کھیل کو کھیل رہنے دیں

ہمیں یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ ہماری کرکٹ ٹیم تشکیل نو کے مرحلے میں ہے

tahirnajmi@express.com.pk

کرکٹ ٹیم نے چیمپئنز ٹرافی جیت کر بلاشبہ قوم کو خوشیوں سے مالا مال کر دیا، ٹرافی کا جیتنا اور وہ بھی بھارت کو 180 رنز کی شکست دے کر، گویا سونے پہ سہاگہ ہو گیا، اس لیے نہ صرف ملک بھر میں بلکہ دنیا بھر میں موجود پاکستانی اپنے غموں کو بھول کر خوشیاں منا رہے ہیں۔

قومی کرکٹ ٹیم کا ایک لمبے عرصے کے بعد اتنی بڑی کامیابی حاصل کرنا واقعی خوشی اور فخر کی بات ہے مگر اس فتح کو پروقار انداز میں منا کر اپنے مہذب ہونے کا ثبوت دینا چاہیے، کرکٹ ایک کھیل ہے اور اس میں کبھی ہار ہوتی ہے اور کبھی جیت، کرکٹ کے بارے میں ویسے بھی یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ کرکٹ بائی چانس، جم گئے تو سنچری بنا ڈالی اور نہ جمے تو صفر یا چند رنز بنا کر ہی آؤٹ۔

پاک بھارت میچوں میں عوام کی غیر معمولی دلچسپی تو قابل فہم ہے مگر سوشل میڈیا نے اسے حق و باطل کا معرکہ بنا ڈالا ہے، 18 جون کو عالمی سطح پر ''فادر ڈے'' منایا جا رہا تھا، اس لیے دونوں طرف کے شائقین ایک دوسرے کو باپ ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے، بھارتی اداکار رشی کپور کے ٹوئٹ کے بعد گھمسان کا رن پڑا، تاہم میچ کا نتیجہ آنے کے بعد رشی کپور نے کھلے دل سے پاکستان کی جیت تسلیم کی اور مبارکباد بھی دی جس سے پاکستانیوں کے گلے شکوے دور ہو گئے۔

شائقین کو یہ امکان ذہن میں رکھنا چاہیے کہ خدانخواستہ اگر ہمارے کھلاڑی اچھا نہ کھیلتے اور ہار جاتے تو کیا وہی مناظر یہاں دیکھنے کو نہ ملتے جو سرحد پار ٹی وی چینلز پر دیکھنے کو مل رہے ہیں وہاں رونا دھونا مچا ہوا ہے اور ٹی وی سیٹ توڑے جا رہے ہیں، اس لیے کھیل کو کھیل ہی رہنا چاہیے، اسے جنگ نہیں بننا چاہیے۔

آسٹریلیا اور انگلینڈ بھی ماضی کی تلخ یادوں کے ساتھ کھیلتے ہیں لیکن یہ تلخیاں بلّے اور گیند کے مقابلے تک ہی محدود رہتی ہیں، ایک دوسرے پر طنز کیا جاتا ہے مگر اخلاقی حدود کبھی پار نہیں کی جاتیں، کھیل کے حوالے سے تنقید ہونی چاہیے، فیلڈنگ، بیٹنگ، بولنگ پر تبصرے ہونے چاہئیں، کھیل کا بنیادی مقصد تحمل اور برداشت پیدا کرنا ہے، انسان جیتے تو خوشی سے بے حال نہ ہو یعنی آپے سے باہر نہ ہو اور ہارے تو اتنا مایوس بھی نہ ہو کہ غم سے ٹوٹ کر بکھر جائے۔

شکست کے اسباب پر غور کرنا چاہیے اور اپنی خامیوں پر قابو پانے کی تدبیر کرنی چاہیے، ہمارے کرکٹ شائقین کا مزاج کچھ ایسا بن گیا ہے کہ ٹیم جیت گئی تو اسے آسمان پر چڑھا دیا اور خدانخواستہ یہی ٹیم ہار گئی جس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جا رہے ہیں تو اسے منفی انداز میں یاد کرنے لگیں گے، یہ رویہ کسی طور پر بھی صحت مندانہ نہیں، فتح کا جشن منانا چاہیے مگر فریق مخالف کی تذلیل نہیں کی جانی چاہیے۔


کرکٹ میں 8 سال کے بعد کسی بڑے ایونٹ میں کامیابی ہمارا مقدر بنی ہے، اس سے قبل 2009ء میں یونس خان کی قیادت میں پاکستان نے T-20 ورلڈ کپ جیتا تھا، قومی ٹیم متعدد ٹرافیاں جیت چکی ہے مگر 8 ویں آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی پہلی بار جیتی ہے جس کے نتیجے میں عالمی رینکنگ میں پاکستانی ٹیم آٹھویں سے چھٹی پوزیشن پر آ گئی ہے، اس ایونٹ میں شرکت کے وقت کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ پاکستان جیسی ٹیم جس میں بیشتر نئے کھلاڑی ہیں اور جنھیں انٹرنیشنل اسٹیڈیم میں کھیلنے کا کوئی تجربہ نہیں وہ فائنل تک پہنچ جائیں گے۔

قوم کو بھی زیادہ توقعات نہیں تھیں جو پہلے میچ میں بھارت کے ہاتھوں شکست سے درست ثابت ہوئیں، مداحوں کے دل ٹوٹ گئے، آگے بڑھنے کے لیے جنوبی افریقہ اور سری لنکا کو ہرانا ضروری تھا، یہ تقریباً ناممکن لگ رہا تھا مگر پاکستان نے کمال کر دکھایا، 7 جون کو جنوبی افریقہ کو ڈھیر کیا، 12 جون کو سری لنکا کو شکست دی اور سیمی فائنل میں پہنچ گیا، سیمی فائنل میں کرکٹ کے بانی ملک انگلینڈ کو شکست کا مزہ چکھایا اور پھر فائنل میں بھارت کو عبرتناک شکست دے کر قوم کو عید سے پہلے عید کا تحفہ دے دیا۔

فائنل میں پاکستان نے 4 وکٹوں کے نقصان پر 338 رنز کا ٹارگٹ دیا جو کہ ٹورنامنٹ میں کسی بھی ٹیم کا سب سے بڑا اسکور تھا،جواب میں دنیا کی مضبوط ترین بیٹنگ لائن رکھنے والی بھارتی ٹیم 30.3 اوورز میں صرف 158 رنز پر آؤٹ ہو گئی اور پاکستان 180 کے مارجن سے جیت گیا، انٹرنیشنل ون ڈے میچوں میں بھارت کے خلاف یہ پاکستان کی سب سے بڑی فتح ہے، بھارتی کپتان ویرات کوہلی نے میچ کے بعد اعتراف کیا کہ پاکستان نے بھارتی ٹیم کو بیٹنگ، بولنگ، فیلڈنگ غرض کہ ہر شعبے میں آؤٹ کلاس کر کے ثابت کر دیا کہ پاکستان کی ٹیم دنیا کی کسی بھی ٹیم کو ہرا سکتی ہے۔

کیا حسین اتفاق ہے کہ 1992ء کے ورلڈ کپ اور 2017ء کی چیمپئنز ٹرافی میں بہت مماثلت اور مشابہت پائی جاتی ہے، اس وقت بھی پاکستانی ٹیم محض قسمت کے سہارے فائنل تک پہنچی تھی، تب بھی 22رمضان المبارک تھا اور وزیر اعظم میاں نواز شریف تھے، قدرت نے مہربانی کرتے ہوئے ہمیں جیت کے مواقع فراہم کیے، فخر زماں ابتدائی اوور میںکیچ آؤٹ ہوئے ری پلے میں نو بال قرار دی گئی،حفیظ کی وکٹ پر بال لگی مگر بیلز نہیں گریں، بھارتی کھلاڑیوں کے رن آؤٹ کرنے کے کئی نشانے چوک گئے، ویرات کوہلی کا ایک کیچ ڈراپ ہوا تو اگلی ہی بال پر وہ کیچ آؤٹ ہو گئے، قدرت کے اس انعام پر ٹیم کوشکرگزار ہونا چاہیے۔

ہمیں یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ ہماری کرکٹ ٹیم تشکیل نو کے مرحلے میں ہے،بیشتر سینئر کھلاڑی ریٹائر ہو چکے ہیں، تاہم ٹیم میںشامل کیا جانے والا نیا ٹیلنٹ بھرپور انداز میں کام کررہا ہے، فخر زماں، حسن علی اور شاداب جیسا ٹیلنٹ پی ایس ایل کی دریافت ہے، یہ حقیقت سامنے آ چکی ہے کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں، ایک سے بڑھ کر ایک باصلاحیت کھلاڑی موجود ہے، اگر ٹیم کوڈسٹرب نہ کیا گیا، ذاتی پسند و ناپسند کے کلچر کا خاتمہ ہو گیا تو پھر ٹیم آنے والے ورلڈ کپ کی فیورٹ ٹیموں میں شمار ہو گی۔

اس دوران کرکٹ بورڈ کو کوشش کرنی ہو گی کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہو، انگلینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ویسٹ انڈیز اور بھارت جیسی ٹیمیں پاکستان آئیں اور ہمارے شہروں میں ٹیسٹ میچ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی وغیرہ کھیلیں۔ طویل عرصے کے بعد حاصل کی جانے والی فتح کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیں اس کھیل کے ہر شعبے پر مسلسل نظر رکھنی ہو گی اور پروفیشنل اپروچ کو مقدم رکھنا ہو گا۔
Load Next Story