہیں، اپنے دامن میں بہت سی کہانیاں بھی لیے ہوئے ہیں۔

ان تاریخی مساجد میں مسجد باقر خان، ساوی مسجد، مسجد پھول ہٹاں، مسجد علی محمد خان، ابدالی مسجد، مسجد سلطان حیات خان، مسجد خدکہ، مسجد شاہ گردیز، مسجد دربار پیر صاحب، جامع مسجد گڑ منڈی، مسجد درس والی، مسجد خواجہ اویس کھگہ اور مسجد نواب احمد یار خان شامل ہیں۔

ان تاریخی مساجد میں 1735ء میں تعمیر ہونے والی عید گاہ مسجد اپنی وسعت، محل وقوع اور تاریخی اہمیت کے حوالے سے منفرد مقام کی حامل ہے۔ ملتان کا قدیم شہر، جو چھ دروازوں اور فصیل کے اندر صدیوں تک زندگی گزارتا رہا، میں بھی چند تاریخی مساجد موجود تھیں۔ ایک وقت تھا کہ شہر کے مسلمان اپنی تمام تر مذہبی رسومات شہر کے اندر ہی ادا کرتے تھے، آبادی بڑھنے سے جب اندرون شہر کی مساجد عیدین اور دیگر مذہبی اجتماعات کے لیے تنگ داماں ہوئیں تو شہر کے باہر بڑی مساجد کی ضرورت پیش آئی، لہذا انہی ضروریات کے پیش نظر ملتان کے گورنر نواب عبدالصمد خان نے شہر اور قلعہ کی قربت کی مناسبت سے ایک وسیع اور عالی شان عید گاہ مسجد کی بنیاد رکھی۔ ملتان کی اس تاریخی عید گاہ کی تعمیر سے پہلے ایک اور تاریخی مسجد، مسجد باقر خان میں بھی عید کی نماز ادا کی جاتی تھی۔

ملتان کی تاریخی عید گاہ کی بنیاد رکھنے والا نواب عبدالصمد خان تورانی 1713ء سے 1726ء تک لاہور جبکہ 1726ء سے 1737ء تک ملتان کا گورنر رہا، اس دور میں صوبہ جات کے گورنروں کو اپنے علاقہ کے اندرونی معاملات کے لیے مکمل اختیار حاصل تھا، گو نواب عبدالصمد خان اپنی مرضی اور قابلیت کے بل بوتے پر حکومت کرتے تھے، لیکن اس کے باوجود یہ شہنشاہ دہلی کے وفادار تھے۔

22 فروری 1713ء کو جب نواب عبدالصمد خان گورنر لاہور بن کر پنجاب آیا تو اس وقت بندہ بیراگی مضبوط اور خونخوار ہو چکا تھا اور ساڈھورے کے قریب ایک مضبوط قلعہ بنا کر مقیم تھا' اس نے میدانی علاقوں میں مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رکھے تھے۔ نواب عبدالصمد خان نے آٹھ ماہ کی جنگ کے بعد اسے گرفتار کرکے ایک آہنی پنجرے میں بند کر دیا اور اسے اس کے 740 ساتھیوں سمیت اپنے بیٹے نواب زکریا خان کے ذریعے دہلی بھجوایا' جس طرح بندہ بیراگی نے ہزاروں بے گناہ مسلمان مردوں' عورتوں اور بچوں کا خون بہایا تھا، اسے اسی طرح اس کے ہمراہیوں سمیت کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔ بندہ سنگھ بہادر کا خاتمہ نواب عبدالصمد خان کا بڑا کارنامہ تھا، جس پر انہیں مغل دربارہ سے دلیر جنگ کا خطاب ملا۔ نواب عبدالصمد جو لاہور میں اپنے اعلیٰ انتظامات کی وجہ سے ہر دلعزیز حکمران تھے، ملتان کیسے آئے' اس بارے میں کنہیا لال کپور اپنی کتاب ''تاریخ پنجاب'' میں لکھتے ہیں:

''اوائل حکومت میں اس نے پنجاب میں خوب انتظام رکھا' غارت گری کا بازار بالکل سرد ہو گیا مگر چند سال بعد امورات مملکت کی خبر گیری اس نے بالکل چھوڑ دی' اس سبب سے سکھوں نے پھر سر نکالا اور جا بجا غارت گری ہونے لگی' سکھ غارت گر شہر لاہور کے دکانداروں کو لوٹ کر لے جاتے اور کوئی ان کا تعاقب نہ کرتا، جب ایسی ایسی بے انتظامیاں پنجاب میں ہونے لگیں تو بادشاہ، نواب عبدالصمد خان کی بد انتظامی سے ناراض ہو گیا چنانچہ نواب عبدالصمد خان کے فرزند نواب زکریا خان جو ان دنوں دہلی میں تھا کو لاہور کی نظامت سونپ کر نواب عبدالصمد خان کو ملتان کا ناظم بنا دیا''۔

بعض دیگر تاریخی کتب میں لکھا ہے کہ ''فرخ سیر نے نواب عبدالصمد خان کو لاہور کا گورنر بنایا تو اس نے سختی سے سکھوں کا قلع قمع کرکے صوبہ بھر میں امن قائم کر دیا، اگلے تیس سال تک اس کے بیٹے اور پوتوں نے بھی سکھوں کو ابھرنے نہ دیا۔ نواب عبدالصمد خان کے حالات و واقعات پر لکھی گئی کتاب ''اسرار صمدی'' سے پتہ چلتا ہے کہ 1726ء کے قریب صوبہ ملتان کے حالات بگڑ چکے تھے، ارباب اختیار مضطرب تھے کہ کوئی مناسب شخص ناظم ملتان مقرر کیا جائے، آخر نواب عبدالمصد خان کو اس کے لیے منتخب گیا ہے، پہلے تو نواب صاحب نے پیرانہ سالی اور آب وہوا کی خرابی کے باعث ملتان آنے سے انکار کیا لیکن بعد ازاں انہوں نے لاہور کا نظم و نسق اپنے بیٹے کے حوالے کیا اور خود ملتان آگئے، نواب صاحب کی کوششوں سے صوبہ ملتان بھی صوبہ لاہور کی طرح امن کا گہوارہ بن گیا''۔ نواب عبدالصمد خان 1726ء میں ملتان آئے اور 1737ء میں اپنی وفات تک ملتان میں ہی رہے، وفات کے بعد نواب عبدالصمد خان کا جسد خاکی ان کے فرزند نواب زکریا خان جو لاہور میں اپنے والد کی طرف سے نائب تھا لاہور لے گیا، جہاں نواب عبدالصمد خان کو لاہور کے علاقے بیگم پورہ میں سپرد خاک کیا گیا۔

نواب عبدالصمد خان کے ملتان میں دور حکمرانی کی سب سے اہم یادگار عید گاہ ملتان کی تعمیر ہے، یہ عظیم عید گاہ مغل بادشاہ محمد شاہ کے زمانے میں 1735ء میں تعمیر ہوئی۔ یہ تاریخی عید گاہ لاہور ملتان روڈ جسے مقامی طور پر خانیوال روڈ کہا جاتا ہے پر واقع ہے، اس کے عین سامنے ایک سڑک مزار شاہ شمسؒ اور دولت گیٹ چوک کی طرف جا رہی ہے، نواب عبدالصمد خان کے دور سے پہلے ملتان کی یہ عید گاہ محض چار دیواری پر مشتمل تھی، جہاں بارش اور دھوپ کی صورت میں نمازیوں کو سخت مشکل کا سامنا کرنا پڑتا تھا، لیکن نواب عبدالصمد خان نے پرانی دیواروں کو گرا کر ازسر نو مسقف عید گاہ تعمیر کرائی جو 1735ء میں تکمیل کو پہنچی، یہ عمارت بہت ہی نفیس انداز میں بنی ہوئی ہے، مسجد کا محراب دار مسقف دالان 250 فٹ لمبا اور 50 فٹ چوڑا ہے، اس کے سات گنبد ہیں درمیانی گنبد سب سے اونچا اور نمایاں ہے، جو دور سے ہی اس عظیم مسجد کی نشاندہی کرتا ہے۔

اس کے دونوں طرف تین تین مزید چھوٹے گنبد ہیں جو باہر سے نظر نہیں آتے مگر برآمدہ میں صاف دکھائی دیتے ہیں، مسجد کا زیر فرش صحن اس کے مسقف دالان سے دوگنا ہے، اندر داخل ہوتے ہی ایک کھلا میدان ہے، ساتھ ہی عید گاہ کی بلند عمارت ہے۔ عید گاہ کے صدر دروازے پر کوئی تحریر نہیں، البتہ محراب پر ''اللہ الصمد'' لکھا ہوا ہے۔ اس عید گاہ کی مرکزی عمارت میں داخلے کے پانچ دروازے ہیں، ان دروازوں اور باقی دیواروں پر نقاشی کی گئی ہے، آیات قرآنی کے علاوہ کلمہ طیبہ، اسمائے ربانی اور بعض اشعار درج ہیں، مرکزی محراب پر بھی کچھ قرآنی آیات لکھی گئی ہیں۔ عید گاہ کی دائیں دیوار پر تین کتبے لگے ہیں، ایک کتبے پر فارسی میں عید گاہ کی تعمیر و مرمت کے حوالے سے ضروری تفصیلات دی گئی ہیں، دوسرے کتبے پر بعنوان '' اسمائے معاونان مرمت عید گاہ مع رقم عطیہ کثیر'' عطیہ دہندگان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:

''سرکار دولت مدار ڈسٹرکٹ بورڈ میونسپل کمیٹی اور ایچ سی کک سن صاحب مرحوم کے علاوہ لڈن کے غلام محمد دولتانہ، محمد یار خاکوانی، احمد یار خان، محمد یار خان، خدا بخش خان وسیر، غلام رسول شاہ آف کورنگہ، ہراج خاندان کے مہر اللہ یار، محبت اور سجاول، کھوکھر برادری کے خدا بخش، احمد بخش اور کریم بخش، قریشی خاندان کے ریاض حسین، بہاول بخش، خواجہ برادری کے منور دین، خلیفہ پیر بخش، خلیفہ واحد بخش کے علاوہ سید حسین بخش گردیزی، محمد خان بوسن، کرم خان ڈاہا، سردار عبدالرحمن گنڈا پور، شیخ عبدالحق وکیل، سید خدا بخش ناگوری، غلام رسول بھٹہ، نواب عاشق محمد خان اور سادات کوٹلہ شامل ہیں''۔

سکھوں کے زمانہ میں ملتان کی دیگر تاریخی مساجد کی طرح اس عید گاہ پر بھی دور ابتلا آیا، سکھوں نے اس عید گاہ کو اپنا فوجی ہیڈ کوارٹر اور اسلحہ ڈپو بنا رکھا تھا، اسی جگہ شاہی مہمانوں کو بھی ٹھہرایا جاتا تھا۔ ملتان کا سکھ گورنر دیوان مولراج 1848ء میں لاہور دربار سے اختلافات کے باعث مستعفی ہو گیا، نئے سکھ گورنر کاہن سنگھ کے ہمراہ دو انگریز افسران پیٹرک وانزایگنیو اور ولیم اینڈرسن قلعہ کا قبضہ دلانے کے لیے ملتان آئے تو انہیں عید گاہ میں ہی ٹھہرایا گیا، یہ دونوں انگریز افسر 19 اپریل 1848ء کو اسی عید گاہ میں سکھوں کے ہاتھوں مارے گئے۔


ان دونوں افسران کے قتل کے بعد انگریز فوج وحشیانہ انداز میں ملتان ہی داخل ہوئی تو یہ عید گاہ بھی حملوں کی زد میں آئی، توپ کے ایک گولے سے اس تاریخی عید گاہ کی چھت کو بھی شدید نقصان پہنچا کیوں کہ سکھ اسے بارود خانے کے طور پر بھی استعمال کر رہے تھے، انگریزوں نے ملتان پر تسلط قائم کرنے کے بعد اس تاریخی عید گاہ میں دیوانی عدالتیں قائم کر دیں اور ناظم ملتان یعنی ڈپٹی کمشنر ایچ سی کک سن کی کچہری بھی اسی عید گاہ میں بنا دی گئی، ملتان کے مسلمان جو سکھ دور سے اس عید گاہ کی بے حرمتی پر غم و غصہ کا شکار تھے۔



1863ء میں اس عید گاہ کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن ملتان کے انگریز حکمرانوں نے عید گاہ اس شرط پر مسلمانوں کو واپس کی کہ یہاں سے مذکورہ بالا انگریز افسران کے قتل کا یادگاری پتھر نہیں ہٹایا جائے گا۔ 1891ء میں اس تاریخی عید گاہ کی حالت بہت خستہ ہو چکی تھی، جس پر نواب محمد حیات خان ڈویژنل جج اور مسٹر کک سن ڈپٹی کمشنر کی کوششوں سے سرکار نے دس ہزار روپے اس کی تزئین و آرائش کے لیے جاری کیے اور اتنے ہی پیسے چندہ کی صورت میں بھی جمع کیے گئے، یوں 1894ء میں شیخ ریاض حسین قریشی کی نگرانی میں اس کی مرمت شروع ہوئی، عطیہ دہندگان کے نام بھی عید گاہ میں ایک کتبہ پر درج کیے گئے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ملتان کی اس تاریخی عید گاہ کا حقیقی حسن بحال ہوا، مختلف اوقات میں اس کی تزئین و آرائش ہوتی رہی، آج اس تاریخی عید گاہ میں ایک لاکھ کے قریب لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں، 7 جون 1986ء کو ملتان کی معروف روحانی شخصیت احمد سعید کاظمیؒ کو ان کی وفات کے بعد عید گاہ کے قریب ہی دفن کیا گیا، آج ان کا مزار عید گاہ کے ساتھ ہی مرجع خلائق ہے۔

فتویٰ لائوڈ سپیکر اور عید گاہ ملتان
معروف ادیب اور مؤرخ دائود طاہر کی کتاب ''ارمغان ملتان'' کے مطابق: ''ملتان میں اذان اور مذہبی اجتماعات کے لیے لائوڈ سپیکر کا استعمال بھی پہلی بار اسی عید گاہ میں ہوا، یہ ایجاد مسلمانان ملتان کے لیے بالکل نئی تھی لہذا اس کے جواز پر بحث چل نکلی ''انجمن احیائے السنہ ملتان شہر'' نے اس موضوع پر ہندوستان بھر کے علماء سے فتویٰ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا اور 1940ء کے لگ بھگ ''فتویٰ لائوڈ سپیکر'' کے نام سے چالیس صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ شائع کیا، لائوڈ سپیکر کے مسئلہ پر ملتان کے مفتی اعظم ملا محمد عبدالعلیم خان ملتانی نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ ''اگر کوئی شخص اس آلہ کے پیدا شدہ آواز پر امام کی اقتدا کرے تو کیا اس کی نماز صحیح ہو گی یا اعادہ لازم ہو گا'' جس کے جواب میں ہندوستان بھر کے بیس مشہور مدارس کے فتاویٰ اور ساٹھ کے قریب صاحب نظر حضرات کی انفرادی آراء موصول ہوئیں۔ اس کتابچے میں کئی مشہور مدارس کے فتووں کے علاوہ سید حسین احمد مدنی، مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا محمد حسین ابن پیر جماعت علی شاہ سمیت کئی معتبر افراد کی آرا شامل ہیں۔ اس کتابچہ سے پتہ چلتا ہے کہ لائوڈ سپیکر کے حوالے سے اس وقت کے علماء کی بڑی تعداد اس کے استعمال کے خلاف تھی، بعد ازاں یہ مساجد کا لازمی حصہ بن گیا۔

شاہی عید گاہ ملتان اور معروف ادیب مختار مسعود
معروف ادیب مختار مسعود جب ملتان میں بطور ڈپٹی کمشنر تعینات تھے، تو انہوں نے ملتان کی شاہی عید گاہ کی تعمیر و مرمت کیلئے خصوصی اقدامات کئے۔ اس تاریخی عید گاہ کی توسیع و مرمت کیلئے انہیں ملتان کی معروف شخصیت منشی عبدالرحمن کی معاونت بھی حاصل تھی۔ منشی عبدالرحمن خان اپنی کتاب ''ناقابل فراموش شخصیات'' کے صفحہ 252 پر رقم طراز ہیں کہ ''ملتان کی تاریخی عید گاہ کسی ڈھکی چھپی جگہ پر نہیں بلکہ ایل ایم کیو روڈ پر ہر گزرنے والے کو دعوت نظارہ دیتی رہتی ہے مگر ملتان کے کسی ڈپٹی کمشنر کو اس کی توسیع کی توفیق نصیب نہ ہوئی۔

اگر یہ توفیق ہوئی تو ایک ترقی پسند ڈپٹی کمشنر کو۔ مختار مسعود نے اس تاریخی مسجد کی مرمت کرانے کے علاوہ اس میں توسیع کرا کے اہل شہر کی بہت بڑی ضرورت پوری کرا دی اور نہایت خوبصورت انداز میں عید گاہ کے سابقہ رقبہ جتنا مزید رقبہ اس میں شامل کرکے اس کو پہلے سے دو گنا کر دیا اور اس کے گنبدوں اور دیواروں کی مرمت و مینا کاری کرا کے اس کے حسن کو دوبالا کر دیا''۔ ملتان کی شاہی عید گاہ کی تعمیر و مرمت کے حوالے مختار مسعود نے معروف مورخ دائو د طاہر سے بھی کسی موقع پر گفتگو کی جو دائود طاہر کی کتاب ''ارمغان ملتان'' میں شامل ہے۔ مختار مسعود نے دائود طاہر کو بتایا جب میں ڈپٹی کمشنر کے طور پر ملتان گیا تو یہ عید گاہ انتہائی ناگفتہ حالت میں تھی۔ چار دیواری کے کچھ نشانات تو ضرور باقی تھے لیکن اس کا اکثر حصہ منہدم ہو چکا تھا۔ شہر سے دوری کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کی آمدورفت بھی کم تھی چنانچہ اس کا مسقف حصہ جانوروں کی آماجگاہ بنا رہتا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ کچھ لوگ عید گاہ کی زمین قبضہ کرکے اسے زرعی مقاصد کیلئے استعمال کر رہے تھے۔

میں اس کی حالت زار پر ملول رہتا تھا اور میرے دل میں بار بار یہ خیال پیدا ہوتا تھا کہ اس عید گاہ کا اصل مقام بحال کیا جائے۔ چنانچہ میں نے اس کی تزئین و آرائش کے لئے ایک کمیٹی تشکیل کی جس کے سربراہ در محمد خاکوانی تھے، کمیٹی نے عید گاہ کے ناجائز قابضین سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد اس وقت کی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بالکل نئے سرے سے چار دیواری مکمل کرائی اور صحن میں فرش لگوایا۔ اس وقت تک پاکستان میں سنگ مرمر فراوانی سے دستیاب نہ تھا چنانچہ انجینئرز کے ساتھ مشورے کے بعد فیصلہ ہوا کہ گنبد پر سفید چپس استعمال کیا جائے۔ اس کام کیلئے پانی کی ضرورت بہت زیادہ ہوتی ہے اور پورے ملتان میں ایسی کوئی موٹر نہ تھی جو پانی اتنی بلندی تک چڑھا سکتی بالآخر ڈائریکٹر سول ڈیفنس لاہور نے مطلوبہ موٹر فراہم کی''۔ 1848ء میں عید گاہ میں قتل ہونیوالے دو انگریز افسران کا یادگاری پتھر بھی مختار مسعود صاحب نے ہٹوا دیا تھا جو عید گاہ میں ٹیوب ویل کے قریب نصب تھا۔

ملتان دا بناّ عید گاہ
ایک دور تھا کہ مشرقی سمت میں ملتان شہر کی حد عید گاہ پر ختم ہو جاتی تھی' عید گاہ سے آگے نہ تو شہر کی آبادی تھی اور نہ ہی کوئی ایسا مقام تھا جہاں شہریوں کی آمدورفت ہو، لہذا اس حوالے سے ملتانی زبان میں ایک کہاوت وجود میں آئی کہ ''ملتانی دا بناّ عید گاہ'' یعنی ایک ملتانی کو اپنے شہر سے اس قدر محبت ہے کہ اس کی حدود سفر صرف عید گاہ تک ہوتی ہے، اس سے آگے ملتانیوں کیلئے پردیس شروع ہو جاتا ہے چونکہ اس دور میں ملتان میں سرکار دربار کی زبان فارسی تھی اس لئے یہ ملتانی کہاوت فارسی میں بھی رائج ہو گئی جو ''سفر ملتانیاں تا بہ عید گاہ'' یعنی ملتانیوں کا سفر عید گاہ تک ہوتا ہے۔

ملتان کے شہریوں کو اپنے شہر سے اتنی محبت ہے کہ پڑھے لکھے لوگ بھی مشکل سے اپنا شہر چھوڑنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ انگریز مؤرخین کے نزدیک ملتانی اپنے ضلع کے سوا کسی کو کچھ نہیں سمجھتا چنانچہ وہ مسافروں پر اعتبار نہیں کرتا، اس کہاوت کی ایک تبدیل شدہ صورت یہ بھی ہے کہ ''دوست ملتان تا بہ عید گاہ'' یعنی ملتانی کی دوستی عید گاہ پر ختم ہو جاتی ہے' یا ملتانی کی دوستی صرف ایک میل کے قطر کے ساتھ چلتی ہے۔

(شاہد سعید مرزا)
Load Next Story