عید کا تحفہ
خوش قسمتی سے ہماری کرکٹ ٹیم نے ہمیں عید سے پہلے عید کا تحفہ دے دیا ہے
بالآخر غرور کا سر نیچا ہوا، بھارتی کرکٹ ٹیم جو مغروریت کی ساری حدیں پار کر گئی تھی اور خود کو کرکٹ کا بھگوان سمجھنے لگی تھی پاکستانیوں کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوکر ہمیشہ کے لیے اپنے عوام کی نظروں سے گر گئی۔ باپ کون اور بیٹا کون اب اس کا بھی فیصلہ ہوچکا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ بھارت کی شکست کے بعد پاکستان مخالف بھارتی ٹی وی اینکر گوسوامی کا کیا بنے گا وہ تو فائنل میچ سے پہلے ہی پاکستانی ٹیم کو شکست خوردہ قرار دے رہا تھا اور پاکستان و پاکستانیوں کا خوب مذاق اڑا رہا تھا۔ رشی کپور اور وریندر سہواگ بھی خوب بڑھکیں مار رہے تھے۔ ان ہی کی بڑھکوں سے متاثر ہوکر وہ بھارتی جو سٹہ باز نہیں تھے انھوں نے بھی اپنی کل پونجی داؤ پر لگا دی تھی اور اب قلاش ہوکر سڑکوں پر پاگلوں کی طرح روتے پھر رہے ہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ ایک بھارتی شہر میں پیش آیا جہاں ایک غریب شخص نے اپنی ساری پونجی، گھر کا سامان اور خود بیوی کو داؤ پر لگا دیا تھا اب رشی کپور سہواگ اور گوسوامی کو ہر سانس گالیاں اور بددعائیں دے رہا ہے ۔ گوسوامی نے اپنی ٹیم سے صرف ایک ہی فرمائش کی تھی کہ دیکھو سب سے ہار جانا مگر پاکستان سے نہ ہارنا کیونکہ پاکستان کے جیتنے سے ہم بھارتی خود کو ہزار سال پرانے مسلم دور میں محسوس کرنے لگتے ہیں، خدا کا شکر ہے پاکستانی کرکٹ ٹیم نے برصغیر میں مسلمانوں کی برتری کو برقرار رکھا۔
پاکستانی ٹیم نے یک جان ہوکر بے مثال کھیل پیش کیا۔ تمام ہی کھلاڑیوں کی کارکردگی حیرت انگیز تھی۔ کپتان سرفراز احمد کی کارکردگی بھی تمام ہی میچز میں لاجواب رہی۔ اس نے اپنی محنت اور ذہانت سے تن تنہا سری لنکا کے خلاف میچ جتوایا جب کہ اس میچ میں تمام ہی بیٹسمین چند رنز پر آؤٹ ہوکر پویلین لوٹ چکے تھے۔
سرفراز کی اس کارکردگی اور اب فائنل میچ میں انڈیا کو آؤٹ کلاس کرنے پر پوری قوم اس کی تعریف کر رہی ہے مگر ہمارے ایک پرانے کپتان عامر سہیل کو سرفراز کی کپتانی پسند نہیں آئی۔ انھوں نے ایک ٹی وی ٹاک میں سرفراز پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسے پتا ہونا چاہیے کہ اس نے کوئی کمال نہیں کیا۔ یہ تمام میچ اسے جتوائے گئے ہیں اور جیت کی وجہ یہ ہے کہ تمام پچیں پاکستان کے فیور میں بنائی گئی تھیں جس سے پاکستان کو فائدہ ہوا پھر پاکستان کی جیت میں عوام کی دعاؤں نے بھی اثر دکھایا۔ ان کی تنقید کے مطابق پاکستانی جیت میں سارا کمال پاکستان کے حق میں بنائی ہوئی پچوں کا تھا۔ اسے کہتے ہیں گھرکا بھیدی لنکا ڈھائے۔
کیا انھیں نہیں معلوم کہ آئی سی سی پر بھارت حاوی ہے اس کے حکم کے بغیر وہاں کا پتہ بھی نہیں ہل سکتا تو بھارتی عہدیداروں کے ہوتے ہوئے کسی کی کیا مجال کہ وہ پاکستان کی کسی قسم کی مدد کا سوچ بھی سکے؟ بھارتی میڈیا نے دل بھر کے پاکستانی ٹیم کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا۔ اس نے سرفرازکے کھیل پر شک و شبہ پیدا کرنے کے علاوہ پاکستانی ٹیم پر عائد میچ فکسنگ وغیرہ کے نام نہاد زخم پھر سے ہرے کردیے ہیں۔ ہم اپنے دشمنوں کو کیا کہیں جب خود ہمارے اپنے لوگ دشمن سے بڑھ کر ملک کی بے عزتی کرانے اور نقصان پہنچانے کے درپے ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے بعض لوگوں میں قومی جذبے کی حد سے زیادہ کمی ہے مگر ہمارے بعض لوگوں میں یہ جذبہ اتنا شدید ہے کہ وطن کے لیے جان دینا ان کے لیے معمولی بات ہے جس کی مثال راشد منہاس شہید اور دیگر عظیم وطن پرستوں سے دی جاسکتی ہے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک وطن کی کوئی حیثیت ہی نہیں وہ غیروں کا آلہ کار بن کر اپنے وطن کو نقصان پہنچانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔
ایک انگریز مفکر نے ایسے لوگوں کے بارے میں خوب کہا ہے کہ وہ زندہ تو ہوتے ہیں مگر زندہ لاش ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس پاک سرزمین کے حصے میں بھی کچھ وطن دشمن آئے ہیں۔ بنگلہ دیش کا بننا اور پاکستان کا ٹوٹنا ایک وطن فروش شخص کے کالے کرتوت تھا۔ بہرحال وہ تو ایک کھلا وطن دشمن تھا مگر ہمارے ہاں چھپے ہوئے وطن دشمنوں کی بھی کمی نہیں ہے۔
کراچی کے حالات مسلسل تیس سال تک بگڑے رہے دراصل دشمن نے اس شہر کو بہت سوچ سمجھ کر نشانے پر لیا تھا۔ اس کا مقصد اس شہر میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کرکے اور معیشت کو تباہ کرکے پاکستان کو دیوالیہ بنانا تھا۔ اگر اس کا سدباب نہ کیا جاتا تو چند ہی سالوں میں پاکستان ایک ناکام ریاست کی شکل اختیار کر لیتا اور اس طرح دشمن کا مشن مکمل ہو جاتا۔ ایک شخص مسلسل پاکستان کے قیام کو غلط قرار دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے محافظین پر تنقید کر رہا تھا خود تو وہ باہر بیٹھا تھا مگر اس کے حکم کی بجاآوری میں قتل و غارت گری اور تباہی کا بازار گرم تھا۔
آخر گزشتہ 22 اگست اس شہر اور ملک کے لیے تباہی اور بربادی سے نجات کا دن ثابت ہوا۔ پردہ فاش ہونے کے بعد لوگوں نے ہمیشہ کے لیے نفرت کا ساتھ چھوڑ دیا اس لیے کہ پاکستان ان کی اور ان کے بچوں کی ضرورت ہے پھر وہ اپنے بزرگوں کے بنائے ملک کو کسی طور پر بھی تباہ ہوتا نہیں دیکھ سکتے، افسوس کہ کچھ لوگ اب بھی ناسمجھ بنے ہوئے ہیں۔ اس موقعے پر ان لوگوں کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں جنھوں نے عوام کی ہمت بندھائی اور انھیں امن سے آشنا کیا۔
دشمن نے دراصل کشمیر میں جاری تحریک آزادی کا بدلہ لینے کے لیے کراچی اور بلوچستان پر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے دہشت گردانہ وار کیا تھا مگر بالآخر اسے منہ کی کھانا پڑی۔ افواج پاکستان جو بھارت کو تین بڑی جنگوں میں اس کی ٹڈی دل فوج کو شکست فاش سے دوچارکرچکی ہیں۔ انھوں نے بھارت کی دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور ملک میں امن قائم کرکے دشمن کے ناپاک منصوبے کو ناکام ونامراد بنادیا۔
اب اس وقت دشمن کے منصوبے کے برخلاف کراچی اور بلوچستان میں تو امن قائم ہوچکا ہے مگر مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی پہلے سے کہیں زیادہ تیز موثر اورکامیابی سے ہم کنار ہونے کے قریب پہنچ چکی ہے۔کشمیریوں نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی تاریخی فتح پر شہر شہر جو والہانہ جشن منایا ہے اس سے مودی کی بند آنکھیں کھل جانی چاہیئیں کہ اب کشمیری مزید بھارتی غلامی برداشت نہیں کرسکتے وہ پیدائشی پاکستانی ہیں اور پاکستان ہی ان کی آخری منزل ہے۔
بھارتی میڈیا اور خود بھارتی حکومت سے اس لیے پاکستان کی کرکٹ یا ہاکی میں فتح برداشت نہیں ہوتی کیونکہ اس کے براہ راست اثرات کشمیریوں پر پڑتے ہیں اور اس سے ان کی جدوجہد آزادی میں پہلے سے زیادہ تیزی آجاتی ہے۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ بھارتی حکمراں کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی جانب سے عطا کردہ حق خود اختیاری کے آگے دیوار بننے سے گریز کریں اور انھیں ان کا حق دے دیں ورنہ دیر کرنے سے بھارت کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔
خوش قسمتی سے ہماری کرکٹ ٹیم نے ہمیں عید سے پہلے عید کا تحفہ دے دیا ہے۔ اس پر ہم اپنی ٹیم کے تمام کھلاڑیوں کے دل سے شکر گزار ہیں ساتھ ہی ہم پی سی بی کے چیئرمین شہریار محمد خاں، نجم سیٹھی اور انضمام الحق کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ ان کی محنت رنگ لے آئی اور پوری دنیا میں ہمیں سرخروئی حاصل ہوئی۔ اب ہم امید کرتے ہیں وہ اپنی بہترین کاوشوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر جلد ہی پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کو واپس لانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
اب سوال یہ ہے کہ بھارت کی شکست کے بعد پاکستان مخالف بھارتی ٹی وی اینکر گوسوامی کا کیا بنے گا وہ تو فائنل میچ سے پہلے ہی پاکستانی ٹیم کو شکست خوردہ قرار دے رہا تھا اور پاکستان و پاکستانیوں کا خوب مذاق اڑا رہا تھا۔ رشی کپور اور وریندر سہواگ بھی خوب بڑھکیں مار رہے تھے۔ ان ہی کی بڑھکوں سے متاثر ہوکر وہ بھارتی جو سٹہ باز نہیں تھے انھوں نے بھی اپنی کل پونجی داؤ پر لگا دی تھی اور اب قلاش ہوکر سڑکوں پر پاگلوں کی طرح روتے پھر رہے ہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ ایک بھارتی شہر میں پیش آیا جہاں ایک غریب شخص نے اپنی ساری پونجی، گھر کا سامان اور خود بیوی کو داؤ پر لگا دیا تھا اب رشی کپور سہواگ اور گوسوامی کو ہر سانس گالیاں اور بددعائیں دے رہا ہے ۔ گوسوامی نے اپنی ٹیم سے صرف ایک ہی فرمائش کی تھی کہ دیکھو سب سے ہار جانا مگر پاکستان سے نہ ہارنا کیونکہ پاکستان کے جیتنے سے ہم بھارتی خود کو ہزار سال پرانے مسلم دور میں محسوس کرنے لگتے ہیں، خدا کا شکر ہے پاکستانی کرکٹ ٹیم نے برصغیر میں مسلمانوں کی برتری کو برقرار رکھا۔
پاکستانی ٹیم نے یک جان ہوکر بے مثال کھیل پیش کیا۔ تمام ہی کھلاڑیوں کی کارکردگی حیرت انگیز تھی۔ کپتان سرفراز احمد کی کارکردگی بھی تمام ہی میچز میں لاجواب رہی۔ اس نے اپنی محنت اور ذہانت سے تن تنہا سری لنکا کے خلاف میچ جتوایا جب کہ اس میچ میں تمام ہی بیٹسمین چند رنز پر آؤٹ ہوکر پویلین لوٹ چکے تھے۔
سرفراز کی اس کارکردگی اور اب فائنل میچ میں انڈیا کو آؤٹ کلاس کرنے پر پوری قوم اس کی تعریف کر رہی ہے مگر ہمارے ایک پرانے کپتان عامر سہیل کو سرفراز کی کپتانی پسند نہیں آئی۔ انھوں نے ایک ٹی وی ٹاک میں سرفراز پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسے پتا ہونا چاہیے کہ اس نے کوئی کمال نہیں کیا۔ یہ تمام میچ اسے جتوائے گئے ہیں اور جیت کی وجہ یہ ہے کہ تمام پچیں پاکستان کے فیور میں بنائی گئی تھیں جس سے پاکستان کو فائدہ ہوا پھر پاکستان کی جیت میں عوام کی دعاؤں نے بھی اثر دکھایا۔ ان کی تنقید کے مطابق پاکستانی جیت میں سارا کمال پاکستان کے حق میں بنائی ہوئی پچوں کا تھا۔ اسے کہتے ہیں گھرکا بھیدی لنکا ڈھائے۔
کیا انھیں نہیں معلوم کہ آئی سی سی پر بھارت حاوی ہے اس کے حکم کے بغیر وہاں کا پتہ بھی نہیں ہل سکتا تو بھارتی عہدیداروں کے ہوتے ہوئے کسی کی کیا مجال کہ وہ پاکستان کی کسی قسم کی مدد کا سوچ بھی سکے؟ بھارتی میڈیا نے دل بھر کے پاکستانی ٹیم کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا۔ اس نے سرفرازکے کھیل پر شک و شبہ پیدا کرنے کے علاوہ پاکستانی ٹیم پر عائد میچ فکسنگ وغیرہ کے نام نہاد زخم پھر سے ہرے کردیے ہیں۔ ہم اپنے دشمنوں کو کیا کہیں جب خود ہمارے اپنے لوگ دشمن سے بڑھ کر ملک کی بے عزتی کرانے اور نقصان پہنچانے کے درپے ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے بعض لوگوں میں قومی جذبے کی حد سے زیادہ کمی ہے مگر ہمارے بعض لوگوں میں یہ جذبہ اتنا شدید ہے کہ وطن کے لیے جان دینا ان کے لیے معمولی بات ہے جس کی مثال راشد منہاس شہید اور دیگر عظیم وطن پرستوں سے دی جاسکتی ہے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک وطن کی کوئی حیثیت ہی نہیں وہ غیروں کا آلہ کار بن کر اپنے وطن کو نقصان پہنچانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔
ایک انگریز مفکر نے ایسے لوگوں کے بارے میں خوب کہا ہے کہ وہ زندہ تو ہوتے ہیں مگر زندہ لاش ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس پاک سرزمین کے حصے میں بھی کچھ وطن دشمن آئے ہیں۔ بنگلہ دیش کا بننا اور پاکستان کا ٹوٹنا ایک وطن فروش شخص کے کالے کرتوت تھا۔ بہرحال وہ تو ایک کھلا وطن دشمن تھا مگر ہمارے ہاں چھپے ہوئے وطن دشمنوں کی بھی کمی نہیں ہے۔
کراچی کے حالات مسلسل تیس سال تک بگڑے رہے دراصل دشمن نے اس شہر کو بہت سوچ سمجھ کر نشانے پر لیا تھا۔ اس کا مقصد اس شہر میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کرکے اور معیشت کو تباہ کرکے پاکستان کو دیوالیہ بنانا تھا۔ اگر اس کا سدباب نہ کیا جاتا تو چند ہی سالوں میں پاکستان ایک ناکام ریاست کی شکل اختیار کر لیتا اور اس طرح دشمن کا مشن مکمل ہو جاتا۔ ایک شخص مسلسل پاکستان کے قیام کو غلط قرار دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے محافظین پر تنقید کر رہا تھا خود تو وہ باہر بیٹھا تھا مگر اس کے حکم کی بجاآوری میں قتل و غارت گری اور تباہی کا بازار گرم تھا۔
آخر گزشتہ 22 اگست اس شہر اور ملک کے لیے تباہی اور بربادی سے نجات کا دن ثابت ہوا۔ پردہ فاش ہونے کے بعد لوگوں نے ہمیشہ کے لیے نفرت کا ساتھ چھوڑ دیا اس لیے کہ پاکستان ان کی اور ان کے بچوں کی ضرورت ہے پھر وہ اپنے بزرگوں کے بنائے ملک کو کسی طور پر بھی تباہ ہوتا نہیں دیکھ سکتے، افسوس کہ کچھ لوگ اب بھی ناسمجھ بنے ہوئے ہیں۔ اس موقعے پر ان لوگوں کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں جنھوں نے عوام کی ہمت بندھائی اور انھیں امن سے آشنا کیا۔
دشمن نے دراصل کشمیر میں جاری تحریک آزادی کا بدلہ لینے کے لیے کراچی اور بلوچستان پر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے دہشت گردانہ وار کیا تھا مگر بالآخر اسے منہ کی کھانا پڑی۔ افواج پاکستان جو بھارت کو تین بڑی جنگوں میں اس کی ٹڈی دل فوج کو شکست فاش سے دوچارکرچکی ہیں۔ انھوں نے بھارت کی دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور ملک میں امن قائم کرکے دشمن کے ناپاک منصوبے کو ناکام ونامراد بنادیا۔
اب اس وقت دشمن کے منصوبے کے برخلاف کراچی اور بلوچستان میں تو امن قائم ہوچکا ہے مگر مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی پہلے سے کہیں زیادہ تیز موثر اورکامیابی سے ہم کنار ہونے کے قریب پہنچ چکی ہے۔کشمیریوں نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی تاریخی فتح پر شہر شہر جو والہانہ جشن منایا ہے اس سے مودی کی بند آنکھیں کھل جانی چاہیئیں کہ اب کشمیری مزید بھارتی غلامی برداشت نہیں کرسکتے وہ پیدائشی پاکستانی ہیں اور پاکستان ہی ان کی آخری منزل ہے۔
بھارتی میڈیا اور خود بھارتی حکومت سے اس لیے پاکستان کی کرکٹ یا ہاکی میں فتح برداشت نہیں ہوتی کیونکہ اس کے براہ راست اثرات کشمیریوں پر پڑتے ہیں اور اس سے ان کی جدوجہد آزادی میں پہلے سے زیادہ تیزی آجاتی ہے۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ بھارتی حکمراں کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی جانب سے عطا کردہ حق خود اختیاری کے آگے دیوار بننے سے گریز کریں اور انھیں ان کا حق دے دیں ورنہ دیر کرنے سے بھارت کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔
خوش قسمتی سے ہماری کرکٹ ٹیم نے ہمیں عید سے پہلے عید کا تحفہ دے دیا ہے۔ اس پر ہم اپنی ٹیم کے تمام کھلاڑیوں کے دل سے شکر گزار ہیں ساتھ ہی ہم پی سی بی کے چیئرمین شہریار محمد خاں، نجم سیٹھی اور انضمام الحق کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ ان کی محنت رنگ لے آئی اور پوری دنیا میں ہمیں سرخروئی حاصل ہوئی۔ اب ہم امید کرتے ہیں وہ اپنی بہترین کاوشوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر جلد ہی پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کو واپس لانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔