بُک شیلف

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
ابن صفی
شخصیت اور فن
مصنف: راشد اشرف
صفحات:466، قیمت:790روپے
ناشر: اٹلانٹس پبلی کیشنز، کراچی



یہ کتاب 2013ء میں منصۂ شہود پر آنے والی تصنیف کا اضافہ شدہ ایڈیشن ہے، جس میں جاسوسی ناول نگاری کے بے تاج بادشاہ ابن صفی کی پیدائش سے لے کر ان کی زندگی کے اہم حالات و واقعات، گھریلو زندگی، عادات واطواراور پسند وناپسند تک کا مکمل احاطہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں ابن صفی کے تخلیق کردہ کردار، تحریری تکنیک، ناولوں کے عنوانات، زبان اور ان پر تنقید، ان کے ناولوں کی نقل سے متعلق نہایت اہم مواد شامل کیا گیا ہے۔ ابن صفی کے صاحب زادے احمد صفی 'حرفے چند' میں راشد اشرف کے تحقیقی کاموں کو کسی حقیقی چراغ کے جن سے تعبیر کرتے ہیں، کہ کس طرح انہوں نے ابن صفی سے متعلق چُھپی ہوئی اور بھولی ہوئی چیزوں اور بکھری ہوئی معلومات کو جمع کر کے ایک دستاویز کی شکل دے دی ہے۔

کتاب کے مندرجات کو 17 بھرپور ابواب میں ترتیب دیا گیا ہے، جو باقاعدہ حوالوں سے آراستہ ہے، یوں ابن صفی پر تحقیق کرنے والوں کے لیے راشد اشرف نے ایک سہولت فراہم کی ہے۔ کتاب کے آخر میں ابن صفی کے تمام 125 ناولوں کی مکمل تفصیل مع سن اشاعت، ابن صفی کی نادر ونایاب تصاویر، ان پر لکھے گئے مضامین وکالموں کے اشاریے، یہاں تک کہ انٹرنیٹ پر دست یاب وڈیوتک کی تفصیلات درج کی گئی ہے۔ کتاب کے فلیپ پر ابن صفی سے متعلق ڈاکٹر عبدالقدیر خان، رضا علی عابدی، کمال احمد رضوی، افتخار امام صدیقی اور ڈاکٹر معین الدین عقیل کی آرا شامل کی گئی ہیں، جب کہ کتاب کے پچھلے سرورق پر نام وَر ادیب اور نقاد ڈاکٹر جمیل جالبی نے بھی راشد اشرف کی اس تصنیف کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔

مختصرسفرنامے ورپورتاژ
مرتبہ: راشد اشرف
صفحات:470، قیمت:500روپے
ناشر: بزم تخلیق ادب، کراچی



سفر کسی بھی تخلیقی ذہن رکھنے والے کے لیے نت نئے خیالات کی راہیں ہم وار کرتا ہے۔ نئی جگہ، نئے لوگ اور ان کے جداگانہ طور طریقوں سے لے کر وہاں کا جغرافیائی، سیاسی اور سماجی ماحول لکھنے والے کو مشاہدات کا موقع فراہم کرتا ہے۔

وہ جب اس احوال کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کرتا ہے، تو قاری کے لیے ایک طرف جہاں یہ کسی اچھوتے نگر کی سیر کا باعث بنتا ہے، وہیں اُسے سفرنامہ نگار سے منعکس ہونے والے مشاہدات اور تجربات سے بھی آگاہی ملتی ہے۔ سفر کے ذریعے کسی لکھنے والے قلم کو جو وسعت ملتی ہے، اس کا نعم البدل کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا۔ ہر سفر ہی اپنے سیر بین کے لیے الگ الگ تجربات رکھتا ہے، یہ کسی کہانی کار کے کورے ذہن پر کسی کہانی، ناول یا افسانے کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے، کسی شاعر پر کوئی خیال کسی مصرع کی صورت رواں ہو سکتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اس کی رپورتاژ قلم بند کرے، تو وہ ایک جداگانہ تحریر کی صورت ہی سامنے آتا ہے، کیوں کہ اس میں جذبی وقلبی میلان کے ساتھ لکھنے والے کی ذات بھی شامل ہوتی ہے، یوں بعض اوقات حقیقت وادب سے تشکیل پانے والے شہ پارے وجود میں آتے ہیں۔

زیرتبصرہ کتاب میں ایسے 18 مختصر سفرنامے اور نو رپورتاژ شامل کی گئی ہیں، جو مختلف رسائل وجرائد میں شایع ہوئیں، یہ جرائد نایاب ہوچکے ہیں، چناں چہ راشد اشرف نے انہیں قند مکرر کے طور پر کتابی صورت میں اہل ذوق کی نذر کیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس میں رنگون، انگلستان، افریقا اور ایران کے سفرناموں کو ہی شامل نہیں کیا گیا، بلکہ علی گڑھ، دلی، بمبمئی، حیدرآباد اور پشاور کے سفری احوال بھی قارئین کو خطے کے بھولے بسرے زمانے یاد دلاتے ہیں۔

کارواں (کالج میگزین)
گولڈن جوبلی نمبر
گورنمنٹ سائنس اینڈ کامرس کالج لانڈھی6
صفحات: 199، قیمت: درج نہیں



طلبا کی غیر نصابی سرگرمیوں میں جہاں کھیل کود، تحریری اور تقریری مقابلے نمایاں ہوتے تھے، وہیں کالج کے مجلہ، یا رسالے کے اجرا میں بھی خاصی دل چسپی لی جاتی تھی، لیکن ماضی کی یہ روایت اب قصۂ پارینہ بنتی محسوس ہوتی ہے۔ ایسے میں کسی کالج میگزین کی اشاعت ہوا کے کسی خوش گوار جھونکے کی مانند محسوس ہوتی ہے۔ اس رسالے کی ادارت میں اردو کے لیکچرر محمد رئیس بابو علی، لائبریرین عدنان ملک کے علاوہ بی ایس سی کے طالب علم خرم احمد خان شامل ہیں۔ رسالے میں مذہبی اور معاشرتی موضوعات پر مختلف مضامین شامل ہیں۔ 'کاروان' کا کاغذ بڑھیا اور طباعت معیاری ہے، مدت اشاعت واضح نہیں ہے۔ میگزین کے 136 صفحات اردو کے لیے، 30 صفحات انگریزی، جب کہ 33 صفحات سندھی مواد کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔

سلسلہ خطبات عرفان وتصوف
مصنف: حضرت صلاح الدین علی نادر عنقا
صفحات: 175، قیمت:350 روپے
ناشر: مکتب طریقت اویسی شاہ مقصودی، کراچی



یہ کتاب دراصل حضرت صلاح الدین علی نادر عنقا کے خطبات کا تحریری متن ہے، جس کی ترتیب وتدوین نرگس مرتضیٰ نے کی ہے، حضرت نادر عنقا نام وَر صوفی اساتذہ کے سلسلے کے 42 ویں استاد ہیں۔ انہوں نے امریکا سے ریاضیات اور طبعیات کی بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ عرفان وتصوف، سائنسی علوم، شاعری اور انسانی علوم کے موضوعات پر بھی مختلف تصانیف کے حامل ہیں۔

زیر تبصرہ کتاب میں عرفان وتصوف کے ساتھ امن، علم ، حکمت ودانش اور اسلام سے متعلق ابواب بنائے گئے ہیں۔ دیباچے میں پروفیسر سحر انصاری رقم طرا زہیں کہ جو مفکرین معاشیات، سیاسیات اور سماجی علوم کی روشنی میں انسان کو ایک سماجی اکائی کے طور پر پیش کرتے ہیں ، وہ بھی اس مکمل نظام فکر سے استفادہ کرسکتے ہیں، جو حضرت نادر عنقا کے اقوال میں مضمر ہے۔

And When She Smiled (ناول)

مصنف: ڈاکٹر صولت ناگی
ناشر: کتاب محل، دربار مارکیٹ لاہور
قیمت: 699 روپے، صفحات: 160



ڈاکٹر صولت ناگی مارکسزم اور تاریخ پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں، انگریزی اخبار میں کالم لکھتے ہیں۔ زیرنظر کتاب انگریزی میں لکھا گیا ایک مختصر ناول ہے جس کی قرأت سے خود مصنف کے مطالعے، فکر اور خیالات کو سمجھنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ کہانی تین مرکزی کرداروں احمد، فاطمہ اور ماریہ کے ایک ایسے تکون کے گرد گھومتی ہے جو انسانی زندگی کے اپنے اپنے دائرے میں اپنی اپنی حدود کے ساتھ، باطل تصورات کے ساتھ جینے والے معاشرے میں، خود کو زیادہ سے زیادہ آزاد کرنے کی جدوجہد سے تشکیل پاتا ہے۔

اس تکون نے اگرچہ ایک مختصر ناول کی تشکیل کی ہے۔ تاہم چار حصوں پر مشتمل یہ متن اپنے پہلے طویل ترین حصے میں ایک طویل نشست کی باہمی گفتگو کے ذریعے دو مرکزی کرداروں احمد اور فاطمہ کے خیالات اور معاشرتی زندگی کو کھولتا ہے۔ کردار مختلف فلسفیوں اور لکھاریوں کے خیالات کی مدد سے اپنے خیالات کی وضاحت کرتے ہیں۔ احمد کی غیرمعمولی زندگی، جس پر اس نے گہرا غلاف چڑھایا ہوا ہے، پیشۂ صحافت سے وابستہ دوسرے کارکنوں کی نظر میں ایک مغرور کی زندگی ہے۔ ماریہ جو سماج کی نگاہ میں پیشہ کرنے والی قابل نفرت عورت ہے، اپنے جسم کی ملکیت سے محروم ایک الگ طرح کی محبت میں گرفتار ہے۔

زندگی کے معاشی پہلو کو حقیقی پہلو سمجھنے والے ایک عجیب روحانی تعلق میں بندھے نظر آتے ہیں جس کی طرف پیش لفظ لکھنے والے ڈاکٹر گیری روزر نے مثالیت پسندی کہہ کر اشارہ کیا ہے۔ دھیرے دھیرے کھلتے اس ناول میں حزن اور ملال کا عنصر ایسے گھلتا ہے جیسے مٹھاس اور نمکینی ایک خاص تناسب کے ساتھ باہم آمیز ہورہے ہوں۔ ناول کا اختتام ایک ایسے منظر پر ہوتا ہے جس پر کسی نہایت جذباتی ہندی فلم کا گمان ہوتا ہے۔ تاہم طویل فکری مکالموں پر مشتمل ناول پسند کرنے والوں کے لیے یہ ایک تحفہ ہوسکتا ہے۔ کتاب کے گیٹ اپ کو دیکھتے ہوئے قیمت بہت زیادہ لگتی ہے۔
خالد بن ولیدؓ
مصنف...الماس ایم اے
قیمت...600 روپے
ناشر...مکتبہ القریش، سرکلر روڈ چوک اردوبازار، لاہور



حضرت خالد بن ولیدؓ نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ شریک ہوکر جہاد کیا تھا اور آپ ﷺ نے جناب خالد بن ولید ؓ کو سیف اللہ (اللہ کی تلوار)کا خطاب عطافرمایاتھا۔آپؓ نے کسی معرکہ میں شکست نہیں کھائی، ہمیشہ ان کی تلوارِ آب دار دشمن کے سروں پر قہر خداوندی بن کر گرتی اور کفر کو پاش پاش کرتی رہی۔ مسلمانوں میں یہ تاثر عام پیدا ہو گیا تھا کہ خالد بن ولیدؓ ہر جنگ کی کامیابی کی ضمانت ہیں۔ اس پر خلیفہ ثانی عمر فاروقؓ نے انہیں سپہ سالاری کے درجے سے ہٹادیا کہ فتح اللہ تعالٰیٰ کی مدد سے ہوتی ہے اور امیر کی اطاعت خالد بن ولیدؓ کے کردار کا اہم حصہ تھا، انہوں نے اسے بخوشی قبول کیا۔

بے شمار تاریخی اسلامی ناولوں کے مصنف جناب الماس ایم اے نے اپنے خوبصورت اور دلچسپ اندازِ تحریر کے ذریعے تاریخ انسانی کے عظیم جرنیل کی پوری داستانِ حیات بیان کی ہے اور مکتبہ القریش نے سے نہایت خوبصورت اور عمدہ طباعت اور مضبوط جلد کے ساتھ پیش کیا۔

حرمۃ النسا، تعلیمات نبوی ﷺ کی روشنی میں
مصنفہ...بیگم بلقیس عبدالوہاب چودھری
قیمت... درج نہیں



تاریخ انسانی میں پہلی بار اسلام ہی نے عورت کو عزت و احترام بخشا اوربنیادی انسانی حقوق فراہم کئے۔ یہ بات کسی مذہب سے محبت کی بنیاد پر نہیں کہہ رہا، تاریخ انسانی کا جائزہ لیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ عورت تاریخ کے ہر باب میں مظلوم و مقہور رہی۔ عربوں کا دور جاہلیت ہو یا رومن ایمپائر، ہندئووںکا چانکیہ پرست دور ہو یا ایرانیوں کی چار ہزار سالہ ثقافت یاپھر آج کی غالب مغربی تہذیب، عورت کے ساتھ برا سلوک ہی روا رکھا جاتا رہا۔

مغرب کے اندر کبھی عورت گناہ کی جڑ قرار دی گئی اور اسے مکمل طور پر چھپا کے رکھا گیا، پھر ایسا وقت بھی آیا جب اسے باہر نکالا گیا، اسے برہنہ کرکے محض تفریح کے لئے ایک کھلونا بنادیا گیا۔آپ کبھی غور کریں تو آج کے دور میں مغربی عورت مادرپدر آزاد تو ہے لیکن مرد کی خواہشات کی بدترین قسم کی غلامی میں جکڑی ہوئی ہے۔ کبھی فکر و تدبر کیجئے تو آپ کو اس ''آزادی'' میں غلامی کا بدترین ظلم و استحصال واضح طور پر نظر آئے گا۔

یہ اسلام ہی ہے جس نے چودہ سو برس قبل عورت کو ایسی عزت و احترام بخشا کہ اس کی نظیر ماضی میں ملتی ہے نہ حال میں۔ مصنفہ نے زیر نظر کتاب میں تعلیمات نبوی ﷺ کی روشنی میں عورت کو ملنے والے اسی عزت و احترام اور حقوق کا مفصل ذکر کیا ہے۔

کتاب کے آٹھ ابواب ہیں:'حرمۃ النسا'،'حقوق و فرائض سیرت طیبہ کی روشنی میں'،'حقوق العباد کی اہمیت'،'حقوق والدین'،'بیٹی کا حق پیدائش'،'خواتین کے حقوق و فرائض اور عائلی قوانین تعلیمات نبوی ﷺ کی روشنی میں'،'حق نکاح سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں' اور'ناموس تحفظ'۔ مصنفہ پاکستان کے متعدد سربراہان مملکت سے اپنے مختلف مقالات پر اعزازات حاصل کرچکی ہیں۔زیر نظرتصنیف بھی اپنے موضوع کے اعتبار سے منفرد اور مبسوط پیشکش ہے۔ یہ ان لوگوں کے پروپیگنڈا کا شافی جواب ہے جو کہتے پھررہے ہیں کہ اسلام نے عورت کو قید اور اسے بنیادی انسانی حقوق ہی سے محروم کر رکھا ہے۔کتاب کے حصول کے لئے 03335136600 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

عالمی ادب کی فروزاں قندیلیں
مصنفہ... سلمیٰ اعوان
قیمت...750روپے
ناشر...یوایم ٹی پریس، سی ٹو ،جوہرٹائون ،لاہور



محترمہ سلمیٰ اعوان کے سفرنامے پڑھے جائیں یا ان کے ناول اور افسانے یا پھر ان کے کالموں کے مجموعے، نہایت خوبصورت اور پرلطف نثر پڑھنے کو ملتی ہے۔

وہ نصف صدی سے لکھ رہی ہیں،مسلسل لکھ رہی ہیں۔ 'تنہا'،'لہورنگ فلسطین'،'یہ میرا بلتستان'،' ثاقب'، 'گھروندا اک ریت کا'، 'زرغونہ' اور 'شیبہ' جیسے بے مثال ناول، 'کہانیاں دنیا کی'، 'بیچ بچولن'، 'خوابوں کے رنگ'، 'برف میں دھنسی عورت کچھ کہتی ہے'، 'ذرا سنو تو فسانہ میرا' اور 'The Sky Remained Silent' جیسے افسانوی مجموعے اور 'سندر چترال'، 'میرا گلگت و ہنزہ'، 'مصر میرا خواب'، 'روس کی ایک جھلک'، 'عراق اشک بار ہیں ہم'،'استنبول کہ عالم میں منتخب'، 'سیلون کے ساحل'، 'ہند کے میدان'، 'اٹلی ہے دیکھنے کی چیز'، 'بلادالشام امن سے جنگ تک'، 'اجنبی آسمان اجنبی زمینیں' جیسے خوبصورت سفرنامے دراصل ان کے پچاس سالہ قلمی سفر کی ایک جھلک ہے جس میں کئی دنیائوں کی جھلک ہے۔سچی بات ہے کہ گھر کے کتب خانے میں ان میں سے کوئی ایک کتاب بھی کم ہو تو یہ ایک بڑی محرومی شمار ہوتی ہے۔

محترمہ سلمی اعوان کی زیرنظر کتاب ایسے شاندار لوگوں کے تذکروں پر مشتمل ہے جو حقیقی معنوں میں عالمی ادب کی فروزاں کی قندیلیں تھیں۔ ان میں شام اور دنیائے عرب کی طاقت ور ، توانا، انقلابی اور رومانوی آواز نزار قبانی بھی ہیں اورشام ہی کی حساس، منفرد اور نئی سوچ کی حامل شاعرہ، کہانی کار اور ترجمہ نگار مونا عمیدی بھی، روس کے مایہ ناز نوبل ایوارڈیافتہ ناول نگار، شاعر، موسیقار اور ترجمہ نگار بورس پاسترک بھی، روس ہی کے قومی شاعر الیگزینڈر سرگیووچ پشکن بھی،روسی ادب کے دیو لیوٹالسٹائی اور صوفیہ ٹالسٹائی،روس کے عظیم ناول نگار دوستووسکی اور اینادوستووسکی، ترکی کے ہیرے مولانا جلال الدین رومی،ترکوں کے محبوب شاعریونس ایمرے،برصغیر کے نوبل انعام یافتہ عظیم شاعر، موسیقار اور ڈرامہ رائٹر رابندرناتھ ٹیگور، سری لنکا کے خوب صورت شاعر موسیقار اور براڈ کاسٹر کرونیرتن، ابی سکارا، عراق کے مایہ ناز انقلابی شاعر سعدی یوسف، عراق کے عظیم کلاسیکل شاعر ابو نواس، ایک عظیم لکھاری، دلیر سیاح اور عراق کے بانی جرٹروڈبیل، روم کے پانیوں پر لکھے ہوئے نام والا شاعر گوزیوکا ردوسی اور فلسطین کی انسانیت کے پیغامبر محمود درویش۔ بقول مصنفہ انھوں نے ان قد آور شخصیات کی بس ایک ہلکی سی جھلک ہی پیش کی ہے، ان کے فن کے دریائوں میں سے بس کنارے پر کھڑے کھڑے چلّو بھر پانی نکال کر ہی اپنے اوپر ڈالا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب تذکرے اس قدر پرلطف ہیں کہ قاری ایک خوشگوار حیرت اور تازہ علم سے مالامال ہوجاتا ہے۔
Load Next Story