افغانستان میں امن امریکا طالبان کے مطالبات پر توجہ دے
اب افغانستان کی فوج کا احوال یہ ہے کہ امریکا کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اب وہ کیا کرے
افغانستان میں امن وامان بہت مختصر مدت کیلیے قائم رہا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ علاقہ اکثر حملہ آوروں کے نشانے پر رہا۔ حالیہ عرصے میں سابق سوویت فوجوں نے افغانستان میں پیش قدمی کی۔
سوویت فوج کے انخلاء کے بعد بھی افغانستان میں امن قائم نہ ہو سکا اور حکومتوں کے خلاف پے در پے بغاوتوں میں ملک کی قیادت میں یکے بعد دیگرے تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ پھر طالبان کی حکومت کے قیام سے امن وامان کی راہ ہموار ہوئی مگر تب امریکا نے نائن الیون کے بہانے افغانستان پر چڑھائی کردی۔
امریکا اور نیٹو کی ڈیڑھ دو لاکھ زمینی فوج افغانستان میں اتار دی گئی لیکن یہ فوج بھی ایک عشرے سے زیادہ وقت میں افغانستان میں امن قائم نہ کر سکی چنانچہ امریکا نے اپنی بیشتر فوج واپس بلا لی اور یہاں صرف دس بارہ ہزار کی تعداد میں فوجی دستے رکھے جن کے بارے میں کہا گیا کہ وہ افغانستان کی قومی فوج کی تیاری میں مدد دیں گے۔
اب افغانستان کی فوج کا احوال یہ ہے کہ امریکا کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اب وہ کیا کرے۔ افغان دارالحکومت کابل سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق طالبان کے سربراہ ملاء ہیبت اللہ اخوند زادہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن کے قیام میں غیرملکی فوجوں کی یہاں موجودگی سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور جب تک یہ رکاوٹ دور نہیں ہوتی ملک میں امن کا قیام ممکن نہیں۔ اب امریکا کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اس نے وہاں جو اربوں کھربوں ڈالر کے اخراجات کیے ہیں اور ڈالروں کے علاوہ اپنی جانی قربانیاں بھی دی ہیں تو کیا سب کا سب اکارت چلا جائے گا اور انھیں خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑیگا۔
واضح رہے افغان طالبان تحریک ماضی میں بھی یہی پیغام دیتی رہی ہے کہ ان کے ملک کو غیرملکی فوج سے آزادکرائے بغیر ملک میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ادھر حال ہی میں امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں افغانستان کے مسئلہ پر ''پالیسی ڈیبیٹ'' ہوئی۔ امریکیوں کا مؤقف تھا کہ اگر افغانستان کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو وہ ایک بار پھر دہشتگردوں کی جنت بن جائے گا جس طرح القاعدہ نے نائن الیون کی منصوبہ بندی افغانستان میں بیٹھ کر کی۔
ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے کہا کہ امریکا افغانستان میں مزید 3 سے پانچ ہزار فوجی بھیجنے کا پروگرام بنا رہا ہے لیکن ہم اسے انتباہ کرتے ہیں کہ وہ ایسا نہ کرے کیوںکھ ہم اپنے ملک کو غیرملکی فوجوں سے مکمل آزاد دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ یہاں اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔ طالبان لیڈر نے مزید کہا کہ اگر امریکا افغانستان پر تجاوز کرنے کا خیال دل سے نکال دے تو امریکی حکومت کے ساتھ طالبان کے اچھے دوستانہ تعلقات قائم ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے ان الزامات کی تردید کر دی کہ طالبان کوکسی دوسرے ملک سے امداد مل رہی ہے جن میں روس اور پاکستان بھی شامل ہیں۔
آخر میں انھوں نے کہا کہ امریکا کو افغانستان کا یہ جائز مطالبہ تسلیم کر لینا چاہیے اور اپنے فوجی واپس بلا لینے چاہئیں۔ اصولی طور پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کو افغان طالبان کے مطالبات پر توجہ دینی چاہیے۔ طالبان کے امیر نے ایک طرح سے امریکا کو پیش کش کی ہے کہ اگر امریکا اور اتحادی فوجیں واپس چلی جائیں تو طالبان اور امریکا کے تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں۔ امریکیوں کو اس پر غور کرنا چاہیے۔
سوویت فوج کے انخلاء کے بعد بھی افغانستان میں امن قائم نہ ہو سکا اور حکومتوں کے خلاف پے در پے بغاوتوں میں ملک کی قیادت میں یکے بعد دیگرے تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ پھر طالبان کی حکومت کے قیام سے امن وامان کی راہ ہموار ہوئی مگر تب امریکا نے نائن الیون کے بہانے افغانستان پر چڑھائی کردی۔
امریکا اور نیٹو کی ڈیڑھ دو لاکھ زمینی فوج افغانستان میں اتار دی گئی لیکن یہ فوج بھی ایک عشرے سے زیادہ وقت میں افغانستان میں امن قائم نہ کر سکی چنانچہ امریکا نے اپنی بیشتر فوج واپس بلا لی اور یہاں صرف دس بارہ ہزار کی تعداد میں فوجی دستے رکھے جن کے بارے میں کہا گیا کہ وہ افغانستان کی قومی فوج کی تیاری میں مدد دیں گے۔
اب افغانستان کی فوج کا احوال یہ ہے کہ امریکا کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اب وہ کیا کرے۔ افغان دارالحکومت کابل سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق طالبان کے سربراہ ملاء ہیبت اللہ اخوند زادہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن کے قیام میں غیرملکی فوجوں کی یہاں موجودگی سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور جب تک یہ رکاوٹ دور نہیں ہوتی ملک میں امن کا قیام ممکن نہیں۔ اب امریکا کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اس نے وہاں جو اربوں کھربوں ڈالر کے اخراجات کیے ہیں اور ڈالروں کے علاوہ اپنی جانی قربانیاں بھی دی ہیں تو کیا سب کا سب اکارت چلا جائے گا اور انھیں خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑیگا۔
واضح رہے افغان طالبان تحریک ماضی میں بھی یہی پیغام دیتی رہی ہے کہ ان کے ملک کو غیرملکی فوج سے آزادکرائے بغیر ملک میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ادھر حال ہی میں امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں افغانستان کے مسئلہ پر ''پالیسی ڈیبیٹ'' ہوئی۔ امریکیوں کا مؤقف تھا کہ اگر افغانستان کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو وہ ایک بار پھر دہشتگردوں کی جنت بن جائے گا جس طرح القاعدہ نے نائن الیون کی منصوبہ بندی افغانستان میں بیٹھ کر کی۔
ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے کہا کہ امریکا افغانستان میں مزید 3 سے پانچ ہزار فوجی بھیجنے کا پروگرام بنا رہا ہے لیکن ہم اسے انتباہ کرتے ہیں کہ وہ ایسا نہ کرے کیوںکھ ہم اپنے ملک کو غیرملکی فوجوں سے مکمل آزاد دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ یہاں اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔ طالبان لیڈر نے مزید کہا کہ اگر امریکا افغانستان پر تجاوز کرنے کا خیال دل سے نکال دے تو امریکی حکومت کے ساتھ طالبان کے اچھے دوستانہ تعلقات قائم ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے ان الزامات کی تردید کر دی کہ طالبان کوکسی دوسرے ملک سے امداد مل رہی ہے جن میں روس اور پاکستان بھی شامل ہیں۔
آخر میں انھوں نے کہا کہ امریکا کو افغانستان کا یہ جائز مطالبہ تسلیم کر لینا چاہیے اور اپنے فوجی واپس بلا لینے چاہئیں۔ اصولی طور پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کو افغان طالبان کے مطالبات پر توجہ دینی چاہیے۔ طالبان کے امیر نے ایک طرح سے امریکا کو پیش کش کی ہے کہ اگر امریکا اور اتحادی فوجیں واپس چلی جائیں تو طالبان اور امریکا کے تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں۔ امریکیوں کو اس پر غور کرنا چاہیے۔