بڑھتا ہوا جان لیوا شور

85ڈیسی بل سے زیادہ شور آپ کی سماعت چھین سکتا ہے.

فوٹو : فائل

آج کا دور نفسا نفسی اور بھاگم دوڑ کا دور ہے۔ ہر تیسرا شخص ڈپریشن،ٹینشن، ہائی بلڈ پریشر،بہرہ اور چڑچڑا پن جیسے عارضوں میں مبتلا ہے۔

علاج کیلئے ڈاکٹروں کے ہاں ان امراض میں مبتلا افراد کی ایک بڑی تعداد موجود ہوتی ہے۔ ان عوارض کی ایک بڑی وجہ بڑھتی ہوئی صوتی آلودگی ہے۔ شور ہماری ذہنی اور جسمانی صحت کے لئے ''سلوپوائزننگ'' کی سی منفی خصوصیات کا حامل ہے۔ اب ہم اپنے اردگرد کے ماحول پر نظر دوڑائیں تو ہمیں احساس ہو گا کہ ہمارے عوام کی ذہنی اور جسمانی صحت کس کس انداز میں شور کے اس زہر سے متاثر ہو رہی ہے۔

ٹریفک کا شور' فیکٹریوں اور مشینوں کا شور' ہوائی اڈے کے نزدیک جہازوں کا شور' رہائشی علاقوں میں بنے پٹرول پمپوں کا شور' ریلوے اسٹیشن کے نزدیکی علاقوں میں ریل گاڑیوں کی دل دہلا دینے والی چھک چھک' اور اس طرح دیگر عوامل عوام کی ذہنی و جسمانی صحت کے زیاں اور بگاڑ کا باعث بن رہے ہیں اور بے چاری عوام نہ چاہتے ہوئے بھی اس زہر کو پھانکنے پر مجبور ہے، بلکہ اس سلو پوائزنگ کے متعلق آگہی نہ ہونے کے باعث عوام کی ایک غالب تعداد تو اس حقیقت سے ہی نابلد ہے کہ شور ذہنی و جسمانی صحت کے لئے کتنا خطرناک ہے۔ زیر نظر مضمون عام و خاص میں شور کی آلودگی اوراس آلودگی کے نتیجے میں انسان کی ذہنی و جسمانی صحت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات اور حفاظتی اقدامات کے متعلق آگاہی پیدا کرنے کی کوشش ہے۔

شور کے اتار چڑھائو کو ماپنے کا پیمانہ ڈیسی بل (Decibel) ہے۔ ہمارے وطن عزیز پاکستان میں شور کی آلودگی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ بڑھتی ہوئی ٹریفک اور صنعت نے شور میں مزید کئی ڈیسی بل اضافہ کر دیا ہے اور افسوس کہ حفاظتی اصولوں سے ناواقفیت کی وجہ سے یہ اضافہ روز افزوں ہے۔ خاص طور پر صبح دفاتر اور ااسکولوں کے شروع ہونے کے اوقات' دوپہر کو اسکولوں کی چھٹی اور دوپہر کے کھانے کا وقفہ اور پھر شام کے وقت دفاتر کے ختم ہونے کے اوقات پر تو اتنا شور اور رش ہوتا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ بعض جگہوں پر تو یہ شور اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ آپ کو تھوڑی دور کھڑے شخص کو آواز دینے کے لئے پھیپھڑوں کی پوری قوت صرف کرنا پڑتی ہے اور پھر یہ بھی خوش قسمتی ہی ہے کہ وہ شخص آپ کی آواز سن لے وگرنہ آپ کو خود چل کر اس شخص تک رسائی حاصل کرنا پڑتی ہے۔

مگر شور کی آلودگی صرف ٹریفک یا ملازمت (ٹیلیفون آپریٹر' صنعتی مزدور) تک ہی محدود نہیں کئی دیگر عوامل بھی اس کو مہمیز دینے کا باعث ہیں۔ مثلاً میوزک کنسرٹس' آتش بازی' موٹر سائیکلوں' کاروں کی ریس اور فائرنگ یا نشانہ بازی کے علاقے وغیرہ۔ اس طرح غیر محسوس طریقے سے عام لوگ شور کے منفی اثرات کا نشانہ بنتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق زیرو ڈیسی بل شور کی نارمل سطح ہے اور انسانی سماعت پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ ماہرین اس امر پر متفق ہیں کہ 85 ڈیسی بل کی آواز یا شور کو مسلسل سننا سماعت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے اور اسی طرح جتنا آواز کا ڈیسی بل بڑھتا جائے گا سماعت کی خرابی کا دورانیہ سکڑتا جائے گا۔ شور کان کے اندرونی اور نازک سیلز (Cells) پر اثر انداز ہو کر اس طرح آہستہ آہستہ سماعت کو خراب کرتا ہے کہ اس کا فوری احساس نہیں ہوتا۔ شور زدہ ماحول میں رہنے کے بعد انسان کو اپنے کانوں میں گھنٹیوں کی آواز سنائی دے سکتی ہے یا پھر اسے دیگر لوگوں کی نارمل انداز میں گفتگو پوری طرح سمجھ نہیں آتی۔

یہ حالت کچھ گھنٹوں یا دنوں پر محیط ہو سکتی ہے اور پھر انسان نارمل ہو سکتا ہے مگر اس طرح کے شور زدہ ماحول میں مسلسل رہنے سے انسان اپنی سماعت سے محروم بھی ہو سکتا ہے اور اگر سماعت ایک دفعہ چلی جائے تو اس کی واپسی ایک معجزے سے کم نہیں ہوتی یعنی سماعت کی واپسی ناممکنات میں سے ہے۔ مگر ہر چیز کے بگاڑ سے پہلے کچھ اشارات یا علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ مثلا اگر آپ کے کانوں میں متواتر گھنٹیاں بجتی ہیں' اگر آپ کو گفتگو کے دوران دیگر افراد کی آواز صاف سنائی نہیں دیتی یا آپ تقریر وغیرہ کو بخوبی سن سکتے ہیں مگر اس کے الفاظ یا جملوں کو سمجھنے میں آپ کو تاخیر ہوتی ہے تو فوراً کسی کان کے ماہر ڈاکٹر سے رجوع کریں تاکہ بروقت تدارک ہو سکے۔

قارئین حد سے زیادہ بڑھی ہوئی آواز نہ صرف انسانوں بلکہ حیوانوں کے لئے بھی پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ آپ نے بھی یہ مشاہدہ کیا ہو گا کہ جہاں شور حد سے زیادہ بڑھتا ہے وہیں سے پالتو جانور مثلاً کتے' بلیاں' مرغیاں' گائے اور چرند پرند بھی دور رہنے میں ہی عافیت جانتے ہیں۔ اگر جانور جو کہ انسانوں سے زیادہ قوت برداشت رکھتے ہیں' وہ شور کو پسند نہیں کرتے تو آپ خود ہی اندازہ لگا لیجئے کہ انسان کی ذہنی و جسمانی صحت کے لئے یہ کس قدر نقصان دہ ہے۔

شور کی آلودگی انسان میں غصیلہ پن' چڑ چڑا پن' ہائپرٹینشن' بلڈ پریشر ، بے خوابی اور اس طرح کے دیگر امراض کا سبب بن سکتی ہے اور ان امراض کے نتیجہ میں انسان میں نسیان (بھولنے کی بیماری)' شدید ڈپریشن اور بے چینی و بے کیفی جیسے منفی رجحانات جنم لے سکتے ہیں اور اگر ان کا بروقت تدارک اور علاج نہ کیا جائے تو یہ دل کی بیماری کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ حاملہ عورتیں اگر مسلسل شور میں رہیں تو یہ پیدا ہونے والے بچے کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لئے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پیدائش کے وقت بچے کا وزن نارمل نہ ہو۔

نو عمر بچوں پر شور بہت منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ ان میں چڑچڑاپن' غصہ' بے خوابی،پڑھائی سے جی چرانا اور ہم جماعتوں سے لڑائی جھگڑا کرنے جیسے رجحانات پروان چڑھ سکتے ہیں۔ ان کی پڑھنے لکھنے اور سمجھنے بوجھنے کی استعداد کار متاثر ہو سکتی ہے۔ بچوں میں 15 سال کی عمر تک سوچنے سمجھنے کی صلاحیت غیر محسوس طریقے سے پروان چڑھتی ہے اور اس عرصہ کے دوران ان کی یہ صلاحیتیں نکھر رہی ہوتی ہیں۔ اگر بچے مسلسل شور میں رہیں تو ہو سکتا ہے کہ ان کی بولنے' پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت کم ہو جا ئے۔ تجربات سے حقائق سامنے آئے ہیں کہ پرسکون ماحول میں پڑھنے اور پروان چڑھنے والے بچے شوریدہ ماحول میں رہنے والے بچوں کی نسبت زیادہ سمجھ بوجھ اور ذہانت کے حامل ہوتے ہیں۔ کارن وال یونیورسٹی امریکا میں بچوں پر کی گئی ایک تحقیق کے نتائج کے مطابق شوریدہ ماحول میں رہنے والے بچے پڑھنے' لکھنے' الفاظ کو یاد کرنے اور ہم آواز الفاظ میں تفریق کرنے کی صلاحیت دیر سے حاصل کرتے ہیں جبکہ ذہنی و جسمانی صحت کے حوالے سے بھی وہ پرسکون ماحوں میں رہنے والے بچوں سے کم تر ہوتے ہیں جبکہ ان بچوں کے دل کی دھڑکن کی رفتار بھی دیگر بچوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے جو بعدازاں آنے والی زندگی میں دل و دماغ کے امراض کا سبب بن سکتی ہے۔ اس لئے اپنی' اپنے بچوں اور آنے والی نسلوں کی صحت مند زندگی کے لئے شور کم سے کم پیدا کریں اور بلاوجہ ماحول کو شوریدہ بنانے سے گریز کریں۔

آیئے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ماحول میں شور کی شرح کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے تو آپ اپنے گھریلو ماحول پر نظر دوڑائیں اور ان اشیاء کے شور کو کم کرنے کی کوشش کریں کہ جو ماحول میں بے جا شور کا باعث بن رہی ہیں۔ مثلاً ٹی وی کی آواز کو اتنا رکھیں کہ جو آپ کے سننے کے لئے کافی ہو۔ ضروری نہیں کہ آپ اپنا پسندیدہ پروگرام یا خبریں اتنی اونچی آواز میں سنیں کہ سارے گھر والے ڈسٹرب ہوں۔ اگر آپ میوزک سن رہے ہیں تو اس کا والیم بھی مناسب حد تک رکھیں۔ اتنا اونچا والیم نہ رکھیں کہ ہمسائے آپ کو کوستے رہیں۔ اسی طرح اگر آپ نے گھر میں پالتو جانور مثلاً کتا ' وغیرہ رکھے ہوئے ہیں تو ان کو حتیٰ الامکان بے وجہ بھونکنے سے باز رکھنے کی کوشش کریں۔ خاص طور پر رات کے سناٹے میں کیونکہ رات کو تھوڑی سی اونچی آواز بھی شور محسوس ہوتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں ہارن کو کھیل سمجھ کر وقت بے وقت بجایا جاتا ہے۔ سڑک پر جس رفتار سے ٹریفک جا رہی ہوتی ہے اسی رفتار سے ڈرائیور کا ہاتھ ہارن بجانے میں مصروف ہوتا ہے جو آس پاس کی ٹریفک اور افراد کو ڈسٹرب کرنے کا باعث بنتا ہے۔ یہ بات عام مشاہدے میں آئی ہے کہ گاڑی یا موٹر سائیکل رکھنے والے حضرات صبح صبح گاڑی اسٹارٹ کر کے اسے بے وجہ ایکسلریٹر ( ریس) دیئے جاتے ہیں جو ماحول میں شور اور آلودگی کا باعث بنتی ہے۔ اس طرح جب رات کو گھر لوٹتے ہیں توگھر سے کافی دور یا گلی میں مڑتے ہی ہارن پر ہاتھ رکھ دیتے ہیں جس سے سارے محلے کے افراد جاگ جاتے ہیں۔ خاص طور پر بزرگوں اور بیماروں کے لئے یہ وقت عذاب جان بن جاتا ہے۔ اس لئے آپ پرسکون ماحول میں شور کا تلاطم برپا کرنے سے گریز کریں تو یہ آپ' آپ کے اہل خانہ بلکہ سارے محلے کے لئے مفید ہے۔


شور کی آلودگی سے بچنے کے لئے کچھ مزید مشورے یہ ہیں کہ آپ ایسی جگہ پر گھر لینے سے گریز کریں کہ جو ریلوے اسٹیشن' ہوائی اڈے' کسی بڑے شاپنگ مال یا کسی مصروف چوراہے کے قریب ہو اور اگر ایسا کرنا مجبوری ہے تو پھر گھر کو زیادہ سے زیادہ سائونڈ پروف بنانے کی کوشش کریں تاکہ کم سے کم شور آپ تک پہنچے۔ اس عمل سے نہ صرف آپ شور سے محفوظ رہیں گے بلکہ سردیوں میں یخ بستہ ہوائیں اور گرمیوں میں سورج کی شعاعوں کی تپش بھی آپ تک نہ پہنچے گی۔

آفس میں بھی شور کو کم کرنے کی کوشش کریں اور اگر آپ اکیلے ایسا نہیں کر سکتے تو اپنے رفقائے کار کو شور کے منفی اثرات سے آگاہی دیں اور اپنے باس کو اس حقیقت کو تسلیم کرانے کی کوشش کریں کہ شور سب کی صحت کے لئے کتنے منفی اثرات رکھتا ہے اور یہ کہ شور زیادہ ہونے کی وجہ سے آفس کے ملازمین کی کام کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے اور ارتکاز ٹوٹنے کی وجہ سے غلطیوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یوں آپ آفس میں صحت مند ماحول تشکیل دے سکتے ہیں۔

ہمارے ملک میں شور کی آلودگی کے متعلق قوانین موجود ہیں مگر وہ اب تک صرف فائلوں تک ہی محدود ہیں۔ ان کا عملی مظاہرہ خال خال ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ ان پالیسیوں پر عملدرآمد کرائے اور شور کی آلودگی کے منفی اثرات کے متعلق آگہی پیدا کرنے کیلئے ایک منظم مہم شروع کرے جبکہ ٹریفک پلاننگ' روڈ کنسٹرکشن پلاننگ' اور ٹائون پلاننگ وغیرہ کے دوران شور کی آلودگی کو کم از کم کرنے کے اقدامات کو اولیت دے تاکہ شور کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ذہنی و جسمانی اور نفسیاتی عوارض سے پاک معاشرہ تشکیل پا سکے۔

صوتی آلودگی بہرے پن اور سماجی تعلقات کے بگاڑکا سبب بن سکتی ہے

ڈاکٹر حفیظ کاشف کے مطابق'' آج کل ایسے مریضوں کی تعداد میں قابلِ ذکر اضافہ ہو رہا ہے کہ جو سر گھومنے ،ارتکاز کی کمی، سماعت کا انتشار، گفتگو کے دوران الفاظ بھولنے جیسی شکایتیں لے کر آتے ہیں۔ ان امراض کا زیادہ تر تعلق شور کی بڑھتی ہوئی آلودگی سے ہے۔ یہ شور ہی ہے جو آپ کے ذہن کو منتشر کر کے اس کے افعال میں بگاڑ کا سبب بنتا ہے اور اگر یہ عمل مسلسل جاری رہے تو یہ آپ کی جسانی صحت پر بھی اثر انداز ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ نیند اور بھوک بھی متاثر ہوتی ہے جبکہ شگفتہ طبیعت میں بھی چڑچڑا پن پیدا ہو جاتا ہے اور یوں آپ نارمل زندگی سے دور ہو جاتے ہیں۔

شور نہ صرف انسان کی ذہنی اور جسمانی صحت پر مضر اثرات ڈالتا ہے بلکہ پیشہ ورانہ کارکردگی اور تفریحی عمل کو بھی شدید متاثر کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سونے اور آرام کرنے کے معاملات میں بھی مخل ہوتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ شور بہت زیادہ ہو بلکہ معمولی شور بھی اس طرح کی منفی خصوصیات کا حامل ہوسکتا ہے۔ شور کی تعریف کرنا کافی پیچیدہ عمل ہے کیونکہ کوئی شخص موسیقی کو تیز آواز (جوکہ شور کے زمرے میں آتی ہے) میں سن کر لطف اندوز ہوتا ہے جبکہ یہی عمل کسی دوسرے کے لیے سخت ناپسندیدہ بھی ہوسکتا ہے۔ حتیٰ کہ اونچی آواز میں بولنا ایک ناپسندیدہ عمل ہے اور شور کے زمرے میں آتا ہے، تاہم صوتی آلودگی کا بہت عرصہ تک سامنا صحت میں بتدریج نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔ صوتی آلودگی سے متاثرہ جسمانی نظام میں ہاضمہ، معدہ، دل کے امراض، پٹھے اور جسمانی ڈھانچے کا متاثر ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ عام طور پر شور ہمار ے جسم پر تین طرح سے اثر انداز ہوتا ہے۔

(1) قوت سماعت میں کمی(2) دبائو جو مختلف جسمانی پیچیدگیوں کا باعث ہوسکتا ہے(3) نیند میں کمی

سماعت میں کمی شور(85 ڈیسی بیل) کا بہت دیر تک اور مستقل سامنا کرنے کی صورت میں ہوتی ہے یا دوسری صورت میں شور کا سامنا تو تھوڑی دیر کے لیے کیا جائے لیکن شور بہت زیادہ ہو تاہم سماعت میں کمی کے زیادہ تر کیس پہلی صورت کے ہوتے ہیں یعنی شور کا بہت عرصے تک سامنا کرنے کی صورت میں ایسا ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کان کے اندر آواز کو نشر کرنے والے بالوں کی طرح کے سیل تباہ ہوجاتے ہیں، جس کے بعد شور کا اثر سماعت میں کمی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ قوت سماعت میں کمی یا بہرہ پن صرف ایک دن سے نہیں ہوتا بلکہ بہت دنوں سے جمع شدہ اثرات کی وجہ سے ہوتا ہے اور یہ نقصان ناقابل تلافی ہے۔ نقصان دہ آواز سے کان کے اندر سیل نما بال اور سننے کے اعصاب پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان آوازوں کا مسلسل سامنا کرنے کی وجہ سے کان کے سیلز مختلف تبدیلیوں سے گزرتے ہیں جو آخر کار سماعت کی محرومی یا کانوں میں سنسناہٹ کا سبب بنتے ہیں۔

بہرہ پن ایک لمحے میں ہونے والا مرض نہیں بلکہ یہ انتہائی پر شور آواز میں مستقل بنیاد پر سننے کے بعد دھیرے دھیرے ابھر آنے والا مرض ہے۔ شروع شروع میں آوازیں مبہم سنائی دیتی ہیں اور ان کو سمجھنے میں مشکل ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ شروع میں آپ کو اس نقصان کا اندازہ نہ ہو تاہم اس کے لیے ایک ٹیسٹ کیا جاسکتا ہے۔ابتدا میں لوگوں کو ہر وقت کانوں کی گھنٹی، سرسراہٹ وغیرہ کی آوازیں سنائی دیتی رہتی ہیں جو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھ بھی سکتی ہیں۔ سنسناہٹ ایک یا دونوں کانوں میں ہوسکتی ہیں۔

اس طرح ہیجان یا مسلسل شور کا سامنا عارضی بہرہ پن پیدا کرسکتا ہے۔ جسے عارضی تھریش ہولڈ شفٹ کہا جاتا ہے اور جب کبھی یہ واقع ہو تو اس کو خطرہ کی علامت بھی جانا جاسکتا ہے تاکہ مستقل بہرہ پن سے بچنے کے لیے حفاظتی اقدامات کئے جاسکیں۔ قوت سماعت کے نقصان سے بچنے کے لیے مختلف طریقے موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے لوگ اس جانب توجہ نہیں دیتے۔ بہرہ پن سے بچنے کے لیے قوت سماعت کے آلات مثلاً کانوں کے پلگ اور (Muffs) کو استعمال کرنا چاہیے۔

اوسطاً شور کا زیادہ عرصہ تک سامنا انتہائی نتائج کا حامل ہوسکتا ہے جس کا انحصار انفرادی طور پر لوگوں میں حساسیت اور آواز کی بلندی اور اس کے اثرات پر ہے۔ قوت سماعت میں نقصان انسان کے سماجی، جذباتی حالات اور پیشے پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ حد سے زیادہ شور نہ صرف ہمارے معدے اور نظام انہضام کو متاثر کرتا ہے بلکہ امراض قلب کا بھی باعث بنتا ہے۔ شور سے انسان میں دبائو، غصہ، نفرت اور جارحیت پیدا ہوتی ہے جس سے سماجی تعلقات پر برا اثر پڑتا ہے۔
Load Next Story