شادی اور سیاست

میرے ملک کا نظام کئی دہائیوں سے ایسے ہی چل رہا ہے اور لگتا ہے ایسے ہی چلتا رہے گا

Abdulqhasan@hotmail.com

غیر حاضری طویل ہو گئی اور قارئین کو اس کی اطلاع بھی نہ دے سکا کہ اچانک بیمار ہو گیا اور اب اللہ کی رحمت سے صحت یاب ہو کر گھر منتقل ہو چکا ہوں لیکن ابھی بھی طبیعت مکمل بحال اور ذہنی طور پر اپنے آپ کو اسپتال کی مریضانہ فضاء سے دور کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔ گھر آکر سب سے پہلے اخبارات پر نظرڈالی تو ایسے لگا کہ حالات تو ویسے ہی ہیں جیسے آج سے ایک ہفتہ قبل تھے اور تمام خبریں بھی وہی تھیں جو کہ ایک ہفتہ قبل میں نے پڑھی تھیں۔

میرے ملک کا نظام کئی دہائیوں سے ایسے ہی چل رہا ہے اور لگتا ہے ایسے ہی چلتا رہے گا اور اس میں تبدیلی کے آثار صرف خبروں میں ہی نظر آتے رہیں گے اور ہم اس پر واہ واہ کرتے اور تعریفوں کے ڈونگرے برساتے رہیں گے۔ اخبارات میں شایع شدہ چند خبریں جو کہ میری دلچسپی کا باعث تو ہیں ہی لیکن میرے خیال میں قارئین بھی ان کو پڑھیں گے تو لطف اٹھائیں گے اور سر دھنیں گے۔

حکومت کے ماتحت ادارے نیپرا نے رپورٹ دی ہے کہ وعدوں کے باوجود بجلی کابحران اگلے سال بھی ختم نہیں ہو گا اور لوڈ شیڈنگ ہوتی رہے گی۔ اس کی بنیادی وجہ وہی قرار دی جا رہی ہے جو کہ میں پہلے بھی ایک کالم میں عرض کر چکا ہوں کہ ہمارا بجلی کی ترسیل و تقسیم کا نظام اتنا خراب ہے کہ بجلی کی مطلوبہ پیداوار کے باوجود بھی لوڈشیڈنگ کرنا تقسیم کار کمپنیوں کی مجبوری ہے اگر وہ لوڈشیڈنگ نہ کریں تو ان کا نظام اوور لوڈ ہو جائے گا جو کہ کسی بڑے شٹ ڈاؤن پر جا کر ختم ہو گا۔

موجودہ حکومت کا سب سے بڑا وعدہ ہی بجلی بحران کا خاتمہ تھا جو کہ ان کے پانچ سالہ دور حکومت میں کسی حد تک توپورا ہوتا نظر آرہا ہے کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی ہو جائے گی لیکن اگر اس کی تقسیم کا نظام ہی نہ بہتر بنایا جاسکا تو پھر بجلی کی پیداوار کے منصوبے عوام تک اپنی افادیت پہنچانے میں ناکام رہیں گے جس کا براہ راست اثر آیندہ انتخابات میں موجودہ حکومت کو برداشت کرنا پڑے گا۔

اسلام آباد میں تعینات سعودی ناظم الامورنے پریس کانفرنس کے دوران اس بات کا نکشاف کیا ہے کہ نواز شریف نے اپنے دورہ سعودی عرب سے قبل اس دورے کا مقصد نہیں بتایا اور وہ ہمارے وزیر اعظم کی سعودی عرب اور قطر کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لیے وزیر اعظم نواز شریف کی ثالثی کوششوں سے لاعلم ہیں۔


ہم ایک طرف تو یہ ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کہ ہم سعودی عرب اور قطر کے درمیان مصالحت کیلیے اپنی تما م تر کوششیں بروئے کار لا رہے ہیں لیکن ایک اہم سعودی شخصیت کی جانب سے ان کوششوں سے اظہار لاعلمی ہمارے لیے سبکی کا باعث ہے۔

مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ ان کو یہ کیوں کہنا پڑ گیا کہ وہ ہمارے وزیر اعظم کی کوششوں سے لاعلم ہیں کیا یہ بیان جان بوجھ کر دیا گیا ہے اور اس کے ذریعے ایک بار پھر ہمیں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ پاکستان کو سعودی حمایت کیلیے واضح فیصلہ کرنا ہوگا اور وہ ہمارے مصالحتی کوششوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے اور یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اس سعودی قطر بحران میں واضح پوزیشن لے کر ان کے ساتھ کھڑا ہو اس لیے شاید بار بار ہمیں بے عزت کیا جا رہا ہے،ابھی پہلے سعودی عرب میں ہونے والی اسلامی ملکوں کی سربراہی کانفرنس کی دھول نہیں بیٹھی تھی کہ ہم پر ایک بار پھر عدم اعتماد کر دیا گیا ہے۔ یہ قابل غور بات ہے اور ہماری حکومت کی جانب سے اس کا جواب آنا چاہیئے تا کہ صورتحال واضح ہو سکے۔

ایک اور خبر میں ہمارے اپوزیشن لیڈر نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ نوز شریف کی حکومت ختم ہونے جا رہی تھی اس کو ہم نے بچایا اور ان کو چار سال تک حکمرانی کرنے کا موقع دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم جمہوریت کو بچانے کیلیے میدان میں آئے اور حکومت کو یہ موقع دیا کہ وہ اپنے ایجنڈے کے مطابق کام کرے لیکن موجودہ حکومت اپنے وعدوں کی پاسداری میں ناکام رہی۔

اپوزیشن کا کام ہی حکومت پر تنقید کر کے اپنے سیاسی وجود کو زندہ رکھنا ہوتا ہے اور وہ کوئی ایسا موقع نہیںجانے دیتی جس سے اس کو حکومت وقت پر تنقید کر کے اپنی سیاسی دکانداری چمکانے میں مدد ملے۔ موجودہ اپوزیشن اور ماضی کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی جانب سے گاہے بگاہے اس بات کا اظہار ہوتا رہا ہے کہ وہ جمہوریت کی بقاء کیلیے موجودہ حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں، وقتاً فوقتاً کے یہ اظہاریئے اس بات کو مزید تقویت دیتے ہیں کہ ہماری بڑی سیاسی جماعتوں نے حکمرانی کیلیے مک مکا کر رکھا ہے اور پہلے نواز لیگ نے پیپلز پارٹی کے پانچ سال پورے کرائے اور اب پیپلز پارٹی اس کا کفارہ ادا کر رہی ہے۔

ایک اور خوش کن خبر یہ ہے کہ ہمارے ایک بڑے لیڈر جناب عمران خان نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ آیندہ الیکشن تک شادی نہیں کریں گے کیوںکھ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ سال الیکشن کا سال ہے۔ وہ شاید یہ سمجھتے ہوں کہ ایک بار پہلے بھی شادی کا فیصلہ وہ غلط وقت پر کر چکے ہیں اور اس بار انھوں نے پہلے سے ہی وضاحت کر دی ہے کہ شادی کی امیدوار ان ان سے کم از کم انتخابات تک دور ہی رہیں تا کہ وہ یکسو ہو کر انتخابی معرکے میں اتر سکیں اور اپنی خواہشات کے مطابق انتخابی نتائج حاصل کر سکیں اوروہ حکومت میں آکر اپنی شادی کے متعلق فیصلہ کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہوں گے۔

یہ وہ چند خبریں ہیں جو کہ اپنے اندر موجود تمام سوالات کے جوابات لیے ہوئے ہیں اور ان پر مزید تبصر ہ کی گنجائش نہیں کیوںکھ یہ خود یہ تبصرہ کرتی دکھائی دیتی ہیں بات صرف یاد دہانی کی ہے کہ ہم یاد رکھیں کہ ہم پر کون لوگ حکومت کر تے ہیں اور وہ اپنے مفادات کے لیے کیسے کیسے حربوں سے ہمیں بیوقوف بناتے ہیںاور ہم سادہ لوح عوام پھر ان پر اعتبار کر لیتے ہیں۔
Load Next Story